Home » پوھوزانت » لینن کا بچپن  ۔۔۔ جاوید اختر 

لینن کا بچپن  ۔۔۔ جاوید اختر 

وولودیا نے گھر آ کر دل پر پتھر باندھ کریہ پریشان کن اور دل دہلا دینے والی خبر اپنی والدہ کو سنائی۔اس زمانے میں سمبرسک میں کوئی ریل کی سہولت نہیں تھی۔لہذا وہ یہ خبر سن کر گھر کو بچوں کے حوالے کر کے گھوڑے پرپیٹرسبرگ روانہ ہوگئی۔وہاں اس نے بڑی مشکل سے اپنے بچوں سے پیٹر اور پال قلعے میں ملاقات کی۔اس نے ایک ماہ مزیدپیٹرسبرگ میں گزارا اور اپنے بچوں سے ملاقات کرتی رہی۔اس دوران وہ حکامِ بالا سے اپیلیں کرتی رہی تاکہ اس کے بچوں کی رہائی ہوسکے۔حکامِ بالانے اسے عدالت میں کیس کی کاروائی کی شنوائی کے دوران حاضر ہونے کی اجازت دے دی۔ساشانے نہ تو زار کے قتل کی سازش کامنصوبہ بنایا تھا اور نہ ہی اس نے اسے شروع کیا تھا۔بلکہ اپنے ساتھیوں کو بچانے کی خاطر اس نے اس کی ساری ذمہ داری اپنے سر قبول کرلی تھی۔ساشا نے عدالت میں بہت جرات اور دلیری سے اپنا بیان دیا۔ماریا نے جب اسے آخری مرتبہ دیکھا تھاتو وہ اس وقت ابھی اپنے لڑکپن میں تھا،اب وہ مکمل جوان ہوچکا تھا۔ماریا کے لیے یہ سارا منظر کوئی معمولی نہیں تھا۔بلکہ اس کے لیے بہت کچھ تھا۔لہذا وہ عدالت سے اٹھی اور باہر نکل گئی۔اس نے اپنے بچوں کی رہائی کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ایک رات جب وہ اپنے بچوں سے ملاقات کرکے آئی تھی تو5مئی کے دن کوصبح سویرے اس نے اخبار میں پڑھا کہ اس کے لڑکے کو پھانسی دے دی گئی ہے۔اس نے اس خبر کو اینا سے نہیں چھپایا۔بلکہ اس سے کہا کہ ساشا کے لیے دعا کرو۔
چند روز بعد اینا کو بھی رہا کردیا گیا۔لیکن اسے سائبیریا کے بجائے اس کی ماں کے گاؤں کوکوشکینو میں جلاوطن کردیا گیا۔یہاں وہ پولیس کی کڑی نگرانی میں رکھی گئی۔ماریا سمبرسک واپس لوٹ گئی۔اسے غم نے اس قدر نڈھال کردیا تھا کہ اس کے بال سفید ہوگئے تھے۔اس مشکل گھڑی میں اس سے سمبرسک کے لوگوں نے منہ موڑ لیا تھا۔حتیٰ کہ وہ سکول ماسٹر ،جو اس کے خاوند کا گہرا دوست تھا اور اس کے ساتھ شطرنج کھیلا کرتا تھا،اب وہ کبھی بھی اولیانوف خاندان کی طرف لوٹ کر نہ آیا۔صرف اولیانوف خاندان کے ساتھ وولودیا کا شاگرداوخوتنی کوف،اس کی سکول ٹیچر ویراکاشکاداموفااور وولودیا کے والد کا دوست ایوان یاکولیف تھے۔خاندان کے غم نے ان سب کو قریب کردیا تھا۔وولودیا کو اس غم نے پہلے کی نسبت بہت سنجیدہ کردیا تھا۔ ویراکاشکاداموفاکہتی ہے:'”اب میرے سامنے پہلے والا بے فکر خوش باش لڑکا نہیں بیٹھا ہوا تھا۔بلکہ ایک بالغ نظر آدمی سوچوں میں ڈوبا ہوتا تھا۔”ا (16)سی سال یعنی مئی1886ء میں وولودیا اور اولیا نے اپنے سکول کے امتحان میں اول درجے سے کامیابی حاصل کی۔اسی دوران مقامی اخبار میں ساشا کے متعلق خبر شائع ہوئی تھی۔وولودیا کے اساتذہ میں ایک طویل بحث شروع ہوئی کہ آیا وہ ساشا کے بھائی کو گولڈ میڈل دیاجائے یا نہیں۔آخر کار انہوں نے اسے گولڈ میڈل دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کی گولڈ میڈل رپورٹ پر سکول کے ہیڈماسٹرفیودر کیرنسکی کے دستخط تھے ۔جس کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے:
ٰٓ “Quite talented, invariably diligent and reliable, Ulyanov was first in all his classes, and upon graduation was awarded a gold medal as the most meritorious pupil in achievement, growth and conduct.There is not a single instance on record, either in school or outside of it, of Ulyanov evoking by word or deed any adverse opinion from authorities and teachers of the school.”(21)
وولودیا کے گریجویشن کے بعداس کی یونی ورسٹی تعلیم کا مسئلہ درپیش آیا۔ماریا نے اپنے خاوند کے دوست ایوان یاکولیف سے مشورہ لیتے ہوئے کہا کہ وولودیا کو یونی ورسٹی پڑھنے جانا چاہیے۔تواس نے جواب دیا کہ اسے سینٹ پیٹرسبرگ میں داخلہ نہیں دیں گے۔مقامی اخبار میں ایک مختصر نوٹس کے بعدسمبرسک میں ماسکووسکایا گلی میں واقع اولیانوف کے گھر ،باغیچے اور اس میں موجود فرنیچر اور پیانو کی نیلامی کا اشتہار شائع ہوا تھا۔طرح طرح کے لوگ بولی دینے آئے۔ماریا لوگوں کے ساتھ نیلامی میں مصروف تھی۔جب کہ وولودیاکے خیالات ساشا کے تصور کے گرد گھوم رہے تھے:’ساشا تم زار سے نفرت کرتے تھے۔تم اسے قتل کرنا چاہتے تھے۔تمہارے خیال میں اس سے ملک کا نظام بہتر ہوجائے گااور اس سے لوگوں کی زندگی سنور جائے گی۔چھ برس پیشتر انقلابیوں نے الیگزینڈر دوم کو قتل کیا تھا۔کیا اس سے اس وقت کوئی بہتری ہوئی تھی ؟ہرگز نہیں۔ایک نئے زار نے پہلے زار کی جگہ لی تھی۔کیا الیگزینڈردوم کے زمانے کی نسبت الیگزینڈر سوم کے دور میں کوئی بہتری ہوئی ہے؟ذرا سی بھی نہیں۔اس کا مطلب ہے کہ تمہارا لڑائی کا طریقہ غلط ہے۔اس کا دوسرا طریقہ ہونا چاہیے۔’ اس دوران خریدار آتے رہے اور ان کے گھر کی چیزیں خرید کرلے جاتے رہے۔لیکن ان کے پیانو کاکوئی بھی خریدار نہ آیا۔وولودیا نے پیانو سے مخاطب ہو کر کہا:’تم ہماری زندگی اور خوشیوں کے زمانے کا حصہ ہو۔’چناں چہ پیانو اولیانوف خاندان کے ساتھ کازان شہر میں ان کے نئے گھر میں گیا۔اولیانوف خاندان نے سمبرسک کو خیرباد کہا اور کازان میں منتقل ہوگیا۔وولودیا کازان یونی ورسٹی میں داخل ہوگیا اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے لگا۔ وولودیا کا خیال تھا کہ کازان یونی رسٹی میں سمبرسک گرامر سکول کی نسبت بہت آزادی ہوگی۔لیکن یہ اس کی خام خیالی تھی۔یونی ورسٹی کے سپروائزر ہر طالب علم کے قول وفعل کے بارے میں ہمیشہ حکومت کو اطلاعات فراہم کرتے تھے۔اس لیے وہ ہر طالب علم پر نظر رکھتے تھے کہ کوئی طالب علم زار کے خلاف کوئی بات کرے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *