برِصغیر میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جن کی ذاتی زندگیوں کو اُن کی سیاسی زندگیوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا ۔ محترمہ طاہرہ مظہر علی ایسے ہی انسانوں میں سے تھی ۔ اُس نے اپنی کل اکیانوے برس کی زندگی کے 60سال اپنی سیاست کو دیے ۔ چنانچہ درجِ ذیل مضمون دراصل اس کی سیاسی سوانح ہی ہے ۔
میں لاہور میں اپنے چار سالہ قیام سے پہلے بھی، قیام کے دوران بھی، اور اُس کے بعد بھی اپنے ہم عمروں ، اور استاد سی آر اسلم کے ساتھ سیاسی کام کرتا رہا۔ لہذا سب سے رفیقانہ وابستگی رہی۔ قریبی تعلقات۔ عمر میں اپنے سے نسبتاً بڑے خواتین و حضرات سے بھی مودبانہ تعلقات رہے۔ مگر میں اس دبنگ ، اور جرات بھری، کمٹڈ سیاست دان طاہرہ مظہر علی سے بھی کبھی نہ مل سکا ۔
وہ غریب طبقے کی تحریک کی ایک بہت ہی نمایاں راہنما تھیں۔ اس کے گھر کا پتہ تومجھے زبانی یا د تھا۔اس لیے کہ میں اسے ’’عوامی جمہوریت لاہور‘‘ ، بعد میں’’ نوکیں دور کوئٹہ ‘‘اور پھر ’’سنگت کوئٹہ ‘‘جو بھیجتا رہا۔۔۔ شاہ جمال روڈ لاہور ۔اُس بہادر خاتون سے ملنے مگر میں شاہ جمال روڈ کبھی نہ جاسکا ۔خود وہ زیادہ باہر نہیں جاتی تھیں: بڑھاپے کی لوریاں نہ دو بچوں کو۔
تاریخ جتنا بڑا جوکر میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا ۔اور جو کر بھی بہت سخت دل والا۔ دیکھیے ناں، کمیونسٹ تحریک کی ہماری یہ لیڈر کسی غریب گھرانے میں پیدا نہ ہوئی ۔ نہ ہی اس کا گھرانہ سامراج دشمن تھا ۔ وہ تو پنجاب کے مشہور انگریز نوازسیاست دان ’’سر ‘‘سکندر حیات کے گھر پیدا ہوئی (1925میں)۔ وہ اُس کی پانچویں اولاد تھی۔آپ بس کسی پڑھے لکھے ’’باشعور ‘‘پنجابی سے یونینسٹ پارٹی کے بارے میں بات کر کے دیکھیں، اُس کی پیشانی پر نفرت کی شکنیں پیدا ہوں گی۔ جاگیرداروں کی پارٹی۔ سکندر حیات اُس فیوڈل پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے پنجاب کاوزیراعلیٰ بنا تھا ۔اُس کے گھر طاہرہ پیدا ہوئی ، سامراج دشمن طاہرہ ، جاگیرداری نظام کی دشمن کمیونسٹ طاہرہ ۔۔۔مگر میں تواُس سکندر کا ذکر اِس لیے کررہا ہوں کہ وہ میری ممدوح کا والد تھا۔
طاہرہ لاہور کے کوئین میری سکول میں پڑھی۔ اُس سکول کا ماحول بالکل وہی تھا جو اُس کے والد کے گھر کا ماحول تھا۔ سامراج نواز ، فیوڈل ۔ مگر ارد گرد گلیوں سڑکوں پہ سب کچھ اس کے برعکس ہورہا تھا۔وہ زمانہ نہ سامراج نواز تھا نہ ہی فیوڈلزم کا ۔ وہ تو بڑی ہلچل کا زمانہ تھا۔ سیاست، جلوس جلسہ۔۔۔۔۔۔
مگر ہماری اِس ساتھی نے خاندانی روایت وماحول سے دست کش ہوکر اپنی تقدیر محنت کش طبقے سے وابستہ کر لی تھی ۔ اور یہی طاہر ہ کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔
اُس کی زندگی میں اشرافیہ کی ایک لاڈلی بیٹی سے مورچوں پر کھڑی مجاہدہ بننے کی تبدیلی میں ایک فیصلہ کن عنصر یہ تھا کہ سولہ سال کی ہنوز ناپختہ عمر میں اُس نے اپنے کزن مظہر علی خان سے محبت کی۔پھر والدین کی مشروط رضا مندی سے اس کے ساتھ شادی کر لی ۔مظہر خود بھی یونینسٹ پارٹی کے اہم ترین قائدین میں سے ایک ،نواب مظہر علی خان کا بیٹا تھا۔ لیکن اس نے لاہور گورنمنٹ کالج کے اپنے زمانہ طالب علمی میں قوم پرست طلبا یونین کا ایک شعلہ بیان لیڈر بن کر خاندانی روایت کو ٹھکر ادیا تھا ۔ گاندھی اور اس سے بھی زیادہ نہرو سے متاثرہ تھا۔ وہ نہ صرف ایک نہروی سوشلسٹ بلکہ سوویت یونین کے ایک دوست کے طور پر پہچانا جاتا تھا ۔ اور اس کی محض یہ وجہ نہیں تھی کہ وہ ’انقلابِ اکتوبر‘ کے سال ہی میں پیدا ہوا تھا ۔
مظہر علی کے سیاسی عقیدے پر اس کے برٹش انڈین آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کے فیصلے سے کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔وہ سکندر حیات کی اس شرط کو پورا کرنا چاہتا تھا جو اس نے طاہرہ سے شادی کے لیے لگائی تھی۔ ’’ مظہر صرف اُس صورت میں اُس کی بیٹی سے شادی کرسکتا ہے اگر وہ دوسری عالمی جنگ میں اتحادی فوج میں شامل ہو جائے‘‘ ۔ چنانچہ ان کی شادی 1942میں اس طرح ہوئی کہ مظہر علی سیکنڈ لفٹیننٹ کی وردی میں تھا اور جلد ہی لڑنے کے لیے اٹلی چلا گیا۔ طاہرہ سترہ برس کی تھی۔ مظہر علی کی اچھی قسمت کہ اسے ایسے بہت سے برٹش آرمی کے افسران مل گئے جو کہ ہندوستانی رفقائے کار کے ساتھ کمیونسٹ سٹڈی سرکل منظم کرنے کے خواہشمند تھے۔
فوج چھوڑنے کے بعد مظہر علی نے کچھ عرصہ فیوڈلزم میں غرق شمالی پنجاب میں کاشتکاروں کو منظم کرنا شروع کیا ۔ اسی وقت طاہرہ اور مظہر دونوں کو کسانوں کے استحصال اور اس سے بھی بڑھ کر شکار ہونے والے افراد کی اس مصیبت کو نوشتہ آسمانی سمجھ کر قبول کرنے کی مجبوری کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔
پھر،زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ مظہر علی خان کو میاں افتخار الدین نے پاکستان ٹائمز ‘(انگریزی اخبار)میں شمولیت کے لیے بلا لیا۔ یہ ایک نادر موقع تھا اور اُن دونوں کی زندگیاں بدل ڈالنے والا واقعہ ثابت ہوا۔ چنانچہ وہ دونوں لاہور آکر ہمیشہ کے لیے بس گئے ۔
طاہرہ اور مظہر نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور ریلوے کارکنوں اور ان کی خواتین کے ساتھ سیاسی اور ٹریڈ یونین کام شروع کردیا۔ میں نے بہت سے بڈھے ریلوائیوں کو حیرت کے ساتھ یا دکرتے سنا کہ انہوں نے امیر وکبیرسکندر کی انتہائی حسین بیٹی کو کمیونسٹ پارٹی کے بلیٹن اور رسالے تقسیم کرتے دیکھا تھا، اور بعدازاں دنیا میں امن کی خاطر اُسے شہر کی سڑکوں پر احتجاج کرتے بھی دیکھا تھا۔
میرے مرحوم دوستوں خواجہ رفیق اور ملک اسلم کے بقول طاہرہ انتہائی حسین خاتون تھی ۔اور انتہائی دولت مند بھی۔ مگر وہ جس وقت اپنے طبقے سے غداری کر کے غریب طبقے میں شامل ہوتی ہے اور اُن کے نظریے کو بغلگیر کرتی ہے تو بالائی طبقے کی بکواسیات سے خود کو مکمل طور پر پاک کرتی ہے۔ مجھ سے بڑی عمر کے کئی دوستوں نے مجھ سے تذکرہ کیا کہ نوجوان طاہرہ سائیکل پر بیٹھ کر سارا لاہور سیاسی کا م کرتی رہی۔ پمفلٹ اور اخبار بانٹا کرتی تھی۔
میرے پارٹی دوست طاہرہ مظہر علی خان کی تین باتیں اصرار سے کرتے تھے ۔ وہ اُس کے بے انتہا حسن کی بہت تعریفیں کرتے تھے۔(ہماری بیسویں صدی کی گل بی بی بلوچ کی طرح) ساتھ میں اپنے نظریات کے ساتھ اُس کی گہری کمٹ منٹ کا ہر کوئی ذکر کرتا تھا۔(ہماری بیسویں صدی کی گل بی بی بلوچ کی طرح ) تیسری خوبی اُس کی بے انتہا بہادری کی تھی ۔(ہماری بیسویں صدی کی گل بی بی بلوچ ہی کی طرح)۔
کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہونے کے بعد طاہرہ مظہر علی خان نے اپنے لیے عورتوں کے محاذ کو منتخب کیا۔اُسے عوامی جذبے سے سرشار کئی عورتیں مل گئیں جن کے ساتھ مل کر اس نے ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن (DWA) کی بنیاد رکھی۔ وہ 1948میں پاکستان میں 8مارچ کو پہلا یومِ خواتین کو منانے والی چند عورتوں میں سے تھی۔ وہ DWAکی جنرل سیکریٹری بنی۔
DWA کے مقاصد تھے :عورتوں میں کام کرنا ۔ ورکنگ کلاس عورتوں میں کام کرنا ۔ ورکنگ کلاس اور متوسط طبقے کی عورتوں کے مسائل کو سمجھنا اور انہیں حل کرنے کی تدبیر یں ڈھونڈنا۔
طاہرہ آخر زندگی تک یہی اور یہیں پہ کام کرتی رہی۔ وہ بالخصوص ٹریڈ یونین کے شعبے سے وابستہ عورتوں کو منظم اور باشعور کرتی تھی۔اُن کے چھوٹے چھوٹے مسائل پہ ایجی ٹیٹ بھی کرتی تھی، انہیں حل بھی کراتی تھی مگر اُن چھوٹے چھوٹے مسائل کو پورے استحصالی نظام کے ساتھ بہت مدلل انداز میں جوڑتی بھی تھی۔ یوں مزدور عورتوں کا شعور بھی بڑھتا اور وہ مزید منظم و متحد بھی ہوتیں۔
اس کا ایک زبردست مشاہدہ ملاحظہ ہو:’’میں آپ کو بتاتی ہوں کہ جب ہم نے ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے کام شروع کیا ، تب سے اب تک ہم سے کسی مزدور نے یہ نہ پوچھا کہ ہم نے کتنی نمازیں پڑھی ہیں‘‘۔
جب 1951میں مظہر علی خان ’ پاکستان ٹائمز‘ کا ایڈیٹر بنا وہاں کا کام بہت سخت اور وقت طلب تھا۔ یوں وہ سرگرم سیاست سے کچھ دور ہوگیا۔ پالیسی بھی یہ تھی کہ یہ ترقی پسند روزنامہ جو کہ جمہوریت کی بالادستی ، ایک خود مختار خارجہ پالیسی ، مخلوط معیشت اور ہندوستان اور سوشلسٹ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے وقف تھا، اُسے کوئی بھی پارٹی کے ترجمان کے طور پر نہ دیکھنے لگے۔ طاہرہ مظہر نے اس سارے خیال سے تو اتفاق کیا لیکن اُسے خود خواتین کی آزادی کی سیاست ، معیشت وسماجی زندگی میں اُن کی سرگرم شمولیت کے حوالے سے کوئی رکاوٹ نظر نہیں آئی۔
ایوب کے عہد میں طاہرہ کو کچھ سنگین چیلنج درپیش آئے ۔ مظہر علی خان کے صحافتی کیریئر کو مختصر کردیا گیا ۔ اگر چہ وہ ڈھاکہ کے ’دی فورم‘ او رروزنامہ ’آزاد‘ کے لیے کالم لکھ سکا اور اس نے ’’ڈان‘ (1972) کے ایڈیٹر کے طور پر بھی قلیل عرصہ کام کیا۔ لیکن 1975کا سال آنے کے بعد ہی وہ ہفت روزہ’ویوپوائنٹ‘ کا اجرا کرسکا ، تبھی وہ ایک بھر پور مدیر کے طور پر اپنا کیریئر بحال کرسکا۔
اس سارے ابتلا اور تاریک دور میں طاہر ہ ہی تھی جس نے اُسے بھر پوراخلاقی سماجی اعانت فراہم کی ۔کہتے ہیں کہ ایوب کا وزیر ذولفقار علی بھٹو اُس کی طرف سے ایلچی بن کر اپنے دوست مظہر علی خان کے پاس آیا کہ وہ ایوب خان کے قبضہ کردہ پاکستان ٹائمز اخبار کی ایڈیٹری لے لے تو سب سے پہلا بلند آہنگ ’انکار‘اسے طاہرہ سے سننے کو ملا۔
اُس کا سیاسی اور تنظیمی کام ریلو ے مزدوروں کا گڑھ ’’گڑھی شاہُو‘‘تھا۔ بالخصوص وہاں مزدور عورتوں میں اُس کا بڑا کام تھا۔گڑھی شاہوکی عورتیں جو طاہرہ کی دوست کہلاتی تھیں، ان کا مفاد کبھی بھی طاہرہ نے نظر اندازنہ کیا۔ اس نے ڈیموکریٹک ویمنز ایسوسی ایشن کی اپنی رفقا کے ساتھ خصوصاً مزدور عورتوں میں کام جاری رکھا ۔
کمال انسان تھی وہ ۔ اس نے اپنے پاس موجود سارا پیسہ، حتی کہ اپنے زیورات تک پارٹی کو دے دیے۔
اُس میں ایک اور بڑی خاصیت تھی ۔ مزدور فیڈریشن اور عورتوں کی جمہوری تحریک دونوں کے تقاضوں کے عین مطابق پارٹیوں کے مابین کشمکش سے بالا تر رہنے کی اس کی اہلیت۔اِس زبردست اہلیت نے اُسے مستقل سرگرمِ عمل رہنے کے لیے گنجائش مہیا کی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ نوجوان خواتین کے لیے وسیع پیمانے پر ایک پکی ساتھی کے ساتھ ساتھ ایک محترم سرپرست کا درجہ حاصل کرتی چلی گئی ۔ یہ نوجوان خواتین آمروں کا سامناکرنے اور پدرشاہی نظام کے بظاہر ناقابل تسخیر خداؤں کو چیلنج کرنے کے لیے نئے خیالات کی حامل تھیں۔
1970-71 کے مشرقی بنگال کے بحران نے طاہرہ مظہر علی کو ایک اور موقع دیا کہ وہ اپنی فکر کی واضح پختگی اور پیکار آمادہ روح کا مظاہرہ کرسکے۔ہم نے لاہور کی سڑکوں پر بنگال میں فوجی اقدام کی مخالفت میں سرگرم طاہرہ کی کئی تصاویر اخباروں،ا لبموں میں دیکھیں۔ اس نے بنگالی عوام کے حوالے سے پاکستان کے اندر محکوم قوموں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے حوالے سے اپنی فکر پر نظرِثانی کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
اسلام آباد میں بین الاقوامی مصنفین کی کانفرنس میں تواس نے حکومتِ پاکستان پرزور دیا کہ وہ بنگلہ دیش کے عوام سے معافی مانگے ۔ بہادر عورت۔
ساری زندگی سیاسی کام کرنے والی اس تجربہ کار راہنما نے ایک بار کہا تھا کہ’’عوامی حقوق کے لیے ترقی پسند لوگوں کو کام کرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا ‘‘۔کتنی درست بات تھی۔ کسی نہ کسی صورت عوام دوستوں کی جدوجہد جاری ساری رہی ہے ۔
پاکستانی خواتین کے حق میں کام کرنے والی اُس کی ہم عمر عورتیں اب یا تو زندہ نہیں، یا پھر زندگی نامی اِس خوبصورت مظہر کے جام کے آخری گھونٹ لے رہی ہیں۔ ہم نوجوان عورتوں اور اُن کی تحریک سے وابستہ مردوں کو بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ منتخب اداروں میں خواتین کے لیے 33فیصد نشستیں مختص کرنے کا مطالبہ انہی لوگوں نے زور شور سے کیا تھا۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا: ’’ہارنے سے انکار اُس کے کردار کی سب سے بڑی اورمضبوط صفت تھی‘‘۔
ڈیمو کرٹیک ویمنز ایسوسی ایشن اُس کا مستقبل ٹھکانہ تھا۔ اُس کی اپنی قائم کردہ اور پرورش کردہ تحریک جو کہ عوام الناس کی عمومی آزادی کی تحریک کا حصہ رہی۔ ہرموضوع اور معاملے میں واضح رائے رکھنے والی عورتوں کی تنظیم۔ لہذا سماج کی ضرورت والی اس تنظیم کو اُسے ضم کرنے ، ختم کرنے، یا ’’پتلا‘‘ کرنے کاکبھی تصور نہیں کیا ۔
البتہ قریبی تنظیموں کے ساتھ شریک نقاط پہ عارضی الائنس وغیرہ بنائے جاتے رہے۔ ایسا ایک موقع ستر اور اسی کی دہائیوں میں آیا۔ ضیا کے وقت پاکستان کی ساری عورت تنظیموں نے مل کر’’ویمنز ایکشن فورم‘‘ کا پلیٹ فارم تشکیل دیا اور اس کے ذریعے اپنی مزاحمت کا آغاز کیا۔ خواتین نے ایک ایسی تحریک شروع کی جس کو نہ صرف ملک کی جملہ جمہوری قوتوں اور محنت کش طبقات کی حمایت حاصل ہوئی، بلکہ اس کو بین الاقوامی سطح پر بھی غیر معمولی پذیرائی ملی۔ طاہرہ مظہر علی اِس تنظیم کے ہر شب وروز اور ہر اتار چڑھاؤ میں اس کے ساتھ رہی۔جیل تو خیر جانا ہی تھا، سو وہ ضیا دور کی قیدیوں میں سے ایک ممتاز قیدی بنی۔
آخری عمر میں سٹروک کے کئی حملوں نے اُسے جسمانی طور پر مفلوج کردیا تھا۔ اور بالآخر 2015کو اس بیماری نے عورتوں کی تحریک اور ٹریڈ یونین تحریک کی ہماری اس محترم ساتھی کو ہم سے کاٹ پھینکا۔یونینسٹ وزیرِاعلیٰ سرسکندر حیات کی بیٹی، مسلم لیگ کے صفِ اوّل کے رہنما سردار شوکت حیات کی بہن ، برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ سابق طالب علم لیڈر طارق علی کی والدہ ، انگریزی کے مشہور صحافی مظہر علی خان کی بیگم۔۔۔۔ مگر اس کی اصل شناخت تو اُس کی وہ کوششیں اور جدوجہد ہے جو وہ عورتوں کے حقوق اور مزدوروں کی نجات کے حوالے سے ساٹھ سال تک کرتی چلی آئی۔ اس خطے میں شاید وہ اولین انسان تھی جس نے کسان اور مزدور عورتوں کی تحریک اور مزدوروں کی تحریک کو عملی طورپر جڑواں تحریکوں کے بطور چلایا۔
اور پھر اُس کی زندگانی کا سب سے بڑا زلزلہ برپاہوا۔ یہ 1990کی دہائی تھی۔ کپٹلزم پوری دنیا پر قابض ہوا۔ ملک ٹوٹے ، تحریکوں کی پسپائی ہوئی، پسماندہ اور قدامت کے دیو بہت طاقتور ہوئے ، قتل وقتال ہوئے اور نیوورلڈ آرڈر نے بے شمار پارٹیوں ، تنظیموں اور شخصیات کوزمیں بوس کردیا۔ مگر طاہرہ اور سی آر اسلم پنجاب میں اُن گنے چنے لوگوں میں سے تھے جنہوں نے زر اور اس اقتدار کے سامنے سرنگوں ہونے سے انکار کیا۔ اس انکار میں دو چار بزرگوں کا سر جھٹکنا ہم جیسے بے شمار چھوٹے لوگوں کو سالم کھڑا رہنے کا باعث بنا تھا۔ ہماری نسل اُن کی احسان مند ہے ۔
گوکہ اس کی تحریک ایک جگہ پہ جامد ساکت رہی مگر وہ اپنے دیگر ساتھیوں کی طرح مایوس کبھی نہ ہوتی تھی۔ اپنی سست روی میں اُن لوگوں کی تحریک کچھ فاصلہ طے کرتی تو ریاست کی طرف سے پھر کوئی آفت اُن پہ نازل ہوجاتی ۔ اور وہ پھر سے اپنا سفر شروع کرتے۔ اس طرح کہ اُن لوگوں کو منزل کی طرف اپنی یقینی رواں والی تحریک اور اس کی کامیابی پر یقین تھا۔ ایک مسائل پہ مبنی اور focussedتحریک ۔
اُن لوگوں کی ایک اور خاصیت یہ تھی کہ وہ لوگ فاقہ زدہ رہے مگر کبھی پاور پالٹکس نہ کی۔ انہوں نے کبھی اچھے وقتوں کے آنے کے انتظار میں اپنی حق کی بات ملتوی نہ کی۔
طاہرہ مظہر علی اس بات کے لیے تو ہمہ وقت تیا ر رہتی تھی کہ وہ کوتا ہیوں کے اسباب جان لیں، لیکن وہ ماتم گساروں اور دامن چھڑا کر جانے والے آوار گان کا ساتھ دینے سے بالکل انکاری تھی۔
چنانچہ مجموعی طور پر اُس کی ایک صفت کی ہر شخص توصیف کرتا ہے: دوٹوکی۔
Check Also
خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل
میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...