Home » پوھوزانت » صدیق بلوچ ایک توانا آواز ۔۔۔ وحید زہیر

صدیق بلوچ ایک توانا آواز ۔۔۔ وحید زہیر

لمبا قد، گول چہرہ، حیرت سے پُر آنکھیں، کمپیوٹر کے کی بورڈ سے آگے نکلتا دماغ ، تبدیلی کا خواہاں، مچھیروں کا قلمی ناخدا، لیاری کے فٹ بالروں کالالہ، نوجوان صحافیوں کا ماما، ہنر مندی میں مکمل میڈیا حق گوئی وبے باکی میں یکتا، بلوچستانی سیاست کے نشیب وفراز کے چشم دیدگواہ ، جتنے دن جیا خوب جیا۔ قلم کی لڑائی خوب لڑی ۔عمر کے آخری حصے میں ایک عشرے تک کینسر جیسے موذی مرض سے ایسی لڑائی لڑی کہ مجبوراً کینسر کو مزید دیگر بیماریوں کو پکارنا پڑا اور ہر طرف سے بیماریوں کی ایسی یلغار ہوئی کہ لالہ میں مزید لڑنے کی سکت نہیں رہی ۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ بے بسی کسی بڑی فوج سے تنہا لڑنے والے کی تھی ۔ بہر حال وہ ہم سے جسمانی طور پر جدا تو ہوا لیکن روحانی طور پر اسے ایک نئی زندگی مل چکی ہے ۔ اب کئی بلوچ بچے صدیق بلوچ جیسا بننا پسند کریں گے۔وہ اپنی تصنیفات ، اداریے اور اخبارات کے ذریعے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جن کے پس پردہ اس کی قوم سے محبت ، ایماندارانہ جدوجہد ، اور سخت محنت کو عمل دخل حاصل ہے ۔ اس کے بے شمار شاگرد اس روحانی سنگتی کو پھیلانے کا باعث ہونگے۔ 1940میں پیدا ہونے والے صدیق بلوچ نے 53 متحرک سال گزارے ۔ اس شخص نے گینگ مزدوروں سے لے کر لیاری گینگ وار کا زمانہ دیکھا۔ حیوان بموں سے نوجوانوں کوایک دوسرے کا گھر برباد کرتے دیکھا۔ اور اِسی بچوں کو ایک دوسرے کو مار کر ایک دوسرے کے سینوں پر بریک ڈانس کرتے دیکھا۔ اس تماشے میں بزرگوں اور ماؤں کو بلکتے دیکھا۔ لیاری میں ہونے والی بدمزہ سیاست کے پروردہ کرداروں کو بھی خوب بے نقاب کیا۔ وہ کہتا تھا کہ یہ گینگ وار ملک کی گندی سیاست کا شاخسانہ ہے ۔
نوجوانوں کی جہالت ، محرومیوں سے منفی عناصر بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کا دل بلوچستان تھا ، اس کی آنکھیں لیاری تھیں ۔ اس کا جگر کوئٹہ تھا ۔وہ خود ایک اچھی تربیت لے کر جوان ہوا تھا ۔ اسی لیے اس کی اولاد لیاری گینگ وار کا حصہ نہیں بنی۔ اس کا والد جنگیان ہوٹل لیاری کا مالک تھا ۔ اگر کوئی شخص اس کے ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد بغیر بل ادا کیے نکل جاتا تو وہ اسے پیچھے سے ہر گز آواز نہ دیتا اور نہ ہی ہوٹل ملازمین کو ایسا کرنے کی اجازت تھی۔ ایک شریف اور نیک دل باپ کی اولاد بھلا مثبت روایتوں سے کیسے خالی رہتا ہے ۔ بلوچستان میں دوماما ؤں کی سنڈے پارٹی مشہور ہیں۔ ایک ماما عبداللہ جان جمالدینی اور دوسری ماما صدیق بلوچ کی ۔ صدیق بلوچ کوئٹہ میں زندگی بھر صحافیوں اور احباب کے لیے ہر سنڈے کو کھانے کا بندوبست کرتاتھا ۔ جس میں بلا تحفیص رنگ ونسل وزبان صحافی ، دوست احباب شرکت کرتے تھے ۔
صدیق بلوچ 1966میں ملک کے مشہور ومعروف انگریزی اخبار ڈان سے بحیثیت رپورٹر منسلک ہوا۔ اسی دوران کراچی پریس کلب کا دوبارہ صدر بھی مقرر ہوا ۔ وہ جس طرح کوئٹہ میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اس سے بڑھ کر کراچی کے صحافیوں میں انکا عزت واحترام تھا۔ ڈان اخبار سے وہ 28سال تک وابستہ رہے ۔ بلوچستان میں نیپ کی حکومت آئی گورنر بلوچستان میر غوث بخش بزنجو گوادر اور لیاری کے دورے پر نکلے۔ پتہ چلا محکمہ اطلاعات کی ٹیم کے سربراہ عطا شاد بوجوہ بیماری اس دورے میں شامل نہیں ہوسکتے۔ اچانک کسی کے مشورے پر صدیق بلوچ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اور اس مرد مجاہد نے گورنر کی ایسی کوریج کروائی کہ میر بزنجو خوش ہو کر صدیق بلوچ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کوئٹہ لے آئے اور اپنا پریس سیکریٹری مقرر کردیا۔پھر کیا تھا وہ نیپ کا حصہ بن گئے اور حیدرآباد سازش کیس میں تمام رہنماؤں کے ساتھ جیل ہوئے ۔چار سال انہوں نے جیل کاٹی۔ حیدر آباد سازش کیس کے خاتمے کے ساتھ ہی بلوچ رہنماؤں کے راستے الگ ہوئے ۔ صدیق بلوچ پروفیشنل آدمی تھے ۔ وہ دوبارہ صحافت سے وابستہ ہوئے اور کوئٹہ سے انگریزی اخبار ڈیلی بلوچستان ایکسپریس کا اجراء کیا۔ انگریزی چونکہ ایک خاص طبقے میں بولی اور پڑھی جاتی ہے ۔ انہوں نے بلوچستان کے مزاج اور بلوچی صحافت کی روایت کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے اُردو روزنامہ آزادی کی ڈیکلریشن لی اور مختصر عرصے میں یہ اخبار بلوچ علاقوں میں خوب پڑھا جانے لگا۔ اور بعد میں اس اخبار کے بلوچی صفحہ کے لیے ایک دن مقرر کیا اور یوں ادب دوستی کا خوب ثبوت دیا۔
جبکہ ایک دن براہوئی صفحہ کے لیے بھی مقرر کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے تھے ۔ وہ اکثر بلوچی ٹی وی چینل کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے ایک سرد آہ بھر کر کہتے تھے کہ کاش میرے مالی حالات مجھے اجازت دیتے تو میں بلوچی اور براہوئی ٹی وی چینل کا آغاز کرتا ۔زبانوں کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ ان کے اخبارات میں اکثر بلوچ براہوئی بولنے والے جوان کام کرتے تھے ۔ ان کو تنبیہ کرتے تھے کہ اپنی مادری زبان میں بات کرو تا کہ یونیسکو کے 2009کے سروے کے مطابق ان زبانوں کو نقصان پہنچنے کے اندیشہ کا جواب مل سکے ۔یہ شخص عمر کے آخری حصے میں بھی عادت کے مطابق روزانہ 12گھنٹے کام کرتے تھے۔ اور ہر روز ڈیڑھ ہزار الفاظ لکھتے تھے جس میں ایکپریس اور آزادی کے اداریے بھی شامل تھے ۔ ان کی دوکتابوں کو بہت پزیرائی ملی: بلوچستان اِٹس پولٹکس اینڈ اکنامکس جوکہ 2013میں منظر عام پر آئی جبکہ دوسری کتاب اے کرٹیکل کمنٹ آن پولیٹکل اکانومی آف بلوچستان 2002میں چھپی ۔ بڑے بڑے نشریاتی ادارے بلوچستان کے سیاسی ، سماجی اور جغرافیائی موضوعات پر ان کی رائے ضرور اپنے پروگراموں میں شامل کرتے تھے۔ وہ بیک وقت اردو ، انگریزی بلوچی، براہوئی، سندھی، سرائیکی بولتے تھے ۔ بلوچستان کے بڑے صحافتی ادارے (سی پی این ای) کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز کے بھی سربراہ رہے ۔بلوچستان نیوز پیپرز ایڈیٹر ز کونسل کے صدر بھی رہے ۔ملکی سطح پر ان کا نام معروف تھا ۔ بلوچستان کے صحافیوں کی ہر قسم کے حالات میں رہنمائی کرتے تھے ۔ وہ بلوچستان کے صحافیوں اور ماورائے عدالت کو نوجوانوں کے قتل پر بھی ہمیشہ رنجیدہ رہتے تھے ۔ وہ ترقی کے ہر گز مخالف نہیں تھے ۔ مگر بلوچستان کے ساتھ ترقی کے نام پہ ہونے والے ڈرامہ بازی کے سخت مخالف تھے ۔ خاص طور پر متعصبانہ سیاسی رویوں کا وہ اکثر گِلہ کرتے تھے ۔ اور ان کا کہنا تھا کہ متعصبانہ رویوں کا خاتمہ ایک صورت میں ہوسکتا ہے۔ جب بلوچ قبائلی متعصبانہ رویوں کو چھوڑ دیں۔ وہ آج کل اپنی آپ بیتی پر بھی کام کر رہے تھے ۔ نہ جانے وہ اسے مکمل کر چکے ہیں یااس پر بھی کام باقی ہے ۔ اگر ان کی آپ بیتی مکمل ہوچکی ہے تو یہ ایک تاریخ کا حصہ کہلائے گی ۔ بے شمار مشکلات کے باوجود ہم نے اس شخص کو کبھی مایوس نہ دیکھا ۔ واقعی چھوٹے لوگ ، ذہنی پستی کا شکار لوگ ہی مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ صدیق بلوچ ہر لحاظ سے مربوط ومضبوط اعصاب کے مالک تھے۔
صحافت میں بروقت اور برجا تنقید کو وہ اپنے پروفیشن کا اہم جزو سمجھتے تھے ۔ ان کی بلوچستان کی مظلومیت کے حوالے سے جانبدارانہ صحافت پر گوکہ بعض حلقے اس سے ناراض رہتے تھے۔ اس کے باوجود وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے ۔ سچ لکھنے کی پاداش میں بسا اوقات اس کے اشتہارات بند کیے گئے۔ انہیں بعض اوقات ناعاقبت اندیشوں کی دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ کسی موقع پر بھی متزلزل نہیں ہوئے ۔وہ بلوچ مظلومیت کا پرچار کرنے کے لیے اداریوں کے علاوہ مقالہ خصوصی لکھ کر بھی اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتے تھے۔ ان مقالوں پر مبنی ان کی یہ کتاب تیار ہے ۔ بس ابھی چھپنا باقی ہے۔ صدیق بلوچ حقیقی قوم پرست رہنماؤں کے مقابلے میں کھڑے نو آموز سیاستدانوں کو بونا سیاستدان کہتے تھے ۔
بہر حال لالہ صدیق بلوچ نے ان تمام باتوں کی نفی کی کہ بابو شورش ، عنقا اور پناہ کے بعد بلوچ صحافت دم توڑ چکی ہے ۔ بلکہ انہوں نے جاتے جاتے کئی صحافیوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ آئندہ بلوچ صحافت کا دور ایک مرتبہ پھر شاندار ہوگا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *