Home » پوھوزانت » اولین اداریہ

اولین اداریہ

ماہنامہ نوکیں دور جنوری فروری 1990

جناب عبدالکریم شورش( جوخود کو ’’ کریم امن‘‘ کہلانا پسند کرتاتھا) نے’’ نوکین دور ‘‘کا پہلا شمارہ8جون1962 کو نکالا تھا۔ جن مصائب، تکالیف اور پریشانیوں کے باوجود وہ اس جریدے کو مستقل مزاجی سے نکالتا رہا، اُن کا اندازہ تازہ ترین مارشل لاء میں سے گزرے ہوئے لوگ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ رسالہ (اخبار) بہر صورت کسی نہ کسی شکل میں اس کے انتقال تک نکلتا رہا۔
کریم امن کی شخصیت بہت ہی دلچسپ تھی ۔وہ پاکستان کے اولین سیاسی قیدیوں میں سے ایک تھا۔(وہ 1948 میں سوشلسٹ تحریک سے وابستہ لوگوں کے خلاف ملکی پیمانے پر دار و گیر کے دوران پکڑا گیا تھا) اورپکڑ دھکڑ کا یہ سلسلہ زندگی بھر جاری و ساری رہا۔ یہ وہی شورش صاحب تھا جس نے 22 جون 1941کو میک موہن پارک کوئٹہ میں ایک جلسہ کیا تھا اور اسی جلسے کے حوالے سے اسے انگریز کے ایجنٹ ہونے کا الزام سہنا پڑا ( ایسے کالے الزامات کے تمغے بھی وہ زندگی بھر سینے پر سجاتارہا)۔الزام کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اُس جلسے میں اعلان کیا تھا کہ فاشسٹوں کی طرف سے سوویت رو س پر حملے کے بعد یہ جنگ( دوسری عالمی جنگ)اب سامراجی نہیں، عوامی جنگ بن چکی ہے۔
1949 میں شورش صاحب تن تنہا اس جلوس کے سامنے سینہ سپر ہوگیا تھا جو ملاؤں نے طوائفوں پر حملہ کرنے کے لئے منظم کیا تھا۔ عزت و ناموس چھین کر معاشرے نے انہیں عصمت بیچ کر پیٹ پالنے پر مجبور کیا اور اُن ہی کو پھر ڈنڈوں سے پٹتے دیکھنا شورش صاحب کو گوارا نہ تھا۔ لہٰذا اس نے اخلاقی جرأت کی بہترین مثال قائم کرتے ہوئے ایسا نہ ہونے دیا۔
شورش صاحب اپنی کم سنی ہی میں مسائل کی جڑ تک پہنچ چکنے کا فن سیکھ چکا تھا ۔ اس نے 1941 میں بلوچستان مزدور پارٹی بنائی۔ وہ اس پارٹی کا جنرل سیکرٹری تھا۔ یہ دلچسپ ہے کہ لوگ بضد ہیں کہ بلوچستان میں طبقات نہیں ہیں مگر شورش صاحب نے 1941ہی میں یوم مئی کا جلسہ کرکے محنت کش طبقہ کے وجود اور اس کی قوت کا عملی اظہار کیا تھا۔ وہ ’’ امن کمیٹی‘‘ کا بھی بلوچستان کا جنرل سیکرٹری تھا۔ وہ عظیم اکتوبر انقلاب کی سالگرہ پر ہر سال مبارک بادی کا ٹیلیگرام سوویت یونین روانہ کرتا تھا ۔ اس کی دوستیاں عبداللہ جان جمالدینی‘ عین سلام، انجم قزلباش،کمال خان شیرانی اور ڈاکٹر خدائیداد جیسے لوگوں سے تھیں۔ وہ بلوچستان میں سامراج دشمن اور جمہوریت نوازی کا روح رواں تھا۔ پبلک جلسوں میں وہ یوسف عزیز مگسی کے ترانے ترنم سے گاتا تھا۔بہت اثر تھی اس کی آواز میں، بہت جان تھی اس کے خلوص میں، بڑی روانی تھی اس کے قلم میں اور بہت استقلال تھا اس کے مزاج میں۔14دسمبر 1986میں74 برس کی عمر میں وفات پانے والے اس شخص کے اخبار پر یہ فقرے چھپے ہوتے تھے:۔
“The first and the only Baluchi newspaper in the history of the world devoted to the advancement of the Baluchi language and Literature”-
شورش صاحب اب طبعی طور پر ہم میں موجود نہیں مگر اس کی متعین کردہ منزل اب بھی وہی ہے۔ اس کی زندگی کے کچھ پہلو بالخصوص قابلِ تقلید ہیں ۔ زندگی کا ایک عظیم مقصد متعین کرنا، اپنے خیالات پر مستقل مزاجی سے قائم رہنا، انسانیت سے اٹوٹ کمٹمنٹ وابستہ رکھنا اور حالات سے کبھی بھی مایوس نہ ہونا ، یہ تھے شورش صاحب کی زندگی کے اصول ۔ اور اس کا اخبار بھی ان ہی اصولوں کا ترجمان تھا۔
انشاء اللہ آئندہ بھی ’’ نوکیں دور‘‘ سامراج دشمن اور انسان دوست رویوں کی ترجمانی جاری رکھے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *