Home » پوھوزانت » شخصیت پرستی ۔۔۔ عابدرہ رحمان

شخصیت پرستی ۔۔۔ عابدرہ رحمان

زمانہ جیسے جیسے ترقی کر رہا ہے اسی قدر تیزی سے عجیب عجیب بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ دنیا میں بہت سی ایسی بیماریاں ہیں جو ایک وبا کی صورت پھیلی ہوئی ہیں کچھ جسمانی، کچھ روحانی اور کچھ اخلاقی بیماریاں ہیں ۔ اور میرے خیال سے روحانی بیماریاں ، اخلاقی بیماریاں جسمانی بیماریوں کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں ۔ انھی بیماریوں میں ایک خطرناک بیماری ، پرستی، کی ہے۔ انسان جہاں بت پرستی، زیارت پرستی، مادہ پرستی، دولت پرستی، قبر پرستی ، موقع پرستی میں مبتلا ہے وہیں وہ پیر پرستی اور شخصیت پرستی کا بھی شکار ہے۔
انسان جب کسی دوسرے انسان سے محبوب، استاد، ولی، رہنما، گائیڈ کی صورت میں محبت کرتا ہے یا محبت کا شکار ہوتا ہے تو اس وقت وہ ایک بہت ہی نازک راہ کا ہمسفر ہوتا ہے کیوں کہ ایک طرف محبت اور عقیدت ہوتی ہے اور دوسری طرف شخصیت پرستی کی اتھاہ اندھیری کھڈ۔ ذرا سا دھیان کیا بٹا کہ ہم اور ہمارا استاد اس کھڈ کے اندھیروں میں گم ہو گئے۔
شاہ عنایت، شاہ عبدالطیف بھٹائی اور ان جیسے اور بہت بڑے لوگوں اور بڑی شخصیات کے ساتھ ایسا ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ بہت سے زندہ رہنماوءں، اساتذہ کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے کہ ہم عقیدت، idialism کا ڈھنڈورا پیٹ کر اس قدر اس شخصیت کی بھول بھلیوں میں کھو جاتے ہیں کہ ان کا اصل پیغام، اس کی تعلیمات، اس کے خواب وہیں کہیں دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور لوگ جانے کس خالی خو لی ڈھانچے کے سامنے کے سامنے سجدہ ریز رہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم اس کے خواب ، اس کی تعلیمات کو بھول کر اس شخصیت کے طواف میں مصروف رہیں گے تو یہ اُسے بھی نقصان پہنچائے گی اور خود ہمیں بھی اور وہ بھی دور بیٹھا گال پر انگلی رکھے اس بے روح کی عقیدتوں پر مسکرا رہا ہوگا۔
اگر کسی بہت ہی اچھے لکھاری کی کوئی کتاب جسے ہم پڑھے بنا ہم سب سے اونچی جگہ پر رکھ دیں اور آتے جاتے اسے چومتے رہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں جب تک ہم اُسے کھول کر اس کی روح کو حاصل نہ کریں، اس پر عمل نہ کریں۔ مارکس جتنا بھی بڑا انسان کیوں نہ ہو اس کا نظریہ، فکر چاہے جتنا بھی پر فکر کیوں نہ ہو جب تک اسے سمجھا نہ جائے اسے اپنی زندگیوں میں شامل نہ کیا جائے تب تک اس بات کے کیا معنی رہ جاتے ہیں کہ ہم اس فکر کے حامی ہیں یا یہ کہ ہم اسے بڑا انسان سمجھتے ہیں۔
محبت یہ ہے کہ ہم جسے چاہتے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم جان لیں اور سمجھ لیں کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ اس کی تعلیمات، اس کی سوچ ،اس کے پیغام اور اس کی شخصیت کو پہلے اپنی شخصیت کا حصہ بنانے کی کوشش کریں اور پھر اس سارے پیغام کو اک وبا کی صورت میں چاروں اَور پھیلا دیں، پھیلانے کی کوشش کریں تب ہم کہیں گے کہ ہم محبت کر تے ہیں ، ہم واری قربان جاتے ہیں۔
محبت اور عقیدت کو سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ میرے خیال سے ہر وقت محبت کا الفاظ میں ذکر کرنا اُسے بے وقعت کر دیتا ہے، بے وزن کر دیتا ہے، اس کا بھاری پن زائل کر دیتا ہے۔ اس لئے وقت بے وقت میں واری ، میں قربان Attitude سے بچنا چاہیے اور عین ممکن ہے کہ ہمارے اس اندازِ محبت اور اندازِ عقیدت سے ہم اپنے استاد ، اپنے محبوب استاد ، اپنے رہنما کو بجائے خوشی کے تکلیف پہنچا رہے ہوں کیوں کہ ہر کوئی ہر وقت کی تعریفوں، قربان جایئے Attitude ، چھوانے کو پاؤں آگے کرنا پسند نہ کرتا ہو اور اگر ایسا ہوا تو ہم ان کے قریب نہیں بلکہ وہ ہم سے دور ہوتا چلا جائے گا۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *