Home » پوھوزانت » آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمدمری

آل انڈیا بلوچ کانفرنس ۔۔۔ ڈاکٹر شاہ محمدمری

دوسروں کو دھوکہ دینا،اور فریب میں لانا بہت آسان ہوتا ہے ،مگر فریب خوردگی میں غلطاں اذہان کو فریب سے باہر نکال لانا انتہائی مشکل ۔
دوسری عجیب بات یہ ہے کہ بلوچ عام آدمی کی نفسیات سادہ، غیر مبہم اور ڈائریکٹ ہوتی ہے۔سردار سرکار ’’عام ‘‘بلوچ کی نفسیات کو نہ صرف جانتا ہے بلکہ اُس سے کھیلتا بھی خوب رہا ہے ۔ ہماری ساری داخلی سماجی تاریخ ‘سردار وسرکار کی اسی نفسیات دانی کی کارستانیوں کی تاریخ رہی ہے ۔
مگر بلوچ کی مڈل کلاس کی نفسیات بہتگنجلک اور گم گشتہ رہتی ہے۔اس لیے نہیں کہ وہ ارسطو آنہ بن چکی ہے ۔ بلکہ اس لیے کہ اس میں تزلزل، ہچکچاہٹ،اورگھبراہٹ جیسے عوامل بڑے پیمانے پرداخل ہوتے ہیں۔ بلوچ مڈل کلاس اپنی پیدائش کے دن ہی سے مرزا غالب والے کلیسا اور کعبہ کی کشش ہائے ثقل کے بیچ پنڈولم بنی رہتی ہے ۔
مثلاًاب یہ دیکھیے کہ، حالانکہ اپنے مسائل ووسائل پہ غورو فکر کرنے کے لیے اکٹھ، اجتماع ، اجلاس، تنظیم تومڈل کلاس کی آکسیجن ہوتی ہیں مگر وہ بد خُو طبقہ اوپری طبقات کے اکٹھ اور جلسے کے لیے قالینیں بچھانے ، لاؤڈ سپیکر ٹھیک کرنے اور قرار دادیں لکھنے کو توہمہ وقت میسر رہتا ہے ۔ لیکن جب اپنی محفل اور اجلاس میں شرکت کا معاملہ ہو تو اُس کو سرسام ہوجاتا ہے۔ یہاں تک وہ خود ہی بم مارکر اس سپلائی لائن کو کاٹ ڈالتا ہے ۔مگر فوراً ہی سماجی معاشی اور سیاسی دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اُسے ’’ایئر ہنگر‘‘ ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ ہوا کی بھوک پھر اُ سے اس آکسیجن کی تعمیر پر لگادیتی ہے ۔ مگر جب عمارت کے خدوخال ابھرنے لگتے ہیں تو ایک بار پھر’’ اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ اور لہذا‘‘ کی کدالیں بیلچے لیے اپنی ہی ارتقا کو زمیں بوس کر جاتا ہے،اور دوبارہ فیوڈل سیاست کا خاکروب بن جاتا ہے ۔
آج کی مثالیں کیا دی جائیں ، ہم بلوچ مڈل کلاس کی اولین کونپل ، ’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس‘‘کے منتظمین کی آہ وزاریوں کے کیسٹ کوری وائنڈ کرتے ہیں۔تقریباً ایک صدی قبل کے ہفت روزہ ’’البوچ ‘‘13نومبر 1932کو پڑھیے:
دردمندان قوم وملت کی خدمت میں پرزور اپیل
’’منعقد ہونے والی آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد جس میں بلوچستانی پسماندہ اقوام کے تحفظِ حقوق ، تعلیمی ، معاشرتی ، اقتصادی ، مذہبی اصلاح کا صحیح طریق پر علاج سوچنے کے لیے اجتماع ہوگا۔ اس کے متعلق متعدد اخبارات میں اعلانات شائع ہوچکے ہیں۔
’’ہماری توقع کے مطابق بہی خواہانِ ملک وملت کو اپنی پسماندگی کو قصرِجہالت سے نکالنے کا احساس پیدا ہوچکا ہے ۔ اور بالمشافہ و خطوط کے ذریعے وابستگی کا اظہار فرما رہے ہیں۔ وہ شکر یے کے مستحق نہیں بلکہ ہزار ہا نفوس جو اس وقت قصرِ جہالت میں پڑکر مردہ ہوچکے ہیں ان کی اصلاح ہونے سے خدواند بزرگ کے سامنے سرخرو ہو کر اجرِ دار ین حاصل کریں گے ۔ ہم درد مندانِ قوم وملت خاص کر قوم کے ذمہ دار احباب اور انجمن اسلامیہ، انجمن لوکل مسلم ایسوسی ایشن کوئٹہ، انجمن اتحاد بلوچان وانجمن اتحاد بلوچستان ، انجمن اتحاد بلوچان کراچی، انجمن ٹالپرایسوسی ایشن ،بلوچستان ہندو پنچایت کی خدمت میں اپنی قوم کی پستی اور جہالت وضلالت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے پر زور اپیل کرتے ہیں کہ وہ کیوں اس قدر خواب واستراحت میں مدہوش ہیں اور کیوں اب تک انہیں اپنی قوم کا احساس نہیں ہوتا ۔ جبکہ تمام قومیں میدانِ عمل میں آکر شاہراہ ترقی پر گامزن ہورہی ہیں ۔ اوراپنے آپ کو زندہ ثابت کرچکی ہیں۔ کیا اس سے بھی زیادہ ضلالت دیکھنا چاہتے ہو؟۔ برائے خدا بیدار ہوجاؤ اور جلد سے جلد اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کے لیے مستعد ہوجاؤ اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں شمولیت کا اعلان کردو تاکہ اپنی قوم کی بہبودی کے لیے یکجا ہو کر صحیح طریق ڈھونڈ نکالیں۔ گذشتہ ہر دو گول میز کانفرنسوں میں بلوچستان کے مسئلے پر ہی گفت وشنید ہو رہی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ جلد از جلد کوئی صورت اصلاح نکال کر اپنے مطالبات گورنمنٹ کیخدمت میں پیش کریں۔ اور عنقریب ہونے والی تیسری گول میز کانفرنس میں اپنے مطالبات منظور کروائیں۔ ہمیں نہایت افسوس ہے کہ ہمارے بلوچستان برادران اس کانفرنس کو ایک خطرناک اجتماع تصور کرتے ہوئے اس میں شمولیت سے احتراز کر رہے ہیں اور کئی صاحبان باوجود اعلانات میں واضح طور پر اغراض ومقاصد ظاہر کرنے کے اغراض ومقاصد دریافت کر رہے ہیں ۔ ہماری بلوچستانی اقوام ودیگر بلوچ برادران کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا نفرنس کے مقاصد یہی ہیں جو اوپر درج ہوچکے ہیں اور کوئی پولیٹکل یا گورنمنٹ کے خلاف نہیں ہے ۔ انہیں بلادریغ شامل ہو کر اصلاح وبہبودی کا علاج سوچنا چاہیے ۔
غلام سرور خان جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد‘‘

ہم آگے دیکھیں گے کہ اس دُہائی وفریاد نے کچھ اثر ڈالا یا نہیں۔ مگر اوپر کا مضمون پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کچھ فقرے قوموں کی پوری زندگی کاکس طرح ساتھی ہوتے ہیں۔ غلام سرور کا 1932کا کہا ہوا فقرہ لگتا ہے ہماری تقدیر کا جیسے حصہ بن چکا ہو:۔
’’برائے خدا بیدار ہوجاؤ !‘‘
’’بیدار ہوجاؤ‘‘ کہتے کہتے یوسف مگسی مرگیا ، یہی تین الفاظ والا فقرہ دہراتے دہراتے غلام جان شاہوانڑیں چلا گیا۔نال کا حملا نڑیں ساری زندگی یہ ورد کرتا رہا۔۔۔۔ژوب کا شیرانڑیں اور بٹو کا بزرگ75برس تک یہی جملہ کُوکتے رہے ۔۔۔مگرہماری بیداری ہے کہ اُس کے بھاگ ابھی تک خوابیدگی سے باہر نہ نکلے۔
ہمیں اُسی زمانے کے اخبار (13نومبر 1932البلوچ)میں محترم امین کھوسہ( محمد امین علیگ کھوسہ) کا ایک مضمون ملا۔ جو کہ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے سلسلے میں’’نوجوانانِ قوم کو پیغام عمل‘‘ کے عنوان سے تھا ۔ کمال مضمون ہے :۔
’’لذت ایمان فزاید درعمل
نیست آن ایمان کہ تابددرعمل

’’قوم کے سچے غم گسار نواب زادہ محمد یوسف علی خان کی ابتدا سے ہی یہ منشا تھی کہ قوم کے مختلف الخیال سرداروں کو جو سالہاسال تک چلنے والی لڑائیوں کے بدا ثرات کے ماتحت ایک دوسرے کی دشمنی میں سرتا پا ڈوبے ہوئے دست بہ پیکار تھے ایک جگہ جمع کیا جائے اور پھر بلوچی اقوام کے معاشرتی وا قتصادی علمی تنزل وپستی کے مکمل استیصال کے اسباب باہمی معاونت ومشارکت سے دریافت کیے جائیں۔
’’بفضلِ خدا سردار غلام رسول خان کی ان تھک کوششیں رنگ لائیں اور نواب زادہ صاحب اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہوگئے۔ آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے انعقاد کی تجویز جو ہم نے ڈرتے ڈرتے صرف غربا کے اعانت کے بھروسے قوم کے پیش کی اب اس کی حمایت میں نواب صاحب بگٹی، نواب صاحب لیغاری ، سردار غلام پسند خان (؟)کھوسہ ، مسڑ مشتاق احمد خان وغیرہ احباب نے اظہار فرمایا اور ساتھ ساتھ اعلیٰ امد ادکی امیدیں بھی دلوائیں۔
’’بلوچستان کی تاریخ میں یہ واقع زریں الفاظ میں رقم کیا جائے گا کہ یہی اولین موقع تھا جس پر بلوچی سرداروں نے ایک خالص قوم کی حمایت میں اپنے ’’ذاتیات ‘‘ دفن کرنے کے بعد متحدہ کوششوں کو عمل میں لانے کا عزم راسخ کیا ۔
’’آفریں باد برایں ہمت مردانہِ تو‘‘
’’نواب صاحب بگٹی وغیرہ حضرات کے خیالات کے بھاؤ کو قومیت کی طرح موڑنے میں جلد کامیابی میرے نئے علیگ دوست سردار غلام رسول کو ہوئی۔ اس پر میں انہیں اور اُن کے سالارِ اعظم نواب زادہ کو خلوص دل سے پیغام تبریک وتہنیت اپنی اور اپنے احباب کی طرف سے بھیجتا ہوں۔
’’اس موقع پر سندھ بلوچستان وپنجاب کے نوجوانوں کو اپنے بڑوں کی پیروی کی یاد گیری دلاتا ہوں۔
’’جو وحدت ومحبت کا بیچ کچھ دنوں پہلے ہندوستان کے تاریخی مقام ملتان میں بویا گیا اس کی پرورش وپرداخت کے فرائض کے بارگراں حمال یہی ہونہاروں کے سپرد ہونے والے ہیں۔ ہم ہی علمبردارانِ آزاد ی ہوں گے۔ ہم ہی ننگِ اسلام وناموسِ مصطفےٰ پر سینے سپر کریں گے۔ اخوت برادری مساوات ویک جہتی کی اسلامی تعلیمات کے عملی دور کو قریب تر بنانا ہمارا کام ہوگا۔ ہر قسم کے ’’اچھوت پن‘‘ کی زنجیروں کو کاٹنے کے لیے ہماری ’’مردانہ نگاہوں‘‘ کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں ان خدمات کی بجا آوری کی صلاحیت واہلیت پیدا کرنی ہے ۔ کیا میں ان عظیم الشان اور نمایاں خدمات کے لیے تیار ہوں ؟ ۔یہی سوال غیور بلوچی نوجوانو! اپنے آپ سے پوچھا کرو۔ میں آنے والے دورِ نشاط انگیز کی تخیلات میں آپ کو حال کے فرائض سے بے خبر بنانا نہیں چاہتا۔ رفیقو! ہم اس کو اپنا فرض سمجھیں کہ ہم اپنے سوئے بلوچی بھائیوں کے کانوں تک اس ’’صدائے خواب شکن‘‘ کی گونج پہنچائیں جو ایک دردِ قومی واحساس ملی سے معمور دل سے نکلی ہے یعنی جس جس شہر اور گاؤں کے آپ ہوں وہیں کے لوگوں کو اس اتحاد اور اتفاق کی خوشخبری سنائیے جس کو نصب العین بنا کر ہمارے سردارانِ عالیجاہ نواب زادہ یوسف علی خان کے پرچم کے نیچے آگئے ہیں ۔ ہر ایک آپ میں سے آل انڈیا بلوچ کانفرنس کے اغراض ومقاصد کی اشاعت کے لیے رضا کار بن جائے ۔ جہاں جہاں بلوچی بھائی اخلاقی تنزل میں ہوں یا جہالت کی تاریکی میں ہوں یا باہمی اختلافات نے انہیں گھیر رکھا ہو تو ان کی اصلاح کے لیے کوشش کیجیے۔ آپ میں سے ہر ایک نے کیا کام کیا ،اس کی رپورٹ ’’سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد‘‘ کے نام پر بھیج دیں۔ ایسے حضرات کے نام وقتاً فوقتاً لوکل اخبارات میں شائع کیے جائیں گے اور کانفرنس کے اجلاس میں شکریہ کے ساتھ لیے جائیں گے۔ اگر کوئی اخفائے نام کا خواہش مند ہو تو اس پر بھی عمل کیا جاوے گا۔
’’آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا یہ اصلاحی پہلو ہے ۔ اس میں مدد واعانت ہر صورت میں سیاسیات کے خوفناک مفہوم سے بری ہے ۔ یہ تو صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے ۔سرکاری ملازم ، سرداران ،معلمان ومتعلمان وغیر ہ کی شرکت قانوناً میرے خیال میں جرم نہیں۔
’’اخیر میں نوخیز نژاد قوم (جس کے قوت بازو سے باطل کے مٹنے کی امیدیں وابستہ ہیں ) کے آبائی غیرت میں تلاطم پیدا کرنے کے لیے کہوں گا کہ:
نالہ وفریاد ماتم تا کجا
سینہ کوبی ہائے پیہم تا کجا
درعمل پوشیدہ مضمون حیات
لذتِ تحقیق قانونِ حیات‘‘
امین کھوسہ کے مندرجہ بالا مضمون کا فوری ردعمل لوگوں کی طرف سے تو نہیں آیا ، البتہ تحریک کے سربراہ یوسف عزیز مگسی کواس میں ایک فکری اور سیاسی نقص نظرآئی ۔اس نے فوری طور پر ’’ البلوچ ‘‘کے اگلے ہی شمارے میں اس کی تصحیح کر ڈالی۔ البلوچ کراچی20نومبر1932 کی سرخی یہ تھی:
’’پرچمِ بلوچی کے بجائے پرچمِ اسلام ‘‘
جناب نواب زادہ محمد یوسف علی خاں مگسی کی طرف سے اظہار حقیقت
’’میرے محترم دوست محمد امین خان (علیگ) بلوچ نے ایک اخباری مضمون میں فرمایا ہے کہ سردارانِ عالیجاہ میرے پرچم کے نیچے آگئے ہیں ۔ یہ بھائی صاحب کی دلی عقیدت اور حسنِ خیال کی دلیل ہے جو انہیں میرے متعلق ہے ۔ ورنہ حقیقتاً کوئی میرے پرچم کے نیچے نہیں آیا اور نہ مجھے اپنا کوئی پرچم ہے۔ میں اور سب بلوچ، اسلام کے پرچم کے نیچے آگئے ہیں۔
’’میں نے صرف ایک ادنی رضاکار کی حیثیت سے اپنا فرض ادا کیا ہے ۔ اس کے ما سوا کچھ بھی نہیں۔میں بھائی امین اور دیگر بلوچ بھائیوں سے عرض کروں گا کہ وہ آئندہ اسلامی پرچم کا لفظ استعمال کیا کریں!
( محمد یوسف علی خان عزیز مگسی بلوچ)‘‘

کانفرنس کے سلسلے میں ورکرز اور لیڈرز اپنی بقیہ ترجیحات اور عام امور ترک کرکے اس کی کامیاب انعقاد کی جدوجہد میں لگ گئے ۔ بالخصوص یوسف عزیزتو ہول ٹائمر کے بطور اسی ایک کام میں جُت گیا۔15نومبر1932 سے قبل کے ایک خط میں وہ امین کھوسہ کو لکھتا ہے: ’’ بہر حال ہم نے اول تو اس کانفرنس کا کام کرنا ہے اور بعد میں کوئی اور۔۔ ‘‘چنانچہ قاصد آجارہے تھے، اِدھر اُدھر کے دورے ہورہے تھے، قلم خطوط نویسی کی مشین بن گئے تھے اور اخبارات میں اس کانفرنس کو گویا ’’بلوچستان ‘‘قرار دیا جارہا تھا۔
لیکن ہم نے دیکھاکہ ایسا نہ تھا کہ کانفرنس کا کام بلاروک ورکاوٹ بس مقبولیت کے آسمانوں کو چھوتا ہوا چل رہا تھا، اس کی تو بد ترین مخالفت بھی ساتھ میں جاری تھی ۔ ایک باقاعدہ مہم چلائی گئی اس کے خلاف۔ لوگوں کے دلوں میں اس کانفرنس کے خلاف شکوک وشہبات پیدا کرنے کی منظم کوشش جاری رہی ۔اس معاملے میں مجھے ’’البلوچ‘‘ کراچی کے 20نومبر 1932کے شمارے میں ایک حیرت انگیز بات ملی ۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اگر آپ جینو ئن سیاسی ور کر ہیں، اور عوام الناس کے لیے کوئی خیر وبرکت کا کام کرنا چاہتے ہیں تو یقین رکھیں کہ اس کی مخالفت ضرور ہوگی ۔ اور ایسے ایسے بہتانوں کے ساتھ مخالف کی جائے گی کہ آپ چکر اکر رہ جائیں گے۔ ذرا ’’البلوچ ‘‘کا وہ صفحہ آپ بھی دیکھیں:
’’توجہ طلب سرداران وتمندارانِ بلوچستان
’’محترم سردار و۔ آپ اپنے مادرِ وطن اور پستیوں کا حال بخوبی جانتے ہیں جس کے علاج سوچنے کے لیے متواتر کوشش کے بعدآل انڈیا بلوچ کانفرنس کے انعقاد کی تجویز ہوئی ، تاکہ تمام اکابروز عماء باشندگانِ بلوچستان یکجا ہو کر صحیح ترین راہ سوچ لگالیں۔ اور قوم کے بکھرے ہوئے شیرازہ کو مجتمع بنادیں۔ جس کی تائید میں محترم نواب صاحبان وسرداران کے نام ہائے نامی جو کہ پوسٹروں میں شائع ہوچکے ہیں وہ کانفرنس کی نیک نیتی کے ثبوت میں کافی سے زیادہ بڑھ کر ہیں۔ ہم ان ذی ہوش معززصاحبان کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اُن کو اس قابل تحسین اقدام پر مبارک باد دیتے ہیں۔
’’مگریہ معلوم کر کے نہایت افسوس ہوا کہ چند شرارت پسند اورنا عاقبت اندیش ،مادرِ وطن و قوم کے دشمن من گھڑت باتیں بنا کر عوام اور طبقہِ سرداران میں پرو پیگنڈا پھیلا رہے ہیں کہ یہ کانفرنس سرداری سسٹم کے خلاف ہے۔ ہمیں اپنے ہم وطنوں کی اس ناعاقبت اندیشی اورکور چشمی پر تعجب اور افسوس ہے کہ وہ بجائے اس کے اس وقت قوم کی ۔۔۔ کو دیکھتے ہوئے عوام کو صحیح معنی بتلاکرمتحد ہونے کی ترغیب دیتے ، بلکہ برعکس اس کے وہ اپنے ہم وطنوں پر ظلم کرتے ہوئے اپنی ضمیر فروشی کے غلط پروپیگنڈے کر رہے ہیں جو کہ اپنے عزیز وطن واہلِ قوم سے غداری پر مبنی ہے۔ ہم اپنے محترم سرداروں وتمنداروں کی خدمت میں اپیل کرتے ہوئے پروثوق یقین دلاتے ہیں کہ یہ سراسر ایک مغالطہ ہے اور چندشرانگیز اور نا عاقبت اندیشوں کی محض خود غرضی ہے۔ یہ کانفرنس ہر گز سرداری سسٹم کے خلاف نہیں ہے ۔ بلکہ اُن کے فائدہ میں ہے ۔ اور صحیح معنوں میں اپنے سرداران وتمنداران کی بنیاد کو پختہ کرنا اور اصلاحِ قوم کی طرف توجہ دلانا فرض اولین ہے۔
’’ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارے ذی ہوش سرداران وتمندارانِ قوم کسی ضمیر فروش دشمنِ ملک وملت کے مغالطہ میں نہ آویں گے اور ہمہ تن وگوش اپنی تو جہات کو اپنے ملک وقوم کی فلاح وبہبودی کے لیے وقف کر دیویں گے اور آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد میں شریک ہو کر اپنی قوم کی رہنمائی کریں گے۔
غلام سرور خان خلف خان بہادر رسول بخش خان مرحوم۔ جنرل سیکریٹری آل انڈیا بلوچ کانفرنس جیکب آباد‘‘
گویا ہر نیک کام کے پیکج میں اُس کی مخالفت کا حصہ بھی پیدائشی طور پر جُڑا ہوتا ہے ۔ اصلاح وبہبود کی مخالفت نہ ہوتی تو نہ تو تاریخ میں کسی انسان دوست کو زندہ صلیب پہ چڑھایا جاتا اور نہ کسی کو مزدک وسپارٹیکس کی موت نصیب ہوتی۔ سرکی قیمت پر اچھے کام کی مخالفت و مزاہمت کے امکانات سے کبھی بھی صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *