Home » پوھوزانت » ٹیکنالوجی نے کیاکیا؟ ۔۔۔ محمد سعید

ٹیکنالوجی نے کیاکیا؟ ۔۔۔ محمد سعید

تمام انسانی وجو د کے لیے محنت ایک بنیادی اور اولین شرط ہے ۔ جب محنت سے آدمی کا فطرت پر قابو بڑھنا شروع ہوا تو اس کے بڑھتے ہوئے ہر ایک قدم نے اس کی نگاہ کو وسعت بخشی ، قدرت کی دی ہوئی چیزوں میں وہ برابر نئی اچھوتی ،انجانی خاصیتوں کا پتا لگاتا گیا، انسان کو جیسے جیسے فطرت کے رازوں کا علم ہوتا گیا ویسے ویسے فطری لزوم کی گرفت سے بھی زیادہ زیادہ آزاد ہوتا چلا گیا۔ محنت او زار بنانے کے ساتھ ظہور میں آئی ۔جوں جوں او زار بنانے کا عمل آگے بڑھا انسان طاقتور پیداواری قوتیں تخلیق کرتا گیا ۔ اس عمل میں انسان بھی تبدیلی سے گزرتا گیا اس کا پیداواری تجربہ بڑھتا گیا اور اس کی محنت زیادہ ثمر آور ہوتی گئی۔
پیداواری قوتیں ، وسائل پیداوار بالخصوص آلات محنت پر جو سماج کے تخلیق کردہ ہوتے ہیں اور عوام پر جو مادی دولت پیدا کرتے ہیں مشتمل ہوتی ہیں۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پیداواری ڈھانچے میں آلات پہلے ترقی پاتے ہیں ۔’’ کمتر سے بہتر اور بہتر سے اعلیٰ تر‘‘ آلات محنت اور ٹیکنالوجی کا اصول ہے ۔
فلاسفروں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کو محنت کی مادی تجسم قرار دیا ہے ۔ اپنی فطرت کی قوتوں کے علم کو عمل سے بدلنے کا نام ٹیکنالوجی ہے۔ مشینوں کو پیدا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے اور مشینیں اشیاکی مینوفیکچرنگ کے کام آتی ہیں۔
ٹیکنالوجی تاریخ ،سماج اور کلچر کو حرکت دینے والا لیورہے۔ آج معاشرہ ترقی کی جس سطح پر ہے جو سماجی ارتقا ہوا ہے کلچر میں جو گہرائی آئی ہے وہ ٹیکنالوجی کی اس حرکت کا نتیجہ ہے ۔ اگر سماج سے تمام ایجادیں،ٹیکنالوجی کی جدتیں خارج کردیں تو ارتقا زوال پذیر ہوکر دورِ وحشت میں چلا جائے گا۔
ٹیکنالوجی نے مادی وسائل کا بھرپور استفادہ کرتے ہوئے بے پایاں مقدار میں ضروریات زندگی فراہم کی ہیں ۔ٹیکنالوجی کا ارتقا وہ نعمت ہے جس سے جسمانی مشقت کا بوجھ کم سے کم ہوتا چلا گیا۔ دولت میں فراوانی آتی اور سماجی قوت میں گہرائی اور گہرائی ہوتی گئی ۔
یہ ٹیکنالوجی ہی ہے جو معاشرمیں تقسیم کار کو بڑھاتی ہے جس سے نئے پیشے اور نئے شعبے پیدا ہوتے ہیں ۔نئی ٹیکنالوجی شعبوں میں انحصار باہمی کو فروغ دیتی گئی۔ انحصار باہمی کے فروغ سے معاشرتی تعلقات گھنے ہوتے گئے۔ٹیکنالوجی کے انقلاب نے سماجی کردار کی شرح میں بے پناہ اضافہ کردیا ہے ۔
ٹیکنالوجی کلچر کو متحرک اور تغیرپذیر رکھتی ہے ۔یہ جمود کی دشمن ہے ۔اس کا نہ کوئی مذہب ہے اور نہ ذات ۔یہ کسی اخلاق کی پابند نہیں۔
سائنسی علم ایجاد سے ایک سہولت پیدا کرتا ہے تو اس سہولت کے لیے دوڑ سماج کا ناک نقشہ بدل دیتی ہے ۔ مشینوں نے جب فیملی سسٹم کی حیثیت بطور پیداواری یونٹ ختم کردی تب فیوڈل روایات کی جگہ صنعتی روایات نے لینا شروع کردی تویہ صنعت کاری ہی تھی جس نے فیوڈل سسٹم توڑدیا۔
مزارعہ اور غلامی فیوڈل سسٹم کی ضرورت تھی کیونکہ جنگ جو قبیلے کمزور قبیلوں سے مشقت لے کر عیش کرتے تھے مشینوں کی آمد سے پیداوار کا کام مشینوں نے سنبھال لیا مشین چلانے کے لیے غیر ہنر مند مزارع اور غلام کا کام نہیں دے سکتا تھا، مشینوں کے لیے کاریگر مزدوروں کی ضرورت تھی نہ کہ غلاموں کی اس لیے غلامی مشینوں کے لیے بلاضرورت ہوگئی۔ عورت فیوڈل سماج میں حقوق کے لحاظ سے کمتر تھی جو روٹی روزی کے لیے مرد پر انحصار کرتی تھی ۔مشینوں کی آمد سے صنعتی نظام میں شریک ہو کر اقتصادی طور پر آزاد ہوگئی۔
فیوڈل ازم ختم ہوگیا ۔سائنس کے صنعتی نظام کے انقلاب نے فیملی کی بجائے پوری قوم کو پیداواری یونٹ میں تبدیل کر کے قومی سرمائے کی بین الاقوامی کشمکش کوجنم دیا۔ بھاپ کے انجن کی ایجاد نے دستکاری کوصنعت کاری میں بدل دیا، برقی موٹر نے پیداواری یونٹ کو آگے بڑھایا۔ جب صنعتی انقلاب کے بعد کمپیوٹر ، انٹرنیٹ خلائی ٹیکنالوجی ، نیوکلیرپاور اور جنیٹک ٹیکنالوجی کا دور آیا تو قوم جسے پیداواری یونٹ کی حثیت حاصل تھی اس کی بنیاد بھی فیملی سسٹم کی طرح کمزور پڑنے لگی۔ اب قومی سرمائے کو بین الاقوامی مجبوریاں پیدا ہوگئیں۔ سرمایہ گلوبلائز ہونے لگا ۔دنیا کو گلوبل ولیج کا درجہ ملنے لگا۔ مقابلے کی جدید ضرورتوں نے قومی ریاستوں کو دیوقامت کارپوریشنوں اور اجارہ داریوں کے آگے سرنگوں ہونے پر مجبور کردیا۔ آج گلوبلائزیشن اور گلوبل ولیج کی رکنیت کی حق دار صرف وہ قومیں ہیں جس کے پاس سائنس ۔ ٹیکنالوجی ۔ صنعت اور سرمائے کی پاور ہے ۔پسماندہ دنیا پر ان اجارہ داریوں کا تسلط ہونا قدرتی امر تھا۔ جہاں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کا فقدان ہے سامراج وہیں پیدا ہوتا ہے اور وہیں تسلط کرتا ہے ۔جن قوموں کے پاس سائنس اور ٹیکنالوجی ہے وہاں انہوں نے اپنے اوپر سامراج مسلط ہونے نہیں دیا۔
ان اجارہ داریوں کی آزاد گلوبل مارکیٹ اقتصادی ضرورت ہے ۔آج گلوبل قوتیں قومی ریاستوں کے مقامی اقتصادی اور سیاسی رول کو کم از کم کرنے کی صلاحیتوں سے مسلح ہیں۔ جب سامراج برطایہ کو گلوبلائزیشن کی ضرورت لاحق ہوئی تو سرمائے کی صنعت قائم کرنے کے لیے ادارے کی سٹرکچرل ایڈ جسٹمنٹ پروگرام کی تحت ڈی ریگولیشن ، ڈی کنٹرول ۔ڈی نیشنلائزیشن کے نام پر تیسری دنیا میں سٹیٹ سیکٹر کے ادا روں کی حاکمیت کو خزانے پر بوجھ قرار دے کر اپنی راہ سے ہٹا نے کی خاطر اپنے تمام لیورز کے ٹریگر دبادیے ۔
آج سائنس براہ راست پیداواری قوت میں بدل رہی ہے۔ سائنسی خود کاری نے تخلیق کی سطح کو بلند کیا ہے ۔ مشینیں پیدا وار کا بڑا حصہ خود بناتی ہیں انسانی محنت کا کام اس کی نگرانی رہ گیا ہے یعنی علم اور ٹیکنالوجی پیداوار کا مرکزی نقطہ بن گئی ہے۔ آج خود کاری کا عمل اس حد تک بڑھ چکا ہے اورجنگی ٹیکنالوجی یہاں تک ترقی کر چکی ہے کہ فوج میدان میں نہیں ہوتی اسلحہ میدان میں ہوتا ہے ۔
آٹو میشن ، خود کاری پیداواری قوتوں کی اعلیٰ شکل ہے جس سے ذرائع پیداوار میں مرکزیت آئی ہے۔ لیکن اس نے نئے مسائل بھی پیدا کیے ہیں۔ صنعتی درک فورس میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ پروفیشنل اور ٹکنیکی نوکریوں کی بالادستی ہوئی ہے۔ خود کاری سے سروس سیکٹر پھیلا ہے ، چونکہ پیداوار نجی ہاتھوں میں ہے ۔ امارت اور غریب میں تفاوت پیداہوئی غربت دن بدن بڑھتی جارہی ہے دولت کے اتکاز نے ملٹی نیشنلزکو قومی ریاستوں سے بڑا کر کے مالیاتی اژدھا بنادیا ہے ۔
ہمارے جیسے پسماندہ ممالک میں دوسری طرح کے مسائل ہیں۔ یقیناًٹیکنالوجی تہذیب کی ترقی کی نقیب ہے تو ہمارے سماج میں ،پسماندہ ممالک میں ٹیکنالوجی کا رستہ فیوڈل ازم نے روکا ہوا ہے ۔ گماشتہ سرمایہ داری رکاوٹ ہے، روایت پرستی رکاوٹ ہے۔ عقیدہ پرستی نے روک لگا رکھی ہے ۔ فرقہ پرستی کی عقل دشمنی حائل ہے۔ نسل پرستی،علاقائی قوم پرستی کی نفرتیں راستہ کا پتھر ہیں۔ سامراج ان تمام رکاوٹوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے ۔
انسانیت نے صدیوں کی محنت سے ریزہ ریزہ اور قطرہ قطرہ کر کے علم وسائنس اورٹیکنالوجی کے سرمایہ کو حاصل کیا ہے یہ سرمایہ پیداوار کے ان ذرائع پر مشتمل ہے جو ذہن انسانی کی تخلیق ہے۔ انسانی تخلیقات میں مشین سرمایہ ہے ۔صلاحتیں اور ہنر سرمایہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سرمایہ ہے کرنسی ، مارکیٹ ، تہذیب اور کلچر سرمایہ ہے جب یہ سرمایہ پوری انسانیت کا حاصل ہے تو اس سرمایہ کو کل انسانیت کا چشمہ فیض ہونا چاہیے۔ اس سرمایہ کی حاصلات پر چند ہاتھوں کا قبضہ ہے ۔یہ چند ہاتھ یہ چندلوگ کراہ ارض پر دوفیصد سے زیادہ نہیں ہیں جو پوری انسانیت کی حاصلات پر تصرف جمائے ہوئے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی اور سماجی کارگزاری کا ارتقا تقاضا کرتا ہے کہ پیداوار تجارت منافع کے نجی اداروں کو عوامی اداروں میں تبدیل کردیا جائے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی چند کے لیے نہ ہو، سائنسی تخلیقات کا فیض عام ہوتا کہ سماجی کار گزاری کی سطح مزید بلند ہو۔ جب انسانی کارگزاری بڑھے گی تب وہ خوبصورت سماج تخلیق ہوگا۔ وہ جنت تعمیر ہوگی جس کا انسانیت صدیوں سے خواب دیکھ رہی ہے۔ جہاں انسانی محنت کی ضرورت تو ہوگی مجبوری نہ ہوگی۔
یہ خواب تب ہی شرمندِہ تعبیر ہوگا جب تہی دست لوگ ، سماج کے پسے ہوئے لوگ ، انسانیت کی حاصلات سے محروم افراد شعور کی بنیاد پر تنظیم کی طاقت سے منافع خوری کے سسٹم کو تہہ وبالانہ کردیں۔ ورنہ یہ سسٹم یو نہی برقرار رہے گا اور تاریک راتیں انسانیت کی راہ کا پتھر بنی رہیں گی۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *