Home » پوھوزانت » بلوچستان تا کیوبا ۔۔۔۔ ڈاکٹرمحمدشیرکھوہ قیصرانی

بلوچستان تا کیوبا ۔۔۔۔ ڈاکٹرمحمدشیرکھوہ قیصرانی

وبائی امراض کی سالانہ رپورٹ: ۔

۲۰۱۲ء میں مجھے تحقیقی ادارے کی ایک سینئر پروفیسر ڈاکٹر نُو بیا بلانکو نے میڈیکل کالج میں ہونے والی ایک تقریب میں مدعو کیا جہاں متعدد پروفیسر پہلے سے موجود تھے۔اس دن بارہ بجے تک پڑھایا گیا اور پھر چھٹی دے کر کہا گیا کہ:’’ اگر کوئی طالب علم اس کانفرنس میں حصہ لینا چاہے تو لے سکتا ہے۔‘‘میں نے دیکھا کہ چند پروفیسر سٹیج پر بیٹھے تھے اورپروجیکٹر(Projector)سے ایک Presentationپیش ہورہی تھی۔وہاں اس گروپ میں5-4اعلیٰ عہدے دار اورEpidemiologistsموجود تھے۔ان پروفیسر وں نے تقریب میں سب سے پہلے اپنا تعارف کرایا۔پھر کہا کہ:’’ آج کی اسPresentationکا مواد۲۰۱۱ء میں ہونے والے واقعات،شماریاتی ریکارڈ اور دیگر شعبہ جات سے لیے گئے ہیں۔صوبہ ویژاکلارامیں2011 کی اموات ،بیماریوں کے بڑھنے،گھٹنے یا نئی بیماریوں کے جنم لینے کی تمام معلومات آ ج پیش ہوں گی۔‘‘میں بھی اس میں شامل ہوگیا اور اسے دیکھتا رہا۔ انہوں نے گذشتہ سالوں اور سال2011کا موازنہ کیا اور کچھ مقامات پر جہاں بیماریوں اور اموات کی شرح کم ہو چکی تھی ،ڈاکٹروں کی تعریف کی مگر ایک نکتے کے تذکرے پر وہ بہت برہم ہوئے اور وہ تھا ،بلڈ پریشر کا سیکشن۔انہوں نے ریکارڈ دکھاتے ہوئے بتا یا کہ2010 میں تو بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد زیا دہ تھی مگر بغیرکسی اموات کے2011 میں ان کی تعداد کم دکھائی گئی۔ گویاشماریاتی غلطی یاکلینکل ہسٹری لینے میں بلڈپریشرکے حوالے سے ضروری معلومات درج نہ کی گئیں جس کی وجہ سے ان کی تعدادکم ظاہرہوئی۔اس لیے انہوں نے پروفیسروں کو سختی سے تاکید کی کہ وہ اپنے طلبہ کو ہوش مند ی سے مریضوں کی Cilinical History لینے کی تاکید کریں تاکہ آئندہ ایسی تنازعات( Discrepensies)پیدا نہ ہوں جن سے ہمیں بعد میں قومی سطح پرحکومتی اداروں کو جوا ب دینا پڑے۔اس کے بعد وہ Presentationاساتذہ کے حوالے کر دی گئی تا کہ وہ اسے طلبہ کو اسی سال کے طبی نصاب اورتحقیق میں پڑھائیں جب کہ سابقہ کتب میں مذکور اعداد و شمار نہ پڑھائیں۔اس طرح نہ صرف طلبہ تازہ معلومات سے آگا ہ ہوں گے بل کہ وہ اسے اپنی نئی تحقیقی لوازم کے طورپربھی استعمال کریں گے۔ میں یہ مشاہدہ کرتا رہا اورسمجھ گیا کہ کس طرح یہ لوگ اپنے ملک

کے بہترسے بہتر بناتے چلے جارہے ہیں۔ (Health Indicator)

ِمملکتِ کیوبا ،مفت تعلیم اورمفت علاج: ۔
جغرافیائی اعتبارسے مملکتِ کیوبا،شمالی اور جنوبی امریکہ کے عین درمیان شمالی جانب بحرِاوقیانوس میں ایک نیم پہاڑی اور نیم میدانی سرسبزوشاداب آزاد جزیرہ ہے۔ روس میں بالشویک(انقلاب پسندوں)کی تحریکِ اکتوبر،نومبر1917 کے معاشی نظریات واثرات لاطینی امریکہ تک جا پہنچے تھے اورسوسال بعدبھی وہ حقیقی صورت میں موجودہیں ۔یعنی کیوبا ایک سوشلسٹ ملک ہے جس میںSocialism رائج ہے۔کیوبا کا صدر مقام’’ ہوانا‘‘شہر ہے جواس جزیرے کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔اس کا دوسرا بڑا شہر ’’سان تیاگو ‘‘ ہے جو اس جزیرے کے مغربی کنارے پرواقع ہے ۔کیوباکارقبہ 44000 مربع میل ہے جس پر11.4 فی صدجنگلات ہیں۔ اس کا 34 فی صد علاقہ سرسبز گھاس سے ڈھکاہوا ہے۔17.2فی صد علاقے پربار انی باغات ہیں۔ 37.4فی صدعلاقے پر انسانی شہری آبادی ہے۔باقی علاقہ غیر آباد ہے ۔موسم معتدل ہے، نہ بہت سردی اورنہ بہت گرمی، کیوں کہ سمندر میں واقع ہے ۔ تاہم وہا ں گرد باد، اکثر آتے ہیں بل کہ بہت زیادہ جھکڑچلتے ہیں ۔پھر بادلوں کے بڑے بڑے قطعے آسمان پر تیرتے گزرتے ہیں ۔گردبادروزانہ آتے ہیں اوریہ پانچ سے دس تک آتے ہیں جو چھپروں اورگھروں کواکھاڑلے جاتے ہیں جن کا موسم زیادہ ترجون یعنی آہاڑسے لے کر نومبر یعنی منگھیر تک ہوتا ہے ۔کم و بیش پاکستان جتنا ملک ہے ۔اس کی آبادی دو کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
کیوباکے صدر فیدل کاسترو نے جب امریکہ اوراس کے حواریوں کو اپنے ملک سے مار بھگایا تھاتواس نے عوام سے ایک وعدہ کیاتھاکہ: ’’میں آپ کو تعلیم اور علاج مفت فراہم کروں گا۔‘‘اس نے اپنا وعدہ پورا کیا۔اب پورے ملک میں تعلیم اور علاج مفت ہے۔کیوبامیں تعلیم عام ہے ۔شرحِ خواندگی ۹۷فی صدسے زیادہ ہے ۔ ان کے خاک رُوب اور چپ راسی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ۔ دسویں جماعت تک تعلیم لازمی ہے۔جو والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے سکول نہیں بھیجتے ،انہیں جیل بھیج دیا جاتا ہے اور ان کے بچوں کو سکول بھیج دیا جاتاہے۔ہمارے قیام کے دوران میں وہاں120 بیرونی ممالک کے طلبہ، طبی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ہماری اپنی یونی ورسٹی (Matanzas)کے گردسترہ ایسے کالج کیمپس نظر آتے تھے جن میں طبی تعلیم دی جارہی تھی ۔ان بیرونی ممالک میں: چین ،برازیل ،بولیویا، میکسکو، تیمور،ارجنٹینا ،وینزویلا ،پیرواورجمیکاکے طلبہ شامل تھے ۔وہاں اگرچہ ہمارے کئی پروفیسر ہمیں کچھ زیادہ قابل نظر نہیں آئے لیکن ان کا جو نصاب تھا اور جس نے یہ مرتب کیا ،وہ انتہائی اعلیٰ اور شان دار تھا ۔وہاں ڈاکٹر اس قدر زیادہ ہیں کہ شعبۂ طب سے وابستہ لوگوں کی اتنی زیادہ قدر نہیں۔ صرف Deanکو زیادہ محترم جانا جاتا ہے۔ان کی تعلیمی کتب ہوانا سے بن کر آتی ہیں ۔وہ کتب کو، سی ڈی پر دیکھتے ہیں اور سی ڈی کے ذریعے ہی پڑھاتے ہیں۔چوں کہ نصابی کتب اعلیٰ ہیں،اس لیے جو طالب علم محنت کرتا ہے، وہ آگے نکل جاتا ہے ۔لیکن جو کم محنت کرتے ہیں وہ بس کام یابی کی لکیر پا ر کر پاتے ہیں ۔علاج کے اعتبارسے ڈاکٹر کے مشورے سے لے کر بڑے ہسپتالوں میں آپریشن تک تمام طبی سہولیات مفت فراہم کی جاتی ہیں۔یہ سہولیات کیوبا میں میڈیکل تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ کو بھی میسر ہیں۔ میڈیکل کے ہر طالب علم کو ہر چھ ماہ بعد کاپی،پنسل اورکتب مفت فراہم کی جاتی ہیں۔کتب سمسٹر ختم ہونے کے بعد واپس اسی حالت میں لائبریری میں جمع کرانالازمی ہوتی ہیں تاکہ آنے والے طلبہ کو مہیا کی جاسکیں۔کتب گم ہو جانے کی صورت میں جرمانہ کیا جاتا ہے جوعموماً ایک عام طالب علم کی بساط سے باہر ہوتا ہے۔مثلاً اگر ہم سے کوئی کتاب گم ہوجاتی تو ہمیں32 ڈالر ادا کرنے کا حکم تھا۔اس لیے ہماراہر طالب علم اپنی کتب حفاظت سے رکھتا اور گم ہو جانے کے خدشے کے پیشِ نظر دوسروں کو مستعاردینے سے بھی گریز کرتا۔ہر دو سال کے آخر میں سفیدکوٹ (ڈاکٹرگاؤن) جو ڈاکٹر کی پہچان ہے،مفت فراہم کیا جاتا۔ تیسرے سال کے شروع میں اور چھٹے سال کے اختتام پر ایک ایک Sphygmomanometer اورStethoscope مفت دیے جاتے اور یہ سب ایسے منظم طریقے سے ہوتا کہ کوئی ہیرا پھیری کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا ۔کیوبائی مرد ورزش کرتے ہیں، اس لیے ان کی جسمانی قوت اور صورت پہلوانوں جیسی نظرآتی ہے۔خواتین بھی ورزش کرکے خو د کو صحت مند رکھتی ہیں۔سکولوں میں اور سکولوں سے باہر بچوں کی ورزشی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ضعیفوں کے لیے الگ سنٹر بنے ہوتے ہیں جہاں صبح سویرے ایک شخص انہیں ورزش کراتاہے۔ملک میں اگرچہ آنے جانے کازیادہ تر انتظام بسوں کے ذریعے ہوتا ہے مگر حادثات نہیں ہوتے۔دو سال کے عرصے میں ہم نے کبھی نہیں سنا کہ کیوبا میں کوئی حادثہ ہوا ہے اور کوئی شخص حادثے کی وجہ سے فوت ہوا ہے۔

کرنسی: ۔
کیوبا میں کرنسی دوقسم کی ہے۔ایک کیوبن کرنسی( CUC)اور دوسری کیوبن پیسو(Pesos۔CUC)جومالیت کے اعتبارسے ڈالر سے مہنگی ہے۔ایک کیوبن کرنسی ،پچیس پیسو کے برابرہے۔کیوبن کرنسی میں غیر ملکی مصنوعات ملتی ہیں مگر یہ سرکاری دکانوں میں دست یاب نہیں ہو تی۔جد ید دکانیں انٹر نیٹ سے منسلک ہیں۔جہاں پرکیوبن پیسو استعمال نہیں ہو سکتے ۔یہ بینک سے تبد یل کروانے پڑتے ہیں مگراس سے تھوڑا سا خسا رہ برداشت کرناہو تا ہے۔ اس طرح باربار کرنسی کی تبدیلی سے حکومت قدرے امیر ہوجا تی ہے۔ یو ں کیوبا سرکار بیرونی مما لک سے پیسے اپنے ملک میں لاتی ہے اورمعمولی ٹیکس کا ٹتی ہے۔یعنی اگر کوئی شخص باہر سے کیو با میں اپنے لوا حقین کو رقم بھیجنا چاہے تو بھیج سکتا ہے مگر کیوبا سے باہر ایک ڈالر بھی نہیں بھیجا جا سکتا۔اسی لیے کریڈٹ کارڈنہیں دیے جاتے تا کہ انٹر نیٹ کے ذریعے بیرونی ممالک سے خریدو فروخت نہ ہو سکے۔ اس پالیسی سے کیوبا میں پیسہ مسلسل آ رہا ہے اور ملک مستحکم ہو رہا ہے۔ انہوں نے ٹیلی فون کمپنی کے ذریعے مطلع کر رکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بیرون ملک سے آپ کے فون میں پیسے ڈلوائے گا تو اسے ڈبل بیلنس دیا جائے گا ۔میں نے ایسے بہت سے کیوبائی لوگ دیکھے جن کا کوئی نہ کوئی فرد بیرون ملک تھا ۔وہ ان کے فون میں کچھ رقم ڈلواتا تو کیوبا میں تعلق دار شخص کا بیلنس ڈبل ہو جاتا ۔ملکی پالیسی عموماًملک کو مستحکم کرتی ہے مگر ہمارے ہاں بیرونی نجی ٹیلی فون کمپنیاں اوردیگرنجی ادارے روزانہ دھڑا دھڑاربو ں روپے بیرون ملک منتقل کر لیتے ہیں۔نتیجتاً ہر سال ہمارا وزیرِ خزانہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ( IMF)کے آگے عاجزی سے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ۔قر ضہ لے آتا ہے اورہر بار نئی پابندیوں سے عوام کو تنز لی کے ایک ایسے دَل دَل میں د ھکیل دیا جاتاہے جہاں سے نکلنا نا ممکن نظر آتا ہے۔ اس سے ہمارے ادارے دگرگوں اور ملکی سا لمیت کوبھی نقصان پہنچتا ہے۔بالآخراندرونِ ملک عوام پر ٹیکس بڑھادیے جاتے ہیں۔

دُکانیں: ۔
ہمیں کیوبا کے چند شہروں میں جانے اور گھومنے کا مو قع ملا جہاں معلوم ہوا کہ کیوبا میں دکانیں اور بازار سب سرکاری ہیں ۔سب دکان دار بھی سرکاری ملازم ہیں ۔ کیوبا میں دو قسم کی دُکانیں ہوتی ہیں۔ ایک میں ،جو نئی ہیں،کیوبائی کرنسی (CUC)ٰٓ یا ڈالر کہہ لیں، استعمال ہوتی ہے۔ یہی دکانیں کھانے پینے اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء سے بھر ی رہتی ہیں۔یہاں پر خریداری کے لیے امیر لوگ یا غیر ملکی افراد آتے ہیں اور ان میں دن کورش لگا رہتا ہے۔ان کے اکثر گاہک غیر ملکی ہوتے ہیں ۔ان کی بچت انہی غیر ملکی لوگوں کی خریدی ہوئی اشیاء سے ہوتی ہے ۔یہ غیر ملکی لوگ سیر و سیاحت کے لیے کیوبا آتے ہیں۔ مقامی لوگ سودا سلف انتہائی کم خریدتے ہیں ۔ان دکانوں میں اکژ مال بیرونِ ملک سے درآمد کیا جاتا ہے اور انہی دکانوں کا انٹرنیٹ کے ذریعے آپس میں اورمرکز سے براہ راست رابطہ ہوتا ہے۔دوسری قسم پرانی دکانوں کی ہے جن کی عمارات خستہ ہیں مگر ان میں ملنے والی اشیاء کیوباکی کرنسی پیسومیں ملتی ہیں۔اور ان کا کام سرکاری ملازمین کو سستے داموں،چاول،چینی ،دالیں، گوشت،دودھ ، انڈے اور دیگر اہم خوردنی اشیاء فراہم کرنا ہوتا ہے۔یہ سب اجناس انہیں قومی شناختی کارڈ کی بہ دولت ملتی ہیں جو غیر ملکوں کے پاس نہیں ہوتا۔ان دکانوں میں اس علاقے کے ہر اس فرد کا اندارج موجودہے جسے سرکار نے یہ راشن لینے کی اجازت دے رکھی ہوتی ہے اور ایسی دکانیں ہرکمیونٹی میں موجود ہیں جن سے صرف اسی کمیونٹی کے لوگ اپنا راشن خرید سکتے ہیں؛دوسری کمیونٹی کے لوگ خریدنے کے مجازنہیں کیوں کہ ان دکانوں میں سرکار، خاص مقدار میں راشن فراہم کرتی ہیں۔اس طرح کی کچھ اور سرکاری دکانیں بھی ہیں جہاں کیوبا کی مصنوعات سستے داموں فروخت ہوتی ہیں۔تاہم ان ایشاء کامعیار زیادہ بہ تر نہیں ہوتا۔جب کہ کیوبا حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ کیوباکی مصنوعات بنائیں اورفروخت کریں۔کیوباکے کسی شہر کی مارکیٹ میں بکنے والی اشیاء دوسرے شہر کی مار کیٹ میں بھی دست یاب ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی چیز ایک شہر کی مار کیٹ سے ختم ہو جاتی ہے تو وہ دوسرے شہر کی مار کیٹوں سے بھی ختم ہو جاتی ہے کیوں کہ دکانوں میں یکساں چیزیں، ایک خا ص مقدارمیں فراہم کی جاتی ہیں۔ ان اشیاء کے ختم ہو جانے کا علم ،انہیں دکانوں پر موجود مربوط انٹر نیٹ نظام کے ذریعے ہو جاتا ہے۔ یوں ایک ہی دن میں تمام دکانیں بہت سی اشیاء سے خالی اور پھربھربھی جاتی ہیں ۔تاہم کیوبامیں اگر کوئی شخص بغیر اجازت اپنی نجی دکان کھولتا ہے تو اسے سیدھاجیل بھیج دیاجاتاہے ۔ اگرکہیں کوئی بااجازت کھول بھی لے تو اسے انتہائی کم بچت ہوتی ہے کیوں کہ سرکار اس سے بہت زیادہ ٹیکس لیتی ہیں ۔وہاں دکانیں عموماًشاہ راہوں کے آس پاس سجائی جاتی ہیں جیسے کہ ہمارے ملک میں غریب دکان دار سڑکوں کے کنارے لکڑی کے کھوکھے لگا کر اپنا سودا سلف بیچتے ہیں ۔

مٹھائی کی دکان: ۔
کیوبا کے لوگ دکانوں پر مونگ پھلی،امرود ،تل اور کھوپرا سے بنی ہوئی مٹھائیاں فروخت کرتے ہیں جو پا کستانی مٹھائیوں کے مقا بلے میں کم ذائقہ ہیں۔ اگر کوئی بلوچستانی وہاں جا کر مٹھائی کی کوئی دکان کھول لے تو دھڑادھڑاس کی مٹھائیاں بکیں گی۔ اسے خا صا زرِ مبادلہ ہاتھ آئے گا۔اس کااندازہ مجھے اُس وقت ہواجب ہمارے چندطلبہ عید کے دنوں میں گلاب جامن اوررس ملائی بناتے تھے با الخصوص چندڈاکٹر طالبات یہ مٹھائی بنانے میں ماہر تھیں۔پروفیسروں اوراساتذہ کوبلاکریہ مٹھائیاں پیش کی جاتیں تویہ مٹھائیاں پروفیسروں اور ان کے بچوں کو بہت مرغوب و پسند تھیں۔

کھانا :۔
لوگ وہاں کھاناخریدتے ہیں ۔کھانا بہت سستاہوتاہے۔ ہمارے پانچ دس روپے میں انسان سیر ہو کر کھا سکتا ہے ۔کیوبا میں اساتذہ اور طلبہ کو کھانا مفت فراہم کیاجاتاہے۔کارخانوں کے مزدوروں کوبھی کھانامفت فراہم کیاجاتاہے۔

بجلی : ۔
کیوبامیں قدرتی گیس نہیں ہے ۔تاہم بجلی عام ہے ۔اس قدر عام کہ لوگ کھانا وغیرہ بھی بجلی کے آلات پر پکاتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے لیے کیوبا ،تیل وینزویلا سے حاصل کرتا ہے اور اسی تیل سے ہی وہاں بجلی پیداکی جاتی ہے ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *