اے دل نادان!
میں کِس کِس کو یاد کروں
کِن کِن جوانمردوں کے نُوحے کہوں
اور کِن کِن کے لےے آنسو بہاﺅں
وادیوں میں جہاں بھی میں نظر ڈالتا ہوں
تو مجھے کوّے ، گِدّھ اور لوٹ مار کرنے والے شکاری ہی
نظر آتے ہیں
جہاں جہاں بھی میں جاتا ہوں
اور جس کِسی سے بھی بات چھیڑتا ہوں
وہ فریاد کرنے لگتا ہے
اِس طرح، جیسے کہ
کوئی زخمی نمک کے ڈھیر پر پڑا ہوا ہو
غضب خدا کا!
کل جہاں محفلیں جمتی تھیں
آج وہاں جلاّدوں نے مقتل بنا دےے ہیں
وطن ! اے میراپھول جیسا پیارا وطن !!
کِس طرح تیری نسل کُشی کی گئی ہے
کہ آج مجھے
تیرے سُرخ آنکھوں والے بہادروں میں سے
کوئی ایک بھی نظر نہیں آتا
ہماری غیرت کے ستُونوں
اور نا مُوس کی ڈھالوں کو
بیدار کرنے والوں نے
توڑا، اُدھیڑا اور پھینک دیا ہے
مگر اِے وطن!
مجھے تیرے بے آب و گیاہ بیا بانوں کی قسم!
اِن تہ در تہ زنجیروںکو
مَیں تیرے پاﺅں میں نہیں رہنے دُوںگا
تم ہمارا نام اور ہمارا جلو ہ ہو
تم ہماری غیرت اور نا موس ہو
اَے وطن !
تیری آن پر ہم ہزاروں سر قُربان کردیںگے
نصیر، زندان میں پڑا ہوا
اپنے دل سے جھگڑتا ہے
اور کہتا ہے کہ
سروں کی کٹائی ہماری مضبوط بنیادوں کو نہیں اُکھاڑ سکے گی
سنٹرل جیل حیدر آباد
23 دسمبر1976