Home » پوھوزانت » کوسٹل ہائی وے کا سیاح ۔۔۔۔ عرفان شہود

کوسٹل ہائی وے کا سیاح ۔۔۔۔ عرفان شہود

پابلو نرودا اگر اس سیارے میں کوئی تبدیلی پسند نہیں کرنا چاہتا تھا اور اسی طرح کی قدرتی منظر کشی کا اسیر تھا تو مجھے بھی ہمارے جیسے ملک کے طول و عرض میں پھیلی جمالیاتی طلسمی کہانیاں موجودہ شکل میں ہی خوبصورت لگتی ہیں۔عمومی رویہ ہے کہ جب بھی بلوچستان کا نام لبوں پر آتا ہے تو خوفناک سردار بندوقیں اْٹھائے پہاڑوں پر بیٹھے محسوس ہوتے ہیں۔اور صوبائی تعصب برت کر مہمانوں کو کشت وخون کے ساتھ سواگتی پرنام کرتے لگتے ہیں۔مگر قدرتی وسائل کا یہ شہکار خطہ خوبصورت بھی ہے اور ثقافت کے رنگوں سے لبریز بھی۔کراچی سے میں نے اور ایک دوست کاشف مشتاق نے بلوچستان کی طرف سفر شروع کیا۔سب سے پہلے ہم ہب سے آگے زیرو پوائنٹ سے دو لخت ہوتی سڑکوں میں سے ایک طرف مْڑ گئے۔سیدھی سڑک خضدار اور کوئٹہ کی جانب اور دوسری کوسٹل ہائی وے جو کہ اگور، کنڈ ملیر، ہنگول پارک، اورماڑہ، اور گوادر کی جانب جاتی ہے۔ہمارا سفر بھی اسی سڑک کے اوپر تھا۔ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ یہ سڑک بے پناہ دلکشی کا سبب ہے۔تاثر ہے کہ مقامی بلوچ اجنبیوں کو اغواء کر کے لے جاتے ہیں۔مگر ہمارے ساتھ الٹ معاملہ ہوا لیویز کے جوانوں نے خوش دِلی سے سواگت کیا۔یہ دور افتادہ پہاڑوں کی اور قبائل کی خوبصورت سرزمین ہے۔مکران کوسٹل ہائی وے کے ساتھ ساتھ ہم جا رہے تھے اور دونوں اطراف جڑی بوٹیوں سے ریتلی زمین ہلکا ہلکا جھولے لیتی ہمارے پاوں سے لپٹتی رہتی۔اس علاقے میں جو ساحلی حسن انسانی آنکھ کو خیرہ کرتا ہے، پورے ملک میں کہیں اتنا دلکش نظارہ نہیں ملتا۔مگر ایک ایسی پراسراریت بھری اور ریت کے ٹیلوں سے اٹی پوری نئی دنیا دریافت ہوئی کہ میں ساحلی جادوگری کو بھول کر اس کے سحر میں کھو گیا۔انسانی جزائر کی باقیات صدیوں پرانی کہانیوں کو جنم دیتی یہ سرزمین قدرت کا عظیم شہکارہے۔سب سے پہلے کنڈ ملیر کے مقام پر پہنچتے ہی آپ کو عرب کی موسیقی کی جھلک سنائی دے گی۔سامنے پہاڑوں کے درمیان ٹھاٹھیں مارتا جھاگ اڑاتا سمندر، اردگرد ریت کی چار دیواری سے گھِرا ہوا ایک دلکش ساحل جس کی ریت انتہائی خوبصورتی کو اجاگر کرتی ہے۔حکومتِ بلوچستان اگر تھوڑی سی کوشش کرے اور ان ساحلی علاقوں کو سیاحوں کے لیے قابلِ رسائی بنا دے تو کثیر زرمبادلہ کما سکتی ہے۔طلسم ہوشربا نظارے اور اپنے ہی ملک کے حسین مناظر وطن سے محبت کو ابھارتے ہیں۔کنڈ ملیر کے ساحل تو انسانی آنکھ میں حیرت کا باب کھولتے ہیں۔کوہ پرناسس جو یونان میں فنون لطیفہ کی دیویوں کا من پسند جزیرہ ہے۔اور زحل جو جمالیاتی اوج کا محور سمجھتے ہیں یونان میں۔سب ہیچ لگنے لگ گیا اس ساحل کی رعنائی کو دیکھ کر۔ایسے سیاہ فام جزیرے پر سیاح بہت کم اترتے ہیں۔نیلے، اجلے رنگ کا پانی قدموں سے لپٹ لپٹ جاتاہے اور مجھے پکار پکار کر کہتا، اے مسافر اور گمنام سیاح،،،، اپنے دوستوں کو کہہ دو کہ زھرہ جبینوں کے حلقوں سے نکلو، شباب ومستی کو چھوڑو، اور زندگی کی چالاک سازشوں کو سمجھو جو روزگاری اور بزنس کے جال میں انسانوں کو اْلجھاے رکھتی ہے۔اور ایسے ساحلوں کا رخ کرو جدھر انسانی آنکھ کو حسن کی تمازت سے پرنور کیا جاتا ہے۔ایسے ساحلوں پہ ایک بسیط خاموشی میں الوہی ترانے بجتے ہیں۔سنہری نور کی لہروں میں خداے عزوجل اترتا ہے۔اور زندگی کے چشم و لب کھِل جاتے ہیں۔
اس ساحل کے بعد نیشنل ہنگول پارک آتا ہے۔ہم بھی ایک ایسے خطے میں آ گئے تھے کہ جہاں مکمل سکوت بھری خامشی، اور کھردری سڑک پرزندگی کی گاڑی کی رفتار کم ہو گئی۔اْٹھان بھرتی مورتیاں مجھے حیرت و استعجاب میں مستغرق کر دیتی ہیں۔پہلی نظر جیسے ہی ان دیو ہیکل بتوں کی طرف دیکھیں تو اہرام مصر یا بابل کے مردوک خداوں کی شبہیں ابھرتی نظر آتی۔دراصل یہ نیشنل ہنگول پارک بلوچستان ہے۔بل کھاتی سڑک انسانی آنکھ میں یکے بعد دیگرے مناظر غائب کرتی اور نئے عکس تعمیر ہوتے چلے جاتے۔آرکیالوجی سے دلچسپی کے باعث ایسے جان لیوا مناظرہوش اْڑا دیتے ہیں۔ہنگول نیشنل پارک کا ائیریا بلوچستان کے تینوں اضلاع سے متصل ہے۔جس میں لسبیلہ، گوادر اور آواران ہے۔ایک ہزار چھ سو پچاس مربع کلو میٹر پر پھیلا یہ مکران کے ساحلی علاقوں سے بھی ملحق ہے۔اس کو دریاے ہنگول کی وجہ سے اسی نام سے پکارہ جاتا ہے۔دو ہزار سال پہلے یہ علاقہ زیر آب تھا آہستہ آہستہ جب پانی اترا تو یہ ماسٹر پیس نمودار ہوا۔
پھر ہم لوگ ہنگلاج ماتا مندر ہنگول دیکھنے غار نما بت کدے میں اتر گئے۔مشہور ہے کہ دو لاکھ سال پرانا مندر ہے۔ارضیات والے بہتر جان سکتے ہیں مگر شماریات والوں کے مطابق 300 آئی بیکس 1500 اْڑیال 65 مختلف قِسم کے سانپ، 135 انواع کے پرندے اور بے شمار دیگر جانور اور پرندے ہیں۔گولڈن چیتا،لومڑی،کچھوے، وغیرہ۔گویا جانوروں کی پوری رجمنٹ اور پلٹون ہے جو اس کی خوب صورتی میں اضافے کا باعث ہے۔اْڑیال اور غزال چوکڑیاں اور نایاب عقاب ہواوں میں اڑتے نظر آتے ہیں۔ہم نے اس علاقے میں جو سب سے بہترین منظر دیکھا وہ اس کی ایک مورتی جسے انجلینا جولی نے اپنے وزٹ کے دوران پرنسس آف ہوپ کا نام دیا تھا وہ لیڈی ہاتھ باندھے کھڑی ایک مورتی تھی۔مختلف مقامات پر فراعین مصر، خافو، خوفویا، خفران کی ممیاں کھڑی نظر آتی ہیں۔مگر یہ کمال اس علاقے کے کمال آرٹسٹ جمیل جان اور سیما سردار زئی وغیرہ کے بے مثل فن کا ثبوت تھا۔۔۔اس جگہ ایک ہی آئین ہے اور وہ اپنی زندگی دوسرے سے بچانا ہے کیوں کہ پرندے حشرات کو کھا جاتے ہیں۔۔اسی دوران ہماری گاڑی کا ٹائر برسٹ ہو گیا اور ہم اس فطرت کے حسن کو چھوڑ کر یہاں سے نکل کر محفوظ ٹھکانہ ڈھونڈ رہے تھے۔مگر ایک مقامی بلوچ کی سخاوت پر دل حیران اور خوش بھی ہوا کہ اس نے ہمارا مکمل انتظام کروایا اور ہمیں ہماری منزل تک پہنچایا۔
بلوچستان کو انتہائی زبردست لینڈ سکیپ اور عجائبات سے مالا مال کیا گیا ہے۔اساطیری مزاج سے بھرے جہان لیے اور جیوتھرمل گارے کے آتش فشاں سے بھرے پہاڑ اور جیالوجی والوں کے لیے خزانہ ہیں۔کبھی ساحل کی ریت پاوں کی ٹھنڈک کاسبب اور کبھی اس کی تنوع مسلسل منظر بدلتی نظارگی دل کو بھاتی ہے۔آتش اچھالنے والے پہاڑ اور آگ بجھانے والے بحیرہ بلوچ بھی شامل ہیں۔جیالوجی کے، میتھالوجی کے، آرکیالوجی کے بے انتہا معجزے اور مناظر منہ کھولے سیاحوں کے منتظر ہیں۔
اگلا پڑاو ہمارا اْورماڑہ کا ساحل تھا۔شام کا سورج اس بستی سے اترنے والا تھا اور ہم روانہ ہوگئے۔۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *