Home » قصہ » برائے فروخت ۔۔۔ عابدہ رحمان

برائے فروخت ۔۔۔ عابدہ رحمان

مئی کا مہینہ شروع ہو چکا تھا ۔ پچھلے کئی دنوں سے دھول مٹی، گرد و غبار نے فضا میں عجیب سی بے زاری ڈالی ہوئی تھی۔ ریت کے ذرات جب ہوا میں اڑ اڑ کر گل پری کے چہرے پر زور سے پڑتے تواُسے یوں لگتا کہ جیسے تلوار کے وار ہو رہے ہیں۔ طوفانی ہوا جب مٹی، ریت، کاغذ، خس و خاشاک کو اڑاتے تواسے اپنا آپ بھی اسی بے وقعت دھول مٹی کی مانند ہی لگا کرتا۔
کافی دن سے عجیب سا کچھ ہو رہا تھا ۔صبح شام کے مخصوص اوقات میں جب چرواہا اپنا ریوڑ لے کر وہاں سے گزرتا تھا اور گھنٹیوں کی آواز آنے لگتی تو پری بے چین ہو جاتی ۔۔۔جوں جوں گھنٹیوں کی آواز قریب آتی جاتی اس کی ہذیانی کیفیت بڑھتی چلی جاتی۔۔۔اس کے منہ سے درد بھری چیخوں کے ساتھ ’ نہیں نہیں‘ نکلنے لگتااور اپنے گلے میں کچھ تلاش کرنے لگتا۔
اس وقت بھی وہ عجیب سی جھنجھلاہٹ لیے برآمدے سے اپنی چادر موتی لے کرکمرے میں آبیٹھی لیکن اس کے ساتھ ہی کھڑکی ہوا کے زور سے کھل گئی اور مٹی کے ذرات گل پری کے چہرے پر چپک گئے۔دور سے گھنٹیوں کی آواز فضا میں گونجنے لگی اور وہ تو جیسے دیوانی ہو گئی، اٹھ کر زور سے کھڑکی بند کی اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر زور زور سے چیخنے لگی۔ آنسو اس کے گالوں پر بہہ نکلے۔
’’ ہٹ جاؤ‘‘ پری نے ایک چیخ کے ساتھ چپل اٹھا کر مرغیوں کو دے ماری جو اس کی پیالی میں چونچ بس مارنے ہی والی تھی۔ ’’ بیچ دو نہ اماں ان مرغیوں کو ، دیکھو نہ کتنا تنگ کرتی ہیں‘ ‘ پری غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی۔
اماں چپ چاپ مسکراتی رہی کہ اس کو گھر کی اس بلبل کا چہکنا بہت اچھا لگتا تھا۔آج سکول کی چھٹی تھی اور پری، اماں کے ساتھ گھر کے کام نمٹا کر چٹائی پر آبیٹھی تھی، جہاں وہ کشیدہ کاری کر رہی تھی۔ پری ماتھے پر سبز خال کھدے ، بالوں کی دو چُٹیا گوندھے اماں کو کام کرتے دیکھ رہی تھی۔ اماں ساتھ ساتھ حقہ گُڑ گُڑا رہی تھی۔
اچانک ابا گھر میں گھاس کا گٹھا لیے داخل ہوا، جو گھر سے چند فرلانگ پر ایک چینکی ہوٹل چلاتا تھا۔ تھکا ہارا شام کو لوٹتا تھا لیکن آج خلافِ معمول جلدی واپس آیا۔بکریاں تو گھاس دیکھ کر جیسے رسی توڑنے لگیں ۔ ان کے سامنے گھاس ڈال کر ابا اندر جاتے ہوئے بولا ،’ ’نور خاتون چائے لاؤ‘‘۔
اماں نے پیالہ چائے سے بھرا اور اندر جا کر اس کے پاس رکھ کر بیٹھ گئی۔کافی دیر خاموشی رہی تو نور خاتون نے پوچھ لیا، ’’ کیا بات ہے پری کے ابا، خیر تو ہے کچھ چپ چپ ہو اور آج گھربھی جلدی آگئے؟‘ ‘
’’ کچھ نہیں ۔۔۔ کیا میں جلدی نہیں آسکتا؟‘ ‘اماں خاموش رہی تو وہ خود ہی کہنے لگا،’ ’ آج میرا ایک پرانا دوست کافی عرصے بعد ہوٹل آیا تھا ۔ بتا رہا تھا کہ وہ دوبئی چلا گیا تھا ۔ ادھر اس نے اچھا خاصا کما لیا ہے‘‘ ابا نے پیالی اٹھائی۔
’’اچھا یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ باہر کے ملک میں بڑا پیسہ ہے ،جو لوگ گئے ہیں ان لوگوں نے بنگلے بنا لیے ہیں‘‘ اماں بولی۔
’’ لیکن باہر جانے کے لیے بھی تو پیسہ چاہیے نور خاتون‘‘۔ ابا نے لیٹتے ہوئے کہا اور اماں سوچوں میں گم باہر نکل آئی۔
دن یوں ہی گزرتے گئے اور اس بات کو چھ ماہ گزر گئے۔ سردیوں کی چھٹیاں تھیں ۔
بڑے سے کھلے صحن میں ٹُنڈ مُنڈ درخت بہار کی جدائی کا غم دل میں لیے یخ بستہ ہواؤں کے وار سہہ رہے تھے۔ پری جھاڑو لیے صحن میں پتے سمیٹ رہی تھی کہ ابا آئے اور اماں کو آہستہ سے کچھ کہا تو کشیدہ کرتی سوئی اچانک سے اس کی انگلی میں چبھ گئی۔
’ ’ لیکن پری کے ابا، وہ تو ابھی بہت چھوٹی ہے اور پڑھ رہی ہے ابھی‘‘ ۔اماں نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
’’ لڑکیوں کو کس نے پڑھایا ہے آج تک۔۔۔ اس سے نوکری تھوڑی کروانی ہے ،بس لکھنا پڑھنا جان گئی ہے بہت ہے۔‘‘
’’ لیکن ۔۔۔‘‘ اماں نے کچھ بولنا چاہا۔
’’ فضول باتیں مت کرو ، اس سے اچھا رشتہ نہیں مل سکتا ہمیں ۔ میرے یار نُوروکا بیٹا ہے ،عیش کرے گی اور پھر۔۔۔‘‘ ابا خاموش ہو گیا۔
اماں نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ بولا، ’ ’ اور وہ پری کا ولور چھ لاکھ دے رہا ہے‘‘۔
پری جو اندر داخل ہو رہی تھی ، یہ الفاظ سنے تو ہاتھ سے گلاس گر کر چکنا چور ہوگیا ۔
’’تو ابا نے میری قیمت لگا لی!‘‘۔ پری کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

ایک ہفتہ ہو گیا اس ’حادثے ‘کو۔۔۔۔۔۔ ابا نے چھ لاکھ وصول کر لیے، جلد ہی دوبئی والا آکر پری کو لے جائے گا۔
نہیں نہیں کی دل چیر دینے والی چیخیں آنے لگیں ۔۔۔اماں اپنا بوڑھا وجود لیے دوسرے کمرے کی جانب لپکی۔۔۔ گھنٹیوں کی آواز فضا میں گونج رہی تھی۔۔۔دھول مٹی میں کچھ دکھائی نہیں دے رہاتھا۔۔۔پری جانے کیا تلاش کرنے میں اپنا گریباں نوچ رہی تھی۔۔۔!
اس دن سے جب بھی پری کو گھنٹیوں کی آواز آتی ہے اور چرواہا اپنا ریوڑ لیے وہاں سے گزرتا ہے، پری بے چین ہو جاتی ہے اوربے اختیا اس کا ہاتھ اپنے گلے میں گھنٹی تلاش کرنے لگتا ہے۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *