Home » شیرانی رلی » وحشت کی موت ۔۔۔ اسامہ امیر

وحشت کی موت ۔۔۔ اسامہ امیر

تم جس وقت میرے پاس نہیں تھی
مرے سرہانے سوکھے ہوئے گلاب
تمھارے بدن کی خوشبو سے مہک رہے تھے
مجھ پر اک عجیب سی وحشت طاری ہورہی تھی
اور اس وحشت کا دورانیہ
اس قدر مختصر تھا
نہ تو میں اس خوشبو سے مَس ہوا
نہ ہی وحشت سے دو چار

رات ڈھل رہی ہے
صبح کے آثار نمودار ہو رہے ہیں
بستر کی سلوٹیں
مجھے اٹھانے کے لئے چیخ رہیں ہیں
میں آہستہ آہستہ آنکھیں کھول رہا ہوں
خواب دور ہوتا جا رہا ہے

“انا اللہ وانا علیہ راجعون”

Spread the love

Check Also

سوچوں کے مضافات ۔۔۔ نسیم سید

روح رقصاں ہے یوں جیسے مجذوب گھنگھرو مزاروں کے یا دائرہ وار صوفی بھنور خواب ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *