Home » پوھوزانت » نیا عمرانی معاہدہ ۔۔۔ پروفیسر کرامت علی

نیا عمرانی معاہدہ ۔۔۔ پروفیسر کرامت علی

پاکستان کی ترقی کے ستر سال(اگست 1947 سے 2017) کا جائزہ لینے کیلے ضروری ہے کہ ہم درج ذیل چار نظریات کوذہن میں رکھیں جو کہ ہمارے روائتی طریقہ سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ لیکن پاکستان میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اپنی سوچ،نظریہ اور لائحہ عمل کو تبدیل کرکے21ویں صدی کے جدید رحجانات کے مطابق استوار کریں ۔ نیزجدید معاشروں میں جو معاشی،معاشرتی،مذہبی،سماجی اور بین الاقوامی راوبط میں تبدیلیاں آ رہی ہیں۔اُن سے مطابقت کریں اور اُن کی صف میں شامل ہوں۔
۔1۔ پاکستان کی 70سالہ ترقی کو پاکستان کے تاریخی پس منظر،سیاسی صورت حال،تہذیبی و تمدنی روایات،مذہبی رحجانات اور بین الاقوامی روابط اور واقعات سے علیحدہ کرکے کوئی صحیح تجزیہ نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان کی ترقی کے 70سال کے سفر کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان تمام حالات کو مجموعی طور پر سمجھ کر ترقی کے تمام پہلو وں کو ایک ساتھ سمجھ کر تجزیہ کرنا ہوگا۔جو کہ درست ہوگا۔صرف معاشی ترقی کو ترقی سمجھناایک غلط سوچ ہے۔ معاشی ترقی مجموعی ترقی کا ایک پہلوہے۔ اورسب سے زیادہ اہم ہے اور اکثر معاشی ترقی کو ہی معاشرہ کی تمام ترقی سمجھا جاتا ہے۔
۔2۔ دوسری صورت حال جوکہ غور طلب ہے وہ یہ کہ پاکستان کی ترقی کا انحصار صرف اندرورنی عوامل پر نہیں رہا بلکہ بیرونی عوامل اور بین الاقوامی قوتیں پاکستان کی ترقی پر نہ صرف اثرانداز ہوئیں بلکہ اندرونی عوامل کی نسبت زیادہ اثر ڈالا۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اس بھید کو سمجھیں کہ ہماری معاشی اور معاشرتی صورتحال پر بیرونی عوامل نے کیا اثرات ڈا لے اور ہمارے اندرونی عوامل بھی اُن کے زیراثر رہے اور اُن کا اثر بہت کم رہا۔
۔3۔ پاکستان کو ان تمام 70 سالوں میں بحُرانوں کا سامنا رہا اور آج بھی افسوس کے ساتھ یہ کہاجارہاہے کہ پاکستان کو بحُرانوں کا سامنا ہے۔پاکستان کبھی بحرانی صورت سے نہیں نکلا۔البتہ سوچنے کی بات ہے کہ واقعی پاکستان 70سال بحرانوں میں گھرا رہا۔اور وہ کون سی قوتیں ہیں جنہوں نے بحران پیداکیا ہے۔کیا وہ بین الاقوامی قوتیں ہیں ۔جنہوں نے بحران پیداکیا ہے یا ملک کی ساختی صورت حال، ادارے اور اشرافیہ اس کی ذمہ دار ہے اور وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے یہ صورتحال رہی۔اگرچہ یہ تمام صورتحال بین الاقوامی قوتوں نے اندرونی اشرافیہ سے ملکر پاکستان میں پیدا کی کیونکہ بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام اور امپریلزم کی یہ ضرورت تھی اور رہے گی۔
۔4۔ پاکستان کو ایک ایسے ملک کی مثال کے طور پر پیش کیاجاسکتا ہے جہاں زندگی کے ہر پہلو میں ناہمورایاں،تفاوات اور تضادات موجود ہیں۔تین ایسی معاشی ناہموریاں درج ذیل ہیں۔(i) اگرصرف معاشی ناہمورایوں اور تفاوت کا ذکرکیا جائے توہماری قومی آمدنی کی ترقی کی شرح نمو ہمیشہ یکساں نہیں بڑھتی رہی ہماری قومی آمدنی کی شرح نمو کی رفتار(8 فیصد سے زیادہ) بھی رہی اور بدتر(3 فیصد سے کم)
(ii) ہمارے مختلف علاقوں میں معاشی ترقی کی شرح رفتار کبھی بھی یکساں نہیں رہی۔
کچھ علاقوں میں شرح رفتار بہت اچھی رہی اور کچھ میں برُی۔ہماری یہ صورت حال نہ صرف بین الصوبائی تھی بلکہ یہ صوبوں کے اندر مختلف علاقوں،مختلف ڈسٹرکٹ ، مختلف تحصیلوں میں بھی ہے۔دیہی شہری علاقوں میں تفاوت کا موجود ہونا اورمختلف طبقات میں بھی تفاوت موجود ہے۔
iii)انفرادی تفاوت،لوگوں کی آمدنیوں کے درمیان بہت زیادہ تفاوت موجود ہے۔یہ ستم ظریفی ہے کہ غربت کی لائن کے نیچے بھی لوگوں کی آمدنیوں میں تفاوت کی وجہ سے غریب لوگوں کو غریب،بہت زیادہ غریب اور آمدنی نہ ہونے کے برابر غریب لوگوں میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ نہ صرف یہ کہ یہ تفاوت موجود ہے بلکہ معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ بڑھتا چلارہاہے۔کیونکہ افراط زر کی شرح کبھی بہت زیادہ کم نہیں رہی بلکہ مسلسل کمی بھی نہیں ہوتی۔بلکہ شرح افراط زر میں ہمیشہ کبھی کم اور کبھی بڑھنے کا رحجان رہا ہے۔
اب پاکستان کی معاشی ترقی کو اُوپر دئیے گئے بیانیہ کی تناظرے میں دیکھا جائے تو پاکستان کے ان70سالوں کو اندورنی اور بین الاقوامی صورت حال کے پیش نظر آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جوکہ درج ذیل ہیں۔
۔(1۔1947۔ سے 1958۔۔اندرونی آزادی کے موقع پر بہتر صورت حال لیکن بین الاقوامی طور پر اس دوران 1952 میں کوریا میں جنگ اور اُس کے پاکستان کی ابتر معاشی صورت حال پر مثبت اثرات ہوئے۔ پاکستان کی برآمدات خصوصاً پٹ سن میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور Devaluationنہ کرنے سے ہمیں کافی فائدہ ہوا۔ پاکستان میں تجارتی اور بزنس طبقہ پیدا ہوا۔ لیکن مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں معاشی اورسیاسی تفاوت و تضاد نے بھی جنم لیا۔
(2۔دس سالہ معاشی ترقی کا دور(1958۔1968)ایوب خان کا مارشل لا، USSRاور USA کے درمیان سرد جنگ،1960 میں ہماری قومی آمدنی کی شرح نمو6.77 فیصد تھی۔لیکن 1970میں یہ صرف 4.84فیصد رہ گئی۔امریکی امداد وتجارت اور امریکہ کی سرد جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا اتحادی بن کر U.S.S.R سے دوری پیدا کی اور اس بین الاقوامی صورت حال کے اثرات ہمارے معاشی ، سیاسی،معاشرتی اور Securityصورت حال پربہت زیادہ ہوئے کیونکہ بھارت نے Non-Alignedملک کے طور پر فائدہ اٹھایا اور 1965 کی جنگ میں انڈیا نے اس Diplomaticمحاذ اور فوجی محاز پر ہمیں مشکل میں ڈال دیا۔
(3۔1971-1977 کا دور۔ پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا(بنگلہ دیش جو کہ پہلے مشرقی پاکستان تھا مغربی پاکستان سے علیحدہ ہوگیا۔اور مغربی پاکستان کو پاکستان جو کہ پنجاب،سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ چار اکائیوں پر مشتمل ملک بن گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلسٹ پالیسوں کو اپنایا ۔ پاکستان کو اسلامی ممالک کے ساتھ الحاق اور بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ اتحادسے آزاد ہونے کی کوشش کی وجہ سے یہ پاکستان کا مشکل ترین دور تھا۔اندورنی اور بیرونی مزاحمت اور مخالفت کے باوجود اس دور میں پاکستان کی قومی آمدنی کی شرح نمو5فیصد سالانہ رہی۔اور اس دور میں کافی پاکستانی باہر گئے۔اور غیر ملکی Remittances میں اضافہ سے پاکستان کی ترقی پر اچھا اثر ہوا۔اور شرح نمو میں اضافہ ہوا۔اس دور میں 1973میں قومی اتفاق رائے سے پاکستان کا آئین بنا جس کے سیاسی اثرات دور رس رہے۔ پاکستان کی خارجی پالیسی میں بھی اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات اور کسی ایک سپر پاور کا اتحادی نہ ہونے کی کوششوں کی وجہ سے کافی دور رس اثرات کی حامل رہی۔ اِسی دور میں پاکستان نے اٹیمی قوت بننے کی کوشش شروع کی جس سے ملک کو معاشی طور پر مشکل بنایا۔
4۔(1977۔1988) ضیا الحق کا دور۔اس دور میں پاکستان نے امریکہ کی طرف سے سویت یونین کی مداخلت کی اور USA سے جو امداد ملی اُس سے پاکستان کی ترقی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔اور پاکستان کی شرح نمو1980میں 6.45فیصد رہی۔لیکن پاکستان میں ضیا الحق دور کی اندرونی اور بین الاقوامی حالات کے دور رس اثرات پوری معاشرتی ڈھانچہ اور سوچ پر ہوئے۔جن سے انتہا پسندی نے جنم لیاجوکہ پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ ہے اور طالبان ایک قوت بن کر ابھرے ۔
5۔ 1988-1998 کا دس سالہ دور جس میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دو دفعہ وزارت عظمٰی کا عہدہ سنبھالا اور دونوں دفعے اپنی مدت پورے نہ کرسکے اور پھر1998 میں مشرف نے عہدہ اقتدار سنبھالا اِس دور کو جہاں پر سیاسی استحکام حاصل نہ ہو سکا وہاں پر بین الاقوامی طور پر IMFْْْْْWorld Bank / کی پالیسیوں کو اپنانا پڑا۔ اِس عرصہ کو”Structual Adjustment Programm”کے نام سے معاشیات دان اکبر زیدی نے لکھاہے کہ پاکستان نے صرف اِن اداروں کے “DIKTAT” کو Follow کیا۔ 1990میں قومی آمدنی کی شرح نمو 4.6تھی اور1998-2003تک شرح نمو 4.32رہی۔ اس دو میں نہ صرف معاشی اورسیاسی عدم استحکام رہا بلکہ سیاست میں لیں دین یاCorruption اور Nepotirm نے جنم لیا اور بین الاقوامی قوتوں کا اثرورسوخ بڑھ گیا۔
6۔ 1998-2008مشرف کے دور میں IMFْْْْْWorld Bank / کیطرف سے معاشی پالیسیوں کوبہت زیادہ اہمیت دی گی اور اُن کو پاکستان کی معاشی صورت حال بہتر بنانے کے لیے شوکت عزیر کے ذریعہ لاگو کیا گیا ۔مشرف حکومت کے 1998سے 2001تک کے دور میں اگرچہ معاشی ترقی کی رفتار اور تبدیلیاں کم نظر آتی ہیں لیکن پھر ایک بین الاقوامی واقع نے صورت حال کو مشرف حکومت کو سیاسی فائدہ اٹھانے اور معاشی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا موقع دیا۔ 11ستمبر2001ْ کا واقعہ جس میں USA کوجنگ کی صورت کا سامنا کرنا پڑا اور وہ افغانستان میں طالبان جو کہUSSRکے ساتھ جنگ میں اتحادی بن کر طالبا ن کے خلاف جنگ لڑی جو کہ افغانستان میں لڑی گی لیکن اُس کے سیاسی تمدنی،معاشی اور سماجی بہت زیادہ اثرات پاکستان پر ہوئے۔ 1998-2003کے درمیان پاکستان کی معاشی نمو کی شرح 4.32فی صد تھی۔ 2007-2008میں قومی آمد ن کی شرح نمو 5فی صد تھی لیکن 2003-2008کے درمیان معاشی اور قومی آمدنی کی رفتار 4فی صد رہی۔ اور اِس دورمیں اندرونی حالات اور پالیسیوں کی بجائے بین الاقوامی صورت حال اور خصوصاًUSAکی افغانستان میں جنگ نے کردارادا کیا۔پاکستان میں مختلف ممالک نے اندرونی گروہ بندیوں کے زریعہ اپنی proxy warsکے لیے پاکستان کی سر زمیں کو استعمال کیا۔ جس سے ہمارے ہاں نہ صرف افغانی مہاجرین آئے بلکہ اندرونی displacementنے سماجی ڈھانچہ کو بدل دیا۔اور demogarphic تبدیلیاں بھی مختلف صوبوں پر اثر انداز ہوئی۔ نوجوانسل پر اِس صورت حال کا ذہنی طور پر برا اثرہوا۔
7۔ (2008-2013)آصف زرداری کے دور میں بیرون اور اندرون ملک سیاسی مفاہمت کی پالیسی ترجیح رہی۔ آصف زرداری کے دور میں اندرونی طور پر 1971کے آئین میں 18ترمیم جس سے صوبوں کو زیادہ اختیارات دیے گے۔ خیبر پختونخوا کا صوبہ کے طور پر نام ،تیسری دفعہ Prime Minster اور قومی مالیاتی ایوارڈNational Finance Awardصوبوں کے درمیان تقسیم کا فارمولا سیاسی مفاہمت کی پالیسیوں میں بہت زیادہ دور رس اثرات کے حامل ہیں، بین الاقوامی محاذ پرآصف زرداری کی چین اور ایران کے ساتھ دوستی کو مستحکم کر نے کی کوششوں اور بھارت سے اختلافات کی وجہ سے افغانستان سے بھی تعلقات میں سرد مہری سے طالبان نے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں جنگی صورت حال پیدا کر دی اور Terrorismپاکستان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بن گیا۔ اِس دور میں یوسف رضا گیلانی نے زراعت کے لیے بہت اچھی پالیسیوں کا اعلان کیا ۔2011-2012 میں معاشی نمو کی شرح رفتار3.8تھی جبکہ زرعی شعبہ میں ترقی کی رفتار بھی 3.6فی صد تھی۔اس دور میں عدلیہ کی طرف سے اپنے آپ کو مضبوط ادارہ کے طور پر معاشرہ میں اگرچہAccountabilityاور انصاف کی فراہمی کی جدوجہد کی گئی لیکن عوام اور ملک میں مجموعی طور پر مثبت اثرات کم نظر آئے۔
8۔ 2013-2017نوازشریف کے دور میں معاشی منصوبوں کی ترقی۔انرجی سیکڑ میں ترجیح اور چین کے ساتھ China – Pakistan Economic Corridorکا معائدہ شامل ہیں۔ پاکستان میں معاشی ترقی کی شرح نمو2012-2013میں جو کہ 3.8فی صد تھی۔ 2016-17میں بڑھکر 5.28فی صد ہو گی۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی اور افغانستان کے ساتھ ساتھ ایران سے بھی تعلقات میں سرد مہری نے پیچیدہ صورت حال اختیار کر لی۔ اِس وقت پاکستان بین الاقوامی صورت حال کی وجہ سے ایک بہت اہم ملک ہے کیونکہ یہ نہ صرف خود ایٹمی طاقت ہے بلکہ یہاں پر اِس خطہ میں تین ایٹمی قوتیں (بھارت،چین اور روس) موجود ہیں۔ دو ایسی طاقتیں جو کہ مذہب کے حوالہ سے ہر قسم کی جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہیں (ایران اور افعانستان) ہیں۔ اِس وقت پاکستان میں نہ صرف سرمایہ کاری بڑھے گی بلکہ بین الاقوامی سرمایہ کاری ہو گی ۔ اِس تمام صورت حال سے نمٹنے کے لیے جہاں اقتصادی برتری حاصل کر نے کے لیے مختلف ممالک نبرد آزما ہونگے۔وہاں پر باہر کے لوگوں کی آبادی بڑھنے سے نہ صرف سماجی،تمدنی تہذیبی تبدیلیاں آئیں گی۔اور معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک پاکستان میں نہ صرف دوبارہ مختلف گروہ اور مداخلت سے law and order کی صورت حال کوا ثرانداز ہوگے وہاں پر مختلف ممالک سے آئی ہوئی آبادی کی وجہ جرائم اور خصوصا drug mafia،سمگلنگ اور غیر قانونی کاروبار میں اضافہ ہوگا۔پاکستان کو اگلے دس سالوں میں ان تمام بڑی تبدیلیوں کی وجہ سے جو سیاسی افرادی صلاحیتوں کی کمی مقابلہ و ساعت اور بے روزگاری سما جی،معاشی،معاشرتی،مذہبی مسائل کے لیے اپنے آپ کو تیار کرناہوگا۔اور آپس میں نہ صرف صوبائی اور سیاسی ہم ٓاہنگی کو بڑھناہوگا۔بلکہ ان مسائل کے لیے ایک اتفاق رائے کے ساتھ ایک ایسا عمرانی بیانیہ عوام کے سامنے لاناہوگا۔جس پر نہ صرف اتفاق ہو بلکہ اُسے عوام کی فلاح و بہبود ہو ترقی اور بہتری ہو۔
پاکستان کے آئندہ عمرانی معاہدہ میں سب سے اہم بات یہ ہوگی کہ ہم عوام کے حقِ حاکمیت کو صرف ووٹ تک محدود نہ رکھے بلکہ عوام کی حق حاکمیت کوپاکستان کے وسائل پر اور اُن کے ذریعے ترقی کے اثرات و سیاست کے انقلابی نعروں اور تبدیلی کے خوابو ں تک محدود کرنے کی بجائے عملی شکل دے کر عوام کو حق حاکمیت منتقل کریں۔ پاکستان کے آیندہ دس برسوں میں تین اہم مسائل ہونگے۔
(1) انتہا پسندی اور دوسرے ممالک کی پاکستان کی سر زمین پر لڑائی ۔
(2) پاکستان میں آیندہ دس برسوں میں پانی کا شدید بحران ہوگا۔جو کہ نہ صر ف بھارت کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر ے گابلکہ صوبوں اور لوگوں میں تفریق کا باعث بنے گا۔
(3) پاکستان کی تقریباً 70 فیصد آبادی 15 سے 45سال کی ہوگی۔جو کہ ایک طرف ملک کی ترقی میں اہم کردار کر سکتے ہیں۔لیکن موجودہ صورت حال کی وجہ سے یہ آبادی پاکستان میں ایک negative صورت حال بھی پیداکر سکتی ہے۔
اس تمام اندورنی اور بیرونی صورتحال اور اس پیدا ہونے والے مسائل کو آئندہ دس سالوں میں قوم کو یکجا کرکے ہی حل کیا جاسکتاہے۔لیکن اُس کے لئے نہ صرف اپنی انتہاپسندی کی سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا۔اور رواداری،مفاہمت اور تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کو سیاست،مذہب،معاشرت،تمدن اور معشیت کا محور بنانا ہوگا۔انفرادی فلاح و بہبود اور حقِ حاکمیت اور ملکیت ایک گروہ اور طبقہ جو کہ اشرافیہ کہلاتا ہے کی اس ملک میں وسائل پر قبضہ کی وجہ سے سیاست پر اجارہ داری اور اپنے آپ کو عوام الناس سے علیحدہ اور بہتر سمجھنے کی سوچ کو بھی ، انتہاپسندی کی سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔صف طبقہ،علاقائی،مذہبی گروہ بندی،لسانی اور تمدنی طور پر بہتر سمجھنے کی سوچ سے بالاتر تمام مفلوک حال انسانوں کی بہتری کے لئے اُن پر رحم کھا کر اور انہیں اُن کے حقوق کو خیرات کے طور پر تقسیم کرنے اور‘انقلاب ’اور‘تبدیلی کے بلند وبانگ ’دعوی کی بجائے ملک میں اس نئے بیانیہ کے لیے اجتماعی کوشش کرناہوگی۔کہ اس ملک کے تمام انسانوں کو آزادی،اُن کے تمام سیاسی،سماجی،معاشی حقوق ہیں بلکہ ملک کے وسائل پر اُن کا حق تسلیم کرکے اُن کے وہ تمام حقوق اُن کو ملیں جن کے وہ حقدار ہیں۔پُرامن اجتماعی جدوجہد اور سوچ کی تبدیلی کا بیانیہ جو کہ لوگوں کو اُن کے تعلیم،صحت،روزگار،پانی،روٹی،مکان،اپنی مذہبی،سیاسی،لسانی،اپنی تمدنی اور روادری،مفاہمت،آزادی،ماحول کی ہر قسم کی پراگندگی اور سکیورٹی،انصاف اور جوبداہی،کرپشن سے آزادی،استحصال سے آزادی کو اُن کا حق سجھیں۔اور اُس کے لئے اُنہیں جدوجہد کرنے دیں تاکہ اُنہیں رحم کھاکر اور اپنی طرف سے بخشیش نہ دیں۔ نیا عمرانی معائدہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اور اداروں میں نہیں ہونا چاہیے ۔ بلکہ دو طبقات کے درمیان ہونا چاہیے : وہ طبقہ جو عوامی وسائل پر قابض ہے اور مفلوک الحال عوام جو وسائل سے محرم ہے ۔ یہ عمرانی معائدہ آئین میں ترامیم کے ذریعہ پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منظور ہو اور تمام سیاسی پارٹیوں کے منشور کا حصہ ہو ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *