گِدان کے سامنے سے ایک بگولہ چکرا کر تیزی سے گزرگیا۔اِس چلچلاتی دھوپ اور جلسا دینے والی گرمی میں کسی انسان کا باہر نکلنا تو محال ، بھیڑ بکریاں بھی کھجور کے اُن چار درختوں کے سائے تلے آنکھیں نیم بند کر کے جگالی کر رہی تھیں جو گاﺅں کے واحد اور پرانے کنویں کے ارد گرد اپنی پتلی مگر اُونچی قامت کے ساتھ دورسے نظر آتیں اور اِس ویران ، سنسان صحرا میں آبادی کا پتہ دیتیں۔سورج آگ برساتا ہوا۔پگڈنڈیوں پراپنے پورے آب وتاب سے چمک رہا تھا۔ کنویں کا پنگھٹ ویران پڑا تھا۔ لُوچلنے سے کنویں کے پن گول گول آگے پیچھے حرکت کر رہے تھے۔ اِس تپتی دوپہر میں گاﺅں کے تمام باشندے اپنے جھونپڑوں میں قیلولہ میں تھے۔ گاﺅں سے کچھ پرے دور ریت کے اونچے ٹیلے کے بغل میں بھیڑوں کے اُون سے بنا ہوا گِدان تنِ تنہا گڑا ہوا تھا۔ گِدان میں بوڑھا جوڑ اگرمی کی شدت سے نڈھال اوندھے مُنہ لیٹے آرام کر رہا تھا۔ ایک طرف ان کی اکلوتی ، گویائی کی نعمت سے محروم بیٹی زینت لیٹی ، صحرا کے سراب کا انہماک سے نظارہ کر رہی تھی۔ جو اُس کی سوچوں کی مانند نامعلوم منزل کی سِمت بہے جارہا تھا۔ اس کی پیشانی پرپسینے کے قطرے موتیوںکی طرح چمک رہے تھے ۔ اضافہ کے سبب وہ سفید گلے کے راستے سے لُڑھک کر سینے میںکسی ہوئی بوسیدہ اور میل سے جمی ہوئی گریبان میں جذب ہورہی تھیں۔ تین افراد پر مشتمل اِ س مختصر خانہ بدوش خاندان نے اس گاﺅں میں چار ماہ قبل اپنا ڈیرہ ڈالاتھا۔ اُن کے ساتھ بھیڑ بکریوں کاریوڑ اور اُونٹوں کا ایک جوڑا تھا۔ قحط سالی کے سبب اُونٹوں کے کوہان پیٹھ سے ہموار اور اُن کے پسلیاں خشک سالی کی واضع طورپر اشارہ کر رہی تھیں۔ گِدان کے اندر ایک کونے میں لٹکی ہوئی مشکیزے سے پانی کی بوندیں”ٹپ ٹپ “ کرتی سُنہری ریت میں جذب ہورہی تھیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے بہتے ہوئے بے منزل سراب میں غُوطہ زن تھی کہ اُسے سراب کے اُس پاراُڑتی ہوئی دُھول نظر آئی ۔ آنکھیںسکیڑکر دیکھنے پر اُسے ریوڑ کا ہیولا معمولی سانظر آیا۔ اُس کی اُداس اور بے چین آنکھوںمیں ایک چمک سی پیدا ہوگئی اور خفیف سی مُسکراہٹ اُس کے ہونٹوں پہ پھیلتے ہوئے باچھوں تک گئی۔ اُس کی کافور سے سفید دانت سورج کی چمک سے ٹکرا کر اور چمک گئیں۔ ریوڑ دھول اڑاتا ہوا کنویں کی سمت آرہا تھا۔ ریوڑ کے پیچھے چرواہا ایک ہاتھ میں چھڑی تھامے ریوڑ کو ہانک رہا تھا۔ اس کا میلا کچیلا لباس پسینے میں شرابور تھا۔ وہ سر پر سیاہ رنگ کی بوسیدہ پگڑی پہنے تیز قدم اٹھاتا ہوا کنویں کی طرف آرہا تھا۔ اُس کا پھٹا پرانا لباس جگہ جگہ پیوند شدہ تھا۔ دائیں کندھے پر مشکیزہ جھول رہا تھا۔ جس سے صاف پتہ چل رہا تھاکہ مشکیزے میں پانی کی مقدار کم ہے۔ اور بائیں کندھے پر پوٹلی لٹک رہی تھی جس میں روٹی کا ایک خشک ٹکڑا ، دودھ دھونے کا کٹورا اور مُٹھی بھر بُھنے ہوئے چنے کس کر بندھے ہوئے تھے۔ زینت نے کنکھیوں سے اپنے باپ پر ایک ہلکی سی نظر ڈالی اور آہستگی سے اُٹھ گئی ۔ مٹی کا گھڑا سر کے میان میںرکھ کر کولہے مٹکاتی ہوئے دبے قدموں سے پنگھٹ کی اورروانہ ہوگئی ۔ گرم ریت پر اپنے ننگے پیروں کے نشانات ثبت کرتے ہوئے کچھ ہی دیر میں پنگھٹ پر پہنچ گئی۔ اُس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ وہ بے چینی اور خوف سے کبھی گدِان کی طرف تو کبھی آتے ہوئے ریوڑ کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ بھیڑوں کا ریوڑ بھاگتے ، دھول اُڑاتے ہوئے حوض پر پہنچ گیا۔ چرواہا نے زینت کو اپنے سامنے پاتے ہوئے ہلکی سی مُسکراہٹ سے اپنی خوشی اورمسرت کا اظہار کیا۔ اور اگلے لمحے کنویں سے ڈھول بھر پانی نکالا اور گھڑا بھر دیا۔ زینت نے آنکھوں کے اشارے سے چرواہے کو ہاتھ آگے کرنے کا حکم دیا۔ چرواہا نے ہاتھوں کے آبخورے بنا کر حکم کی تعمیل کی ۔ چرواہا پانی کم، زینت کی سیاہ غلافی آنکھوں میں زیادہ دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی چرواہا کی آنکھوں میں آنکھیں چار کر کے دنیا جہاں سے بے نیاز ہوگئی تھی۔ پانی کادھار امٹکے کے منہ سے نکل کر چرواہا کے ہاتھوں کو مس کرتے ہوئے نیچے گرم ریت میں جذب ہورہاتھا۔ انھیں لگا وقت جیسے تھم گیا ہو ۔ بکریوں کی ممیا نے اور بھیڑوں کے گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹیوں کی آوازیںجیسے دور سے آرہی ہوں۔۔۔۔ وہ اِس سے پہلے کئی مرتبہ پنگھٹ پر اِسی وقت لمحہ بھر کوملتے اور الگ ہوجاتے ۔چرواہے نے اُس کی آواز کبھی نہیں سنی تھی۔ کیونکہ زینت بچپن میں حادثی طور پر گونگی ہوگئی تھی۔ وہ سب کچھ سن تو سکتی تھی مگر بول نہیں سکتی تھی۔ اُ س نے اپنے ہاتھوں کو اپنی زبان بنا کر رکھا تھا۔ وہ ان ہی کے اشاروں سے بات کرتی ۔ چرواہا بھی اُسے اُسی کے زبان میں جواب دیتا ۔ ایک گرج دار آواز نے سناٹے کا سکوت توڑدیا۔ وقت جہاں تھما تھا، ایک بار پھر اپنی ڈگرپر آگیا۔ سورج کی تمازت کا احساس ایک بار پھر انہیں اپنی بدن پر محسوس ہوا۔مِٹی کا گھڑا کا نپتے ہاتھوں سے چھوٹ کر حوض کے سخت کنارے سے ٹکرا کر مختلف حصوںمیں تقسیم ہو کر بکھر گیا۔ اس نے بھاری پلکیں اُٹھا کر دیکھا تو اُس کا باپ نتھنے پھیلائے اُسے قہر آلود نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ چرواہا اپنی دم بخود آنکھیں پھاڑے ملتجیانہ نظروں سے بوڑھے کو تک رہا تھا۔ بوڑھے نے غصے سے زینت کی آستین کو پکڑتے ہوئے گھسیٹتا ہوا گِدان کی طرف روانہ ہوگیا۔ چرواہا ساکت کھڑا باپ بیٹی کو نظروں سے اُوجھل ہوتے دیکھتا رہا۔ اور اپنی بے بسی پردل ہی دل میں کڑھتا رہا۔ آہ بھر کے وہ دوزانو حوض میں بیٹھ کر اپنے گرد آلود چہرے پر چھینٹے مارنے لگا۔ اُس کے دل میں وسوسوں نے اچانک سر اُٹھانا شروع کر دیا۔ اُسے اپنا دل بیٹھتے ہوئے محسوس ہوا۔ وہ اپنے قبائلی رسم و رواجوں سے بخوبی واقف تھا۔* شام گہری ہوتی جارہی تھی۔ آسمان پر ستارے نمودار ہورہے تھے۔ بڑھیانے دِیا سلائی جلا کر چراغ روشن کی۔ ”زینت کی امی چلنے کی تیاری کرو“ ۔ بوڑھے نے چراغ کی لومیں نظریں گاڑھتے ہوئے کہا۔ ”تمہاری ناک کے نیچے تمہاری بیٹی کیا گُل کُھلارہی ہے اور تمہیں خبرتک نہیں“ ۔ لہجے کی کرختگی سے بڑھیا سہم گئی اور کچھ نہ بولی ۔ بوڑھے کے فیصلے سے زینت کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اُسے زمیں سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔* مختصر سامان اُونٹ کی پیٹھ پر لادے قافلہ کسی نا معلوم منزل کی طرف رواںدواں تھا۔ گُھپ اندھیری رات میں سوائے جھلملاتے تاروں کے اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ دور دور تک تاریکی چھائی ہوئی تھی اور چاندبھی کہیں کھوگیا ہے ۔ بھیڑوں کے گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹیوں کی”ٹن ٹن“ سے خاموش فضا گونج رہی تھی ۔ وہ ٹیلے پہ ٹیلے پار کرتے چلے جارہے تھے۔* دن بھر بھیڑیں ریگستان میں چرنے پھرنے سے تھک کر آنکھیں بند کیے سستارہی تھیں۔ نوجوان چرواہا ریت پر پاﺅں پسارے لیٹا آسمان کی وسعت کا عمیق نظروں سے مشاہدہ کر رہا تھا۔ وہ فضا میں مست کر دینے والی خنکی سے خود کو تسکین دے رہا تھا۔ رہ رہ کے اس کی نگاہوں کے سامنے اس دوپہر کا منظر اُبھرتا تو وہ مضطرب ہو کر کروٹ پہ کروٹ بدلتا ۔ کبھی اٹھ کر لمحہ بھر کے لیے بھیڑوں کو دیکھتا ، پھر لیٹ جاتا۔ دن بھر کی تھکان کے باوجود نیند اس کی آنکھوں سے اُڑ ہوچکی تھی۔* قافلہ رات بھر بنا ر کے سفر کرتا رہا۔ سحر ہونے میں کچھ ہی دیر تھی کہ اس مختصر قافلہ نے ایک اجنبی جگہ پر پڑاﺅ ڈال دیا۔ بوڑھے انے اُونٹ کی مہار کھینچ کر اسے بٹھایا۔ اونٹ کے چنگھاڑنے سے خاموش فضا گونج اُٹھا۔ اگلے لمحے خیمہ نصب ہوا۔ پوپھٹنے سے قبل زینت کو محسوس ہوا کہ اسے ”زینت “،”زینت“ کہہ کر کوئی شانوں سے بلا کر پکاررہی ہے ۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ۔ رات بھر سفر کی تھکن ابھی تک اتری نہیں تھی۔ اسے اپنا بدن ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا ۔ تھکن اور نیند کی کمی سے اس کے شانے ابھی تک بوجھل تھے ۔ آنکھیں خمارآلود اور لبوں پر خشکی کے احساس سے اپنی زبان خشک ہونٹوں پر پھیر کراس نے اپنی نیم واپلکوں سے چاروں طرف کا جائزہ لیا تو اسکی گردن ایک زاویے پر اٹک گئی۔ یکا یک اس کی آنکھوں میں رچا ہوا خماردور ہوگیا۔ اور آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔ یہ وہی خانہ بدوشوں کی چھوٹی سی خیمہ بستی تھی جہاں اس کے سب رشتہ دار مل جل کر رہتے تھے۔ یہاںپہ اسکا کزن رہتا تھا۔ جسکی لال اوربڑی بڑی آنکھیں ہمہ وقت اس کا تعاقت کرتی تھیں اور اسے اس کے وجود سے نفرت تھی۔ اس کے چہر ے کی رنگت پیلی ہوگئی جیسے کسی نے پل بھر میں اُبٹن مل دیا ہو۔ وہ خالی نظروں سے خلا کو تکے جاری تھی اور تکتی گئی۔* سورج صبح اور درمیانی وقفے میںآگیا تھا کہ بوڑھا گِدان میں داخل ہوا جہاں زینت اور اس کی بوڑھی ماں بیٹھی تھیں ۔ بوڑھا کچھ دیرخاموش رہنے کے بعد گویا ہوا۔ ”اس سے بہتر راستہ اور مجھے نظر نہیں آیا۔ غیرت کی لاج رکھنے کے لیے میرے پاس دو ہی راستے تھے ۔ ایک وہی جو مجھے موقعہ پر اختیار کرنا چاہیے تھا جو میں نہیں کرسکا ۔ دوسرا یہ کہ آج رات تمہارا نکاح پیر بخش سے مقرر ہوا ہے“۔ یہ کہہ کر بوڑھے نے کٹورے کا ساراپانی حلق میں انڈیل دیا۔ اور خیمے سے باہرچلا گیا ۔ اس انکشاف سے اُس کے پا¶ں تلے زمین ڈولنے لگی اور ڈولتی چلی گئی۔ اس کے منہ سے بے اختیار فرطِ کرب سے آہ نکلی۔ اس کی آنکھیں کھجور کے پتوں سے بنائی ہوئی چٹائی پر جس نقطے پر ٹکی تھیں، ٹکی رہ گئیں۔ پیر و جہاں بھر کی باتیں کرتا رہا۔ اس کی بے تکی باتیں سننے اور کھیل میں ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی زبان کی طرح اب اس کا بدن بھی خاموش ہوچکا تھا۔ چرواہا اس کے انتظار میں معمول کے مطابق پنگھٹ پر بے چینی سے یہاں وہاں چہل قدمی کرتا رہا۔ تجسس اور اندیشوں سے اس کی کیفیت بدلتی جارہی تھی۔ اس نے جیسے ہی بھاری پلکیں اُٹھا کر گِدان کی سمت دیکھا…….. اُونچے ٹیلے کے بغل میں گِدان موجود نہیں تھا۔ اس کے پا¶ں جہاں تھے وہیں جم کے رہ گئے۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا ۔ کان کے عقب سے پسینے کی ایک پتلی دھار ڈھلک کر میلے سے کالر میں جذب ہوگئی۔بے اختیار اس کا دایاں ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور سر پر بلندی ہوئی پگڑی کی گِرہ کھول کر ایک طرف اچھال دیا۔ اس کے سیاہ ریشم جیسے لمبے بال کمر تک بکھر گئے۔ اس نے بایاں ہاتھ قمیص کے اندر ڈالا اور پیٹ پر لپٹا ہوا موٹا کپڑا نکال باہر کرکے پرے دور ریت پر پھینک دیا۔ اس کی چھاتیاں اُبھر کر سامنے نمایاں ہوگئیں۔ اگلے لمحے اس کے خشک حلق سے ایک نِسوانی چیخ نکلی اور اندھیرے ، گہرے کنویں میں چھلانگ لگادی۔” غپ“ کی صدا گونجی اور پھر سناٹا چھا گیا۔
Check Also
کون گلی گئیو شیام ۔۔۔ مصباح نوید
اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...