Home » پوھوزانت » انجمن ترقی پسند مصنفین ۔۔۔۔۔۔۔ برکت شاہ کرکڑ

انجمن ترقی پسند مصنفین ۔۔۔۔۔۔۔ برکت شاہ کرکڑ

کوئٹہ کی جامد و سا سکت ادبی فضا میں اس وقت ایک بھونچال آگیا جب خبر پہنچی کہ سلیم راز صاحب اپنے ساتھیوں سمیت ” انجمن ترقی پسند مصنفین “ کی مردہ روح میں جان ڈالنے کے لےے کوئٹہ میں طویل قیام کریں گے ۔ سلیم راز کی آدرش، مستقل مزاجی اور بے مثال علمی و ادبی کاوشیں تو ہمارے سامنے تھیں ہی، اب جبکہ اپنے ساتھیوں سمیت بلوچستان کے ادیبوں کو ” ترقی پسند “ کی نئی اور ولولہ انگیز جہتوں سے روشناس کرانے آرہے تھے تو یک لخت دماغ میں علامہ اقبال کا مصرعہ حباب کی طرح امڈ آیا :
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگاد و
ہم تاڑ گئے کہ ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا کوئی لشکر مذکور جو روشنی اور سفیدی سحر کی خوشخبری سنانے ٹھہرا تھا اب پہنچ گیا۔ دل و دماغ میں بیک وقت تشکری و الہانہ احساس او رتبدیلی کی مرتی ہوئی امیدیں ٹھاٹھیں مارنے لگیں کیونکہ یہی تو ” انجمن ترقی پسند مصنفین ہند“ ہی کا ایک ترقی یافتہ وارث ہے جس نے برطانوی ہند میں اظہار اور مزاحمت کے نئے مضامین ، اشعار اور اسالیب کی داغ بیل ڈالی ہے ۔ یہ تحریک جو اصل میں سامراجیت کی ضد تھی اور بائیں بازو کی نمائندگی پر استبدادی حقیقتوں کو ایک مسئلے کے طور پر پیش کرکے اس کو محکوموں کے حق میں تبدیل کرانے کے لےے قارئین کے ذہنوں میں سوالات ڈال رہی تھی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین ہند کو بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کے قومی اور علاقائی ادب میں وہی حیثیت حاصل ہے جو اس خطے کی تہذیب و تمدن میں گنگا اور دریائے سندھ کو حاصل ہے۔ ادب کے اس مرکزی دھارے سے لیس زبان نے کتنا پایا یہ ہماری محکوم مقامی قومی زبانوں کی جدید نثر اور نظم کی تاریخ سے بخوبی عیاں ہے۔ آزادی ہند کے بعد سرحد کے دونوںجانب سے معاشی برابری اور سماجی انصاف کے حصول کے لےے سیاسی تحریکیں اسی تنظیم کی وساطت سے پھلتی پھولتی رہیں۔ ادھر پاکستان میں فیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ، سعادت حسن منٹو، سجاد ظہیر اور ان کے سینکڑوں تخلیق کار ساتھیوں نے اسی پیرائے میں ایسا ادب تخلیق کیا جس نے اردو کے ساتھ دیگر مقامی قومی زبانوں کے ادب او رسیاسی طرز فکر و عمل پر گہرے نقوش چھوڑے۔ قید و بند کی صعوبتوں نے ترقی پسند مصنفین کی شعلہ نوائی کو مزید نکھار بخشا اور اس طرح جبر اور استحصال کے مروجہ طاقتی ڈھانچوں اور نظام کار کے خلاف جو گہرا تنقیدی شعوراور حسی ادراک پیدا ہو اس نے کوئے یار اور سوئے دار کی قلابیں ایک کردیں۔
اب جب برسوں بعد ہم نے اسی تنظیم کو اک نئی انگڑائی لینے کے لےے آمادہ پایا تو فرط اضطراب سے تنظیم کے جنرل سیکرٹری سلیم راز اور ان کے ساتھیوں کا انتظار کرنا شروع کردیا۔ سلیم راز جہاں گذشتہ پانچ برس سے پشتو زبان و ادب کو اپنی فاعلی اور تخلیقی موجودگی سے نکھار بخش رہے ہےں وہاں وہ 74 سال کی عمر میں ایک نو خیز لڑکے کا آدرش اور تبدیلی کا امکان بھی رکھتے ہیں۔ قصہ کوتاہ آخر کار خبر پہنچی کہ انجمن ترقی پسند ادب کی تشکیل نو کے لےے مارچ2013 کے آخری ہفتے میں مشاعرے اور مذاکرات کا انعقاد کیا گیا ۔ زمان و مکاں کا ابھی کوئی پتہ نہیں تھا ہم نے جانا کہ اسی میں کوئی مصلحت ہوگی ۔ پھر ایک دن ہمارے ایک باقاعدہ ادیب دوست نے بذریعہ ٹیکسٹ میسج مطلع کیا کہ انجمن ترقی پسند ادب کے مذاکرے اور مشاعرے میںشرکت کے لےے فی الفور تعمیرنو سکول آرچر روڈ پہنچ جائیں ۔( یہ سکول جماعت اسلامی چلاتی ہے) یہ اپنی نوعیت کا پہلا دھماکہ تھا کہ جس نے ہمارے پائے استقلال میں لغزش پیدا کردی ۔ ترقی پسندی اور مکتب مذکور کے درمیان کیا رشتہ رہا ہے۔ قدر مشترک بس یہی ہے یہ ایک دوسرے کے فطری اضداد گردانے جاتے ہیں۔ اضداد کا یکجا ہونا ویسے جدلیاتی مادیت کے سائنسی مسلک میں خوش آئند ہے لیکن اس طرح سے یکجا ہونا کہ ” نہ کوئی بند ہ رہا نہ کوئی بندہ نواز“ تاریخی عمل کی یکسر نفی کرتا ہے ۔ دنیا میں ہوتا ہوگا پر ہم نے پہلی دفعہ ایسا ہوتے دیکھا کہ دائیں بازو کے مکتب میں بائیں بازو کے ارتعاشی فکر کو سننے اور سنانے کے لےے اہل علم و نظر کو یکجا کیا جارہا ہے ۔ اگرچہ اس مذاکراہ اور مشاعرے کے لےے منتخب کردہ جائے وقوعہ ایک ضمنی اور ظاہری موضوع ہے لیکن معنوی اعتبار سے یہ ایک بہت بڑی تبدیلی کی غمازی کرتا ہے جو پاکستان میں بائیں بازو کی نام نہاد سیاسی تنظیموں کے وطیرے سے بھی ٹپکنا شروع ہوا ہے ۔اس تقریب میں بلوچستان کے قرب و جوار سے متعدد ادیبوں اور شعرا ءنے شرکت کی ۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ادیبوں نے مذاکرات میں شرکت کی اور شاعروں نے مشاعرے میں ۔وہ جو مذاکرہ کہلایا جاتا ہے میں تقریریں کی گئیں جب تقریریں ہورہی تھیں تو ادیب چوکنے تھے اور شاعر متفرق سرگرمیوں میں مشغول تھے ۔ ہمارے ساتھ اتفاقاً بیٹھے ہوئے ایک غیر معروف لیکن سرگرم عمل شاعر آخر تک سانپ کی طوالت زیادہ کرنے والے گیم سے شغف فرما تھے۔ ریکارڈ کی درستگی کے لےے کہنا ضروری ہے کہ یہاں پر ترقی پسند ادب کی تاریخ اور مقاصد پر روشنی ڈالی گئی۔ وہ سارے نام بار بار لےے گئے جو اس تابناک درخت کی آبیاری کے جرم میں دار پر کھینچے گئے تھے۔ لاہور اور کراچی سے جو مہمان تشریف لائے تھے اس بات پر مصرر رہے کہ بلوچستان کے خودر و ادبی تنظیموں میں لفظ” ترقی پسند“ کا پیوند لگانا نا گزیر ہے ۔ یہ پہلو غریب اور نظر انداز ادےبوں کی قبائے ویدہ میں کمخواب کا پیوند تو ثابت نہیں ہوگا اس خدشے پر بات کرنے سے گریز کیا گیا۔ تقریب کے شرکاءاس امر پر بھی زور دیتے رہے کہ ہمارے ہاں ترقی پسند ی کو عوام الناس نے غلط سمجھا ہے ‘اس کو کفر اور الحاد سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ” آپ سب گواہ ہیں کہ ہم نے اپنے پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا اور پھر نعت شریف پڑھی گئی جو کہ دائیں بازوکے سیاسی زعما اور ادبی مجالس میں بھی نہیں پڑھی جاتی ۔ اس معذرت خواہانہ وضاحت نے جہاں ہمارے اعتقاد کو ملیا میٹ کیا وہاں بائیں بازو کے فکری اور علمی موقف کو دھڑام سے زمین بوس کیا ۔اس پر مستزاد یہ کہ چشم فلک نے ایک ذمہ دار ادیب کو یہ بھی کہتے سنا کہ ” کوئی بھی کچھ بھی لکھ ڈالے ترقی پسند کہلایا جاتا ہے “۔ اس طرح کے غیر سیاسی بیان ہم نے کبھی کسی سیاستدان کو بھی دیتے ہوئے نہیں سنا تھا جس نے سرے سے غور و فکر، عقل و دانش اور لوح و قلم کے تمام مباحث کو Neutralize کرادیا ۔ اس اعتبار سے تو سعادت حسن منٹو اور نسیم حجازی کو ایک ہی قبیلے کے لوگ ماننا پڑے گا ۔ خاموش سامعین کو بار بار اس امر کا احساس دلایا گیا کہ ترقی پسند ادب کی تشکیل نو کے بہت سارے فوائد ہیں۔ یہ تنظیم ادبی دنیا کا مرکزی دھارا یا با الفاظ دیگر ” گنگا“ ہے جس سے عوامی سطح کے چھوٹے چھوٹے ادبی زمیندار اور کسان اپنی تخلیق کی بنجر زمین کو سیراب کرالیا کریں گے ۔ کل اور جز کے اس نا مساوی مساوات پر ہم نے بار ہا صدائے احتجاج بلند کیا لیکن دوستوں نے کہا مہمانوں سے باز پرس کرنا یہاں کی روایت نہیں۔ ہفتے بھر کے اس ادبی بھونچال کا منطقی انجام انجمن تشکیل نو کے لےے عبوری کابینہ کے چننے پر ہوا ۔ دلچسپ امر یہ کہ یہاں بھی سعادت حسن منٹو کے سعادت مندوں کی بجائے نسیم حجازی کے مسلک کے لوگ نمائندگی کرنے کے لےے چنے گئے۔ اب کل ملا کر بات یہ ہے کہ بائیں بازو اور دائیں بازو کے نظریاتی اشکال نے ایک ایسے رواجی تعلق کو جنم دیا ہے جس سے میدان علم و ادب میں سینکڑوں شادہ و لے آنکھیں کھولیں گے۔ اس سے فائدہ یقیناً طرفین کو ہوگا اور نقصان الفاظ ، اقدار اور مفاہم کے اس قبیل کو ہوا جس کے جادوئی اثر سے مردہ دماغ میں کوندہ ذہین کی پیوند کاری ہوجاتی تھی۔ اقداراور علامات قربان ہوئیں آدرش کو ثابت اور افکار کو تازگی بخشنے کے لےے ایک نئے سماجی ڈھانچے کی تشکیل نو کے لےے لازمی اجزاءگردانے جاتے ہیں۔ سیاست کی ادبیات اور ادبیات کی سیاست گرچہ دو متضاد دھارے ہیں لیکن نظریہ ضرورت کے تحت ان دونوں دھاروں کو یکجا کراکے ادب کا کالا باغ ڈیم آباد کیا جاسکتا ہے۔ جس سے کم از کم اہل قلم کے اضافی ( تخلیقی) توانائیوں کو مروجہ طاقتی ڈھانچے کی پائندگی کے لےے بروئے کار لایا جاسکتا ہے اور علم و ادب کے رہگزاروں سے سیاسی اور سماجی بھونچال کے کسی بھی تخلیقی امکان کو باآسانی Manageکیا جاسکے گا۔
(بشکریہ روزنامہ مشرق کوئٹہ)

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *