اندھوں کے شہر میں
آئینے بیچتے ہو
کمال کرتے ہو
بہروں کے دیس میں
بانسری بجا کر
کھوئے ہوئے مسیحا تلاش کرتے ہو
کمال کرتے ہو
گونگوں سے پوچھتے ہو
وہ چراغ کہاں چھپا ہے
جس کی لو دلوں کو گرماتی تھی
جوانوں کے لہو کی حرارت تھی
ان کے ذہنوں کو روشن کرکے
کتابوں اور قلم کی لگن بڑھاتی تھی
جہاں مڑ کر دیکھنے والے پتھر بن جاتے ہیں
اس کو ہ مردار میں زندگی ڈھونڈتے ہو
کمال کرتے ہو
سنو کہ طبل جنگ بچ چکا
ایک کمزور لڑکی بہادری کی علامت بن کر
انقلاب کا اعلان کرچکی
تم سے آگے جا چکی
کھوجتی ہے کھوتے ہوئے قدموں کے نشاں
جو سوئے مقتل جاتے ہیں
یہیں ملے گا منزل کا پتہ
یہیں سجے گا رزم کا میلہ
یہیں آخری فیصلہ ہوگا
سوچتے ہو کوئی معجزہ ہوگا
کمال کرتے ہو
کب ٹوٹی ہیں غلامی کی زنجیریں
اونچ نیچ کے بندھن۔ جبر و استبداد کے پہرے
اندھے انصاف کے اونچے ایوانوں میں
تم آس لگائے بیٹھے ہو
کمال کرتے ہو
ہانی ، ماہین اور مائخان واحد بخش بلوچ کی بیٹیاں ہیں جو اگست سے لاپتہ ہیں)۔۔)
Check Also
زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا امینی
ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...