Home » پوھوزانت » سمولینی میں لینن کے شب و روز ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

سمولینی میں لینن کے شب و روز ۔۔۔ سلمیٰ اعوان

سمولینی میوزیم۔ انقلاب کا حقیقی گڑھ اور گھر
ایسا توہرگز نہیں تھا کہ میں نے ان کے حُسن و خوبصورتی کو سراہانہ ہو۔یا یونہی آنکھیں بند کر کے پاس سے گزر گئی ہوں۔نیوا کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اُسکے بالائی کنارے کے خوبصورت کٹاؤ پر ہی قریب قریب سمولنی مناسٹری سمولنی انسٹی ٹیوٹ اور ذرا آگے شاندار فن انجینئرنگ کا شاہکار بالشویکتن سکائے Bolsheokhtinsky برج تھے۔اور تینوں اپنی اپنی جگہ بے مثال تھے۔
سمولنی مناسٹری عین دریائے نیوا کے پہلے خم پر رسٹرئیلی کی شاہکار عمارتوں میں سے ایک ہے آغاز میں یہ پیٹر دی گریٹ کی صاحبزادی الیزبتھ کا کنٹری پیلس تھا۔بعد میں خواتین کیلئے کونونٹ بنادیا گیا۔دلکش پانیوں میں جھانکتی اور اپنے جلوے دکھاتی سبزہ زاروں میں گھری اس سفید اور آسمانی رنگوں میں چمکتی دمکتی عمارت کو دُور دُورسے ہی دیکھنے پر اکتفا کیااور اندر جانے پر قطعاً دل نہ چاہا۔
ٹیکسی پیلس برج سے ہی لی تھی۔ٹیکسی کا ہرگز کوئی پروگرام نہیں تھا۔یونہی ذرا چسکہ لینے کو نقشہ ٹیکسی ڈرائیور کو دکھابیٹھی۔وہ بھی کوئی خاندانی دِکھتا تھا ۔سو روبل کا کہا اور اسی پر ڈٹا۔ بھاؤ تاؤ کروانے والی ہماری طبیعت نے بھی مان لیا کہ بندہ راستی پر ہے۔بس کیلئے اب نوسکی پراسپکٹ تک ماروماری کرنی پڑنی تھی۔سوغنیمت سمجھتے ہوئے فی الفور بیٹھ گئے۔
جب میں خوبصورت کشادہ سڑک پر چلتی تھی۔اور دورویہ سفید ستونوں پر تعمیر کردہ گارڈ روموں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھتی تھی تو تاریخ مجھے پیچھے اٹھائے لئے جاتی تھی اُن دنوں میں جب سمولنی کو ایک قلعے میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔اسکی چھتوں پر مشین گنیں نصب تھیں اور بالشویکوں کے جتھے اس سڑک پر اضطرابی انداز میں بھاگتے اورجیپیں دوڑاتے پھرتے تھے۔
سفید نیلے اور سرخ پیٹوں والے رُوسی جھنڈے کے نیچے یونانی طرز کے منہ متھے والی پیلے رنگ کی پر شکوہ عمارت درختوں اورسرسبز لانوں میں گھری ہوئی تھی۔دوطرفہ راستوں کے درمیان پھولوں کی لمبی کیاریاں راستے پربچھے سفید اور سرخ قالینوں کی مانند دِکھتی تھیں۔بادامی گرینائٹ کے اُونچے گول چپوترے پر لینن اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھائے کھڑا تھا۔
ڈھیر ساری سیڑھیاں تھیں جنہیں چڑھ کر میں چوکور ستونوں پر محرابی کٹ والی گزرگاہوں میں سے ایک کے راستے برآمدے میں داخل ہوئی۔
انقلاب ایسے نہیں آتے۔حقوق کیلئے شعورو آگہی کا ادراک بنیادی ضرورت ہے۔ اس ادراک کیلئے جاننے کی لگن اور تڑپ چاہیے۔رُوسی عوام نے اسکا عملی مظاہرہ کیا تھا۔رُوس پڑھنا سیکھ رہا تھا۔سیاست سے اُسکی دلچسپی تاریخ اور فلسفہ میں اُسکا انہماک ، سماجی و معاشی نظریات کو جاننے میں اُسکا شوق بے پایاں تھا۔
جان ریڈ کی ایک تحریر اس جذبے کی عکاس ہے۔
اُنیسویں صدی کی آخری دہائی ’’ریگا ‘‘کی بیک پر بارھویں فوج کا محاذ، کیچڑ بھری خندقوں میں، ننگے پاؤں ،فاقہ زدہ اور بیمار فوجیوں جنکے چہرے پیلے، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی پہلا مطالبہ یہ کیا تھا۔ہمارے پڑھنے کیلئے کیا لائے ہو؟
یہ جذبہ یونہی پیدا نہیں ہوا۔انقلابی لیڈروں نے اپناسارا فوکس لوگوں کو علم اور شعوردینے پر صرف کر دیا تھا۔
برآمدے میں گھومتے پھرتے ہوئے میرے تصورمیں محنت کے پھولوں سے سجے وہ ہزاروں کھردرے ہاتھ ابھرے تھے جو ’’داس کیپٹل ‘‘ کی کئی جلدوں کو پھاڑ کر انکے صفحے بانٹ لیتے اور اپنی جسمانی تھکن کو انہیں پڑھتے ہوئے اُتارتے۔
کر پسکایا کی ایک تحریر ان دنوں کے بارے میں ہے۔جب تحریک عروج پر پہنچ گئی ۔ اور لینن پیٹرز برگ میں موجود تھا۔
’’اُن دنوں پیٹرزبرگ کی گلیاں عجیب سے منظر پیش کرتی تھیں۔لوگ گروپوں میں کھڑے ٹولیوں میں بکھرے بحث مباحثے میں اُلجھے ہوئے نظر آتے تھے۔ میں جس گھر میں رہتی تھی۔اس گھر کی کھڑکی کھول کر جب بھی باہر دیکھتی مجھے زور شور سے باتوں کی آوازیں آتیں۔
ڈیوٹی پر متعین سپاہی کے پاس ہمیشہ سا معین ہوتے۔نوکر خانسامے بالشویک منشویک زار زارینہ ڈوما سب کے بخیے اپنی اپنی فہم وفراست کے مطابق اُدھیڑ رہے ہوتے۔
میں اُن چاندنی راتوں کی شب بھر جاری رہنے والی سیاسی بحثوں کو کبھی نہیں بھول سکتی۔یہ سب ہمارے لئے بہت اہم ہوتا تھا۔یہ رُوسی عوام کی بیداری تھی۔یہ انکی اپنے حقوق کیلئے جنگ تھی‘‘۔
توپھر میں بلند وبالا سفید ستونوں، دوہری دیواری کھڑکیوں اور اُونچی چھت والے ہال میں داخل ہوتی ہوں۔ایک وسیع وعریض ہال جسکی چھتوں سے لٹکتے شینڈلیرز جلتی موم بتیوں کی صورت روشنیاں بکھیرتے تھے۔ اس سمولنی نے بھی رُوس کے اُفق پر چھائے ظلم وستم کے بادلوں کو اُڑانے میں تیز اور شوریدہ سرہواؤں جیسا کردار ادا کیا تھا۔
میں ہال میں سیاحوں کیلئے رکھی گئی کُرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی تھی۔یقیناًمیں اپنی کھلی آنکھوں سے اُن مناظر کو دیکھنا چاہتی تھی جو کبھی البرٹ ولیم نے دیکھے تھے۔جنکے بارے میں اُسنے اور جان ریڈ نے لکھا تھا۔
تو یہاں اسی سمولنی ہال میں سپاہیوں اور کارکنوں کے جتھے تھے۔گیت تھے۔سیٹیاں اور شور تھا۔
مشہور زمانہ جنگی جہاز ’’ارورا‘‘ کی گولے داغتی توپیں پرانے نظام کے خاتمہ اور ایک نئے نظام کا اعلان تھیں۔
جب چیئرمین کا یہ اعلان کا مریڈ لینن خطاب کرینگے۔ “ریڈ ” کہتا ہے میں نے دم سادھ لیاتھا اور خود سے کہا تھا ’’تو کیا وہ ایسا ہی ہوگا؟ جیسا ہم نے سوچا ہے۔‘‘
وہ ہماری تصوراتی سوچوں کے بالکل برعکس تھا۔چھوٹا، گٹھیلا سا، اسکی داڑھی اور مونچھوں کے بال اکڑے ہوئے، بہت کھردرے، آنکھیں چھوٹی چھوٹی، بیٹھی ہوئی ناک، چوڑا دہانہ اوربھاری ٹھوڑی۔گندے مندے سے کپڑے .پتلون تو بہت لمبی تھی۔قطعی طور پر ایک غیر موثر شخصیت۔
میں ایک جھٹکے سے اٹھ کر اُس پورٹریٹ کے سامنے جاکھڑی ہوئی تھی جو دیوار پر آویزاں تھا۔لینن خطاب کرتااور لوگوں کا جمّ غفیر اسکے گرد جمع تھا۔
میں نے اُسے بغور دیکھا۔وہ ایسا ہی تھا جیسا ریڈاور البرٹ ولیم نے محسوس کیا۔اسکا ماتھا فراخ تھا اور چھوٹی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں۔پر وہ اُن سب کے دلوں کی دھڑکن تھا جو چہروں پر جذبات کا جہان سجائے اُسے دیکھتے اور سنتے تھے۔کہیں کچھ ہاتھوں میں لہراتی بندوقیں بھی تھیں۔وہ لیڈر تھا،ایک دانشور، رنگ ونسل سے بالا، نہ بکنے، نہ جھکنے والا۔
البرٹ بالشویکوں کی جراُت، دلیری اور تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کاوشوں پر متاثر تھا پر اُنکے لیڈر کو دیکھ کر مایوس ہوا تھا۔
میں اور’’ جولیس ویسٹ ‘‘شاید اُسے تمام خوبیوں کا مجسمہ سمجھے بیٹھے تھے۔پر وہ کس قدر غیر موثر نظر آیا تھا جولیس نے سرگوشی کی تھی۔
یہ کسی بورژوا میئر یا کسی بنک کا بینکر نظر آتا ہے بس۔ایک چھوٹے سے آدمی سے اتنا بڑا کام کیونکر ہوا۔
میں نے اپنے آپ سے پوچھا تھا۔کیا مجھے بھی کوئی ایسا احساس ہوا ہے؟
’’ارے کہاں۔ہم تو خوبصورتیوں اور دراز قامتوں کے ڈسے ہوئے ہیں۔‘‘
میں نے وسیع و عریض ہال کی دیواروں پر لگی ساری پینٹنگز کو تفصیلاً دیکھا۔
اس تاریخی عمارت کے شب و روز بڑے ہنگامہ پرورتھے۔یہ ہال روشنیوں سے جگمگاتا رہتا۔اسکے دن ہی نہیں راتیں بھی بڑی ہنگامہ خیز تھیں۔تحریک کے بڑے اور سرکردہ لیڈر اور انکی بیویاں بچے یہیں پڑے رہتے۔لیون ٹرا ٹسکی کی بیوی لکھتی ہیں۔
’’گھر تو رید سٹریٹ میں تھا۔پر اکتوبر انقلاب کی تیاریوں کے سلسلے میں ٹراٹسکی کو سارا دن سمولنی میں گزارنا پڑتا۔میں بھی چار پانچ بار وہاں جاتی۔اُن دنوں ہر جگہ شورش کی باتیں تھیں۔ہم کم کھاتے، کم سوتے اور چوبیس گھنٹے کام کرتے۔بیٹے جس سکول میں پڑھتے تھے وہ اکیلے بالشویک تھے۔میں اُنکے بارے میں بھی خوف زدہ رہتی تھی۔پھر ٹراٹسکی کے ایک انجینئر دوست نے انہیں اپنے پاس رکھنے کی ذمہ داری اٹھائی تو میں بھی سمولنی میں رہنے لگی۔
مجھے ابھی یاد ہے۔لینن اور ٹراٹسکی کی آنکھیں سوجی ہوئی اور چہرے سُتے ہوئے ہوتے۔کپڑے میلے۔کبھی کبھی ایسے لگتا جیسے نیند میں چلتے ہوں۔مجھے یہ خوف ستانے لگتا کہ اگر انکی یہی حالت رہی تو انقلاب خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
ایک دن ماریا (لینن کی بہن) نے مجھ سے کہا۔لینن کے کپڑے بہت گندے ہوگئے ہیں اُسے صاف کپڑوں کی ضرورت ہے۔
ہاں واقعی۔پر پھر اُسنے ہنستے ہوئے کہا۔صاف کپڑوں کا مسئلہ تو اپنی اہمیت کھو چکا ہے۔
اس وقت یہ ہال خوبصورتی سے آراستہ ہے۔پر اُن دنوں یہاں چمڑے کے صوفے اور کرسیاں دھری ہوتیں بچے باہر درختوں کے نیچے کھیلتے، تھک جاتے تو آکر یہاں سوجاتے۔
انقلاب کی تاریخ مرحلہ وار دیواروں پر آویزاں تھی۔
ہال سے ملحقہ وہ کمرہ تھا جہاں لینن اور ٹراٹسکی کبھی کبھار ہال سے اُٹھ کر چند لمحوں کیلئے آرام کر لیتے تھے۔اس وقت اسکی آرائش ورزیبائش متاثر کرتی تھی۔پر اُن دنوں یہ خالی ڈھنڈارساتھا۔بس چند کرسیاں اِدھر اُدھر بکھری پڑی ہوتیں ۔انقلاب کی شام ٹراٹسکی اورلینن چند لمحوں کیلئے اندر آئے ۔وہ تھکے ہوئے تھے۔فرش پر پرانا پھٹا ہوا کمبل کسی نے بچھایاتھا۔کوئی بھاگ کر دوتکیے لایااور وہ دونوں ساتھ ساتھ لیٹے ۔انہیں نیند نہیں آرہی تھی۔وہ اپنے جسموں کو تنے ہوئے تاروں کی طرح محسوس کرتے تھے۔
اور جب لینن نے کہا تھا۔یہ کیسا حیرت انگیز نظارہ ہے۔ محنت کش نے سپاہی کے پہلو بہ پہلو رائفل ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے۔
پھر میں ایک اور کمرے میں داخل ہوئی ۔اس کمرے کی تاریخ اُسکی پیشانی پر رقم ہے۔یہ کمرہ جہاں وہ تاریخی شخصیت میز پر بیٹھی لوگوں سے گھری ہوئی ہے۔
اور جہاں بیٹھے بیٹھے وہ کہتا ہے۔
اب حکومت قائم کرنی ہے۔اسکا نام کیا ہونا چاہیے؟
سوویٹ ٹرائسکی کہتا ہے۔عوام کی سوویٹ۔
لینن کو یہ نام بہت پسند آتا ہے۔بہت خوب۔یہ انقلابی لگتا ہے۔
لینن انقلاب سے متعلق چیزوں کے بارے میں زیادہ ٹچی نہیں تھا وہ ا سکی گہرائی اور روح کا متمنی تھا۔
لینن کا کمرہ۔کمرے میں سجی یہ میز اور کرسی کیا وہی ہے یا بدل دی گئی ہے۔میں نے خود سے سوال کیا۔
ڈھیروں ڈھیر کمرے اپنے اندر انقلاب کی کہانیاں سناتے ہیں۔جو طویل بھی ہیں اور مشکل بھی۔
میں نے چند پڑھیں اور باقی چھوڑ دیں۔ ا تنے سے وقت میں کتنا کچھ اور پڑھاجا سکتا ہے۔
پر اُس چمکتی دوپہر میں ماتمی گیت میرے لبوں پر آگیاتھا۔ کوئی سچا بے لوث مقصد کے لئے زندگی داؤ پر لگانے والا لیڈر میری کتنی بڑی تمنا تھی۔
You fell in the fetal fight.
For the liberty of the people.
For the hounour of the people.
You gave up your life and every thing dear to you.
You suffered in horrible prisons.
You went to exile in chains.
Without a word you carried your chains because you.
Could not ignore your suffering brothers.
Because you belived that justice is stronger than the sword.

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *