Home » پوھوزانت » چھوڑو صاحب ،ہمیں جینے دو ۔۔۔ شمائلہ حسین

چھوڑو صاحب ،ہمیں جینے دو ۔۔۔ شمائلہ حسین

آ ج سوشل میڈیا کی پھیری لگاتے ہوئے ایک مکالمے پر نظر پڑی۔کوئی کہہ رہا تھا کہ فیمنزم کے چکر میں عورتیں اپنی نسائیت کو تیاگ دیتی ہیں۔مردوں کی طرح ڈریسنگ کرنا ان کی طرح بد تہذیبی کا مظاہرہ کرنا اورہر اچھی بری عادت کو آزادی کے ساتھ اپنانا چاہتی ہیں۔۔ ان کا کہنا تھا کہ اب’’ مابعد تانیثیت‘‘ کا دور ہے۔عورتیں اب اپنے حقوق سے آگے کی بات کرنے لگی ہیں وہ چاہتی ہیں کہ مرد حضرات ذرا اس منصب کا بھی ذائقہ چکھ لیں جسے عورتیں ایک مدت سے بھگتاتی چلی آرہی ہیں۔اور اس پر طرہ یہ حالیہ قانون سازی کے ذریعے کہ عورتوں کو ان کے حقوق مل چکے ہیں لہٰذا نسائی تحریکوں کا اب کوئی جواز باقی نہیں رہا۔نہ جانے کیوں ہمارے لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ فیمنزم یعنی تانیثیت مردوں سے نفرت کا نام ہے۔اورمعاشی طور پر خود کفیل عورت مرد کی بالا دستی قبول نہیں کرتی نہ ہی اچھی بیوی ثابت ہوتی ہے ۔حالانکہ ایسا کچھ بھی نہیں۔
فیمنزم بنیادی طور پر عورت کو بحیثیت انسان مرد کے برابر تسلیم کروانے کی تحریک تھی۔تعلیم کے حصول میں برابری کا حق، ووٹ کا حق۔ ملازمت کی صورت میں نر مزدور کے برابر تنخواہ پانے کا حق وغیرہ وغیرہ۔لیکن ہوا یہ کہ اس کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلا گیا ۔زندگی کا ہر شعبہ کہیں نہ کہیں عورت کا استحصال کرتا دکھائی دیا ۔ گھر کے آنگن سے لے کر بازار کے راستوں سے ہوتے ہوئے ایوان بالا تک عورت کو کم عقل اور کم زور سمجھتے ہوئے ہمیشہ دوسرے درجے کی مخلوق سمجھاگیا۔اپنے برابر کا مقام دینے کے دعوے دار حضرات بھی کہیں نہ کہیں اس کی کم عقلی اور کم زوری کا مذاق اڑاتے ہوئے پائے گئے۔مغرب میں اس کی صورت حال اب کیا ہے اس سے قطع نظر ہم اپنے معاشرے کے حالات پر بات کریں تواس پس منظر سے ایک اور منظر نامہ ابھر کے سامنے آیا کہ عورت کو تعلیم ،ملازمت ، پسند کی شادی ، بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کا اختیار ، پردہ نہ کرنے کی ترغیب اور تمام وہ آزادیاں جو فیمینسٹ تحریک کے زیر اثر دوسرے ممالک میں رائج ہیں اپنے گھر کی عورت پر حرام اور ہر دوسری عورت پر حلال ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایاجاتا ہے۔ اب اس پس منظر میں جب ہمارے یہاں کی عورت نے پر پرزے نکالنا شروع کئے تو حسب دستور جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے مسائل سے دوچار ہونا پڑا۔اور ایسادنیا میں ہرجگہ ہوا اور ہوتا چلا آرہا ہے۔ یہ ریشہ دوانیوں کی ایک لمبی تاریخ ہے جنسی اور جسمانی طور پر طاقتور ہونے کے باعث عورت کو ہر قدم پر حقیر اور کم تر ثابت کرنے کی کوششیں دونوں جنسوں میں نفرت انگیز اشتعال کا باعث بنتی رہیں۔اب ہوا یہ کہ فیمنسٹ کا نام سنتے ہی عام آدمی کے ذہن میں ایک باغی عورت کا ہیولہ تشکیل پاتا ہے جو مردوں سے شدید نفرت کرتی ہے۔جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں میرے نزدیک ہر وہ شخص جو عورت کو برابری کے حقوق دینے کی بات کرتا ہے وہ فیمنسٹ ہی ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق مل چکے ہیں لہذا اب فیمنسٹ ہونے کا جواز باقی نہ رہا۔بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ تعلیم کے مواقع ، ملازمت کے مواقع اور چند دیگر بنیادی حقوق اس وقت تقریباً دنیا کے تمام ممالک میں قانونی طور پر ودیعت کئے جاچکے ہیں۔لیکن پاکستان جیسے ملک میں سماجی روایات اس قدر مضبوط ہیں کہ بڑے شہروں کے خاندان بھی تعلیم ،علا ج ، رہن سہن میں خواتین کو مساوی سہولیات فراہم کرنے کے بعد ملازمت کی اجازت نہیں دیتے، پسند کی شادی کا اختیار نہیں دینا چاہتے، ووٹ کاحق تو دیتے ہیں لیکن شرفاء کے اکثرگھرانوں کی عورتوں کو پولنگ بوتھ تک جانے کی جرات نہیں ہوتی۔حقوق نسواں بل اسمبلی میں پاس ہوتا ہے لیکن معاشرے کی سوچ تبدیل نہیں ہوتی۔میں ذاتی طور پر ایسے گھرانوں کو جانتی ہوں جہاں کی بچیاں بظاہر ڈاکٹر ز، انجینئر ، ٹیچرز تو ہوتی ہیں لیکن آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے انہیں’’ عورت ہو عورت رہو‘‘ کا الٹی میٹم بار بار دیا جاتا ہے۔برابر میں کمانے والی عورت گھر آکر بچوں کی دیکھ بھال، سسرال کی خوشنودی اور شوہر کی جی حضوری کے باوجود دوسرے درجے کی شہری بن کر زندگی گزارتی ہے۔جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے واقعات تو اس قدر عام ہیں کہ ردعمل کے طور پر اب عورتوں نے بھی بااختیار نشستوں پر ہونے کا فائدہ اسی طور اٹھانا شروع کر دیا ہے۔پس ماندہ علاقوں کی صورت حال پر تبصرے کی ضرورت ہی نہیں کون نہیں جانتا کہ وہاں کی عورت جہالت، تنگ نظری اور صنفی تعصب میں بری طرح پس رہی ہے ۔
اب آتے ہیں تیسرے نکتے کی جانب کہ معاشی طور پر خود کفیل عورت اچھی بیوی ثابت نہیں ہوتی۔تو صاحب ،بیوی اور غلام میں فرق کرنا سیکھائیے ۔بلاشبہ وہ شخص ہمارے سامنے سر جھکا کے ہر الٹی سیدھی بات سہتا ہے جس کی معاشی ضروریات ہم سے جڑی ہوں۔جبکہ معاشی حوالے سے ہمارے برابر کا انسان اگر ہمارا دوست ہو اور ایک دوسرے کو سمجھ کر ، ایک دوسرے کی ضرورت کاخیال کرتے ہوئے مکمل عزت اور احترام کے ساتھ ہمارا ساتھ دے تو یہ دنیاکسی جنت سے کم نہیں ہوتی۔اگر ہم گھر سے باہر اپنے کام کی جگہ پر اپنے ہم پیشہ افراد کو ایسا دوست بنا سکتے ہیں تو گھر کے اندر بیوی کو کیوں نہیں۔یہاں ضرورت اس امرکی ہے کہ مائیں اپنے بیٹوں کو ہاتھ بٹانے والا اچھا انسان بننے کی ترغیب اور تربیت دیں۔معاشی حوالوں سے خود کفالت کے باوجود بہت سی عورتیں بہت اچھی بیویاں ثابت ہوتی ہیں۔شوہر کی ہر طرح کی ذمہ داری میں ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں اورزندگی کی آسانیوں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔لہٰذا ان کی قدر کیجئے ، جیتے رہئے اور جینے دیجئے ۔۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *