Home » قصہ » سوئے دیس کے دل والے جاگے ۔۔۔ رشید بھٹی۔۔ترجمہ: جہانگیر عباسی

سوئے دیس کے دل والے جاگے ۔۔۔ رشید بھٹی۔۔ترجمہ: جہانگیر عباسی

سندھی ادب سے

“مانجھی اوئے مانجھی !چل اُٹھ ۔۔۔جلدی اٹھ جا،گاؤں کو چلیں۔”
چار پائی پہ گہری نیند میں سوئے ہوئے مانجھی کو کُولہوں سے جھنجھوڑتے جیسے ولّنڑ نے اٹھایا تو ایکدم اچھنبے کی حالت میں مانجھی گہری نیند سے یُوں جاگ کر اٹھ بیٹھا جیسے کوئی ڈراؤنے خواب سے جاگ جاتا ہے۔۔۔کچھ دیر تک تو وُہ اسی حالت میں رہا اور پھر اپنے آپ کو سمیٹتے ایک ہی سانس میں ولنڑ سے دریافت کرنے لگا۔
” گاؤں؟!!۔۔۔یہ کیا کہہ رہے ہو تم ؟!
” ہاں گاؤں! سننے میں آیا ہے کہ دشمن کو پیچھے دھکیل کر اپنا گاؤں اُن کے قبضے سے چھڑا یا گیا ہے۔چل اٹھ جلدی سے،اپنے گاؤں کو لوٹ چلیں۔” ولنڑنے سارا ماجرا تفصیل سے بتا ڈالا۔
مانجھی گذشتہ ڈیڑھ ہفتے سے شہر میں ٹکا ہوا تھا جس کا گاؤں شہر سے بیس پچیس میل کی دوری پرمشرق کے باڈر کی طرف تھر کے علاقے میں واقع تھا ۔اُس دنُ وہ شہر سودا سلف خریدنے کے لیے آیا تھا اور جب سارا سامان لے کر بس سٹاپ پہ پہنچا تو وہیں اپنے گاؤں واسی ولنڑ سے ملاقات ہوئی جس نے تازہ صورت حال سے آگاہ کرنے کے ساتھ یہ دکھ بھری خبر بھی سنا ئی تھی کہ سرحد قریب سے دشمن فوج نے دھاوا بولتے ہوئے پورے گاؤں میں تباہی مچا ڈالی ۔ کچھ لوگ جان بچا کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوکر شہرپہنچے ہیں اور یہاں سرکاری سکول میں واقع کیمپ میں پناہ لی ہے جن سب کواب شہر کے لوگوں نے انسانی ہمدردی کے ناطے بہت سا سامان بھی پہنچا یا ہے ۔مگر جوباقی گاؤں میں پیچھے رہ گئے وہ سب جانے کس حال میں ہونگے جن کا کوئی پتہ نہیں۔
مانجھی کے لیے یہ خبر کسی ایٹم بم سے کم نہ تھی جسے سنتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے۔دماغ گھومنے لگا اور ذہن پہ بہن بھاگل کا معصوم وجود ڈوبنے ابھرنے لگا جس کو وہ پیچھے گھر میں تنہا چھوڑ کر آیا تھا ۔بھاگل جواس دنیا میں اس کے ماں باپ کی چھوڑی ہوئی اکلوتی نشانی، جس کو وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر چاہتا تھا ۔جسے پالتے سنبھالتے وہ خودبھی اب پینتیس کی عمر سے اوپر چڑھنے لگا تھا اور اپنا گھر بسانے کے خواب دیکھنے سے پہلے جلد سے جلد بہن کے ہاتھ پیلے کر کے بنیادی فرض سے سبکدوش ہونے کی فکر میں مگن رہتا تھا ۔ اس کی وہی لاڈلی اور اکلوتی بہن بھاگل اب گاؤں میں دشمنوں کے رحم و کرم پہ تھی۔
مانجھی نے ساری زندگی روکھا سوکھا کھا کر محنت مشقت کر کے وقت کے ساتھ ساتھ بہن کے جہیز کی خاطربہت کچھ بچایا تھا کیوں کہ اس کی بھاگل اس سال کی سردیوں سے پہلے ہی جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ چکی تھی اور اپنے فرض کے بوجھ کوبڑھتے دیکھ کر مانجھی اب مزید انتظار کرنے کے حق میں نہ تھا۔ اس نے یہ سوچ رکھا تھا۔
“اب کے ساون میں ہونے والی بارشوں سے جب سبزہ اور گھانس خوب اگے گی تو مویشی بھی صحت مند ہونگے پھر انھیں بیچ کر بھاگل کو اپنے گھر رخصت کروں گا۔”
کچھ دیر کے لیے مانجھی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا پھر جیسے فضا صاف ہوئی تو اب کہ اس کی نظروں کے سامنے بھاگل نہیں بلکہ پھاپاں کا وجود ابھر آیا جس کی چاہت میں مانجھی کا من سمندرکی طرح پھیلا ہوا رہتا۔ اور چاہت کے اس سمندر میں محبت کی موجیں ہر وقت موجزن رہتی تھیں ۔ پھاپاں دیکھنے میں ایسی تھی جیسے کوئی حسین اپسرا ہوا کرتی ہے ۔جب چلتی تو انسانوں کے ساتھ جانور بھی اسے رک کر دیکھا کرتے ۔وہ ایک حسین پیکر کی طرح تھی جس کے مدمقابل دور دور کے گاؤں میں کوئی اور نہ تھی۔ بس وہ لاکھوں میں ایک تھی جس کو پانے کے لیئے ہزاروں نے حیلے بہانے چلائے مگر یہ انمول موتی آخر مانجھی کونصیب ہوئی جس وجہ سے علاقے کے سارے جواں دل ہی دل میں رقابت رکھتے ہوئے مانجھی سے جلتے رہتے ۔
” کیا بھاگل اور پھاپاں بھی کیمپ میں ہیں؟!!” مانجھی ہوش کی دنیا میں آتے ہی دونوں کے لیے تڑپ اٹھا تھا۔
” بھاگل کا کچھ پتہ نہیں ہے۔” ولنڑ نے اپنی بے خبری ظاہر کی ۔” اور نہ ہی پھاپاں کی کچھ خبر ہے البتہ اس کے بوڑھے باپ کو میں خود اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھ آیا ہوں۔”
ولنڑ کی تصدیق سنتے ہی مانجھی گھٹنوں کے بل وہیں زمیں پہ بیٹھ گیا اور سر دونوں ہاتھ میں لیے زمین کو گھورتا بیٹھا رہا پھر اس ارادے سے ایک نیا عزم لے کر اٹھا۔
“حالات چاہے جیسے بھی ہوں میں گاؤں جا کر اپنی عزت و غیرت دونوں کو ڈھونڈ نکالوں گا”
ولنڑ کے بار بار سمجھانے اور سنگین حالات کا احساس دلانے پہ مانجھی کچھ کچھ سمجھنے لگا اور اپنے آپ پر ضبط کرتے ہوئے وہ ولنڑ کے ساتھ کیمپ کی طرف چلا آیا جہاں پہنچ کر طرح طرح کی باتیں اور واقعات کا سُن کر مانجھی کے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ۔من میں بچی روشنی ، چراغ کے لو کی مانند بجھنے لگی تھی اور جب اسے پڑوسن گلاں کی زبانی معلوم ہوا کہ اس نے دشمن فوجیوں کو بھاگل کوپکڑ کر گھر میں اندر لے جاتے ہوئے خود دیکھا ہے۔۔۔بس پھر سارا ماحول مانجھی کی چیخوں اور آنہوں سے گونج اٹھا تھا اور اسی حالت میں وہ گھنٹوں تک بیٹھا رہا اور آنکھوں سے آنسو جاری رہے۔
” جنگیں کیوں ہوا کرتی ہیں ؟!!۔۔آخر مجھ غریب کا کیا قصور تھا کہ مجھے اتنی بڑی قربانی دینی پڑی ۔ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ حکمران آپس میں لڑجھگڑ کر فیصلے کریں ہم غریب عوام کو کس لیے آزمائش کی بھٹی میں جلا دیا جاتا ہے۔”
ایسے نہ جانے اور کتنے سوالات تھے جو مانجھی کے ذہن میں یوں گردش کر رہے تھے جیسے اسی جنگی ماحول میں نیلے آسماں کی فضا میں بمبار جہازشور مچاتے اڑتے پھر رہے تھے ۔مگر مشکل یہ تھی کہ مانجھی کا چھوٹا ذہن ان سوالات کو سمجھنے سے قاصر تھا جسے صرف اور صرف اپنی بھاگل کی فکر ستائے جا رہی تھی
” نہ جانے میری بھاگاں کس حال میں اور کہاں ہوگی؟۔۔جانے زندہ بھی ہوگی کہ ۔۔۔۔۔نہیں نہیں وہ ضرورزندہ ہوگی۔”
بہن کی سوچوں میں گم سم مانجھی کو اب کیمپ میں ہفتے سے اوپر ہو چلا تھا اور وہ ہر چیز سے اس قدر بے فکر رہنے لگا تھا کہ اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہ رہا تھا۔اب وہ اس فکر میں تھا کہ جنگ ختم ہوتو اپنے گاؤں کو پہنچوں اور کھوئی ہوئی بہن کی کھوج لگاؤں ۔وہ ہر وقت ریڈیو کان سے لگائے ہوئے تھا تا کہ اپنے گاؤں سے دشمن فوج کے قبضے ختم ہونے کا اعلان سن سکے اور جب یہ اعلان نشر ہوا تو مانجھی کو ایسے لگا جیسے اس کی اداس زندگی میں بہار آگئی ہو۔وہ نہ کسی سے ملا اور نہ ہی کسی کو خبر لگنے دی بس اپنے پاؤں پر زور رکھا اور سیدھا بس سٹینڈ آن پہنچا پر اس کے گاؤں کو جانے والی سواری ابھی تک شروع نہیں ہوئی تھی سوائے ان تانگوں کے جو شہر سے گاؤں کے پکے راستے والے موڑ تک جاتے تھے جس کے آگے کا سفر پیدل کرنا پڑتا تھا ۔مانجھی وقت ضایع کیے بنا ایک تانگے پہ سوار ہوا اور ڈیڑھ میل کا باقی سفر پیدل طے کر نے کے لیئے ابھی راستے میں تھا کہ پیچھے سے آتی ہوئی تیز رفتار جیپ ہارن بجاتی کچھ آگے جا کر رکی ۔مانجھی نے غور سے دیکھا جیپ میں دو جوانوں کے ساتھ علاقے کے مجاہد بھی سوارتھے جن میں ایک اس کا دور کا رشتہ دار مٹھو بھی شامل تھا۔مٹھو نے بھی وہیں سے مانجھی کو دیکھتے ہی آواز دی اور اپنے ساتھ جیپ میں بیٹھا کر گاؤں ہو لیا ۔راستے میں ساری صورتحال مٹھونے جب بیان سنائی توایک بار پھر سے مانجھی کا پورا وجود ایسے کملا گیا جیسے پھولوں پہ بہار رُت کے بعد موسم خزاں چھا جاتا ہے۔
جیپ جیسے گاؤں میں داخل ہو کر رکی تو مانجھی ڈوبے دل کے ساتھ اُترا اور اپنے گھر کا رخ کیا۔ باہر پیپل کی ٹھنیوں والی بنی پناہ گاہ سے ہوکرجیسے چھپرتک آیا تو وہیں سے کو ٹھی کے دروازے کے دونوں طاق کھلے ہوئے نظر آئے پھروہ گھبرائے ہوئے قدم اٹھاتا جیسے کوٹھی اندر داخل ہوا تو پیچھے سے آنے والے سب کے سب بھی مانجھی کی طرح ہکے بکے ہوکر رہ گئے تھے جن سب کے وجود جیسے پتھر اگئے ہوں۔ایک بلندُ چیخ خاموشی کے عالم کو توڑتی کمرے سے باہر فضا میں گم ہوگئی اور مانجھی بھاگل کے بے حرمت وجود سے لپٹ کر زارو زار رونے لگا ۔تب مٹھو نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر بھاگل کے زخموں سے چور چور آدھے ننگے وجود کو اپنی چادر سے ڈھانپا ۔پھر مانجھی کو سہارا دینے لگا۔بھاگل کے لاش کے پہلوں میں ایک اور لاش بھی پڑی ہوئی تھی جو دشمن سپاہی کی تھی اور وردات یہ ظاہر کر رہی تھی کہ کسی اپنے ہی دشمن فوجی نے ساتھی کو یا تو اس کی وحشیانہ حرکت سے پشیمان ہوکر گولی ماری تھی یا پھر رقابت سے جلتے اس کا کام تمام کیا تھا۔کمرے کی ہر چیز بکھری ہوئی تھی جو لوٹ مار کا ثبوت پیش کر رہی تھی مگر مانجھی کی تو دنیا ہی لٹ چکی تھی جس کی آنکھوں سے اب تک آنسو آبشار کے پانی کی طرح سے رواں تھے۔ وہ کوٹھی سے جیسے باہر آیا تو چکرا کر گر گیا اور پھر وہیں قے کرنے لگا جس سے اس کا بوجھل من کچھ ہلکا ہوا۔مٹھو نے باقی ساتھیوں کے ساتھ مل کر بھاگل کے کفن دفن کے سارے کام نپٹائے۔ پھر جانے کی تیاری کرنے لگا کیوں کہ اس کو اگلے مورچے پہ پہنچنے کا حکم مل چکا تھا۔مانجھی اپنی برباد دنیا کاتماشہ آنکھوں سے دیکھتے ہوئے ماتم کدہ تھا۔مٹھو نے جاتے وقت اس کو گلے لگایا اور کہنے لگا۔
” بھائی! دل چھوٹا مت کر اور صبر سے کام لے ” مونچھوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے ” مٹھونے مشین گن کو لہے میں لٹکائی اور پھر کہنے لگا ۔
” یہ تجھ سے میرا وعدہ رہامیں نے بھی ادی بھاگل اور پھاپاں کے خون کا حساب نہ لیا تو یہ مونچھیں نہیں رکھوں گا۔”
کچے راستے کی دھول اڑاتی جیپ آگے بڑھتی اگلے مورچے کی طرف جانے لگی جس کے راستے میں ویسے ہی کوئی روکاوٹ نہ تھی ۔مٹھو ساتھیوں کے ساتھ دشمن علاقے کے جس جس گاؤں میں داخل ہوتا رہا وہاں ایسا ہی حشر برپا کرتا آگے بڑھتا رہا جیسا دشمنوں نے مانجھی کے گاؤں میں کر دکھایا تھا۔مٹھونے جو کہا واقع میں وہ سب سچ کر دکھایا اور کئی بے گناہ بھاگاں کے وجود وں کواپنی وحشت سے تار تار کر دیا اوراس کے ظلم و خون کا یہ تماشہ آدھے دن سے لے کر شام کے آثار ظاہر ہونے تک جاری رہا ۔مٹھو جب ایک گاؤں میں داخل ہوا تو مشین گن کے بند منہ کو اس طرح سے کھول دیا کہ گولیاں ، برساتی بوندو ں کی مانندسارے گاؤں میں بکھر گئیں۔ جوابی فائر کے بدلے خاموشی پا کر مٹھو اور اس کے ساتھیوں کو قدرے حیرت ہوئی ۔شاید گاؤں والوں کو ان کے آنے کی بھانپ پہلے سے ہو چکی تھی جو سب محفوظ پناہ گاہوں کو چلے گئے تھے۔اچانک مٹھو کی نظر ایک گھرکے بند کمرے پہ پڑ گئی وہ ساتھیوں کے ساتھ ہوشیاری دکھاتے اس جانب بڑھنے لگا پھر دھکا دے کر دروازہ کھولتے ایک ساتھی کی ساتھ جیسے کمرے میں گھسا تو اُسے کمرے کے اک کونے میں مرد اور عورت خوف زدہ کھڑے دکھائی دیئے جن کے برابرمیں پڑی چار پائی پہ ایک نوخیزر اجپوت لڑکی عروسی جوڑے میں سہمی ہوئی گھونگٹ میں منہ ڈھانپے بیٹھی تھی۔ مٹھو کے ساتھی نے ڈھائی روپے کی گولی کے خرچے سے ایک اورانسانی حیاتی کا خاتمہ کر ڈالا تو مرنے والا مرد ’’ہائے رام‘‘ کہتے وہیں زمیں پہ ڈھیر ہوگیا جس کے ساتھ اپنی چوڑیاں توڑتے کھڑی عورت بین کرتے مرنے والے کی لاش سے لپٹ گئی ۔اسی لمحے چارپائی پہ بیٹھی لڑکی بھی چیخ مارتے خوف سے وہیں بے ہوش ہو گئی ۔مٹھو کا تیسرا ساتھی بھی پھرتی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ پہلے اس نے زمیں پہ بکھری ٹوٹی ہوئی کانچ کی چوڑیوں کے ساتھ سونی چوڑیاں سمیٹیں پھر الماریوں کے اندر جاسوسی کتے کی طرح لوس لوس کرتا چیزیں کھوجنے لگا۔ باقی کے دو ساتھی بھی وہیں آن پہنچے اور آتے ہی دونوں عورتوں پہ ایسے ٹوٹ پڑے جیسے سڑی ہوئی گوشت پہ گدھ آکر جھپٹتے ہیں ۔عورتیں پہلے ہی اپنے ہوش و حواس کھو چکی تھی اور ایسے مردوں کے رحم و کرم پہ تھیں جن کے ساتھ مقابلہ یا مزاحمت کرنے کا سوال ہی پیدا نہ تھا ۔ ان دونوں کے وجود برف کی مانند ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔ تب نہ جانے پکی عمر والی عورت کے وجود میں کیسے ہمت بھر آئی۔ وہ تیزی سے اپنے اوپر پڑے ہوئے بھاری مرد کو ایک طرف دھکیل کر اٹھی اور چارپائی پہ لڑکی کے ساتھ چھیڑ خانی کرنے والے مرد سے التجا کی ۔
“اس کو چھوڑ دو ۔۔اس کو کچھ نہ کہو”
” خاموش کتیا عورت” جوش اور جنسی جذبات کی لذت سے سرشار گرنے والے مجاہد نے عورت کوبالوں سے پیچھے کو زور سے پکڑکر دوچار مُکے رسد کر ڈالے۔
” تمہیں بھگوان کا واسطہ اسے چھوڑ دو ” عورت ابھی تک ہمت نہیں ہاری تھی ۔” اپنے خدا کا واسطہ ۔۔۔ میری معصوم بچی کو چھوڑ دو۔یہ ہمارے پاس کسی کی امانت ہے ایک دو دن میں اس کا بیاہ ہونا ہے۔”
اپنے اوپر پھر سے پڑے ہوئے کو زور سے دھکیلتی عورت روتی چلاتی عرض کرتی رحم کی دہائیاں دیئے جارہی تھی ۔لڑکی کے بیاہ کا سن کر ایک دم مٹھو کو جیسے بجلی کا جھٹکا سا لگا اور اسے مانجھی کی بہن بھاگل اور منگیتر پھاپاں یاد آنے لگیں جن کے غم میں مانجھی آدھا مرچکا تھا۔تب وہ آگے بڑھا اور ساتھی مجاہد کو چارپائی سے نیچے دھکیلتے اپنا حکم صادر کر ڈالا۔
” اس لڑکی پہ ہم سب سے زیادہ مانجھی کا حق بنتا ہے۔آخر اسے بھی تو اپنی بہن اور منگیتر کے خون کا حساب ملنا چاہیے۔”
کمانڈر مٹھو کا حکم سنتے ہی سب ساتھی دو قدم پیچھے ہٹ گئے ۔پھر چارپائی سے نیچے گرنے والا مجاہد اپنے ساتھی کے ساتھ مل کر لڑکی کی ماں میں سے اپنا حصہ بٹورنے لگا۔ادھر لڑکی دہشت کے مارے پھر سے بے ہوش ہو چکی تھی جسے اپنے کندھے پہ اٹھائے مٹھو یہ کہتے ہوئے کمرے سے نکل آیا ۔
” ہاں !یہ سچ میں امانت ہے اور میں اس امانت کو مالک تک ضرور پہنچاؤں گا۔”
ایک بار پھر سے جیپ کے پہیے اپنے ہی نشانات پہ راستے کو پہچانتے جس وقت مانجھی کے گاؤں میں داخل ہوئے اُس وقت سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔جیپ کی پچھلی سیٹ پہ پڑی ہوئی لڑکی ہوش میں آ چکی تھی اور ہوش سنبھالتے ہی رونا شروع کردیا تھا ۔مٹھونے موڑ کاٹ کر جیپ کو مانجھی کے گھر کے عین سامنے کھڑا کرتے زور سے ہارن پہ ہار ن بجانا شروع کردیئے ۔مانجھی ان آوازوں پہ پہلے تو چونکا پھر بوجھل قدموں سے چلتے باہر نکلا اور جیسے جیپ کے قریب ہوا مٹھونے جیپ سے لڑکی کو اتارا اور مانجھی کے پہلوں میں دیئے ہوئے کہنے لگا۔
” لے سنبھال اپنی امانت کو۔۔۔مانجھی! میں تیری دلہن لے آیا ہوں ” مانجھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے صرف پھٹی ہوئی آنکھوں سے مٹھو کو تکے جارہا تھاجو ابھی تک خوشی کے جذبات سے بول رہا تھا۔
” تیری منگیتر کے بدلے ایسا ہیرا لے آیا ہوں جسے پا کر تو سارے دکھ بھول جائے گا۔” اب کچھ دیر کے لیے مٹھو خاموش ہوا اوردکھ سے بھر آئی آواز کے ساتھ پھر کہنے لگتا ہے۔” بس! دکھ اسی بات کا ہے کہ ادی بھاگل کی قسمت کچھ اور تھی۔”
لڑکی کا ہاتھ مانجھی کے ہاتھ میں تھماتے مٹھو جاتے ہوئے پھرکہنے لگا “خیر لے ۔۔سنبھال اسے میں چلا۔” مانجھی ابھی تک حیرت کے جہاں میں کھویا ہوا تھا اور جب سنبھلا تو مٹھو کب کا جا چکا تھا۔
اب مانجھی نے نظریں گھما کر سر سے پاؤں تک لڑکی کا جائزہ لیا مگر اس کے حسن کی تاب سہہ نہ سکا اور ہاتھ تھامے اسے برآمدے میں پڑی چارپائی پہ بٹھا دیا۔پھر وہ کوٹھی میں گیا ایک اور چارپائی اٹھا لایا جس پہ بستر پچھا کر اس نے لڑکی کو بستر والی چارپائی پہ بیٹھا دیا۔مانجھی کے دل میں رہ رہ کر عجیب خیال آنے لگے ۔وہ چارپائی سے اٹھا اور ہاتھ بتی لے کر لڑکی کے وجودکے قریب ہوااور پھر سے اس کا جائزہ لینے لگا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔
” واقعی مٹھو نے سچ کہا تھا اس لڑکی کے بے پناہ حسن کے آگے پھاپاں کا وجود کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔”
” اب مانجھی کی آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ نے لگی تھی اور جسم کی رگ رگ میں خون بجلی کی تیزی کی طرح گردش کرنے لگامگر جو بات اسے مسلسل بیزار کیے جار ہی تھی وہ لڑکی کا اب تک روئے جانا تھا جس پر غصہ دکھاتے مانجھی نے لڑکی کو چپ کرانے کی کوشش کے ساتھ گالی گلوچ بھی دے ڈالی مگر سب بے سود ثابت ہوا۔بہت دیر تک لڑکی روتے سسکتے آخر خود چپ ہوگئی تو مانجھی نے دوسری چارپائی پہ بستر بچھا کرخود کو وہیں ڈھیر کردیا۔لاکھ کروٹیں بدلیں پھر بھی نیند نہ آئی تو سر کے نیچے دیئے تکیے پردونوں ہاتھ رکھ کر تاروں بھرے آسماں کو تکتے سوچنے لگا ۔
” صبح ہوتے ہی مولوی بلا کر نکاح پڑھوا لیتا ہوں”۔ ایک بار پھر سے وہ سوچ کے دائرے پہ الجھ کے رہ گیا۔”
“پریہ تو ہندو ہے نکاح کیسے ہوگا؟! ۔” پھر پہلو بدل کر لڑکی کا مکمل جائزہ لیتے ہوئے الجھی ہوئی سوچ کو جیسے سلجھانے لگا تھا ۔” ہوں۔لباس سے تو یہ ٹھاکر وں کی چھوری لگتی ہے ۔”
“نام کیا ہے تمہارا؟!!مانجھی پہلی بار لڑکی سے ہم کلام ہوا۔
” ج ج ج۔۔۔جم۔۔جم۔۔جمنا” لڑکی جیسے بولتی گئی آنسوؤں کی جھڑی پھر سے جاری ہونے لگی۔
” کوئی بات نہیں پہلے کلمہ پڑھواؤں گاپھر نکاح کروں گا”۔مانجھی نے اپنے الجھے ہوئے خیالوں کو جیسے سلجھا دیا تھا ۔
” تیرے ماں باپ زندہ ہیں ؟‘‘ وہ دوبارہ بولا۔
ماں باپ کا سن کر لڑکی کے آنسو تیزی سے بہنے لگے تو۔ مانجھی اس کا دل رکھنے کی خاطراب کے پیار سے پوچھنے لگا۔
” ارے جان بتا دو اور رونا بند کرو۔جنگ بند ہونے دو تجھے بھی ان کے پاس چھوڑ آؤں گا” مانجھی کی یہ چال کام کر گئی۔ لڑکی نے اب کے رونا بندکیااورخود کو سنبھالتے ہوئے جواب دینے لگی ۔
” باپ کو تو آنکھوں کے سامنے مرتا دیکھا اور ماتا جس حال میں تھیں شاید ا ب وہ بھی باقی نہ رہی ہوں” ۔دکھ سے لڑکی کی آوازبھر ائی تو مانجھی بھی موم کی طرح نرم پڑگیاا اور مزیددریافت کرنے لگا ۔
” اور تیرا مرد۔۔۔۔۔”
” وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔” اس سے آگے لڑکی کچھ نہ کہہ سکی اور سر کو شرم سے جھکا لیا۔تب مانجھی کے کانوں میں مٹھو کے الفاظ صدا بن کر گونجنے لگے۔” تیری منگیتر کے بدلے میں بھی تیری دلہن لے آیا ہوں”۔
مانجھی کے سوئے ہوئے زخم پھر سے جاگنے لگے اور بھاگل کی یاد ستانے لگی۔پھر بھاگل کا دیکھا ہوا آخری بار کا چہرہ آنکھوں کے سامنے ابھرآیا تھا جس میں جمنا کاچاند چہرہ دھندلا تے گم ہوئے لگا ۔تصور میں مانجھی نے دیکھا کہ بھاگل دلہن کے سرخ لباس میں سجی ہوئی سیج پہ بیٹھی ہے اور شہنائی کی مسحور گونج سے مانجھی کا من کھلنے لگتا ہے تب جنگی جہازوں کے دل ہلا دینے والے آواز اچانک ابھر آتی ہے اورایک زور کے جھٹکے کے ساتھ مانجھی ہوش کی دنیا میں آتے ہی کانپ کر رہ جاتا ہے جس کے سامنے بے بس جمنا بیٹھی پھررو رہی تھی۔ کئی لمحو ں تک مانجھی ہمدردی اور پیار کے جذبات سے روتی جمنا کو دیکھتا رہا پھر اٹھ کر کوٹھی کے اندر چلا گیا اور بھاگل کا ایک دوپٹہ لے کر سیدھا جمنا کے قریب چارپائی پہ آکر بیٹھ جاتا ہے ۔ پھر دو پٹے سے اس کے بہتے آنسو پوچھتے جمنا کے ماتھے کو پیار سے چوم کر دوپٹہ سر پہ اوڑھاتے کہنے لگتا ہے ۔” مت رو میری بہن خدا نے تمہیں آج دشمنوں میں بھائی دے دیا ہے۔”
یہ سن کر جمنا کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ جاتی ہیں وہ یک ٹک مانجھی کی آنکھوں میں تکنے لگتی ہے۔ تب مانجھی اسے پیار سے گال پر تھپکی مارتے ایک بار پھرفضاکی طرف نظریں اٹھا کر نئے عزم سے کہتا ہے۔” یہ لڑ مار کر تھک جائیں اور جب امن ہوجائے میں خود تمہیں اپنے ہاتھوں سے ڈولی میں بٹھا آؤں گا۔”
جمنا کے ماتھے کو پیار سے دوبارہ چومتے مانجھی واپس اپنی چارپائی پہ آکر لیٹ جاتا ہے ۔اسے ایسا احساس محسوس ہونے لگتا ہے جیسے اس کا دل بھاری بوجھ سے آزاد ہوگیا ہو اور وجود میں ایسا سکون سما گیا ہو جیسے سمندرمیں طوفان تھمنے کے بعد لہریں پر سکون ہو جایا کرتی ہیں ۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *