Home » پوھوزانت » پولٹیکل اکانومی ۔۔۔ پوہیں مڑد

پولٹیکل اکانومی ۔۔۔ پوہیں مڑد

قدیم اشترا کی نظامِ پیداوار

انسانی سماج کی ابتدا
دس لاکھ سے زیا دہ بر س ہو ئے جب انسان کا زمین پر ظہور ہو ا۔اور جب انسان نے آلاتِ محنت بنانے شروع کیے تو قدرت کی نشو نما میں یہ عظیم واقعہ تھا ۔انسان اور حیوان میں بنیادی فر ق اسی سے پیدا ہوا۔کو ئی حیوان آلات محنت نہیں بناسکتا لیکن انسان آلاتِ محنت بناسکتا ہے ۔شروع شر و ع میں انسان نے تجر بے سے سیکھاکہ شکار کر نے اور اپنی جان بچانے کیلئے تیزاورنوکیلے پتھر مفید آلات ہیں ۔اور اس نے پتھر رگڑکر کلہاڑی تیار کر لی اور اس طرح انسان آلات بنانے لگا ۔آلات سے محنت کی ابتدا ہوئی۔
انسانی سماج کی ابتداء انسان کے ظہو ر کے ساتھ ہی ہوئی۔ انسان گر وہو ں کی صورت میں رہتے تھے ۔جب آلات بن گئے تو ان کے درمیان ایک نیا رشتہ پیداہو گیا جو حیوانو ں کے درمیان نہ تھا ۔ یہ رشتہ محنت کا تھا ۔انسان آلاتِ محنت مل جل کر بنانے اور مل جل کر کام میں لانے لگے ۔مل جل کر کا م کر نے سے زبان نے جنم لیا اور نشونماپائی ۔
زبان ایک ذریعہ ایک آلہ ہے جس سے انسان ایک دوسرے سے با ت کرتے ہیں ،اپنی رائے اور تجربے ایک دوسرے تک پہنچاتے ہیں اور مشورہ کر تے ہیں ۔اسی سے ہمخیال اور ایک رائے بنتے ہیں ۔خیالات کا تبادلہ انسان کی مستقل ضرورت ہے کیو نکہ اس کے بغیر تسخیرِقدرت کی جد وجہد جاری نہیں رہ سکتی ۔بلکہ سماجی پیداوار نا ممکن ہے ۔
محنت اور زبان نے انسانی ذہن کی نشوونما پر فیصلہ کن اثر ڈالا ہے ۔زبان کی نشوو نما کا خیال کی نشوو نما سے گہراتعلق ہے ۔محنت کے عمل کے دوران انسان کے تصوراتی اور ادراکی علم کا دائرہ وسیع ہو ا۔اس کے حواس خمسہ تر قی پذیر ہو ئے اور انسانکی محنت ایک شعوری عمل بن گیا ۔انسانی زندگی کیلئے محنت بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ بلکہ اس میں کو ئی مبالغہ نہیں اگر یہ کہا جائے کہ محنت نے ہی انسان کوانسان بنایا ہے ۔محنت ہی کے طفیل انسانی سماج پیداہوااوراسی کے طفیل اس نے ترقی کی منزلیں طے کی ہیں ۔

مادی زندگی اور آلات محنت
شروع شروع میں انسان کو بے شمار مشکلات کا سامنا تھا اور اس کی زندگی کا دارو مدار قدرتی وسائل پر تھا۔ تسخیر قدرت کا عمل بہت سست تھا ۔کیو نکہ آلات محنت بہت ابتدائی صو رت میں تھے ۔ وہ تراشے ہو ئے پتھر اور در ختوں کی تو ڑی ہوئی لکڑیاں ہی تھیں جو اس کی عضاء کی مددگا ر تھیں ۔پتھر اس کا مکاّ تھا اور لکڑی اس کا بازو تھی ۔
انسان گر وہو ں میں رہتے تھے ۔یہ گروہ بڑے نہیں ہو تے تھے۔ کیو نکہ گر وہو ں کے لیے خوراک مہیانہیں کی جا سکتی تھی ۔ بھو ک اور درندے ان کا صفایا بھی کر دیتے تھے ۔ان حا لا ت میں مشترکہ محنت ہی انسانی محنت کی صورت ہو سکتی تھی بلکہ مشتر کہ محنت کی قطعی ضرورت تھی ۔
مدتو ں انسان جنگل سے خوراک حاصل کر تا رہا ۔اور شکار پر گزارہ کرتا رہا ۔اور یہ دونو ں کام وہ صر ف مل کر اور سادہ ہتھیاروں سے کر تا تھا ۔ اور جو کچھ وہ مشترکہ طو ر پر حاصل کر تا تھا اُسے مل بانٹ کر کھا لیتا۔
ہزارو ں بر س کے تجربا ت سے انسان کاٹنے ،کھو د نے اور مارنے کے کام میں آنے والے سادہ اور معمو لی آلات بنانے کے قابل ہوا۔آگ کی دریافت انسان کی عظیم کامیابی تھی ۔اتفاقیہ دریافت ہو نے والی آگ کو انسان نے حاصل کیا اور اُسے احتیاط سے بجھنے سے بچایا ۔انسان دریافت کے ہزاروں بر س بعد آگ کا راز پاسکا اور خو د آگ پیدا کر نے پرقدرت حاصل کر سکا۔ آلاتِ پیداوار کو بہتر سے بہتر بنانے کے عمل میں اُسے یہ علم حاصل ہوا کہ رگڑ سے آگ پیدا ہو تی ہے ۔اس طرح اُسے آگ پیداکر نے کا علم حاصل ہو گیا ۔

آگ کی دریافت
آگ کی دریافت سے قبل انسان زندہ رہنے کی جستجو میں کئی منزلیں طے کر چکا تھا ۔مثلاوہ در ختو ں کے تنو ں پر رات بھر او نگھتے رہنے کے بجائے غار و ں میں شب بسر کر تے کر تے انہیں اپنا گھر بنا چکا تھا ۔ اپنی خوراک مختلف قسم کی جڑو ں پھلو ں کو ہا تھو ں سے کر ید کر، تو ڑ کر اور جا نور ں کو پکڑ کر ان کے کچے گو شت سے حاصل کر تاتھا ۔اسی دوران جب اس نے دیکھاکہ آسمانی بجلی کے گرنے،آتش فشاں پہاڑو ں کے پھٹنے، اور طو فا نی ہو ا کی رگڑ سے جنگلو ں میں آگ لگ جاتی ہے ۔ اور آگ میں گھر جا نے والے جانو رو ں کا گو شت بھن کر مزیدار ہو جا تا ہے تو اس نے آگ کو حاصل کرلیا ۔اسی لئے انسان کے لئے تسخیرِ قدرت کی جد و جہد میں آگ کی دریافت ایک عظیم فتح تھی ۔اس نے اس بات کا اہتمام کیا کہ آگ بجھنے نہ پا ئے اور اس جدوجہد میں ہزارو ں سالو ں کے بعد اُسے آگ پیداکر نے کا طر یقہ آیا اور وہ جان سکا کہ رگڑسے آگ پیدا کی جا سکتی ہے ۔
آگ کی دریا فت سے انسان جانوروں کی سطح سے بلند ہو گیا اور اس کی ما دی زندگی میں انقلاب آگیا ۔ وہ اس پر کھا ناپکا نے لگا جس کے سبب بہت سی نئی اشیا ء اس خوراک میں شامل ہو گئیں ۔ اور وہ مچھلی گوشت آلو وغیرہ بھون بھو ن کر کھانے لگا ۔ اس نے آگ کی مددسے نئے آلات پیداوار بنائے ۔وہ سردی سے بچنے کیلئے آگ کو کام میں لا یا اورغاروں سے نکل کر میدانوں میں پھیلنے کے قابل ہو گیا ۔ آگ نے اسے درندو ں کی یلغار سے محفو ظ کر دیا ۔
بہت مدت تک وہ شکا ر کے ذریعے اپنا پیٹ بھر تا رہا ۔ وہ جانور و ں کا شکا ر کرتا اور ان کا گوشت کھا تا اور اُن کے کھا لو ں سے تن ڈھاپنے کا کام لیتا اور ان کی ہڈیو ں سے مختلف آلات بناتا ۔ گوشت نے اس کے جسم کی نشونما بالخصو ص اس کے دماغ کی نشو نما میں اہم رول اداکیا ۔
جیسے جیسے اس کے جسم اور دماغ نے نشوونما پائی وہ آلاتِ پیداواربنانے کے اہل ہو تا گیا ۔ لکڑی کی چھڑی کونو کدار بناکر اس سے شکار کرنے لگا ۔پھر اس نے چھڑی کے سرے پر نو کدار پتھر لگا لیا۔ پتھر کی کلہاڑی ،پتھر کے بھا لے ،پتھر کے چاقو اور مچھلیاں پکڑنے کے کا نٹے تیار کیے اور ان ہتھیارو ں کی مددسے بڑے بڑے جانو روں کا شکا ر کر نے اور مچھلیو ں کے پکڑنے کے قابل ہو گیا ۔
چو نکہ وہ مد تو ں تک پتھر کے آلات اور ہتھیا ر بناتا رہا اس لئے یہ عہد پتھر کا زمانہ کہلاتا ہے۔ یہ عہد ہزاروں سال پر مشتمل ہے ۔ اس کے بعد انسان نے تا نبے کے ہتھیار بنائے ۔بعد ازاں کانسی کے اور آخر میں لو ہے کے ۔یہ اسی نسبت سے کا نسی اور لو ہے کا زمانہ کہلاتا ہے ۔
تیر اور کمان کی ایجاد سے اسے خوراک حاصل کرنے میں آسانی ہو گئی ۔جانوروں کے شکار کے زمانے میں ہی وہ جانورو ں کو پالنے لگا ۔سب سے پہلے اس نے کتے کوپا لاجو حفاظت اور شکار میں اس کا رفیق ثابت ہوا ۔بعد ازاں بکریو ں کو ،بھیڑوں اور گھو ڑو ں کو اس نے پالنا شروع کیا ۔

کھیتی باڑی کی ابتدا
کھیتی باڑی کی ابتدا پیداواری قوتو ں کی نشو ونما کی طر ف ایک بڑاقدم تھا ۔پھلو ں کی تلاش میں اس نے درختو ں اور جھاڑیو ں کے قریب نئے پو دو ں کو اگتے دیکھا اور ہزاروں برسو ں کے بعد انسان یہ جان گئے کہ نئے پو دے بیج کے زمین پر گرنے سے اگتے ہیں ۔ اس دریافت کے بعد انسان درختو ں اور پو دو ں کی کاشت کرنے لگے جس سے زراعت کی ابتدا ہو ئی ۔پہلے وہ ہا تھو ں سے زمین پر بیچ ڈالتے تھے ۔پھر لکڑی کے ہل کی مددسے زمین پولی کی جانے لگی اورلکڑی کے پھاوڑے کی ایجادہوئی – انسان جانوروں کا پالناسیکھ چکا تھا -اس نے جانوروں کی مددسے زمین پرہل چلاناشروع کیا-جب وہ دھات کا پگھلانا سیکھ گیا تواس نے کاشتکاری کے آلات دھات سے بنانے شروع کر دیے-دھات کے آلات کواستعمال میں لانے سے اس کی محنت زیادہ پیداوارکرنے لگی جس کے نتیجے میں ابتدائی قبیلے زمین پر آباد ہوئے-یہ سماجی زندگی کاآغاز تھا-

ابتدائی سماج میں پیداواری رشتے اور تقسیم محنت
پیداواری رشتے، پیداواری قو توں کی نشو ونما کی سطح اور ان کے کیریکٹر سے متعین ہو تے ہیں-ابتدائی اشترا کی سماج میں ذرائع پیداوار مشترکہ تھے- اور اسی بنیادپر پیداواری رشتے قائم ہوئے تھے جو اس عہدمیں پیداواری رشتو ں کی سطح تھی ۔اسی کے مطابق پیداواری رشتے بھی تھے ۔آلات ابھی ایسے تھے کہ انسان اکیلانہ درندوں سے لڑسکتا تھا اور نہ قدرت کو تسخیر کر سکتا تھا ۔ ابتدائی سماج میں اشتراک کی وجہ انسان کی کمزو ری تھی نہ کہ آلات کی مشترکہ ملکیت ۔
ابھی انسان کی محنت صرف اتنا ہی پیداکرتی تھی جتنا اس کے زندہ رہنے کیلئے ضروری تھا ۔ وہ ابھی زائد پیداوار کرنے پر قادر نہ تھا ۔ ان حالات میں سماج میں نہ تو طبقات تھے اور نہ انسان کی محنت کے استحصال کا وجو د تھا ۔ انسان چھو ٹے چھو ٹے گر وہو ں کی صو رت میں رہتے تھے اور پیداوار کا اشترا کی کر یکڑالگ الگ گر وہو ں تک محدود تھا ۔
اس سماج میں پیداواری عمل باہمی تعاون سے ہو تاتھا ۔با ہمی تعاون کے طفیل انسان بڑے بڑے جا نو ر شکا ر کر لیتاتھا ۔ چونکہ پیداواری قوتیں زیا دہ ترقی یا فتہ نہیں تھیں ۔ اس لئے جو کچھ خوراک فراہم ہو تی تھی وہ مساوی تقسیم کر لی جاتی تھی ۔ چو نکہ پیداوار بڑی مشکل سے ضرورت کو پو راکر تی تھی اس لئے اور کسی قسم کی تقسیم نا ممکن تھی ۔کیو نکہ اگر کسی ایک فر د کو اس کے مساوی حصے سے زیا دہ ملے تو کسی دوسرے فر د کا بھو کا رہنا ضروری تھا ۔ اس لئے مشترکہ محنت کی پیداوار کی مساوی تقسیم نا گزیر تھی ۔
ابتدائی اشترا کی سماج کا بنیادی معاشی قانو ن یہ تھا کہ اس سماج میں ذرائع پیداوار مشترکہ تھے اورمشترکہ محنت سے آلات پیداوارکی مددسے زندہ رہنے کا سامان فراہم کیا جاتا تھا اوراس سامان کی تقسیم مساوی ہوتی تھی ۔
جوں جوں آلات پیداوار نے ترقی کی ،تقسیم محنت عمل میںآئی-اس کی پہلی تقسیم فطری تھی یعنی جنس اور عمر کی تقسیم(عورت اور مردکے درمیان،بچوں اور جوانوں کے درمیان تقسیم محنت) ۔پیدواری قوتوں کی نشوونما کے ساتھ محنت کی تقسیم پکی ہوتی گئی -مردشکار کرنے لگے اورعورتیں گھر کا کام اور سبزیاں اگانے کا کام کر نے لگیں-اس تقسیم محنت سے محنت کی کا رکردگی اور ہنرمندی میں اضافہ ہوا-مرد شکارکرنے میں طاق ہوگیااورعورت گھر کا کام کاج کرنے میں طاق ہوگئی-

قبائلی نظام
مادری نظام،پدری نظام

جس زمانے میں انسان حیوانوں (جانوروں)کی دنیا سے الگ ہو رہاتھا تووہ گروہوں کی صورت میں رہتا تھا -جب وہ اپنی خوراک خود پیداکرنے لگا اور اس کی آبادی میں اضافہ ہواتواس کے نتیجے میں سماج کی اولین تنظیم یعنی قبائلی تنظیم پیداہوئی۔
اس وقت خون کے رشتے کی بناء پرلوگ اکٹھے ہی رہتے اور مشترکہ محنت کرتے تھے-آلات پیداوار ایسے تھے کہ یہ محدود لوگ ہی مشترکہ محنت کر سکتے تھے اور ابتدائی انسان ہر اس انسان کو جس سے اس کا خون کا رشتہ نہ ہوتا اپنا دشمن سمجھتا تھا-
ابتدا میں قبیلہ اُن چنددرجن افراد پر مشتمل تھا جن کا آپس میں خون کا رشتہ ہوتا تھا-پھر آہستہ آہستہ قبیلے کے افراد میں اضافہ ہو تا گیا جس سے ایک قبیلہ کئی سونفو س کا بن گیا ۔مشترکہ زندگی گزارنے کی عادت راسخ ہو گئی اور مشترکہ محنت کی ضرورت اور اس کے فوائد نے انہیں اکٹھا رہناسکھایا ۔
مو رگن نے جو ابتدائی سماج کی تا ریخ کا مو رخ ہے امر یکہ کے ابتدائی قبائل کی ہیئت کو اس طر ح بیان کیا ہے کہ ان قبائل کا بنیادی ذریعہ معاش جانوروں کا شکار ،مچھلی کا پکڑنا ،اور جنگلی پھلوں کو اکٹھا کر نا تھا ۔محنت کی تقسیم مردو عورت کے درمیان یو ں تھی کہ مچھلیاں پکڑنا ،شکار کرنا ،ہتھیار بنانا،فصلیں بونا،کاٹنا ،اجناس کا ذخیرہ کر نا، کھانا پکانا ،کپڑے تیار کر نا، برتن بنانا اور جنگل صاف کرنا ،بڑے جانوروں شکار کر نا۔ یہ وہ کام تھے جو قبیلہ کے مر د مشترکہ محنت سے کرتے تھے ۔ بڑے بڑے وسیع مکانات ہو تے تھے جن میں بیک وقت بیس خاندان رہتے تھے ۔ان کے خوراک کے ذخیرے مشترکہ ہو تے تھے ۔عورت قبیلہ کی سردارہو تی تھی اور اس کا کام مختلف خاندانو ں میں خو راک تقسیم کرنا تھا ۔ جنگ کی صو رت میں یہ اپنا سردارچن لیتے تھے ۔ اور جنگ ختم ہوتے ہی اس کی سرداری ختم ہو جاتی تھی ۔
قبائلی سماج کی سطح پر عورت جو قبیلہ کی سردار ہو کرتی تھی وہ اس وقت کے ما دی حالات کا تقاضاتھا ۔ چو نکہ شکار کرنے کے ہتھیار بہت ابتدائی قسم کے تھے ۔ان کی مددسے پیداکیا ہو اگو شت تمام قبیلے کی ضرورت کو پو رانہ کر سکتا تھا اور پھر یہ بھی ضروری نہ تھا کہ ہر دفعہ شکار کو مار لیا جا ئے ۔ اس لیے کھیتی باڑی اور مو یشی پالنے کی اہمیت زیادہ تھی ۔ کیونکہ یہ پیداوار حاصل کرنے کا زیادہ قا بل اعتماد ذریعہ تھا ۔آلات کشاورزی بہت ہی ابتدائی قسم کے تھے اور ان کی مددسے عورتیں ہی اپنی جھونپڑیوں اور غاروں کے ارد گرد فصلیں کا شت کرتی اور انہیں کا ٹتی تھیں ۔ اس لئے عورت کا مقام (مرتبہ ) قبیلے میں زیا دہ اہم تھا۔ طو یل عرصے تک عورت نے ابتدائی سماج کی زندگی میں اہم کردار اداکیا اور اسی لئے اُس سماج میں اولادبھی ماں کے نام سے منسو ب کی جاتی تھی ۔
جب پیداواری قوتو ں نے مزید ترقی کی تو ایک طر ف چرواہی معیشت نے جنم لیا اور انسان نے مویشیو ں کے بڑے بڑے ریو ڑ اور گلے پالنے شروع کئے اور دوسری طرف زراعت میں بھی ترقی ہو ئی ۔ زیا دہ وسیع قطعات اراضی میں فصلیں کا شت کی جانی لگیں ۔ یہ دونو ں کام مر د کرنے لگے جس سے سماج کی زندگی میں مر دوں کا فیصلہ کن حصہ ہو گیا اور ماں کی سرداری کی جگہ باپ (مرد ) کی سرداری قائم ہو گئی ۔ اور اولاد مرد سے منسو ب کی جانے لگی ۔ اس ابتدائی سماج کے پیداوار ی عمل میں مر دیا عو رت جس کا زیادہ اہم حصہ ہو گا ،سماج میں وہ ہی زیادہ محترم اور غالب ہو گا ۔
چو نکہ اس سماج میں نجی ملکیت نہیں تھی اور سماج ابھی تک طبقات میں تقسیم نہیں ہوا تھا اور انسانی محنت کے استحصال کا وجود نہیں تھا اس لیے سماج میں ریاست کا وجود بھی نہیں تھا۔ لینن نے اپنے مضمو ن ’’ریاست ‘‘میں لکھا ہے :۔
’’ابتدائی سما ج میں ریاست کا کو ئی وجود نہیں تھا اس لیے سماج میں رواج کی بالا دستی تھی اور قبیلہ کے سردار کا احترام تھا اور اس کا حکم ما نا جا تا تھا ۔ قبیلے کا سردار کبھی مر د اور کبھی عورت ہو تی تھی ۔ لیکن اُس سماج میں لو گو ں کا کو ئی ایساگر وہ جو دوسروں پر حکمرانی کرے اور ایک مخصو ص طبقے کے مفاد کی خاطر دوسروں کو دبائے اور ان پر تشدد کر ے ،اس کا وجو د اُس سماج میں نہیں تھا ۔

محنت اور تبادلے کی سماجی تقسیم کا آغاز

جب انسان نے مو یشی کو پالنا اور کھیتی باڑی کر نا سیکھ لیا تو اس سے محنت کی سما جی تقسیم پیداہو ئی ۔ پہلے مختلف کام مختلف قبائل کر تے تھے بعد ازاں ایک ہی قبیلے کے افراد مختلف کام کرنے لگے ۔ چرواہی قبیلے اور کھیتی با ڑی کر نے والے قبیلو ں کے وجو د میں آنے سے سماج میں محنت کی پہلی تقسیم نمودار ہو ئی ۔ چر واہی قبیلے جو مو یشی پالتے تھے انہیں زیادہ کامیابی ہو ئی ۔انہیں مو یشیو ں کی حفاظت کر نا آگئی اور دودھ گو شت اور اون انہیں فروانی سے ملنے لگا ۔ محنت کی تقسیم سے محنت کی پیداواری صلاحیت اور ہنر مندی میں قابلِ ذکر اضافہ ہوا۔
اس عرصے تک ابتدائی سماج میں اشیاء کے تبادلے کا رواج نہ تھا ۔ وہ ہو بھی نہ سکتا تھا ۔کیونکہ اس کی بنیاد ان معنو ں میں نہ تھی کہ وہ اپنی ضر وریات سے زیادہ پیدا کرنے پر قادر تھے ۔ جس قدر پید ا کرتے مل بانٹ کر کھا لیا کر تے تھے ۔اشیاکا تبادلہ (تجارت ) پہلے مختلف قبائل کے درمیان شرو ع ہوئی جو مدت دراز تک صرف اتفاقیہ ہو تا تھا۔
جب کھیتی باڑی کر نے والے اور مو یشی پالنے والے قبائل وجود میں آگئے تو اس سے پیداوار کے امکانات بڑھ گئے ۔چرواہی قبائل کے پاس مویشی ،دودھ ،گھی ،گو شت ،کھالیں اور اون ضرورت سے زیادہ پیداہو نے لگا اور ان میں زرعی اجناس کی ضرورت کا بھی احساس پیداہوا ۔اور وہ قبائل جو زراعت کرتے تھے وہ اس کام میں مشاق ہو تے چلے گئے اور اپنی ضروریات سے زیادہ زرعی اجناس پیدا کرنے لگے ۔ اس صو رت حال کے نتیجے نے ان دونو ں قسم کے قبائل میں اپنی اپنی پیداکردہ اشیاء کے تبادلے (تجارت )کو جنم دیا ۔
مو یشی پالنے اور کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ دوسرے پیداواری عمل بھی وجو د میں آئے ۔پتھر کے زمانے میں ہی انسان برتن بنانا سیکھ چکا تھا ۔ اس کے بعد اس نے کپڑابننابھی سیکھ لیا اور جب اُسے لو ہا ڈھالنا آگیا تو وہ لو ہے کے آلات کلہاڑی،درانتی ،بھالا وغیرہ بنانے لگا ۔یہ ایسے کام تھے جنہیں کھیتی باڑی اور مو یشی پالنے کے ساتھ ساتھ کر تے رہنا مشکل تھا ۔ اس لئے قبیلے کے چند لوگو ں نے اسی کام کو کر نا شروع کر دیا جس سے لوہار ،کمہار اور دوسرے دست کا ر وجود میں آگئے ۔اور اس صورت حال نے اشیاکے تبادلے (تجارت ) کو فر وغ دیا ۔

نجی جائیداد اور طبقات کاآغاز
ابتدائی سماج میں عو رت قبیلے کی سردار تھی تو اس وقت ابتدائی کمیو نسٹ سماج اپنے عروج پہ تھا ۔جب ما دی زندگی کی تبدیلیو ں نے مر دکو قبیلے کا سردار بنادیا تو سماج میں ایسے حالات رونما ہونے لگے جن سے اس ابتدائی سماج کے تا ر پو د کا بکھر جانا لازمی تھا ۔
ابتدائی اشترا کی سماج کے پیداوار ی رشتے ایک مدت تک پیداواری قوتو ں کی ترقی کے مطابق تھے ۔لیکن جب نئے اور زیادہ بہتر آلات پیداوار( لو ہے کے آلات ) بننے لگے تو اس ابتدائی سماج کے پیداواری رشتے ان نئی پیداواری قوتو ں کے مطا بق نہ رہے ۔اور مشترکہ ملکیت اور پیداوار کی مساوی تقسیم نئی پیداواری قوتوں کے راستے میں حائل ہو نے لگی ۔ پہلے ایک قطعہ زمین کو ئی درجن بھر آدمیو ں کی مشترکہ محنت سے ہی کاشت کیا جا سکتا تھا ۔اس لیے مشترکہ محنت لازمی تھی ۔جب آلاتِ پیداوار اور محنت کی کا رکردگی میں ترقی ہوئی تو ایک ہی کنبے کے افراد اس قابل ہو گئے کہ زمین کو کاشت کر سکیں اور اپنی ضروریات کی اشیا پیداکر سکیں ۔بہتر آلاتِ پیداوار نے معاشی ترقی کے سامان پیداکر دیئے اور مشترکہ محنت اور کمیو نسٹ معیشت کی ضرورت کم ہو گئی ۔مشترکہ محنت کا تقاضہ تھا کہ آلاتِ پیداوار مشترکہ ملکیت میں ہو ں ۔انفرادی محنت کی اہمیت بڑھ جانے سے نجی ملکیت قائم ہو نے کے لئے فضا ساز گا ر ہو گئی ۔
نجی محنت کی سماجی تقسیم تبادلے (تجارت )کے ساتھ بندھی ہو ئی ہے ۔پہلے پہل قبیلو ں کے سردار اپنے قبیلو ں کی فالتو اشیا کا تبادلہ دوسرے قبائل کی اشیاسے کر تے تھے ۔اور یہ تبادلہ قبیلو ں کی اشیا کے درمیان ہو تا تھا ۔ جو کچھ وہ اس تبادلے میں حاصل کر تے تھے وہ سب سارے قبیلہ کا ہو تا تھا ۔ لیکن جب محنت کی تقسیم اور زیادہ ہو گئی اور تجارت کو فر و غ ہو ا تو قبیلے کے سردار، قبیلے کی فا لتو پیداوار کو اپنا سمجھنے لگے اور ان کے بدلے حاصل کر دہ اشیاء کے مالک بھی خو د بن بیٹھے۔

پہلی جنس تبادلہ یا تجارت
مو یشی پال (چرواہی ) قبیلو ں کے پا س بھیڑو ں اور دوسرے مو یشیو ں کے بڑے بڑے گلے تھے ۔قبیلو ں کے سردار اُن کا تبادلہ ضرورت کی دوسری اشیا سے کرنے لگے ۔اس طرح تبادلے یا تجارت کی پہلی جنس مو یشی بنے اور پھر آہستہ آہستہ پیداوارکے آلات بھی جنسِ تبادلہ بنتے چلے گئے ۔جس سے مو یشی اور آلات پیداوار کی نجی ملکیت رواج پا گئی۔ البتہ زمین کی مشترکہ ملکیت دیر تک بر قرار رہی ۔
پیداواری قوتو ں کی نشونما اور ان کی نجی ملکیت نے ابتدائی اشتراکی سماج کو ختم کر دیا ۔جب قبائل میں کنبو ں نے علیحدگی اختیا رکرنا شرو ع کی تو اس سے خاندانو ں کی بنیاد پڑ گئی ۔ اور ان خاندانوں نے آلاتِ پیداوار اور مو یشی بھی الگ کرلیے اور ان پر ان خاندانو ں کی نجی ملکیت قائم ہوگئی ۔نجی ملکیت کے ظہور سے قبائلی رشتے ٹو ٹنے لگے اور دیہی آبادیو ں نے قبیلو ں کی جگہ لے لی ۔ مکان ، گھر کا سامان اور مو یشی الگ الگ کنبو ں کی ملکیت بن گئے ۔جنگلات ، چراگاہیں ،آب رسانی کے وسائل اور کاشت کی جانے والی زمین مشترکہ ملکیت رہے ۔کاشت کی جانے والی زمین پہلے ایک خاص مدت کے بعد تقسیم کی جاتی تھی ۔پھر اس پر بھی نجی ملکیت رواج پا گئی۔ ابتدائی سماج میں نجی ملکیت کے قیام اور تبادلے (تجارت ) کے آغاز نے سماج کی ترقی میں ایک مو ڑ کا کا م کیا ۔نجی ملکیت سے مختلف گروہوں اور افراد کے مفادات نے جنم لیا ۔سماج کے اس دور میں وہ افراد جو سما ج میں محترم تھے (مثلاً قبیلے کے سرداراور پر وہت ) وہ اپنی حیثیت سے فائدہ اٹھانے لگے اور دولت مند بن گئے ۔انہو ں نے مشتر کہ جائیداد میں زیادہ حصہ حاصل کر لیا ۔ یہ افراد سماج کے دوسرے لو گو ں سے امتیازی حیثیت اختیار کرتے گئے اور قبیلو ں میں اشرافیہ گروہ بن گئے ۔اور پھر (مرنے کے بعد ) اپنی دولت اور سماجی حیثیت کو اپنے ورثا کے لئے چھوڑنے لگے ۔یہ اشرافیہ خاندان قبائل کے امیر ترین خاندان بن گئے ۔اور قبیلے کے دوسرے لو گ کسی نہ کسی شکل میں ان کے محتاج ہو گئے ۔
پیداواری قوتو ں کی نشوونما سے انسان اپنی ضروریات سے زیادہ پیداکرنے لگا اور اس بات کے امکان پیداہو گئے کہ فالتو پیداوارکا استحصال کیا جا سکے۔ اس صورت حال نے انسانی سماج میں ایک نئی تبدیلی پیداکی اور قبائلی جنگو ں میں مغلوب قبیلوں کو قتل کرنے کے بجائے ان کو غلام بنا لینا زیادہ فائدہ مند بن گیا۔ جبکہ پہلے قبائلی جنگوں میں مویشیو ں اور دوسری پیداوار کے ذخیرو ں کو لوٹنے کیلئے مغلو ب قبیلو ں کے انسانو ں کو قتل کر دیا جا تا تھا ۔دولتمند کنبو ں اور اشرافیہ خاندانو ں نے بڑی تعداد میں غلام رکھنے شروع کیے اور ان سے مو یشی پالنے اور کھیتی باڑی کا کام لینے لگے۔ غلامو ں کی محنت نے سماج میں عدم مساوات کو اور بڑھا یا کیو نکہ وہ خا ندان جو غلامو ں کی محنت سے پیداوارکرتے تھے وہ امیر سے امیر تر بن گئے ۔غلامو ں کی محنت چو نکہ فائدہ مند ثابت ہو ئی اس لئے اب صرف جنگ سے حاصل ہونے و الے قیدیو ں کو ہی غلام بنانے پر اکتفانہ کیا گیا بلکہ اپنے قبیلے کے قلاش اور غریب لو گو ں کو بھی غلام بنایا جانے لگا ۔اور اس طر ح غلام داری سماج کی صورت میں سماج کے اندر واضح اور بہت نمایا ں طبقاتی تقسیم نمو دار ہو ئی ۔اور سماج آقاؤ ں اور غلاموں کی شکل میں بٹ گیا۔ اور اب اس سماج میں آدمی آدمی کاا ستحصال کرنے لگا ۔
مذکو رہ بالا صو رتحال نے ابتدائی سماج کے پیداواری رشتے ختم کر دئیے اور نئے پیداواری رشتو ں نے ان کی جگہ لے لی جو نئی پیداواری قوتوں کا تقاضہ تھے اور ان کے مطابق تھے ۔
انفرادی محنت نے مشترکہ محنت کی جگہ لے لی۔ سماجی جائیدادنجی جائیدادابن گئی اور قبائلی سماج طبقاتی سماج بن گیا ۔اس وقت سے مو جو دہ کمیو نسٹ سما ج کی تعمیر تک انسانی تا ریخ طبقاتی کش مکش کی تا ر یخ ہے ۔
******
بو رژوادانشو ر اس با ت کا دعویٰ کرتے ہیں کہ شخصی جائیداد یا نجی ملکیت ہمیشہ سے ہے ۔لیکن تا ریخ اُن کے اس دعوے کو جھٹلاتی ہے اور اس بات کا ثبوت مہیاکر تی ہے کہ ہر جگہ انسانی سماج ابتدائی اشترا کی سماج سے گزری ہے جس کی بنیاد مشترکہ ملکیت پر تھی اور جس میں نجی ملکیت کا وجو د نہ تھا ۔اور انسان معاشی نشوونما کی مو جو دہ صورتحال تک اسی منز ل سے گز ر کر پہنچے ہیں ۔اور معاشی نشوونما کی ایک خاص سطح پر آکر نجی ملکیت پیداہو ئی ہے ۔

خلاصہ

1 ۔ انسان حیوانو ں کی دنیا سے اپنی محنت کے بل بوتے پر الگ ہوا اور اسی سے انسانی سماج پیداہوا۔ انسانی محنت کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ آلات پیداوار بنا سکتی ہے ۔
2۔ ابتدائی سماج میں پیداواری قوتیں پست تھیں اورپیداواری آلات ابتدائی تھے ۔اس وجہ سے انسان مشترکہ محنت کرنے پر مجبو ر تھے۔ پیداوار مشترکہ اور اس کی تقسیم مساوی تھی ۔ابتدائی سماج میں ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا وجو د نہیں تھا ۔اور آدمی آدمی کی محنت کا استحصال نہیں کرتا تھا ۔ذرائع پیداوار کی مشترکہ ملکیت الگ الگ گروہوں کی اپنی تھی جو ایک دوسرے سے الگ الگ زندگی گزارتے تھے ۔
3 ۔ ابتدائی سماج کا بنیادی معاشی قانون یہ تھا کہ آدمی اپنی بنیادی ضروریا ت ابتدائی آلاتِ پیداوارکی مددسے ذرائع پیداوار کی مشترکہ ملکیت کی بنیاد پر حاصل کر تا تھا اور اسے مساوی طور پر بانٹ لیا کر تا تھا ۔
4۔ انسان بہت مدت تک ایک ہی قسم کی محنت کرتا رہا ۔لیکن آلاتِ پیداوار کی تبدیلی نے تقسیمِ محنت پیداکی اور یہ پہلی تقسیم جنس اور عمر کی بنیا د پر قائم ہوئی۔ جب آلاتِ پیداواربہتر ہوگئے اور بنیادی ضروریات پیداکرنے کے طریقے بہتر ہو گئے ،اور مو یشی پالنا اور کھیتی باڑی کرنا انسان نے سیکھ لیا تو اس سے سماجی محنت میں اور تقسیم ہو ئی اور اشیاء کے تبادلے (تجارت ) کاآغاز ہوا ۔نجی ملکیت ، عدم مساوات ،آدمی کی محنت کا استحصال اور سماج میں طبقات کا وجو د نمو دار ہوا۔اس طرح پیداواری قوتیں اور پیداواری رشتے غیر مطابق ہو گئے ۔اور نئی پیداواری قوتو ں نے پرانے پیداواری رشتو ں کو ختم کر دیا ۔ اس طرح ابتدائی اشترا کی سماج کی جگہ نئے پیداواری رشتو ں یعنی غلامی کے سماج کا قیام عمل میں آیا ۔

Spread the love

Check Also

خاندانوں کی بنتی بگڑتی تصویریں۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل

میں نے شمالی امریکہ کی ایک سہہ روزہ کانفرنس میں شرکت کی جس میں ساری ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *