Home » قصہ » حرام خور ۔۔۔ آدم شیر

حرام خور ۔۔۔ آدم شیر

نمک ملی ریت میں خوشبو اور ذائقہ میں نرالی پہاڑی مکئی کے دانے بھونے جا رہے ہیں۔ گڑ میں لپٹے دانے پلاسٹک کی ٹوکری میں ہیں جس کے ساتھ ہی بڑے سے پولیتھین شاپر میں مونگ پھلی بھی موجود ہے۔ ریڑھی بان کا ہاتھ تیز تیز چل رہا ہے کہ دانے کالے نہ ہو جائیں۔ اس سے چند فٹ کے فاصلے پر دال چاول بِک رہے ہیں جس کی بغل میں چائے والا بھی بیٹھا ہے اور سامنے ایک نوجوان خشک خوبانی، سونگھی، اخروٹ کی گری، سُوکھا آلوبخارا اور حسینوں کے منہ میں پانی بھر دینے والی املی کے چھوٹے چھوٹے لفافے گتے کے بورڈ پر ٹانکے گاہکوں کی راہ تک رہا ہے۔ نوجوان سے چند قدم دور ایک ریڑھی پر لنڈے کی جیکٹیں الٹی پلٹی جا رہی ہیں جس کے قریب ایک شخص سائیکل کے پیچھے ٹوکرا باندھے گاجر اور مولی کی کھٹی سے بھیگی اور چٹ پٹے مسالے سے لتھڑی قاشیں فروخت کر رہا ہے۔
یہ ایک بد رو پر موجود پل کی بات ہے جس کے مغرب میں کینٹ اور مشرق میں گلبرگ کی بڑی بڑی کوٹھیاں ہیں جن میں سے اکثر کے مکین شہر کو مزید وسیع کرنے کے لئے جا چکے ہیں اور ان کی پرانی کمین گاہیں فیکٹریوں اور ان کے دفاتر کا کام دیتی ہیں۔ پل کے شمال میں کچی آبادی ہے جو کب کی پکی ہو چکی ہے مگر گلی کوچوں میں بکھری غلاظت اس کی اصل ظاہر کرتی ہے۔ پل کی جنوبی جانب ایک پارک ہے جسے کچھ عرصہ قبل ایک فیکٹری کے مالک نے پارکنگ سٹینڈ بنانے کی کوشش کی تھی مگر مکینوں نے ناکام بنا دی تب باغوں کی دیکھ بھال سے متعلق ادارے کو اس میں گھاس اگانے اور جھولے لگانے کا خیال آیا کہ دوبارہ قبضہ کی کوشش نہ ہوسکے لیکن پارک کی آدھی سے زیادہ زمین پر پہلے ہی ایک پلازہ تعمیر ہو چکا ہے۔ کچی آبادی کے کچھ باسی سردیوں کی دوپہریں اور گرمیوں کی شامیں یہیں گزارتے ہیں گو پارک خشکی کا مارا ہے۔ گھاس کا حال اسے مسلنے والے خستہ حال لوگوں جیسا ہے اور جگہ جگہ سے ان کے سر کے بالوں کی طرح اڑ بھی چکی ہے۔ یہ نام نہاد پارک بد رو کے ایک کنارے ہے تو دوسری طرف فراہمی آب سے متعلق محکمے کا ٹیوب ویل نصب ہے جس کے باہر ایک موچی نے اڈا بنا رکھا ہے جو اکثر اخبار پڑھتا نظر آتا ہے ۔ پارک کے دوسرے کنارے پر، جو سڑک کی طرف ہے، ایک شخص پھل فروخت کرتا ہے جس کے زیادہ تر گاہک کار سوار ہیں اور انہی کی مہربانی سے بھاؤ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ پرانی کوٹھیوں کی جگہ بنے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور دیکھ کر گزارا کرتے ہیں۔
نعمان احمد ایک اخبار نویس ہے اور اس کا دفتر اسی پل سے سو گز کی دوری پر ہے جہاں سے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا دھوپ سے سکون محسوس کرتاسگریٹ لینے جا رہا ہے۔ چلتے چلتے وہ گتے والے نوجوان کے پاس رکتا ہے اور اس سے اخروٹ، آلو بخارے اور خشک خوبانی کے لفافے لے کر جیکٹ کی جیب میں منتقل کرتاہے۔ پل سے گزرتے ہوئے اس کی نظر مونگ پھلی والی ریڑھی پر پڑتی ہے مگر وہ رکتا نہیں۔ وہ دکان پر پہنچ کر سگریٹ کی ڈبیا کے لئے سو روپیہ پکڑاتا ہے لیکن اس سے نئے ٹیکس کی مد میں مزید بیس روپے مانگے جاتے ہیں ۔ وہ پیسے دے کر زیر لب دو تین گالیاں نکال کر واپس پل کی طرف مڑتا ہے جہاں کارخانوں سے کھانا کھانے کے لئے نکلے ہوئے مزدور نظر آ رہے ہیں جن میں سے کچھ تو خوب ٹھونس ٹھونس کر پیٹ بھر رہے ہیں اور کئی گزارا کرنے کے چکر میں گاجر مولی کی قاشیں کھا رہے ہیں یا مکئی اور مونگ پھلی کے دانے لے رہے ہیں۔ چند ادھیڑ عمر مزدور لکڑی کے بنچوں پر اکڑوں بیٹھے چائے اور سگریٹ ایک ساتھ نوش کر رہے ہیں۔
نعمان احمد اپنے پیٹ پر ہاتھ پھیرتا ہے جیسے محسوس کر رہا ہو کہ ابھی کھانا ضروری ہے یا کچھ اور زہر مار کیا جائے اور وہ مکئی کے دانوں والی ریڑھی کی اس طرف کھڑا ہو جاتا ہے جہاں کڑاہی کے نیچے جلتی لکڑیاں زیادہ تپش دیتی ہیں۔ وہ جیب سے بیس روپے کا نوٹ نکالتا ہے مگر فوراً واپس کیسے میں ڈال لیتا ہے اور ریڑھی والے کو آدھ پاؤ مونگ پھلی دینے کا کہتے ہوئے سوچتا ہے کہ تھوڑی خود کھائے گا اور باقی بیوی کے لئے گھر لے جائے گا۔ ریڑھی بان چھلکا اتری مونگ پھلی تول کر کڑاہی میں پھینکتا ہے اور ایک دو بار الٹ پلٹ کر نکال لیتا ہے۔ نعمان کاغذ کے لفافے میں سے ایک دانہ لے کر منہ میں ڈالتے ہوئے جیب سے سو کا نوٹ نکال کر ریڑھی بان کو دیتا ہے جس پر اسے پچاس روپے واپس ملتے ہیں جنہیں پکڑے وہ کچھ لمحے انتظار کرتا ہے اور مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔
’’دس روپے اور آتے ہیں۔‘‘
’’سو روپے پاؤ ہے ،باؤجی۔‘‘ریڑھی بان بھی مسکرا کر جواب دیتا ہے ۔
’’تین دن پہلے تو اسی روپے پاؤ تھی۔‘‘ ٓ
’’کہاں؟‘‘ ریڑھی بان کی مسکراہٹ برقرار ہے جو بے گانی نعمان سے بھی نہیں ہوئی۔
’’یہیں۔ تم سے لی تھی۔‘‘
’’سردی کے ساتھ مہنگی ہوتی ہے۔ پیچھے سے ریٹ بڑھتا ہے۔‘‘ریڑھی بان قہقہہ لگاتا ہے مگر نعمان کی مسکراہٹ جواب دے جاتی ہے اور تلخی جگہ بنا لیتی ہے۔
’’ کمال ہے۔ پیچھے سے کہاں سے اتنا ریٹ بڑھتا ہے۔ تم خود مہنگی کرتے ہو۔‘‘
’’نہیں جی۔ ریٹ بڑھتا ہے۔ مہنگی دیتے ہیں۔‘‘ ریڑھی بان کی مسکراہٹ بڑی ڈھیٹ ہے۔
’’نہیں۔ ایسے ریٹ نہیں بڑھتا۔۔۔‘‘ نعمان کی بات ریڑھی بان کاٹتا، ’’ میں بھی نہیں بڑھاتا۔‘‘ مگر نعمان سنی ان سنی کرتے ہوئے یوں گویا ہوتا ہے جیسے ڈانٹ رہا ہو، ’’ میری بات سنو۔ پیچھے سے ریٹ جو بڑھتا ہے سو بڑھتا ہے۔ تم لوگ زیادہ بڑھاتے ہو۔اب دیکھو سگریٹ کا دس ڈبیوں کا ڈنڈا پیچھے سے دس روپے مہنگا ہوتا ہے جس میں ہوتے ہیں دو سو سگریٹ ۔۔۔ ‘‘ اور ساتھ ہی پان سگریٹ والی دکان جو دو دکانیں گھیرے ہوئے ہے، کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتا ہے۔ ’’لیکن وہ حرامی بیس سگریٹ دس روپے مہنگے بیچتا ہے۔‘‘
’’میں ایسے نہیں کرتا جی۔آپ اسے بیس روپے دے آئے ہیں اور مجھے دس دیتے رو رہے ہیں۔ ‘‘ ریڑھی بان کی مسکراہٹ اب تک اس کے چہرے پر موجود ہے مگر نعمان کے ماتھے پر لکیریں خون کی رفتار کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔ وہ چاروں طرف نظر دوڑاتا ہے جو ٹیوب ویل سے پرے سبزی والے کی دکان پر جا ٹھہرتی ہے۔ وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دوبارہ مخاطب ہوتا ہے۔
’’اسے دیکھو۔ وہ کیا کرتا ہے ۔ پیچھے سے ریٹ بڑھتا ہے اور آلو کی بوری اسے پندرہ کی بجائے بیس روپے فی کلو کے حساب سے ملتی ہے تو وہ اتوار بازار جاتا ہے اور چالیس روپے کلو بیچ دیتا ہے۔ ‘‘
’’جی۔‘‘
’’صبح میں نے بچے کے لئے خشک دودھ کا ڈبا لیا۔ پتا ہے کتنے کا ملا؟ پچھلی بار سے ڈیڑھ سو روپے مہنگا۔ پورے ایک سو پچاس روپے۔ اس کا ریٹ پیچھے سے بڑھا تھا کیونکہ اس کثیر الملکی کمپنی کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔‘‘
ریڑھی بان قہقہہ لگاتا ہے، ’’ تو اس کا غصہ میری ریڑھی پر تو نہ نکالو ،بابو۔‘‘
’’تم پر کیوں نہ نکالوں؟ پتا ہے جب میں سکول جاتا تھا چلغوزے یوں بکتے تھے جیسے آج کل املوک ریڑھیوں پر رُلتے ہیں۔اب کئی سال سے میں نے دیکھے تک نہیں۔‘‘
’’میں نے بھی نہیں دیکھے ۔‘‘ریڑھی بان کے لہجے سے بیزاری نمایاں ہو رہی ہے مگر اس کے چہرے پر گوند سے چپکائی گئی مسکراہٹ بھی موجود ہے اور نعمان کو عجب دورہ پڑا ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
’’کبھی چیری کھائی ہے؟‘‘
’’نہیں، جی۔‘‘
’’وہ بھی تمہارے کسی بھائی نے اتنی مہنگی کر دی ہے کہ میں نے بھی زندگی میں چند بار ہی چکھی ہے۔‘‘
’’اچھا جی۔ جائیں۔ جان چھوڑیں۔‘‘
’’ایویں جان چھوڑ دوں۔ تم نے مونگ پھلی کے زیادہ پیسے لئے ہیں۔ اسی طرح سبزی مہنگی ہوتی ہے ۔ گوشت کا بھاؤ بڑھتا ہے۔ آٹا شارٹ ہوتا ہے اور پھر تم سب کہتے ہو حکمران حرامی ہیں۔‘‘
’’وہ تو ہیں جی۔‘‘ریڑھی بان کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جی جی کیے جا رہا ہے ۔ شبہ ہوتا ہے کہ وہ نعمان کی باتوں کو خاطر میں نہیں لا رہا یا اس کا دھیان کہیں اور ہے کہ اس کے پاس سر کھپانے کی فرصت نہیں مگر پل پر موجود کئی مزدور بڑے آرام سے ان کو دیکھ رہے ہیں اور مسکرا بھی رہے ہیں لیکن نعمان سب سے بے پروا بولے جا رہا ہے۔
’’وہ تو ہیں ہی۔ تم بھی تو حرام خور ہو۔ ‘‘ نعمان آخر کار ریڑھی بان کی مسکراہٹ ختم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے مگر سوچے بغیر بولتا جا رہا ہے۔
’’اب مجھے دیکھو میری تنخواہ آج بھی وہی ہے جو چار سال پہلے تھی اور تم ہر چیز مہنگی کئے جا رہے ہو۔‘‘
’’تنخواہ بھی ہر سال بڑھتی ہے۔‘‘
’’صرف سرکاری ملازمین کی بڑھتی ہے۔ پرائیویٹ کی نہیں۔سب حرام خور ہیں۔‘‘نعمان احمد کا غصہ برقرار ہے ۔ وہ جیکٹ کی جیب سے ڈبی اور اس میں سے سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبا لیتا ہے جسے وہ ریڑھی بان کی طرف دیکھتے ہوئے سلگاتا ہے اور مزدوروں پر نظر ڈالتے ہوئے منہ کھول کر دھواں چھوڑتا ہے ۔
’’ایسے کام نہیں چلے گا۔ ۔۔‘‘ اور ایک کش اور لے کر ناک کے راستے سلیٹی رنگی ہوا نکالتا ہے۔ ریڑھی بان بھانپ جاتا ہے کہ تقریر یوں ختم نہیں ہوگی۔ وہ لکڑی کی صندوقچی میں سے دس کا نوٹ نکال کر نعمان کی طرف بڑھاتا ہے مگر نعمان لینے کی بجائے مسکراتے ہوئے کہتا ہے۔
’’نہیں۔ اب میں یہ دس روپے نہیں لوں گا۔ میرے بعد جو آئے، اسے پوری قیمت پر سودا بیچنا۔‘‘ اور وہ ریڑھی بان کے اصرار کو ہنسی میں اڑاتے ہوئے دھواں چھوڑنے والے انجن کی طرح دفتر کی طرف چلنے لگتا ہے۔ اس کے پیچھے دو جوان مزدور ریڑھی کی طرف بڑھتے ہوئے بھرپور قہقہہ لگاتے ہیں مگر ریڑھی بان چند لمحے چپ چاپ اسے جاتے ہوئے دیکھتا ہے اور پھر نمک ملی ریت میں مکئی کے دانے پھینکے بغیر آدھے پھل والی درانتی ہلانے لگتا ہے جب تک ایک کار ریڑھی کے پاس آکر نہیں رکتی جس کا شیشہ نیچے کرکے ایک شخص مونگ پھلی کو دیکھتا ہے اور آس پاس کی غلاظت سے تذبذب کا شکار ہو جاتا ہے کہ یہاں سے خرید لے یا ڈیپارٹمنٹل سٹور ہی بہتر رہے گا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد آدھا کلو مونگ پھلی دینے کو کہتا ہے۔ ریڑھی بان تولنے میں مصروف ہو جاتا ہے اور ادھیڑ عمر کار سوار مزدوروں کو بے ڈھنگے پن سے مختلف چیزیں کھاتے دیکھ کر منہ پھیر کر اپنے بال سنوارنے لگتا ہے۔ جب اسے مونگ پھلی ملتی ہے ، وہ سو سو کے دو نوٹ ریڑھی بان کو دیتا ہے جو صندوقچی میں سے بیس بیس کے دو نوٹ نکالتا ہے اور کار سوار کی طرف بڑھا دیتا ہے مگر کار سوار مونگ پھلی کے دانے منہ میں بھرتے ہوئے اسے ہاتھ کے اشارے سے بقایا رکھنے کو کہتا ہے اور یہ جا وہ جا۔۔۔ ریڑھی بان کچھ سیکنڈ اس کے پیچھے خالی پڑی سڑک کو دیکھتا رہتا ہے ، پھر نمک ملی ریت میں مکئی کے دانے پھینکے بغیر ٹوٹے پھل والی کالی سیاہ درانتی ہلانے لگتا ہے ۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *