Home » سموراج » کارِ جہاں ۔۔۔ فرحت پروین

کارِ جہاں ۔۔۔ فرحت پروین

نکہت آفریں مر غزا روں میں کھوئی ہوئی اُس اداس و ملو ل روح کو دیکھ کر
دل یزداں دکھ سے بھر گیا۔ اس نے فر شتے کو بلایا اور حکم دیا:
’’جاؤ ، اس معصو م و مغمو م رو ح کی دل زدگی کا سبب معلوم کرکے اس کا مداوا کرو۔‘‘
فر شتہ ارشاد باری بجا لانے کواس کے پاس گیا او ر سخن آرا ہوا:
’’ اے معصو م و مغموم رو ح! تیری دل زدگی کا سبب کیا ہے؟ تجھے معلوم ہے کہ خدائے عز و جل نے تجھے بڑ ے انعا مات سے نو ازا ہے۔ وہ تیرے درجات بلند سے بلندتر کرتا رہتا ہے ۔ یہاں تجھے ہر وہ نعمت میسر ہے جس کا فانی دنیا میں تیر ے لیے تصو ر بھی محال تھا۔ یہ مر غز ار ، یہ فضائیں، یہ نہریں ، یہ خو شبو ئیں لُٹاتی باد شمیم، یہ اُجلے منا ظر ، یہ دلنشیں ساتھی، یہ فر اغت اور پھرہر چیز قائم و دائم ، کوئی فکر نہیں ، کوئی اندیشہ نہیں ۔۔۔۔ پھر کس چیز کی کمی تجھے ملول و دل گر فتہ رکھتی ہے۔ مجھے بتا تا کہ اس کا ازالہ کیا جائے۔‘‘
وہ خامو شی سے سنتا رہا اور پھر گویا ہوا: ’’ اے معز ز فرشتے ! آپ کی توجہ اور عنا یت کے لیے مشکو ر ہوں۔ مگر آپ سمجھ نہیں پائیں گے۔ اس لیے کہ آپ کے پاس وہ جذ بات ہی نہیں ہیں۔ خوشی ، غم ، دکھ، سکھ ، نفر ت، محبت ۔۔۔۔۔ یہ سب آپ کو کیا معلوم؟ ‘‘
’’ ہاں ، یہ بجا ہے کہ ہم دکھ سے واقف نہیں ، خوشی او رغم کا بھی ہمیں کوئی تجربہ نہیں ۔ نفر ت و حسد سے بھی ہم مبر ا ہیں۔ مگر ہمارے پاس احساس ہے۔ ہم دو سروں کے دکھ اور مسر ت کو محسوس کرتے ہیں اور محبت تو ہم کرتے ہیں ۔ اپنے خالق سے ، اپنے معبو د سے ، لا محدود و بے کنا ر۔‘‘
’’ مگر آپ جو محبت کرتے ہیں ، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ، کوئی اندیشہ نہیں۔ آپ اس محبت سے نا آشنا ہیں جس میں چھن جانے کا اند یشہ ، بچھڑ جانے کا خوف ہوتا ہے۔ چا ہت ، خوف اور اند یشے سے جو محبت تر کیب پاتی ہے۔ اس کی شد ت ، اس کی لذت، اس کی دیو انگی، اس کے جنو ن کا آپ اند ازہ نہیں کر سکتے ۔‘‘
فر شتے کی جبیں پرتفکر کی لکیریں اُبھر یں:
’’ اب میں سمجھا۔ میں سو چتا تھااور مجھے حیر ت ہوتی تھی کہ انسان اس چند روزہ فانی زندگی سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں جبکہ انہیں و اضح طور پر حیاتِ ابدی کی نو ید دے دی گئی ہے۔ اور وہ حیا تِ ابدی کی مسر توں اور راحتوں کے حصو ل کے لیے کوشاں ہونے کے بجا ئے اِس چند رو زہ زند گی سے چمٹے رہنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ ‘‘
’’ہاں ،محترم فر شتے ! آپ درست سمجھے ۔ یہ چھن جانے کا خو ف ، زندگی کا فانی ہونا ہی اس کی بے پناہ کشش کا با عث ہے۔ ‘‘
’’تم نے میر ی توجہ اصل مسئلے سے بھٹکا دی ۔ میں نے تم سے جو سوال کیا تھا، مجھے اس کا جواب چاہیے ۔‘‘
’’گستاخی معاف! معز ز فر شتے ! کنا رے سے کبھی اند ازۂ طو فاں نہیں ہوتا۔ آپ میر ے جذبات کو سمجھ نہیں پائیں گے اس لیے اس ذکر کو جانے دیں ۔‘‘
فر شتہ متذبذ ب دکھائی دیا ۔ پھر گو یا ہوا:
’’مگر مجھے یہ معلوم کرنا ہی ہے۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’میں فر ستادہ ہوں۔‘‘
’’ فر ستادہ ؟‘‘
’’ہاں ، مجھے رب جلیل نے حکم دیا ہے کہ تیر ی اُداسی کا سبب معلوم کروں ۔‘‘
’’اس نے آپ کو معلوم کرنے کو کہاہے، جو دلوں کے بھید جانتا ہے؟‘‘
’’بے شک وہ علیم و خبیر ہے مگر میں نسلِ آدم سے نہیں کہ چنیں و چُناں کروں ۔اُس کے حکم سے سر تابی کا میر ے پاس کوئی تصور نہیں۔ مجھے جو حکم ہوا ہے میں اس کو بجالانے کے لیے ہی تمہارے سامنے ہوں۔‘‘
اُداس رُوح نے تو قف کیا اور پھر گویا ہوئی :
’’ملک معظم !قصہ طو یل ہے۔‘‘
’’تم سب کہو کہ یہاں وقت دن رات کے پیمانوں کی قید میں نہیں ہے اور نہ ہی تمہیں کوئی اور مصر و فیت ہے۔‘‘
اس نے کہنا شرو ع کیا:
’’ملک محترم !فخر و غر و رصر ف اسی کی ذات کو زیبا ہے۔ رب کریم نے مجھے دنیا میں حُسن و صحت او رذہانت کی دولتِ فر اواں سے نوازا تھا۔ اپنی رحمتِ بے پایاں سے دولت مند گھرانے میں پید اکیا۔ محبت کرنے والے والدین دیے ، مگر معلوم نہیں کیوں حیاتِ مستعار کے مختصر سے عر صے میں میر ی روح بے چین و مضطر ب رہی ۔‘‘
’’آخر کچھ تو اس کا سبب ہو گا۔‘‘
’’ہاں ، بچپن کا زمانہ والدین کے سایہء عا طفت میں خوشی اور سکون سے گزرا ۔
طا لب علمی کا زمانہ بھی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے امتیاز سے گز ر رہا تھا۔ تب اُس جذ بے نے دِ ل میں آن گھر کیا جو دلوں کو گداز کر تاہے ۔ نو عمری کی پہلی محبت کیا ہوتی ہے۔ یہ میں آپ کو کیسے سمجھاؤں ۔ ایک الاؤ سا بھڑ کتا رہتا ہے تن من کے اند ر ، کیسی تڑ پ او رکیسا اضطر اب ہوتا ہے کہ ایک پل چین نہیں لینے دیتا ۔ پھر بھی انسان اِس سے دستبر دار ہونے کو تیا ر نہیں ہوتا بلکہ زیادہ سے زیادہ اس کی طر ف کھنچتا ہے۔‘‘
ہاں میں شاید تمہاری طر ح محسوس نہ کر پاؤ ں‘‘۔
’’ وہ میر ی نو عمری کی پہلی محبت تھی اور ستم بالائے ستم یہ کہ میں ناکام رہا۔ اُس نے میر ی محبت قبول نہ کی۔ دل شکستہ ہوکر میر ادل دنیا سے اُچا ٹ ہو گیا۔ اور میں نے
خود کشی کا ارادہ کرلیا۔‘‘
’’ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خو د کشی حر ام ہے؟‘‘ فر شتے نے پو چھا۔اور پھر خو د کلامی کے اند از میں بو لا: ’’ ہاں ، میں جانتا ہوں نسل آدم زمین پر حیاتِ مستعار میں جو چاہتی ہے کرتی ہے۔ وہ و اضح احکام پسِ پشت ڈال دیتی ہے۔‘‘
’’ہاں ، تم با ت جاری رکھو۔ ‘‘ اس نے پوری طر ح متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’ مگر جانتے ہو، کس خیال نے مجھے اس ارادے سے با ز رکھا؟‘‘
’’ نہیں ، غیب کا علم صر ف اس علام الغیو ب کو ہے۔ ‘‘
’’ کہ میر ی ماں کو دکھ ہو گا۔ وہ یہ صد مہ سہہ نہیں پائے گی اور اسے میں یہ دُکھ کیسے دُوں جو مجھے دنیا میں سب سے زیا دہ چا ہتی ہے۔‘‘
’’ ہاں، مجھے ماں کی محبت کی شد ت اور گہرائی کا اندازہ ہے۔ ‘‘ فر شتے نے با ت کاٹی ۔
’’ وہ کیسے ؟‘‘ اُداس روح حیرانی سے بو لی۔
’’اِس لیے کہ اس رحمان و رحیم نے اپنی مخلوق سے اپنی محبت کے اظہار کے لیے ماں کے پیا رکو پیمانہ بنا یا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ ۔۔۔۔۔ میں اپنی مخلوق سے ستر ماؤ ں سے زیادہ پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔ اُس نے ماں کے پیا ر کا پیمانہ اپنے شا یانِ شان سمجھا ۔‘‘ فر شتے کی آواز گہری عقید ت میں ڈو ب گئی ۔
’’ مجھے لگتا ہے، اللہ سبحانہ و تعا لیٰ اپنی ذات کا کچھ حصہ ماں میں بھی رکھ دیتا ہے۔ ‘‘ اُس نے استفہامیہ اند از میں فر شتے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اُس کے راز وہ خو د جانتا ہے۔ وہ حکیم و علیم ہے۔ ‘‘
’’ ہاں ، تم اپنی ماں کے متعلق بتا رہے تھے۔ ‘‘ فر شتے نے اصل مو ضوع کی طر ف
لو ٹتے ہو ئے کہا۔
’’ وہ میر ی دو ست تھی ، ہمر از تھی ۔‘‘ اور وہ سو چ میں کھو گیا۔ وہ مجھے سب سے زیادہ چاہتی تھی ۔شاید وہ جانتی تھی کہ میں اُسے بہت جلد چھو ڑ جاؤں گا۔
شا ید اس کے دل کی گہرائی میں کہیں اند یشے کی صو رت میں یہ با ت جا گزیں تھی او ریہی اند یشہ اُسے مجھ سے زیا دہ سے زیاد ہ محبت پر اکسا تا تھا۔‘‘
’’ یہ تم نے کیسے جانا؟‘‘۔
’’ تم مجھے پیا ر کرتے ہوئے بہت اُداس ہو جاتی او رمضطر ب سی رہتی ۔‘‘
’’ بے شک ، وہ بر اہِ راست دلوں سے کلام کرتا ہے مگر ہمیں اِ س کا اِدراک نہیں ہوتا۔ ‘‘
’’تو میں بتا رہا تھا کہ با وجود اپنی تما م بیز اری اور دل شکستگی کے، ماں کی محبت نے اُس کو دکھ نہ پہنچانے کے خیال نے مجھے خو د کشی سے باز رکھا ۔میں جب اسے کہتا : ’’ مجھے یہ دنیا پسند نہیں آئی ماں! میں جینا نہیں چاہتا‘‘ ۔۔۔۔۔ تو اس کی آنکھوں میں ہزاروں التجائیں آنسو بن کر جِھلملانے لگتیں ۔ میرا دل بھی پگھل کر میری آنکھوں میں آجاتا ۔ میں اس کی گو د میں سر رکھ کر کہتا ۔ ’’ پر یشان نہ ہوں ماں، میں آپ کی خاطر یہ سب بر داشت کرتا رہوں گا ۔‘‘ مگر مجھے کب معلوم تھا کہ میری سانسیں گنی جاچکی ہیں میں زمین میں اپنے حصے کا رزق ختم کر چکا ہوں۔ ‘‘
’’ تو نے دیکھا وہ کیسا سمیع و علیم ہے کہ اس نے تیری خو اہش پوری کی مگر کیسا رحیم وکریم ہے کہ بجائے حر ام موت کے تجھے شہادت کا درجہ دیا تاکہ تیر ی مختصر سی فانی زندگی کے دکھوں کا بدلہ دائمی راحت سے دے۔‘‘
’’ بے شک اس کے کرم کی کوئی حد نہیں ، مگر ۔۔۔۔۔۔!‘‘
فر شتہ مسکرایا۔ ’’اس قادر مطلق نے آدم کی فطر ت بھی عجب بنائی ہے۔ اب اس مگر کا کیا مطلب ہے؟‘‘
’’ مگر جس دکھ سے میں ماں کو بچا تا رہا وہ اس کے مقد رمیں لکھاجا چکا تھا۔‘‘
’’ جب منشائے خدا وند ی کے مطا بق و قت پورا ہو جاتا ہے تو ایک گھڑی آگے ہوسکتی ہے او رنہ پیچھے ۔ ‘‘ فر شتے کے لہجے میں عبو دیت ہی عبو دیت تھی۔
’’ کالج سے چھٹی تھی۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ ہفتے کی شام منا نے نکلا تھا۔ کار میں ہی چلا رہا تھا۔ ایک مو ڑ پر نجا نے کیسے گا ڑی میر ے میر ے قا بو سے با ہر ہو گئی او ردو سر ے ہی لمحے میں اپنے جسد خاکی سے با ہر تھا اور با قی سب بالکل خیریت سے ثابت و سالم تھے ۔ اور یہ سبب صر ف اس دارِ فانی سے میر ی رحلت کے لیے بنا تھا۔ ‘‘ اور گہر ی سو چ میں ڈو ب گیا۔
’’ بے شک ، اُس حی القیوم ، با قی و دائم کو فنا و بقا کے راز معلوم ہیں۔ ‘‘
فر شتہ گو یاہوا۔
وہ اپنی سو چ کے بھنو رمیں اُبھرا اور بولا : ’’ اے ملک محترم !کاش آ پ جان سکتے محبت کی تڑ پ کیا ہوتی ہے،جُدائی کیا ہوتی ہے۔‘‘
فر شتہ چپ رہا ۔ ایک گہر ی بو جھل اداسی دونوں کے درمان آن بیٹھی ۔
’’ مگر وہ تو جا نتا ہے جس نے یہ جذ بے پید ا کئے۔ وہ ان کی گہر ائی ہر با ریکی سے واقف ہے۔ ہر دُکھ ، ہر اذیت سے با خبر ہے۔ ‘‘ دل گر فتہ ر و ح کی آ واز میں دبی دبی شکایت تھی۔
’’ تم بتا ر ہے ۔۔۔‘‘ فر شتے نے گفتگو کا رُ خ اصل مو ضو ع کی طر ف مو ڑا۔
’’ میر ے خاکی جسم سے الگ ہو تے ہی اللہ کی رحمت نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا ۔ میں بڑی راحت اور خو شی محسوس کر رہا تھا ، مگر ۔۔۔۔۔۔‘‘
مگر کیا ؟‘‘ فر شتے نے سو الیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ مگر جب میر ے گھر والے پہنچے تو ان کی گریہ و زاری نے مجھے بے چین کر دیا۔ میرے والد بہت لٹے پٹے مگر صبر و ضبط کی تصو یر بنے ہوئے تھے او رمیری ماں کی چیخوں نے تو عر ش کو بھی ہلا دیا ہو گا۔ میں تڑ پ اٹھا۔ کاش !میر ے بس میں ہوتا اور میں اپنے حسدِ خاکی میں واپس داخل ہو سکتا ، اُٹھ کر مان کے آنسو پونچھ سکتا ۔ با پ کو گلے لگا سکتا ، بہن بھا ئیوں کو دلاسہ دے سکتا۔‘‘
’’ اس کی مصلحتیں او ر بھید وہ خو د جانتا ہے۔ ‘‘ او رفر شتہ زیر لب ’ ’ یا صمد ‘‘ کے ور دکی تسبیح کرنے لگا۔
’’ معز ز فر شتے ! اُس کی رحمت بے پایا ں سے مجھے جو کچھ یہاں میسر ہے ، اِس کا اُ س دُ نیا میں تصو ربھی محال تھا مگر یہی خیال مجھے افسر دہ رکھتا ہے کہ میر ے والدین پر کیا گز ر رہی ہوگی۔‘‘
’’مگر آج میں تمہیں ہمیشہ سے زیادہ مضطر ب و بے چین دیکھتا ہوں۔‘‘
’’ ہاں ، آج میر ا یو م ولادت ہے ، معلو م نہیں اُن پر کیا قیامت گز ررہی ہوگی۔‘‘
فر شتہ مسکرایا ۔ ’’ اے مغموم روح! تُو سچ مچ معصو م ہے۔ تو اب تک بے خبر ہے کہ اب تیر ے تصر فات کتنے بڑھ گئے ہیں۔ زمان و مکاں او رفاصلوں کی پابند ی تو خاکی جسم تک تھی ۔ نیک رو حوں کو اللہ تعا لےٰ نے کئی اختیارات عطا کر رکھے ہیں، جا اور جاکر ان کا حال معلوم کر آ اور ان کی دید سے دل شاد ہو۔‘‘
اُداس رُوح کِھل اٹھی : ’’کیا یہ ممکن ہے؟ ‘‘
دوسرے ہی لمحے وہ اُس گھر میں تھا جہاں اس کی ولادت ہوئی تھی، اور جہاں اس نے اپنی دنیا وی زندگی کے بیس سال گزارے تھے۔
بہن بھائی اِدھر اُدھر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مشغول تھے ۔ وہ والدین کے کمرے میں داخل ہوا۔ سنگا رمیز پر اس کی بڑی سی خو بصورت تصو یر رکھی تھی۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ ماں کمرے میں داخل ہوئی ۔ وہ گہری نیلی ساڑھی میں بہت جچ رہی تھی۔ وہ زیو را ت کے ڈبے میں جلدی جلدی ہاتھ مار کر میچنگ جیو لری تلا ش کرنے لگی۔ اتنے میں والد صا حب کمر ے میں داخل ہوئے۔
’’ کہاں کی تیاری ہے ؟‘‘ انہوں نے پو چھا ۔
’’ایک سہیلی کی بیٹی کی منگنی ہے۔ ‘‘
’’ سات بجے تک لوٹ آؤ گی کیا؟‘‘
’’کیوں ؟‘‘
’’ بتا یاتو تھا پر سوں کہ15 جو لائی کو میر ی لاہو رمیں میٹنگ ہے۔ کل شام لو ٹ آؤ ں گا۔ آج آٹھ بجے فلا ئٹ ہے میری۔ ‘‘
’’ آج پند رہ جولائی ہے؟‘‘ ماں نے چو نک کر کہا ۔ اس کے چہر ے پر تا ریک سایہ سا لہر ا گیا۔
’’ ہاں ، پند رہ جولائی ہے۔‘‘ والد نے ٹھنڈ ی سانس بھری۔
’’ یوں لگتا ہے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ آج اس کو رخصت ہوئے بھی چار سال ہونے کو آئے ہیں۔
’’ ہاں ، وقت گز رتے پتہ بھی نہیں چلتا ۔ ‘‘ ابا بو لے۔
اور ماں ملا زم کو آوازیں دیتی ہوئی کمر ے سے نکل گئی۔
والد صا حب الماری کھول کر شام کو پہننے کے لیے سو ٹ نکالنے لگے۔
ا ب ماں ملازم کو مٹھا ئی اور پھل لانے کو کہہ رہی تھی اور اُس کے نام کا ختم دلوانے کی ہدایت کر رہی تھی۔ اُس نے دیکھا وہ میچنگ جیولری پہن چکی تھی۔
’’ یہ پھل اور مٹھائی لے کر قبر ستان چلے جاؤ ۔ خو ب اچھی طر ح صفائی کر کے، قبر کو ہار پھو ل اور چادر لے کر اچھی طر ح سجا دینا ۔ او روہیں چھو ٹے بھیا کی قبر پر با نٹ دینا پھل اور مٹھائی ۔ میں بھی پہنچ جاؤ ں گی تھو ڑی دیر میں۔‘‘
ہا ر، پھول سے اس کی آ خری آرام گا ہ سجانے کے بعد ملازم نے پھل ا ور مٹھائی تقسیم کرنی شرو ع کر۔
ایک بھیڑ سی لگ گئی۔ وہ اُس بھیڑ میں ماں کو تلا ش کرتا رہا۔
مگر وہ کہیں دکھائی نہ دی۔
تھو ڑی دیر میں بھیڑ چَھٹ گئی۔
مگر وہ کہیں نہیں تھی۔
ملازم واپس چلا گیا۔
ہر آہٹ پر اُ سے ماں کی آمد کا گمان ہوتا ۔
وہ مانوس آہٹ جو ابھی تک اُس کی سماعت میں محفو ظ تھی۔
وہ آہٹ کہیں نہیں تھی۔ اور پھر آہٹیں بھی معدو م ہوگئیں ۔
انتظار میں وہ پتھرا گیا۔
مگر وہ کہیں نہیں تھی۔
ہر طر ف مکمل سنا ٹا تھا ، شام کے سائے گہر ے ہو گئے تھے۔
اور اس کا محدو د و قت بھی ختم ہو نے کو آیا تھا۔

Spread the love

Check Also

کنا داغستان  ۔۔۔ رسول حمزہ توف؍غمخوارحیات

سرلوزنا بدل سر لوزاتا بارواٹ گڑاس لس و ہیت ! تغ آن بش مننگ تون ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *