Home » شونگال » ایفل ٹاور

ایفل ٹاور

بلوچستان کا تُمبیل پہاڑ(خود اپنی داخلی فاش غلطیوں اور بیرونی قوتوں کی خر مستیوں کی وجہ سے) اپنے پرخچے اڑے اعضا کے ٹکڑے ڈھونڈ ڈھونڈ کر،پہچان پہچان کر اپنے تابوت میں فٹ کرنے کی دلخراشی میں غرق ہے۔ ایسے میں اُسے فرانس کے ایفل ٹاورکی طرف سے اپنے گٹاروں کے تاروں پیچوں کی شناخت اور انہیں بجانے والی پاک انگلیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر،اور پہچان پہچان کر اپنے تابوت میں فٹ کرنے کی اندوہناک کوشش سمجھ میں آتی ہے۔ ایک محاذ پہ نہ ڈٹ جانے کا کفارہ محاذ محاذ پہ اپنے پرخچے اڑے اعضا کے تلاشنے اور تابوت میں بند کرتے رہنے کی صورت ادا کرنا ہوتا ہے۔
یورپی سرمایہ داری نے اپنے عوام کو تیسری دنیا کا کرب محسوس کرنے نہ دینے کا نتیجہ دیکھ لیا ۔صدیوں تک پیہم قطرہ قطرہ خون دے دے کر یورپی دنیا سولائزیشن کی جو بلند سطح حاصل کر پائی تھی، اُسے اب سوشلزم سے تو وہ فوری اور جان لیوا خطرہ نہ رہا جس کے روکنے کو اُس نے قوانین ،ادارے، اور اوزار بنانے میں ڈیڑھ صدی خرچ ڈالی۔اُسے تو اب اُسی ضحاک ناگ بچے سے ہڑپے جانے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے جسے وہ( سوشلزم کی راہ روکنے کو) خود دودھ خون پلاتا آرہا تھا۔
سرمایہ داری نظام حالیہ پیرس واقعات کی بنیاد اُس وقت ڈال چکا تھا جب اس نے افغانستان میں طالبان کا پہلا جتھا تشکیل دیا تھا۔بے وقوف کو اندازہ نہ تھا کہ دہشت گردی خواہ عقیدہ پر کھڑی کی جائے یا روایت پر،رجعت بنیاد پرستی اور انارکی کی طرف ہی جاتی ہے ۔دہشت گردی کے جھکڑ میں ’’ دیے سب کے بجھیں گے‘‘ کہ دہشت گردی سمتیں بدلتے دیر نہیں لگاتی۔
دہشت گردی محض بم نہیں پھاڑتی یہ اپنے ساتھ پورا پیکیج لاتی ہے ۔ اُس کے اپنے حسن بن صباح ہوتے ہیں، اپنا جبل الموت ہوتا ہے، اپنا اپنا ’’ شیخ الجبال‘‘ اور ’’فدائی‘‘ ہوتے ہیں۔ دہشت گردی جس بھی لباس میں ہو اُس کے کارندے کسی نہ کسی نوعیت کی بھنگ کے ’’حشاشین‘‘ بنا دیے جاتے ہیں۔اس کی اپنی عدالت اور عدالتی نظام ہوتا ہے جس میں اُس جتھے کا لیڈر اپنی ذات میں قانون ہوتا ہے ۔جیسے چاہے ،عقیدہ یا روایت کی تشریح کرے۔ جسے چاہے ،عقیدہ یا روایت، کی غداری کا سر ٹیفکیٹ تھما کر موت کے گھاٹ اتاردے۔ اسی طرح اس کا اپنا معاشی سسٹم ہوتا ہے،مالِ غنیمت صرف معاشی نہیں ہوتا بلکہ اس میں سارا جنسی نظام بھی شامل ہوتا ہے۔ رواج و اخلاق بھی اُس کے اپنے ہوتے ہیں جس میں ’’ غیرت‘‘ کو مرکزی مقام حاصل ہوتا ہے۔ ماضی کو پرشکوہ بناتے رہنا اُس کے بیانیہ کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ سائنس اور جدید سے نفرت کرنا اس کا قول بھی ہوتا ہے اور فعل بھی ۔۔۔۔۔۔ اوراِس نظریے کی بڑے پیمانے پر بنیاد خود مغربی جدید سرمایہ داری نے رکھ دی تھی، پچاس برس قبل افغانستان میں۔
ہم کتنے فلاسفروں مدبروں کا یہ قول، مزید کتنی بار دہراتے رہیں گے کہ سرمایہ داری نظام کا پیٹ اپنے داخلی تضادات کے پھولنے سے پھٹتا ہے ۔ اب یہ پیٹ اس قدر پھول گیا ہے کہ یہ یورپ میں پھٹے نہ پھٹے تیسری دنیا میں ضرور پھٹ رہا ہے۔ افغانستان، پاکستان،شام، لیبیا، عراق، مصر ، بحرین، یمن ، حتیٰ کہ خود سعودی عرب اِن بگولوں کی لپیٹ میں ہے۔
دہشت گردی کا واحد مقصد وحشیانہ قتل و قتال سے خوف مسلط کرنارہا ہے۔ بلاشبہ اِن ممالک میں موجود بادشاہ، شیخ یا مارشل لا کا دہشت ناک خوف ناقابلِ بیان حد تک بڑا ہے مگر دہشت کے غیر سرکاری غیر ریاستی جتھوں کا مقصد تو اِس بھیانک ریاستی خوف سے بھی بڑھ کر خوف دیناہے۔ہمارا منطقہ اب ایسا بن گیا ہے جہاں انسان خوف ہی سوچتا ہے ، خوف ہی بولتا ہے اور خوف ہی لکھتا ہے۔ گذشتہ نصف صدی سے یہ خطہ ’’ خوف کا خطہ‘‘ ہی رہا ہے۔ سرکار کا خوف، سردار کا خوف، فرقے کا خوف، عقیدے کا خوف، غیرت کا خوف بے غیرتی کا خوف، بولنے کا خوف ، خامشی کا خوف ، غداری کا خوف، وفاداری کا خوف، شرپسندی کا خوف جاسوسی کا خوف ، داڑھی رکھنے کا خوف، داڑھی مونڈھنے کا خوف، پتلون پہننے نہ پہننے کا خوف، جھنڈا لہرانے اتارنے کا خوف، پوسٹر لگانے اتارنے کا خوف۔
دہشت بے لگام بچے دیتی جاتی ہے۔ بصارت و بصیرت سے محروم بچے۔امریکہ میں نائن الیون اور یورپ کے ممالک میں گذشتہ چار پانچ برس کے حملے اسی تخم سے افزائش پانے والے اندھے بچو ں کے کیے ہوئے ہیں جو اِس نظام نے ایشیا میں دیے تھے۔
مگر،یورپ کا اپناسماج دوسری جنگ عظیم کے بعد سے ایک پوری نسل بوڑھی کرچکا ہے جس نے داخلی جمہوریت اور شہری آزادیوں کی نعمت بسر کرلی ۔ وہاں اُس نسل کواب پابندیاں، تلاشیاں، نگرانیاں بھگتنی پڑرہی ہیں۔ یہ وہاں کے لیے بالکل ایک انہونی اور ناقابلِ قبول بات ہے۔ ایسی بدعت کو وہاں کے عوام بھلا کب تک سہہ پائیں گے۔چنانچہ ہم پہلے ہی دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور یورپی سرمایہ داری اپنے زخم چاٹنے کے صبر سے عاری ہوتی جارہی ہے۔
لیکن فرانس کا تو معاملہ ہی او رہے۔فرانس کے عوام ،امریکہ کے عوام سے ہزار گنا زیادہ باشعور ہیں۔ فرانس نہ صرف یورپ ہے بلکہ وہ یورپ کا سیاسی و ثقافتی مرکزہ ہے۔فرانس سینٹ سائمن ، فیوریئر ، پرودھون، بلانک اور باکونن جیسے فلاسفر وں اور نظریہ دانوں کی جنم بھومی ہے۔ ساڑھے تین سو برس قبل اسی پیرس نے انسانی آزادیوں، مساوات اور انصاف کے لیے بے شمار قربانیاں دی تھیں۔ وہاں کی گلیاں ، سرزمین اور جمہوری ادارے اُن تمام قربانیوں کے گواہ چلے آرہے ہیں جو منصفانہ معاشرے کے لیے انسانوں کے اجتماعی ارادے کی فتح تک جاری رہیں۔
چنانچہ فرانس اِن حملوں پہ ری ایکٹ کرے گا۔ وہ دہشت گردی کادیرپا اور انسانی اقدار سے مزین رد عمل دے گا۔وہ جو اب صرف فوجی نہ ہوگا ، سیاسی اور معاشی بھی ہوگا ۔اور یہ جو اب ،وہ اپنی حاصلات کو ترک کیے بغیر دے گا۔ہمیں یاد ہے کہ حالیہ پیرس حملوں کے فوراً بعد فرانس کے مزدوروں کی سب سے بڑی فیڈریشن نے دہشت گردی کو جواز بنا کر ملک میں ایمر جنسی لگانے کے سرکاری فیصلے کو مسترد کردیا تھااور اس کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا۔ یورپ کا آدمی اپنے باپ دادا کی قربانیوں سے حاصل کردہ آزادیوں ،سہولتوں سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ہاں ہاں،حتمی بات ہے کہ یورپ کا عام آدمی سماجی و سیاسی آزادیوں کی موجودہ بلند سطح سے پیچھے نہیں جائے گا۔ وہ اپنے ہاں پارلیمنٹ، الیکشن، شہری ثقافتی آزادیوں اور سائنس و ٹکنالوجی کو ختم نہیں کرے گا۔
تو پھر؟۔سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ داری نظام کے شہروں کے اندر، خود اس کی طفیلی تیسری دنیا کی سرمایہ داری کے بپھر جانے کی وجہ سے جو بہت بڑ ی جنگ چھڑی ہوئی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟۔
ظاہر ہے عالمی سرمایہ داری نظام خود کو ختم تونہیں کرے گا۔ وہ تو ہمہ وقت پیوندیں لگا لگا کر اپنی چھت کے سوراخ بند کرتا رہتا ہے۔
پھر ہوگا یہ کہ یورپ کی ترقی یافتہ سرمایہ داری تیسری دنیا میں کوالٹی والی تبدیلیاں لانے کی طرف جائے گی۔ اور یہ تبدیلیاں وہ مشرقِ وسطیٰ میں لائے گی جو کہ دہشت گرد ی کوروکڑا بھی مہیا کرتا ہے اور جو ازونظریہ بھی۔ تیسری دنیا کے اندر جن داخلی تضادات کو اب تک شاہوں شیخوں خلیفاؤں اور فیلڈ مارشلوں نے دبائے رکھا تھا اب وہی داخلی تضادات یورپ تک اپنے گھناؤنے اثرات دکھا رہے ہیں۔ اوریہی تضادات پوری عالمی سرمایہ داری کی حیات و موت کا معاملہ بن چکے ہیں۔یورپ کو نظر آرہا ہے کہ اگر مشرقِ وسطیٰ کے سماج کے اندرونی تضادات حل نہ ہوئے تو یہ ترقی یافتہ سرمایہ داری نظام کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔اس لیے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کے عوام اپنی شہری آزادیوں کو تہہ و بالا کرڈالنے والی اس دہشت گردی کو اُس کے مرکز میں ہی دفن کردیں گے۔ جن الفاظ، اصطلاحات اور فقروں سے ان شاہوں شیخوں کی جان جاتی تھی اب وہی اصطلاحات اصلاحات بن کر انہیں مع تخت و تاج زمین دوز کردیں گی۔ یورپ اس قدر مجبور ہوگیاہے کہ اب اس نے پوری سرمایہ داری کی اوورہالنگ کرنی ہی کرنی ہے۔ اِن پالتو شخصی حکومتوں کی برقراری کے لیے یورپ کی ترقی یافتہ سرمایہ داری اپنے عوام کو غاروں والے سماج میں دوبارہ نہیں لائے گی۔ نہ ترقی یافتہ سرمایہ داری اب واپس کسی شاہی قلعہ کے دور میں جائے گی ۔ اب توقلی کیمپ کو بطورمیوزیم اپنی ٹکٹیں جاری کرنے کا روپ دھارنا ہوگا ۔
لہٰذا،یہ بات طے ہے کہ فیوڈل تیسری دنیا کے سروں پر ایک بھوت منڈلا رہا ہے۔ اب کے یہ بھوت مارکس کے مینی فیسٹو والے کمیونزم کا نہیں بلکہ سرمایہ داری نظام کا بھوت ہے۔ یورپی سرمایہ داری تیسری دنیا میں جاگیرداری نظام کی معاشی سیاسی باقیات اور اُن باقیات کی حاوی نفسیات کو تہس نہس کرنے کی حمایت کے بغیر خود اپنے ملکوں میں بھی جی نہ سکے گی ۔ تیسری دنیا میں اب سرمایہ داری اپنے اداروں کو نافذ کر دے گی۔یہ قیامت تیسری دنیا میں آنی حتمی ٹھہری۔ کسی میں پہلے ،کسی میں بعد میں۔کسی ملک میں تیز، کسی میں سست ۔ کہیں کا سماج اس کے لیے تیار ،کہیں کا بے خبر۔۔۔۔۔۔ اورکہیں کا مزاہم۔
تومشرقِ وسطیٰ اور ملحقہ علاقوں کے عوام کیا کریں؟ یہاں کے عوام جان لیں کہ جتھہ بازی کی پرواز بہت مختصر ہے۔ عوام کی تنظیم کاری اور ان کی راہنمائی اور شمولیت کے بغیرموجودہ قولنجی انارکسٹ چیلنج کو عبور کرنے کی خواہش ،معجزوں کرامتوں کی آس لگانے کے مترادف ہے۔ بھلے کتنے ہی زندہ نوجوان تصویری فریموں میں ڈھالے جائیں ، کتنے ہی زندہ جسم پر خچوں کی صورت دھارلیں مگر غداریوں وفا داریوں جاسوسیوں کے فتوے اب بغیرعوامی قبولیت کی ادارتی صورت کے،نازل ہونا بند ہوں گے۔ اب قاضیوں،شیخوں،سرداروں، جرنیلوں اوروارلارڈوں کے فرمانوں کو عقل و استدلال کے لیے قابلِ قبول اداروں میں دفن ہونا ہوگا،جن کے باقاعدہ قوانین ، اصول اور چیک و بیلنس ہوتے ہیں۔ یہاں اب مظلوم کسان کی بیٹی کو ہنکالے جانے والے طاقتور بن باز پرس کے نہ رہیں گے ۔ ایک پنڈت اور پادری کے خواب دیکھنے سے بستیاں اجاڑ کر رکھنے کی کارستانیاں نایاب ہونا شروع ہوں گی۔ اپنے گھڑے ہوئے نظریات کا نام لے کر لوگوں کو ٹارچر سیلوں اور پرائیویٹ سرداری جیل خانوں میں پٹخانے والوں کا سابقہ کھلا راستہ اب اداروں عدالتوں کی طرح کی رکاوٹوں بھرا ہوگا۔ یک فردی عقلمندی کا ٹھیکہ عوام الناس کے ووٹوں والے عقلِ سلیم میں انجذاب کا شکار ہوگا۔ بولنے لکھنے کی آزادی اب بھوتار، مفتی اور آقا کی من پسندی کے جولان پاش پاش کردے گی۔ عوامی تنظیم کاری صاحبزادوں، خان زادوں اورسردارزادوں کے اثرات سے دور بھاگے گی۔ سائنس وٹکنالوجی سماج میں اپنی محترم نشست سنبھالیں گے۔ امتیازات کی شدت انتقال کر جائے گی اور جنس و نسل ، زبان و رنگت اور عقیدے کی بنیاد پر حقیر و افضل کے خانے اگر مکمل طور پر نہیں مٹیں گے ،تو کم اور مدہم ضرور ہو جائیں گے۔بقا اب صرف عوامی اداروں کی نظر آتی ہے۔ ادارے جو جمہوری ہوں، اصول قوائد کے تابع ہوں۔
۔۔۔۔۔۔ فیوڈل تیسری دنیا میں سرمایہ داری نظام ایسا کرے گا، یہ لکھا ہے دیوار پہ۔گو کہ بہت سست رفتار اور درد ناک انداز میں۔

Spread the love

Check Also

زن۔ زندگی۔ آزادی۔ مہسا  امینی

ایرانی عورتوں کی قیادت میں آمریت کے خلاف حالیہ تاریخی عوامی اْبھار،اور پراُستقامت جدوجہد خطے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *