Home » سموراج » مست توکلی ۔۔۔ شان گل

مست توکلی ۔۔۔ شان گل

پوسٹ نائن الیون کے عہدکے سرمایہ داری نظام کو متشدد’’ طالبان ‘‘سے نمٹنے کے لئے یہاں ایک متبادل عقیدہ اورنظریہ کھڑا کرنے کی ضرورت پڑی۔ سرمایہ دارانہ نظام بڑا ڈرامہ باز نظام ہے ۔اُس کو معلوم ہے کہ اُس کا رچایا ہوا ہر ناٹک فلاپ ہوگا ۔اسی لیے وہ ہمہ وقت نیو ورلڈ آرڈر کی ڈرامہ سازی میں لگا رہتا ہے۔ایک کے ناکام ہونے کے بعددوسرا،دوسرے کے بعد تیسرا۔ تاکہ لوگوں کی تو جہ اُس کے اندر موجود لوٹ مار والی فطرت سے دور رہے ۔عالمی تاریخ کیا ہے ؟ عالمی تاریخ اقساط میں طبقاتی نظام کی ناکامی ہے۔
آپ کو تو معلوم ہے کہ دانشور سرمایہ دار کا بہترین سماجی وکیل ہوتے ہیں۔ وہ اُسے معاشرے میں قبولیت کا درجہ دیے رکھتے ہیں۔ اُس کے لیے وہ نئی نئی دلیلیں اور منطق اور جواز گھڑتے رہتے ہیں۔ چنانچہ بورژوا دانشور القاعدہ کے توڑ کی تلاش میں ایک عرصے تک واسکوڈے گاما بنے رہے ۔
بالآخر اُن کرایہ کے دانشوروں کی نظر ہمارے خطے کے بزرگوں ولیوں پر پڑی جو بہر حال ملائیت سے قبل کے لوگ تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک عجیب ترکیب نکالی۔ وہ یہ کہ ہمارے دانا،حکیم، عالم، خرد مند، فہمیدہ اور غور و فکر کرنے والے اولیاکے فلسفہ کا مغز نکال دیاجائے اور اُن اولیا کے نام پہ ایک عمومی غیر فعال، سکوت دوست ، اور جامد انسانوں کا گروپ قائم کیا جائے۔ اس پورے نظام کا نام انہوں نے ’’صوفی‘‘ رکھ دیا۔گوکہ یہ لفظ یہاں بہت زمانے سے استعمال ہورہا تھا۔ اور اس کی کوئی خاص تعریف یا معنےٰ نہ تھے۔ طبقاتی نظام کو کچھ نہ کہنے والا ایک تصور۔اب اسی لفظ اور تصورکو گڑما لہ لگا کر جدید سرمایہ داری ’’ دم مارو دما‘‘ میں ڈبو کراپنے مقصد میں ڈھال دیا گیا۔ اُس کے بعد این جی اوز سے ہوتے ہوتے سرکاری سطح تک صوفی کے نام سے کانفرنسیں، رقصیں، اور موسیقی کی محفلیں بڑے پیمانے پر شروع کی گئیں۔(پاکستان میں سب سے بڑی ٹرانس نیشنل کمپنی کو کاکولا کے ذریعے)۔
ان کے ہاں القاعدہ کا متبادل کمیونزم نہیں ہوسکتا۔اُن کا درست طور پر یہ خیال ہے کہ سرمایہ داری نظام اپنی سرشت میں افراتفری اور انارکی کے جراثیم رکھتا ہے۔ اِس نے بہر حال جنگ کی طرف ہی جانا ہوتا ہے ( خواہ یہ خانہ جنگی ہو،یا، دو یا دو سے زائد ممالک کے مابین جنگ ) ۔ اور یہ جنگ اپنی خطرناک صورتوں میں کمیونزم کے قیام کی طرف بھی جاسکتی ہے۔
کمیونزم تو سرمایہ داری کی موت ہوگی۔ اس لیے وہ اپنے نظام کی سکڑتی ہوئی کشش کا نعم البدل ابھی سے مروج کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اُس نظام کے فکری باڈی گارڈز’’صوفی ازم‘‘ کی اصطلاح وضع اور مروج کرکے اسے فلسفہ اور سیاسی ادبی ثقافتی دنیا میں لا گھسیڑنا چاہتے ہیں۔
اسی لیے انہوں نے مست کو بھی’’صوفی‘‘ بنا ڈالا۔یہ اُن کی مجبوری بھی تھی اس لیے کہ کافی عرصہ سے یہ ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ باہر کی دنیا کو دکھانے اور فنڈ پکڑنے کے لیے کسی سمیناریا فنکشن کو پاکستان سطح تک کا دکھانا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر صوبے میں اُس کی شاخیں ضروری ہوتی ہیں۔ تبت ٹالکم پاؤڈر ہو، یا انجمن ترقی پسند مصنفین ، جماعت الدعوۃ ہو یا عورت فاؤنڈیشن ، بلوچستان شاخ کھولنا بڑا ضروری ہوتا ہے۔لہٰذا حلال و جائز ثابت کرنے کے لیے ہر صوبے سے کم ازکم ایک دانہ صوفی ہونا تو ضروری تھا۔ چنانچہ بغیر کسی گناہ اور اشتعال کے ہمارے توکلی مست کوصوفی بنا نے کی کوشش کی گئی۔
اِن یاروں نے چاہا کہ مست کا کوئی فرضی یوم پیدائش گھڑ لیا جائے اور کوئی مصنوعی وفات کا دن بھی مقرر کیا جا ئے۔ تاکہ عرس ، دھمال، خیرات، مزار کو غسل، چادرکی تبدیلی وغیرہ کی محفلیں جماسکیں اور ان محفلوں کے نام پہ وہ پیسہ کما سکیں اور عام لوگ ایک نئے طرز کے توہمات کا شکار ہوں۔ انہوں نے یہ بھی چاہا کہ مست کی کوئی من گھڑت تصویر بھی بنائی جائے۔
اُن کی بد قسمتی کہ اُس وقت بلوچستان میں ایک بہت بڑے بحث مباحثے کے بعد دانشوراس نتیجے پر پہنچے تھے کہ بزرگوں کے نام پر ایک درگا ہی نظام قائم کرنے کی جویہ تیاریاں ہورہی ہیں اُس کی حمایت اور حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی۔ اس لیے کہ درگاہی نظام کی اپنی ایک hierarchy ہوتی ہے ۔ اور یہ علیحدہ سے اپنی ایک پاوربیس بنا ڈالتا ہے جو پھر زبردست قبولیت پانے کی صلاحیت رکھنے کی وجہ سے عوام کو بری طرح جکڑ لیتا ہے ۔ ہمیں اندازہ تھا کہ ’’صوفی ازم‘‘ کی اصطلاح گھڑ کراُس پر بہت شور وغوغاکیاجائے گا۔ تاکہ اُس عوام کو گمراہ کیاجائے جس نے مارشل لاؤ ں اور فیو ڈ لوں کی مزاحمت میں کچھ جان پیدا کی ہے ۔ ’’صوفی صوفی ‘‘پکار کر دراصل اُس عوام کو ایک بار پھر فرمانبر دار بھیڑوں میں تبد یل کیاجائے گاتاکہ سٹیٹس کوکے مزے چلتے رہیں ۔ہم مست کو حکمرانوں کے استعمال کارومال بنانے نہیں دینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ آج بھی اور مستقبل بعید میں بھی۔
چنانچہ جب مست کے بارے میں اسلام آباد کے اُن لوگوں نے پوچھا توبلوچستان کو پتہ تھاکہ اُس نے کیا کرنا تھا۔مست کی کوئی تصویر موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا صاف بتادیا۔ مگر اِن بے ایمانوں کی فرمائش تھی کہ اُس کی کوئی فرضی یا خیالی تصویر بنوادی جائے۔ یہ بہت خطرناک ہوتا۔ لوگوں کو آج سے دو سو برس قبل کے بلوچ معاشرے کا اندازہ ہی نہیں ہوسکتا ۔ وہ اس کی اِسی طرح کی اجلی ، خوش شکل، خوش پوش اور مرغن شہری تصویر بنالیتے جس طرح مسیحی دنیا نے حضرت یسوع مسیح کا گھڑ رکھا ہے۔آج حضرت یسوع مسیح کی اجلی چمکتی اور دلکش تصویر دیکھیں تو وہ آپ کوسسٹم کا باغی ایک چرواہا نہیں،بلکہ رومن ایمپائر کا ایک بادشاہ نظر آتا ہے۔یسوع کی تصویر دیکھ کر بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ بادشاہ کے خلاف لڑتا رہا، کاہنوں، فیوڈلوں کے خلاف جدوجہد کرتا رہا اور غریبوں سے بھی غریب بن چکا تھا ۔ اُس کی شہزادوں جیسی صورت اور لباس و وضع قطع قطعاً نہ ہوتی ہوگی۔مگر سرمایہ داری نظام کے استحکام کے لیے اُس کی مرغن و مرصع اور پر شکوہ تصویر اور تصور سے زبردست کام لیا جارہا ہے۔ اب تو چے گویرا کی تصویر کی کشش کو بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافعوں کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ہمارا مست اور اُس کی فکر بڑے خطرے میں ہے۔
اس سے قبل ضیاء الحق کے رجعتی دورمیں بھی ، ہمیں یاد ہے کہ خواہ مخواہ ہمارے مست کو ،اُس آمرکے لوگوں نے رائے ونڈ کی مسجد کا ملا بنانا چاہا تھا۔انہوں نے ایسی کوششیں کیں بھی ۔ مگر باطل بات کہاں چل سکتی ہے۔
دراصل ہمارا توکلی ہمارے معدنیات کی طرح ابھی اُن کے ہتھے چڑھا نہیں۔ اسی لیے بازاری بننے سے بچ گیا ہے۔ مگر اس میں بلوچوں کا کوئی کمال نہیں۔ مست کا کلام اور اُس کی فکر خود بھی بڑی مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ فکرِ مست نفع ، سود، قدرِ زائد ، ذخیرہ اندوزی ، استحصال،اور قبضہ گیری کے عمومی روح کے خلاف ہے۔ مست آج کے دور کے ’’منافع بخش‘‘ انسان دوستی کی تنظیموں اداروں سے بہت مختلف تھا۔ اُس کی انسان دوستی تومعاشی برابری سے مشروط و مربوط ہے۔ مست کے انسانی حقوق بھی معاشی آزادی سے منسلک ہیں اور عورت کے حقوق بھی ۔ ایک استحصالی معاشی سماجی نظام میں سرمایہ دار اور مزدور، یامرد اور عورت کے حقوق ایک جیسے ہو ہی نہیں سکتے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل میں مستیں توکلی ہے کون؟۔۔۔۔۔۔ صرف ایک بات آپ کو نظر آئے گی۔ وہ یہ کہ مست مہر کرتا ہے،محبت کرتا ہے۔ ایسا کمٹڈ مہر جو وجود کوبھسم کردیتا ہے ۔ گرم کڑھائی میں گندم کا دانہ جس طرح تڑپتا ہے،ذبح کیا ہوا مرغ زمین پر جس طرح ٹپے کھاتا ہے یہی حال محبت کے مارے مست کا ہوتا ہے۔ وہ کبھی ہوش میں فصیح و بلیغ ہوتا ہے اور کبھی بے خودی میں غرق۔محبت کے زخم کی سب سے بڑی علامت((sign محبت کرنے والے کی بے قراری ہوتی ہے۔
مسلسل بے کلی فریادِ پیہم
بڑی سفاک ہے یہ یادِ خوباں
جلا کر راکھ کر دیتی ہے دل کو
یہ چنگاری ہے کتنی شعلہ ساماں
شاہ لطیف
اور اس چنگاری کو محسوس کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ آپ خودمحبت کے جال میں پھنس جائیں۔ درد،ایسا درد کہ الا مان۔ غم،ایسا غم کہ لولاک تاریک ہوجائے۔ دکھ ،ایسا دکھ کہ فطرت کا ہر ذرہ ماتم کناں رہے۔
کہ سوک وائی حال دے سہ دے پہ ہجران کشے
پہ خاطر دے تصور کڑی دوزخیان
رحمنؔ
اگر کوئی تم سے ہجر و جدائی کا حال پوچھے
تو اُسے چاہیے دوزخیوں کا تصور کرلے
دوزخی کیسے ہوتے ہیں؟۔ ان پہ کیا گزرتی ہے؟۔ یہی رہتی ہے کیفیت اتا ہ محبت کی ،ا ور یہی تھی حالت مست کی۔
فرا ق ،جیسے مست کو برہنہ ہجر کے 440وولٹ کا سامنا تھا،سموّ کی دوری اور سموّ کی یادوں کی نوکدار چبھن تھری ناٹ تھری کی گولی سے بھی زیادہ تیز تھی۔ دل پہ لگے گھاؤ انسانی توقع سے زیادہ بڑے ہوں،اور مہر کے کچو کے سنجاوی کی مرچوں سے زیادہ جلا ڈالنے والے ہوں ، تو یہ درد عام درد تو نہ ہوا ،یہ تو بقول بلھے شاہ’’اولڑے دی پیڑ‘‘ ہوجاتا ہے۔درد بے قراری کا خالق ہوتا ہے، بے چینی کا رحمِ مادر۔
چنانچہ عاشقَ مست جیسے ولی اللہ کا سارا فلسفہ دو لفظوں سے ہی پھوٹتا ہے۔۔۔۔۔ ایک’’تلاش‘‘ اور دوسرا’’جدائی‘‘۔ اور انہی دو لفظوں کے درمیان اس کی زندگی بیت جاتی ہے ۔ سرپہ ڈنڈا لگے زخمی کی طرح اِدھر اُدھر پھڑ پھڑانے لگتے ہیں آپ۔
محبت کی تاب کی گہرائی کاکسی کو کیا پتا۔ یہ تو بقول سچل بے ابتدا ہے،بے انتہا ہے۔ مست کہتا ہے ۔
سملئے لہراں چوکرغی پیلوشتغاں
ترجمہ:
سمو کی یادوں نے زمستان کی سردی میں جلے اک نامی پودے کی طرح مجھے جھلساڈالا

تو جس شخص پہ یہ عمل کیا جارہا ہو،اُس پہ کیا گزرتی ہے ۔ انسان نیم دیوانگی سے جاٹکراتا ہے ۔ نہ وقت کاہوش ،نہ آس پاس کی خبر ۔ بس یادوں کے زہر ۔یادیں اور راتیں۔۔۔ اورمہرکے ماروں کی راتیں توسال برابرطویل ہوا کرتی ہیں۔ ننگی زمستان کی تلخ راتیں نہ تو ختم ہونا جانتی ہیں اور نہ مختصر ہونا۔ مست نے اس طرح کی کئی راتیں ہجر کی جگر سوز آزار اور شب بیداریوں میں گزاردیں۔
چِلّوی شف پہ نندغ و آزار
گوں حیالاں مں روش کثاں یکاّر
ترجمہ:
موسم سرما کی سرد ترین راتیں میں نے تکلیف
اور فکر میں ڈوبے جاگ کر گزاریں
شب بیداریاں محبت کر نے والوں کی قسمت کی فہرست میں سب سے اوپر والے عذابوں میں سے ایک ہیں۔ جن کی کتاب محبت سے لبریز ہو صرف وہی اِس عذاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں اور اُنہی کو یہ وحشت جھیلنا پڑتی ہے۔شبِ غم بری بلا ہے۔
رت جگے اور وہ بھی محبت کے مرض میں مبتلا مریض کے رت جگے !۔ وہ جو بلوچی میں ضرب المثل کا درجہ پانے والا شعر ہے ناں:
شف پرے دوروخان مہ یایا ثئے
روش پرے شہرئے گپتغیں دزاں
ترجمہ:
مریض کے لئے خدا کرے رات نہ آئے
اوردن ،گرفتار شدہ چوروں کے لئے نہ آئے
مست کیا کہے۔ دردِ فراق کے کرب کی کیا صنف ، کیا زبان!! ۔ مختصر ترین الفاظ یہ ہوسکتے ہیں:
مں پہ سموآ بیثغاں شیدا او زھیر
ترجمہ:
میں سمو کے لئے شیدا ہو چکا ہوں،زہیر ہو چکا ہوں
اور اگر آپ چاہیں کہ اپنے درد کی گہرائی ناپیں تو آجائیے ہم اُسے مست کے درد سے ناپتے ہیں ۔ ہم مست کے دردِ مہر کو پیمانہ بناتے ہیں۔ مست کی فغاں سینے:
موتی جیسی خاتون کی یادوں نے جھلساکر مجھے جکڑلیا
دل دیوانہ ہے نادانوں جیسی ضدیں کرتاہے
ضد کرتاہے اور ما نگتا ہے کٹھن چٹان کے زامرکا درخت
لا ڈ لے بیٹے کی طرح ضد کرتا ہے کہ اُسے اسی پیڑ کی پھلیاں(زلفیں)چاہییں
دل،جو منتو ں سما جتوں سے زیادہ طا قتور نکلا
آ،اے محبوبہ ، میں اس افتاد کا کیاکر وں
سانپ کی طرح لوٹ پوٹ ہوجاتا ہوں ، پہاڑ وں کا رخ کرتاہوں
تیرے کا غذی ہو نٹوں نے مجھے لُوکی طرح گرماڈالاہے
موتی جیسے دانتوں نے شور ے کی طرح جلا ڈالا مجھے
دلکش موٹی اکھیوں نے کوہ نَوردی پہ مجبو ر کردیاہے
۔۔۔۔۔۔میں کرگسی پر واز کر تا ہوا سندھ سے بھی پر ے چلا گیا
ارے ہونا بھی یہی چاہیے۔جب اس پھلی میں ہی ساری حیات بند ہو تو آپ اور امرت دھارا کیا مانگیے گا۔ مگرزامر بھی کیا ؟ اصل بات تو خود ’’ درد‘‘ ہے۔یہی حیات بخش درد ہی تو جوہر ہے زندگانی کا ۔ فراق کا درد جسے تولنے کیلئے کوئی ترازو نہیں ،جسے ناپنے کے لئے کوئی میڑ نہیں:
مائے نیں میں کینوں دساں
درد وچھوڑے دا
گو کہ عشق محض بلوچ خصوصیت نہیں ہے مگر ’’بلوچ عشق ‘‘کا مطالعہ انسان کو تکمیل اور خوش بختی ضرور عطاکرتا ہے ۔ عشق کی پیدا کردہ بے قراری ذرا مٹھا رند کے ہاں ملاحظہ کیجئے:
اس کی یادیں مجھے گھر بیٹھنے نہیں دیتیں
ٹھنڈے سائے میں بیٹھنا تک مجھے برا لگتا ہے
اور یہ جو سانپ کی طرح بل کھا کھا کر حملہ آور یادِ یا رہے نا! یہ ہر بار پچھلے کی بہ نسبت زیادہ گاڑھی،زیادہ پیچیدہ اور زیادہ زہریلی ہوتی جاتی ہے اور بقول ملا داد رحمن ملیری:
برتیش منی امن و امان
ترجمہ:
وہ میرا من و امان لے گئیں

وہ جو ہمارا دوسرا دوست کہتا ہے:
دل پرے آں دوستازہیر بیثہ
کیث پرآں سیاہ مار چوٹہ وئے عہداں
نیم شفی کندی او آہستغیں جیاں
ترجمہ:
میر ادل اس محبوبہ کی یاد میں زہیر ہوگیا
اُس ناگ نما سیاہ زلفوں والی کی یاد میں
جو آدھی رات کے وصال میں ہنستی ہے
اور مجھے آہستہ سے ’’ جی ‘‘ کہتی ہے
مست کی سوانح عمری اور اس کے کلا م کا مطالعہ کریں تو وہ بلوچ شاعر ملا نو محمد بمپشتی کے عشق کا عملی نمونہ نظر آتا ہے جس نے کہا تھا:
اس کے عشق میں میری حالت یہ ہے کہ
قلندروں کی طرح ننگے سر کھڑا رہتا ہوں
کبھی رنجیدہ اور کبھی ہوش میں ہوتا ہوں
دم بہ دم پیالے نوش کرتا ہوں
اور دیگ کی طرح جوش کھاتا رہتا ہوں
بلوچی کا ایک اور شاعر یوں کہتا ہے:
میرے دل میں عجیب خیال آتے ہیں
یہ دل مجھے لے کر جاکر دور کہیں پھینکے گا
دل پرانی یادیں یاد کراتا ہے
تھان پہ بندھے گھوڑے کی طرح ٹاپیں مارتا ہے
چھوٹے بچوں جیسی ضد کرتاہے
اور اپنے بچے کے لئے بلبلانے والی ڈاچی کی طرح بلبلاتا ہے
عشاق کے مرشد حضرت جام درک کے الفاظ میں:
ششی جان جامئے زواں نال بیث
گھڑی عاشقانی گوزغ سال بیث
ترجمہ:
جام کا تن بدن جل جاتا ہے،زبان سوکھ کر اونٹ کے پیر کی طرح سخت بن جاتی ہے
عاشقوں کا ایک لمحہ سال ہوکر گزرتا ہے
بلوچی، بھرپور بیان کرسکنے والی زبان ہے۔ بالخصوص محبت، ہجر اور اس کے درد کی کیفیات یہاں بہت عمیق اور پر اثر انداز میں بیان ہوئے ہیں۔
کون بڑا کون چھوٹا کی درجہ بندی کو آگ لگا دو۔ عصری طور پر شہ مرید اور جام کے بعد مست محبت کا درد بیان کرنے وا لا ہمارا کلاسیکی ستارہ ہے ۔ انسان ٹھنڈی گہری آہ نکالے بغیر رہ نہیں سکتا۔
سمو کی محبت میں کندھوں تک ڈوبا ہوا ہمارا مست اپنا تجربہ یوں بیان کرتا ہے:
دوست پہ تئی مونجھاں چکھرا تنی بیثغاں
کوراں جھاگیناں مشکاں گوں بنداں ایر براں
سملئے دستاں یہ چلوئے آفی وراں
ترجمہ:
دوست تیرے غموں کی وجہ سے میں کتنا پیاسا ہوچکا ہوں
دریا کے دریاپی جاؤں،مشک کا مشک پی جاؤں
کچھ نہیں ہوتا
مگر سمو کے ہاتھوں سے ایک چلو پی لیتا ہوں
تو ساری پیاس مٹ جاتی ہے
ایسا ہی ہے۔دوست کی یاد کا عذاب زندگانی کا ایندھن بن جاتا ہے، وصلِ یار ہی سٹیر ائیڈ ہے،ملاقات ہی فرسٹ ایڈ ہے:
جانوں ساڑبیثہ اِشتہ پہناذ و سمبغاں
دام منی چمانی تلاں ژہ دیر بیثغاں
ترجمہ:
میرا بدن تشنج کی کیفیت سے نکل آیا، مجھے پلورسی والے درد سے چھٹکارا مل گیا
میری آنکھوں کی تہوں میں پڑے جالے دور ہوگئے
شمس تبریز والے مولانا روم نے اسی کی تصدیق تو کی تھی کہ :
محبت محبو بہ کی گال کو تو گلنار بنادیتی ہے
مگر عاشق کی روح کو خرچ کردیتی ہے
مست نے اپنے دردکے علاج کے لئے بہت بے سود کوششیں کیں۔ مگر،حکیموں طبیبوں کے پاس اُس کے دکھ کا علاج کہاں ملنا تھا۔ ملاّکوتو وہ ویسے ہی اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ کیا کرے،کچھ بھی کار گر نہیں،کچھ بھی موثر نہیں۔
ٹنگ کناں کو ہاں میں دے چو اولی عاشقاں
گار کناں ڈولے سملئے لحمیں اندہاں
ترجمہ:
میں بھی پچھلے عشاق کی طرح پہاڑوں میں سرنگ بنالوں
(کہ ) کسی نہ کسی طرح سمو کی جلا ڈالنے والی یادیں گم ہوجائیں
شریف آدمی ! محبوبہ کی یادیں کم کرنے نکلا ہے ۔ بھئی یہ توتقدیر نے تمہارے ہارڈ ڈسک میں محفوط کررکھی ہیں۔ سلور یلیزنگ درد ہے یہ ۔آسمان بڑے اہتمام کے ساتھ ان اندوہ نمایادوں کا مین ٹننس ڈوز دیتا رہتا ہے کہ کسک،تڑپ ،درد قائم رہے۔(عشق کی موجیں ہمیشہ بے کنار۔ سچل) ۔ہاں،یکسانیت کے خاتمے کے لئے البتہ کبھی کبھار ڈوز بڑھادیا جاتا ۔ اور آپ ناقابلِ برداشت دکھ سے اس قدر زیر ہوجاتے ہیں کہ فرہاد کی طرح جبل کو سوراخنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ایک دن میں نے ایک شخص کو دیکھا جس نے ہاتھ کی اپنی ہتھیلی کو بلیڈ سے پچاس ساٹھ چیرے لگارکھے تھے، تازہ تازہ۔ وہ شخص ہیروئن کا نشئی تھا۔ اس نے بتایا کہ بدن میں درد اتنا تھا کہ اُسے مارنے کے لئے اس نے اپنی ہتھیلی چیر کے رکھ دی تاکہ ہتھیلی کا درد ایک لمحہ کے لئے ہی سہی جسم کے درد پہ حاوی ہوجائے ۔مگر کہاں؟۔ کاش سارے ہیروئنچی محبت میں مبتلا ہوجائیں تا کہ ان کے ابلیسی درد پہ محبت کا پاک درد حاوی ہو جائے!!

یہ عجب عشق تھا ، مست کے الفاظ میں:
نَیں گنوخان و نَیں کہ مں جرّاں شینگلاں
سملئے سالانی زہیراں شنگیں تغاں
ترجمہ:
میں پاگل نہیں ہوں کہ میرا لباس اس قدر خستہ حالت میں ہے
مجھے تو سمو کی برسہا برس والی یادوں نے اس طرح بکھیر کر رکھ دیاہے
اور سجنو! یہ زہیر،یہ یاد واقعی ہلاکر رکھ دیتی ہے۔آپ ہڑ بڑا کر ہوش میں آتے رہتے ہیں۔
مناں گیرہ کئے سمو کلاں ژہ وہاوا دریہغاں
ترجمہ:
مجھے جب سمو یاد آتی ہے تو نیند سے ہڑبڑاکرجاگ جاتا ہوں
مست دنیا کو کھود یتا ہے،عاقبت کو دھکیل دیتا ہے۔ وہ بے کراں درد میں ڈھل کر خودمجسم درد ہوجاتا ہے
اندھاں دوراں مں گوں سموئے لحمیں غماں
دیذغاں کوراں پہ شفا سرشونہ نواں
ترجمہ:
میں سمو کی جھلسا ڈالنے والی یادوں سے زخمی ہوں
آنکھوں سے اندھا ہوں، رات کو راستہ نہیں دیکھ پاتا
رات تو بس تکلف ہے ورنہ عشاق جلتی دوپہر میں ہی’’گم‘‘ راہ ہوجاتے ہیں۔ تمام دنیاوی رسومات ترک کر دیتے ہیں۔ ایک ہی ذات میں یوں پیوست ہوجاتے ہیں کہ دوسرے سارے حقائق اسی راہ کے تابع بن جاتے ہیں۔دردِ یار،یا کمٹ منٹ!!:
جانِ جاں کے قریب تر جانا
درد کی راہ سے گزر جانا
لطیفؔ
سچل سرمست کے بقول درد سے عاجز آکر انسان نا توان ہوجاتا ہے کہ یہ دوزخ یار سے دوری کا نام ہے۔ اس درد کا بیانیہ جس طرح مست کے یہاں ہے شاید ہی کہیں ہو:
تئی زہیر سمو پہر مں پہری آ نوخہ باں
چوکہیر انی آڑویں آساں روخہ باں
ترجمہ :
سمو تمہاری یادیں لمحہ بہ لمحہ نئی ہوتی جاتی ہیں
کہیر نا می لکڑی کی تیز ترین آگ کی طرح شعلہ فشاں ہوجاتی ہیں
یہ عشق کی آگ جلا کر بھسم کر دیتی ہے ، گھما دیتی ہے ، لسی کی ماند ھا نڑ یں میں بلو دیتی ہے ۔اندھا کردیتی ہے :

عاشقی شوکاراں لواری پیلوشتغاں
سردہ پاذی آ سُتکغ و سیاہیں کیلڑاں
ترجمہ:

عشق کی طوفانی ہواؤں نے مجھے لُو کی طرح جھلسا دیا ہے
میں سر سے پیر تک کیلڑ کی طرح جل کر سیاہ ہوچکا ہوں
عشق کے درد کا یہ عمیق بیانیہ وہی شخص کہہ سکتا ہے جس پہ یہ درد گزرا ہو ۔ کوئی بے درد شخص محض، زورِ بیاں سے ایسے اتھاہ مصرعے نہیں کہہ سکتا ۔ ایسی شاعری تو ڈونگھے احساس ذمہ داری، اٹوٹ تعلق او ر آسمان شَق کر ڈالنے والے درد کی جڑوں سے ہی پھوٹ سکتی ہے۔ ایسا درد جو timelessہو جو bottomlessہو، جو Borderlessہو۔ ایسا درد کہ انسان نیم دیوانگی سے جا ٹکرائے ۔ نہ وقت کا ہوش ، نہ آس پاس کی خبر۔ بس یادوں کے زہرآب ناوک ہوں اور آپ کا برہنہ سینہ۔ اور ننگی زمستان کی تلخ راتیں جو نہ تو ختم ہونا جانتی ہیں اور نہ مختصر ہونا۔ مست نے اس طرح کی کئی راتیں ہجر کی جگر سوز آزار اور شب بیداریوں میں گزاردیں۔
عشق ،ہز اروں عنا صرووجوہا ت سے مجتمع ہوکر ، سمو کے حسن کوسب سے بڑ ا بہانہ جتا تے ہوئے ،صحرائی گدھ بن کر،بے آرامی کی آتشیں چٹان پہ بندھے ہمارے ’’پرو میتھی اَس جو نیئر‘‘کا جسم نو چتا رہا۔ مست توکلی اسی بڑے پر ومیتھی اس کا تو مریدو جانشین تھا جو افلا ک سے لو لاکی آتش عشق چُر اکر اُس کے دل کے بازوؤں میں تھما گیا تھا ۔
اور ہمار امست، عشق کے اِس ’’بلتے بھا نبڑ‘‘والے ماورائے پیمائش تپش آگ کے ہاتھوں عرش قامت فریا دیں کْو کتاصحراصحرا بھاگتا پھر تاہے ۔ مہرو کمٹ منٹ کے اس اولمپک مشعل بر دار کا رینج ایک طر ف بلوچستان کے ریگستا ن سے لے کر عربستان تک پھیلا ہواہے ،تو دوسر ی طر ف یہ ڈیر ہ غاز یخان سے دہلی تک وسعت رکھتا ہے۔
مہرکا لانگ مارچ کرتا مست کبھی دہلی میں ہوتا ، کبھی کعبہ کی جھالریں جُھلاتا، کبھی سہونڑ، کبھی سخی سرورمیں۔ جلو میں سینکڑوں لوگ لیے ثقافتی انقلاب کے مظاہرے کرتے ہوئے چار دہائیوں تک وہ خود اس انقلابی لانگ مارچ کی قیادت کرتا رہا۔ ایک ایسا انقلاب جس میں خون کا ایک قطرہ نہ بہا۔ اس انقلاب میں کوئی پاسداران نہ تھے۔ ہر بشر کی شراکت کاری کا انقلاب تھا یہ جسے، تزکیہِ نفس کی لازوال مثالیں قائم کرتے ہوئے سینچا گیا تھا۔ یہاں پر ہر انقلابی آرڈیننس کسی فرمان کی صورت نہیں بلکہ شعر کی صورت نازل ہوا، برملا، برمحل، ببانگِ طنبورہ ۔ مست تیرے مجسمے کو لتارکی سڑکوں کے چوکوں پہ نہیں احساس بھرے دلوں کی غزالی دھڑکنوں کے بیچ ایستادہ ہیں۔
اور بلوچستان ۔۔۔!! بلوچستان تواس کے عشق کاویٹیکن ہے،ہمارے عشق کاویٹیکن ہے ۔۔۔ باربارپلٹنا اسی کی جانب کہ یہیں راحت ہے ،یہی راہبر ہے ، اور اسی میں امان ہے ۔کیا انتخاب ہے، کیاچناؤہے !!۔شیرانی قبیلے کاتوکلی مست اورکلوانی قبیلے کی سمو ،عشق کا بلوچستان اور انسا نیت کی سب سے بڑی نعمت وحیِ عشق ۔ ہم مری لوگ کس قدر پیار ے ہیں افلاک کو!!۔
عشاق کی بلوچستان چیپٹر کی تاریخ میں شہ مرید اور تو کلی مست دوبڑے جہاں گشت عاشق رہے ہیں۔ ایک کی محبوبہ کوسردار کے ہاتھوں چھنواکراُسے فراق کے راکھشس کے کھچا ر میں پھینک دیاگیا جبکہ دوسرے کو ایک شادی شدہ ناقابلِ حصول خاتون سے محبت دے کر جدائی کی ایذاگاہ میں پٹخ دیاگیا۔ اور دونوں کو ساری زندگی بچا ؤکی تلاش ، سائے کی کھوج ، اطمینان گاہ کی تگ ودومیں گزارنی تھی۔شہ مرید’’ فقیر وں‘‘ کے ساتھ ہو لیا (جس کی پیر وی میں ایک صدی بعدشاہ لطیف ’’جوگیوں‘‘ کے ساتھ ہو لیا ) جب کہ مست کے سفر تعداد میں اتنے زیادہ اور دورانیوں میں اتنے طویل ہیں کہ اُن کاثانی ابھی تک یوٹوپیائیوں کی دنیا میں نہیں ملتا۔ روح میں قرار ہوتو جسم کو قرار ہو۔مگرعشق میں جو روح ،مچلے نہیں تو تین حرف ہوں اْس روح پر،اُس عشق پر ۔عشق توجس قدر اصلی اورخالص ہوگا ، اتنی ہی زیادہ بے قراری ، بے خوابی ،بے چینی نازل کرے گا۔عشق اوربے قر اری ایسے ساتھی ہیں جیسے ناخن اور گو شت، جیسے آنسواور جھولی۔مست کے اندر شدید خوشی اور گہرا غم باہم بری طرح مدغم ہیں ۔ خوشی بھی آگ بن کر لپکتی ہے اور غم بھی جلتا کوئلہ بن کر دبوچتا ہے ۔ عشق توبقول خوشحالؔ یوں بھسم کردیتا ہے :
جیسے خشک گھاس میں آگ لگ جاتی ہو

Spread the love

Check Also

کنا داغستان  ۔۔۔ رسول حمزہ توف؍غمخوارحیات

سرلوزنا بدل سر لوزاتا بارواٹ گڑاس لس و ہیت ! تغ آن بش مننگ تون ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *