Home » حال حوال » سیمینار بیاد رفتگان ۔۔۔ ڈاکٹر سلیم کرد

سیمینار بیاد رفتگان ۔۔۔ ڈاکٹر سلیم کرد

بابو عبدالرحمن کرد ، آغا نصیر خان احمد زئی و ڈاکٹر فیض ہاشمی

11 اکتوبر کو بابو عبدالرحمن کرد اور آغا نصیر خان احمد زئی کی برسی اور ڈاکٹر فیض شاہ ہاشمی کی سیاسی و سماجی خدمات کے حوالے سے ادارہ نوائے بولان و نوکین دور پبلیکشنز کے زیر اہتمام بلوچی اکیڈیمی کے ہال میں ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی ۔ تقریب کی صدارت بلوچی زبان کے معروف دانشور جناب منیر احمد بادینی نے کی۔ مہمان خاص کے فرائض آغا نصیر کے فرزند ارجمند آغا محمد یوسف احمد زئی نے ادا کئے ۔ سعید کرد نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے ۔اسٹیج پر بلوچی و براہوئی کے دانشور وشاعر جناب عبدالحمید شیرزاد اور بلوچی کے بلند پایہ شاعر علمی و ادبی شخصیت محترم اللہ بخش بزدار بطور مہمانان گرامی جلوہ فروزان تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ، جس کے بعد پروفیسر محمد یوسف بلوچ نے آغا نصیر کے علمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین اپنا مقالہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آغا نصیر خان کاقلم تاریخ و زبان شناسی پر دسترس رکھتا تھا۔ وہ بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچی و براہوئی کے پروفیسر اور ریسرچ سکالر تاریخ بلوچ ، بلوچستان و جنرل ہسٹری کے حوالے سے خدمات انجام دیا۔
انہوں نے کہا کہ آغا نصیر خان نے اپنی علمی زندگی کا آغاز ریاست قلات میں نائب تحصیلدار سے کیا۔ تحصیلدار ، ناظم ، وزیر دربار ریاست قلات ڈپٹی کمشنر بلوچستان سٹیٹ یونین ، چیئرمین ٹیکسٹ بک بورڈ ، چیئرمین بورڈ آف انٹر میڈیٹ سیکنڈری ایجوکیشن بلوچستان ، اور پروفیسر تک سماجی و علمی خدمات سرانجام دیں ۔ انہوں نے تاریخ اور زبان کے حوالے سے درجنوں کتابیں لکھیں، جن میں کفر و اسلام جنگ آزادی ءِ سروک کشارکاری ، زالبول و نوکری ، شالی کلگ ، سوال و جواب بلوچ و بلوچستان کے حوالے سے ۔ بلوچی گرائمر اردو ، بلوچی گرائمر تران (بلوچی ، براہوئی ، انگلش ، اردو) شجرہ حضرت محمدؐ پیغمبر اسلام قدیم شالکوٹ (اردو) قوموں کی تشکیل کے تناظر میں بلوچ قوم کی تشکیل ( اردو) بلوچ قوم کے متعلق غلط تاریخی روایات کی تردید (اردو) تاریخ بلوچستان و بلوچ آٹھ جلدوں ہیں ۔جو چھپ چکی ہیں اور اتنی ہی تعداد میں تاریخ و زبان کے حوالے سے کتابیں چھپائی کے منتظر ہیں۔ بلوچ قوم کی تاریخ کا یہ عالم فاضل مورخ و زبان شناس جو 9 اکتوبر 2013ء کو اس دارفانی سے کوچ کر قلات میں آسودہ ءِ خاک ہوا۔
اس کے بعد انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مندوب شمش مندوخیل نے ڈاکٹر فیض شاہ ہاشمی کی انسانی حقوق کے حوالے خدمات اور جد وجہد پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فیض کی خدمات انسانی حقوق کی تحریک میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان کی یاد ہمارے دلوں میں زندہ کیے ۔ اس کی رحلت ایک سے ناقابل تلافی نقصان کے مترادف ہے۔
اس کے بعد لالین بلوچ نے بابو عبدالرحمن کے 1950-60 کے دھائیوں کے لکھے ہو نوائے بولان کے اداریئے اور علمی ادبی ، تاریخی مقالوں پر مبنی کتاب ’’ نوائے بولان‘‘ کی رونمائی کی۔
راحت ملک نے ڈاکٹر فیض کی سیاسی و سماجی خدمات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فیض ہمارے سیاسی سماجی سرگرمیوں میں شریک کار تھے۔ اور ہر محاذ پر ہمارے ساتھ میر کاروان کے طور پر رہے ۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فیض کی مقبولیت کی وجہ اس کی سوچ ہے جو مختلف سیاسی سماجی نظریات کے اندر رہتے ہوئے اسے ممتاز بنایا۔ انسان اور انسانیت سوچ کے پھیلاؤ کے حوالے سے ان کی خدمات قابل قدر ہیں۔ انہوں نے جدوجہد کے حوالے سے جن نظریات کو قبول کیا وہی نظریات آخر وقت تک اس کے سانس کے ساتھ جڑے رہے ۔ اس کے نظریات کا محور انسان اور انسانیت تھی۔ جیسے اس نے اپنے پیشے پربھی ترجیح دی۔سماجی برائیوں اور نا انصافیوں کا ادراک تشخیص عرض کے حوالے سے کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے سماج اور خطہ میں پائی جانے والے درجہ بندیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ تمام انسانوں کو بلا امتیاز حسن ، رنگ و نسل عملی اقدامات کے لئے وہ ان کی نظریات پر چلے جو سماجی برابری کے لئے تھی۔ یکسانیت اور امتیاز کے خاتمے کی کوشش تمام عمر کرتے رہے ۔ وہ سماجی ارتقاء کی سائنس پر پختہ یقین رکھتے تھے ۔ سماجی انصاف کے حصول کے لئے تختہ رضا کار کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ اس نے رونما ہونے والے واقعات سے اثر بھی لیا اور انہیں قبول بھی کیا۔ وہ افغان انقلاب کے رونما ہونے پر اسے قبول کیا۔ انہوں نے افغانستان میں مداخلت کے وقت رجعتی قوتوں کے خلاف سینہ پر ہوئے اور مداخلت بے جائی مذمت کی ۔ پاکستان میں قومی سوال کو دیگر اقوام کے احترام اور اس کا حل تلاش کرنے میں ان سوالوں کو پرکھنے کی کوشش کی جسکی وجہ سے آج وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہے ۔
عطاء اللہ بزنجو نے اپنے خطاب میں ان ہم جہت شخصیات کی علمی ادبی سیاسی و سماجی خدمات کو سراہا۔ اور ان کی جدوجہد کو مشعل راہ قرار دیا۔
قاضی عبدالمجید شیرزاد نے ان کی جدوجہد بحر بیکراں قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ بابو تمام اقوام کی مشترکہ جد وجہد پر یقین رکھتے تھے۔ جب تک ہم ایک ساتھ مل کر جدوجہد نہیں کریں گے تو کامیابی مشکل ہوگی ہماری کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارا نفاق ہے ۔
تقریب کے مہمان گرامی جناب اللہ بخش بزدار نے ان اکابرین کو خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج کی یاد میں ہم سب اکھٹے ہوئے ہیں وہ ہمارے مہربان ہیں نہوں نے اپنی دھرتی ، قوم و زبان کے لئے گرانقدر خدامت سر انجام دی ہیں۔ انہوں نے کہا بابو اور آغا نصیر خان کا شمار ہمارے علمی ادبی و تاریخ کے پیشروں میں ہوتا ہے ۔بلوچ قوم کو کئی مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک اہم مسئلہ قومی تشکیل کا ہے۔ اس مسئلے پر ان بزرگوں نے کھٹن جدوجہد کی۔ اپنے نظریات کے حوالے سے بابو نے ملک کے تمام قومیتوں کو یکساں حقوق دلانے کے لئے اپنی عمر وقف کی۔ اور اپنی بزرگون نے علم کے میدان میں بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جس قوم کی علمی بنیاد کمزور ہو وہ تہذیبی طور پر کمزور سمجھی جاتی ہے اور کمزور قومیں صحیح فیصلہ نہیں کر سکتیں اور ناکامی سے دوچار ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے بابو کو سرسری پڑھا ہے ۔ بابو کے الفاظ میں جو نفاست ہے وہی اس کے عمل میں بھی تھا۔ وہ پرکھٹن حالات میں بھی نہیں ڈگمگائے ، کئی بار قید و بند سے دوچار ہوئے لیکن جد وجہد ترک نہیں کی مسلسل جدوجہد کرتے رہے ۔ وہ مسائل کے حل کے لئے برادر قوموں سے ملکر مشترکہ دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کو ترجیح دیتے تھے اور تمام عمر اسی پر کاربند رہے ۔ وہ جمہوری سوچ کے حامل تھے جمہوری جدوجہد پریقین رکھتے تھے اسی لئے انہوں نے مسائل کے حل کے لئے جمہوری جدوجہد کو ترجیح دی۔ وہ تنگ نظر قوم پرست نہیں تھے اور نہ ہی مجرد خیالات کے حامل انسان ۔ وہ ہمارے قوم پرستی کے حدود کو بھی سمجھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہماری قوم پرستی کے خمیر میں موقع پرستی ہے ۔ او رموقع پرستی انتہا پسندی ۔
ڈاکٹر فیض کے حولے سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر فیض ہمارے دوست اور جدوجہد کے ساتھی ۔ اس نے اپنے آپ کو موروث کے مطابق نہیں ڈالا۔ اس نے زمانے کی تنگ نظری و کم ظرفی کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ آج وہ ہمارے ساتھ نہیں اسکے بغیر کوئٹہ ویران ہے۔
مہمان خاص آغا محمد یوسف احمد زئی نے کہا کہ آج ہم اپنے اکابرین کو خراج عقیدت پیش کرنے لیے یکجا ہوئے ۔ ہمارے یہ اکابرین ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے انہوں نے مختلف محاذوں پر جدوجہد کی۔ ان کی جدوجہد ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ انہوں نے آغا نصیر خان احمد زئی کے حوالے سے کہا کہ آغا کی سب سے بڑی خواہش تاریخ بلوچستان کو مکمل کرنے کی تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں اپنی خواہش پوری کی۔ اس نے تاریخ بلوچستان کو انگلش میں ترجمہ کی ، جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے پاس ہے اور جلد ہی چھپ کر منظر عام پر آئے گی۔ انہوں نے درجن بھر کتابیں طبع کیں اور درجن بھر غیر مطبوعہ کتابوں کے مصنف ہیں۔
تقریب کے آخر میں صدر مجلس جناب منیر احمد بادینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی میں یاد رفتگان میں کھو جاتا ہوں ایسے ہی شخصیات جو بلند پایہ شا عر ہوں ادیب عالم ومورخ ہوں سیاستدان ہوں تو ان کے بارے میں میرے ذہین میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ گل خان نصیر و بابو سے لے کر آج کے اکابرین تک ۔ کہ کون سی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے وہ ہم سے ممتاز نظر آئے ہیں کیا ان کے کردار نے انہیں ہم سے ممتاز بنایا یا واقعات نے ۔ انہیں ممتاز بنانے میں دونوں کا بڑا عمل دخل ہے۔
سماجی تاریخ میں کردار کا بڑا رول ہے ۔ قوموں کی تاریخ کرداروں سے بنتی ہیں۔ جو سماجی تاریخ کو متحرک کرنے میں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ واقعات بھی زندگی میں اہم رول ادارکرتی ہیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ انگریزوں کے آمد کے بعد بھی ہماری زندگی نہیں بدلی ، المیہ یہ ہے کہ ہمارے ان اکابرین کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ آن پڑا ، انہوں نے تاریخی جبر کے اس بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور پرکٹھن حالات کا سامنا کیا۔ اپنی پسماندگی کا سوال اٹھایا ، اس سوال کے حل کے لئے دیدہ دلیری سے جد وجہد کی ہمارے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے شاہراہ جدوجہد پر گامزن رہے۔
یہ انصاف کے طلب گار تھے تنہا اپنے لئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ۔ یہ کمزور یوں ے مبرا نہیں تھے ۔ تھوڑی بہت غلطیاں ان سے بھی سرزد ہوئی ہونگی ۔ گل خان بابو ، آغا و فیض کو ان کے رول نے دوسروں سے ممتاز بنایا۔
بابو شورش ہو یا بابو عبدالرحمن کرد ۔ یہ اپنے اپنے تاریخی رول سے واقف تھے ۔ انہوں نے اس تاریخی عمل میں اپنا رول اپنے سوچ وفکر کے مطابق ادا کیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ زندگی میں اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنا ہے ۔ وہ انسان کو ابھارتا ہے کہ وہ اپنا رول ادا کرسکتا ہے۔ اک نئے جہاں کے پیدا کرنے میں ہمیں اکیسیویں صدی میں زندہ رہنا ہے تو ہمیں اپنی تاریخ کو فکری بنیادوں پر مرتب کرنا ہے کیونکہ سائنسی فکر کے بغیر چیزیں نہیں سنورتیں ، اور نہ ہی سماج میں تبدیلی ممکن ہے۔
آج ہم بحثیت قوم دنیا کے دیگر ممالک میں بھی آباد ہیں پاکستان کو فخر ہو کہ ہم اس کے اندر رہتے ہیں۔ ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں مقابلہ کے لئے تیار ہونا چاہئے ۔ بغیر مقابلہ کے ہم پیچھے رہیں گے پسماندہ رہیں گے ہمیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم زندہ قوم ہیں۔
کمال تو یہ ہے کہ بابو کا المیہ وہی ہے جو گل خان کا ہے ۔ محسوسات بھی ایک ہیں۔ درد بھی مشترک ہے۔
بابو کی شاعری میں نے پڑھی ہے کمال ہے کہ بابو نے براہوئی شاعری کو آسمان تک پہنچایا۔ میرے خیال ہے کہ براہوئی شاعری کو بابو نے بہت ذرخیز کیاہے۔ بہت آگے بڑھایا۔ بابو ہماری سماجی سرگرمیوں کا بہت بڑا ستارہ ہے۔ جسکی روشنی سے ہم مستفید ہوتے رہیں گے۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *