Home » قصہ » روشنی کی تلاش ۔۔۔ علی بابا/ننگر چنا

روشنی کی تلاش ۔۔۔ علی بابا/ننگر چنا

دل بے چین ، نا ا’مید آنکھو ں میں امید کے ٹمٹما تے چراغ ، ٹا نگیں گھٹنو ں سے اکھڑی ہو ئیں ، ابھر ی ہو ئی جبڑوں کی ہڈیا ں ، ایک مسا فر ا ما وس کی اند ھیر ی رات میں لڑ کھڑ اتا ہو ا جا رہا ہے۔منزل کی تلا ش میں۔ 
اُکھڑی سا نسو ں میں ہا نپتے کا نپتے زخمی پا ؤں اور ٹا نگو ں میں تھکن کی بیڑیا ں۔ 
ایک قد م ۔۔ (ایک کو شش )
دوسرا قدم ۔۔۔
تیسر ا قدم ۔۔۔ 
قدم کے بعد قدمْ ۔۔۔ ( منزل پر پہنچے کی کو شش ) اور ڈگمگا کر ا’لجھ جا ئے ہیں پاؤ ں ۔۔ کَٹے شہتیر کی ما نند دھڑام سے گر جا تا ہے۔۔۔ جیسے بگو لے میں اچا نک ہی جلتے جلتے بجھ جا تے ہیں آ شا کے دیپ اور چا روں طر ف جمع ہو جا تا ہے بے انت اندھیر ا ۔۔۔
بے چینی اور جگر چیِر کر رکھ دینے والی چیخیں، ‘‘ آہ۔۔۔ آہ ! میں تک گیا ہو ں ، میر ا حلق سوکھ چلا ہے، کوئی ہے۔۔۔۔ مجھے سہا را دے’’
دور دور تک خا مو شی ۔۔۔۔سانت کی سانت ( کہیں سے کو ئی آواز نہیں آتی۔) رہی سہی قوت اکٹھی کر کے اٹھنے کی کو شش ( پھر گر پڑنا۔) پھر ا ٹھنے کی کو شش (اور پھر گر پڑنا)۔
پھر ایک مرتبہ اٹھنے کی سعی اور گردن کا نیچے ڈھلک جانا ۔ جیسے سا نسو ں کی دھو نکنی دھونک دھونک کر بند ہو جائے۔ مسلسل کسی پا تا ل میں لڑ ھکتے جانا گھور اندھیرا پا تا ل ۔۔۔۔ گہرا اور بے انت 
کسی ستا رے کی روشنی نہیں ۔۔۔ سیا ہ آسما ن ۔ سیا ہ رتیلی زمین اور کا لے سانپ کی ما نند تا ریک راہ کا ڈسا ہو ا مسافر!ٹانگیں اور بازو پھیلا ئے بے سدُ ھ پڑا ہوا ہے اندھیرے کے پا تا ل میں (خدا جا نے اِس ڈائن رات نے کس کس کو قتل کیا ہے۔)
ایک قدم ۔۔۔۔
دوسرا قدم ۔۔۔
تیسر ا قدم ۔۔۔۔ اسی طر ف سے اندھیرے میں بڑھتا ہوا آرہا ہے مسا فر ۔۔۔ دل بے چین، نا ا’میدآنکھوں میں امید کے ٹمٹما تے دیے اکھڑی ہوئی سانسیں ، گھٹنو ں سے اکھڑی ہو ئی سی ۔ قدم ، قدم بڑھتاہوا(منزل پر پہنچے کی تلاشِ مسلسل )۔
اور اچا نک ٹھٹک کر رک جا تے ہیں قدم۔ راہ میں اور ند ھے منہ پڑی ہوئی ہے کوئی لا ش ۔ وہ اُس پر جھلک جا تا ہے۔ آنکھوں میں آشا کے دیپ اور سینے میں رینگئی ہوئی سانس ( زندگی اور موت کی جنگ )۔
اور مسا فر آگے بڑھ کر مشکیزہ لا ش کے ہو نٹو ں سے لگا دیتا ہے۔ جیسے تیلی کے جلنے سے آہستہ آہستہ روشنی ہوتی جا تی ہے دیے کی لواور جگمگا اٹھتا ہے ۔ ویران اور سنسا ن مند ر اوربج ا’ٹھتا ہے زند گی کا زنگ آلود اور بہرا گجر ۔
’’ہا ئے ۔۔۔ تم کو ن ہو؟‘‘
’’تمہا ری طر ح روشنی کی تلا ش میں بھٹکنے ولا ایک مسا فر ‘‘
آواز جیسے رنی کو ٹ کی بلند اور لافانی دیوارو ں سے ٹکرا کر لو ٹ آتی ہے۔
’’ہا ئے ۔۔۔۔میں تھک گیا ہوں ۔ میری ٹا نگو ں میں سکت نہیں رہی ‘‘
’تو پھر کیا ہو ا سا تھی ! میری ٹا نگو ں میں تو دم ہے۔ آؤ، میں تمہیں سہا را دیتا ہو ں۔ شا باش ! ہمت سے کام لو ، گردن سیدھی کرو ، شا باش ۔‘
(اور جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہا را ملِ جاتا ہے)۔
’میں کتنا کمزور ہو گیا ہوں!‘
’’ہا ں ، بہت کٹھن ہے یہ سفر ۔ لے یہ با جر ے کی رو ٹی کا ٹکڑا چبا لے، ٹھوڑی سی قوت آ جا ئے گی ۔منز ل بہت دور ہے۔‘
’’نہیں ، نہیں ۔میرے جبڑوں میں اتنی طا قت نہیں کہ کو ئی چیز چبا سکو ں ۔ تم جا ؤ ، دوست! منزل تمہیں پکا ر رہی ہے۔ مجھے سہا را دیتے دیتے کہیں تم بھی صحر ا کا رزق نہ بن جاؤ۔‘‘
’’تمہیں صحرا میں چھو ڑ کر میں کس طرح منزل پالوں گا ۔ ضد چھو ڑ ، سیا نے بن ، یہ لے با جرے کی روٹی کا ٹکڑا ۔۔۔ پا نی میں بھگو کر کھا لے۔۔۔ تھو ڑی سی قو ت آ جا ئے گی ۔۔۔ ہم مل کر ہر مشکل کا مقا بلہ کریں گے۔۔۔ منزل بہت دور ہے‘‘
اور با جرے کی روٹی کا چو تھا ئی حصہ پا نی میں بھیگ کر چھو ٹے نوالو ں کی صورت حلق سے نیچے ا’تر جا تا ہے، (اطمینا ن کی ایک گہری سانس )۔
’’کیو ں سا تھی ! انٌ ایما ن ہے نا ؟‘‘
’’ہا ں ۔ سا تھی ! انٌ بڑا ایما ن ہے‘‘۔
’’اچھا ۔۔ تھوڑی دیر سستالو ۔ یہ سفر بہت کٹھن ہے۔‘‘
اُ ما وس کی لمبی اند ھیری رات ۔سانپ ایسا سیا ہ اندھیراراستہ ، جس پر تھکن سے چوردو مسافر ، جن کے سینو ں میں سا نس دھو نکنی کی ما نند چل رہی ہے۔ آسمانو ں کی مسا فت طے کرنے والی آنکھیں ، گہری سو چ اور خاموشی۔ 
’’کتنی لمبی رات ہے یہ اُما وس کی رات ۔۔ دور کہیں دھند میں کوئی دیا بھی نہیں ٹمٹما تا ۔۔۔ یو ں لگتا ہے جیسے صدیو ں سے اس آسما ن کے نیچے کبھی کوئی ستارہ چمکا ہی نہیں ‘‘۔
’’ہا ں، صدیو ں سے !! کہتے ہیں، صدیا ں پہلے ا س آسمان تلے ایک ستارہ چمکا تھا ۔ صبح کے ستا رے سے بھی زیادہ روشن۔ تا ریخ میں وہ اس دھرتی کی آنکھ کاپہلا تارہ تھا ۔ وہ اس دھرتی کی مانگ میں سندور کی طرح چمکتا تھا ، لیکن پھر ۔۔۔۔‘‘
’’پھر کیا ؟۔۔۔۔
’’ایک ابھا گن رات کو وہ ستا رہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔کہتے ہیں اسی رات دھرتی کا جگر ایک بڑے دھما کہ کے ساتھ لرز اُٹھا تھا ۔ وہ ٹوٹا ہوا تارہ بھی اس دھرتی پر اپنی سرخ چنگاریاں وارے ہو ئے خلا کے تا ریک دھند میں گم ہو گیا ۔‘‘
(اور ایک لمہ کے لئے بکھر جا تی ہے ایک گہری خاموشی۔) 
’’پھر کیا ہواَ ‘‘ ایک گھٹی ہوئی آواز
پھر کیا ہوا۔۔۔ پھر کا یا پلٹ ہوگئی ۔ یہ دھرتی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اندھیرے کے پا تا ل میں اُترگئی۔ لیکن پتہ ہے۔۔۔ کچھ لوگ کہتے ہیں۔۔‘‘
’’کیا کہتے ہیں ۔۔۔؟‘‘
کہتے ہیں اس ستا رے کی چنگا ریا ں ابھی تک تا ریک خلا کی وسعتوں میں گردش کر رہی ہیں، نئی روشنی اس کی آخری کرن سے جنم لے گی۔ لیکن یہ تمہا ری آنکھیں کیوں چمک رہی ہیں؟؟ کیا تم رور ہے ہو؟
گٹھی گٹھی سسکیاں، خاموشی اور ایک گہری سانس ۔ اے پیا رے !! تم کیو ں گھبراتے ہو؟ میرا تو اُس روشنی پر ایمان ہے۔تا ریک خلا کی وسعتوں میں اگر وہ ستا رہ ڈوب گیا تو کیا ہوا، تمہا ری آنکھو ں میں تو اس کی چنگاریا ں موجود ہیں نا۔ہمت سے کا م لو ، منزل دور نہیں ہے۔ کہتے ہیں اُس چو ہر درہ کے عقب میں ہے وہ دل والوں کا گاؤں ۔ وہا ں کہیں نہ کہیں ، کسی ’’جھونپڑے ‘‘میں کو ئی دیپ جل رہا ہوگا۔‘‘
دل بے چین ، نا اُمید آنکھو ں میں اُمید کے دیپ جل اٹھے ہیں۔
’’ہا ں ہا ں ۔ اے سا تھی !! مجھے لے چل ۔۔ اس سپنو ں کے گا ؤ ں کی طرف ۔ میں بھی اس ستا رے کی طرح اس دھرتی پر کچھ قربا ن کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
ایک قدم ۔۔۔۔۔ ( ایک کوشش)
دوسرا قدم ۔۔۔۔۔ ( دوسری کوشش)
تیسر ا قدم ۔۔۔۔۔ ( منزل تک پہنچنے کی سعئی پیہم )
من بے چین ، نا اُمید آنکھو ں میں اُمید کے ٹمٹما تے چراغ ، ٹانگیں گھٹنوں سے اُکھڑی ہوئی ، اُبھر آئی جبڑوں کی ہڈیا ں ۔اماوس کی لمبی رات میں اونچے راستوں پر ڈگمگاتے ، گرتے پڑتے ۔۔۔ ایک دوسرے کے پیچھے آگے بڑھ رہے ہیں، مسا فر ۔۔۔ روشنی کی تلاش میں۔

Spread the love

Check Also

کون گلی گئیو شیام ۔۔۔  مصباح نوید

اندھوں کے شہر میں تصویروں کی نمائش ہے، آشوب زدہ چشم ہے۔۔۔۔ ہے تو سہی! ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *