Home » ھمبوئیں سلام » عمرؔ برناوی، بلفت جدگال، شہزاد ابراہیم

عمرؔ برناوی، بلفت جدگال، شہزاد ابراہیم

ایڈیٹر ماہنامہ سنگت کوئٹہ
اسلام علیکم ۔ فروری2015 کا رسالہ اس وقت میرے ہاتھوں میں ہے ۔ جنوری2015 اور فروری2015 کے ماہنامے ایک ادبی نشست (PMAہاؤس کراچی )سے پچھلے ماہ دستیاب ہوئے تھے ۔ پڑھے پسند آئے ۔ بلوچی ادب سے کافی اور قیمتی معلومات حاصل ہوئیں۔ نسیم سید کا افسانہ بگ فیٹ”Nigger” بہت متاثر کن ہے اور بہت پسند آیا۔ اُن کو میری طرف سے مبارکباد ضرور پہنچادیجئے گا۔
فروری2015 کے سنگت میں صفحہ 31 پر کونے میں بائیں جانب تحریر کیا ہے ’’ سنگت نے بین الاقوامی ادب کو بلوچی میں تراجمہ کرانے اور اُن کتابوں کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ دلچسپی رکھنے والے اپنی کتابیں دیدیں‘‘ تو معلوم یہ کرنا ہے کہ میری ایک کتاب ’’ نئے موسم کی خوشبو‘‘ جو کہ 737 صفحا ت پر مشتمل ایک کلو وزنی اور نظم کی صورت میں ہے ۔ تعارف کے طو رپر ٹائٹل پیچ اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تبصرے کی کاپی ارسال کررہا ہوں کیا آپ اس کا بلوچی میں تراجمہ کراکے شائع کرانا پسند فرمائیں گے؟ اگر پسند خاطر ہو تو کتاب میں آپ کے دفتر کے اِسی پتے پر یا تو بذریعہ ڈاک بھجوادوں اور یا اگر کوئی صاحب یہاں کراچی میں موجود ہو ں تو اُن تک پہنچادوں۔
دوسری بات یہ معلوم کرنا ہے کہ میں ’’ سنگت‘‘ کا سالانہ خریدار بننے کے لیے زرسالانہ360 روپے کا چیک کس نام سے اور کس پتے پر ارسال کروں۔ آپ نے جو پتہ تحریر کیا ہے ’’ مری لیب۔ فاطمہ جناح روڈ کوئٹہ‘‘ کیا یہی پتہ خط و کتابت کے لیے مناسب ہے ؟ کیونکہ ایک تاثر یہ اُبھرتا ہے کہ کہیں یہ پتہ پرنٹر ۔ سپنزر پرنٹر کوئٹہ کا تو نہیں جو کہ آپ کے دفتر کا نہ ہو۔ ضرور مطلع فرمائیے گا۔ نواز ش ہوگی۔
بلوچ بھائی بھی ہمارے جسم کا ایک اہم حصہ ہیں۔ آپ کے رسالے کے مطالعے سے ان کے مسائل ،ان کے دکھ درد ،ان کی روایات سے واقفیت ہوگی کہ ہمارے چمن میں کیسے کیسے پھول کھلتے ہیں۔ کیسی پیاری اُن کی خوبو ہے۔ اللہ کرے کہ یہ انجم و ماہتاب ہمارے پیارے چمن کے افق پر سدا جگمگاتے رہیں اور اپنی تابانی سے وطن کے گوشے گوشے کو منور کرتے رہیں۔

عمر برناوی۔ کراچی

عمر صاحب
ہم کلاسیکل ادب کا ترجمہ بلوچی زبان میں چھاپتے ہیں ۔ مندرجہ بالا پتہ سنگت کے دفتر کا ہے۔ بلوچوں کے بارے میں آپ کی نیک خواہشات کا گرمجوش خیر مقدم۔
ایڈیٹر
****************

ایڈیٹر ماہنامہ سنگت کوئٹہ
بلوچستان سنڈے پارٹی کی اولین منتخب کابینہ کو دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارک ہو۔ اس امید کے ساتھ کہ بلوچستان سنڈے پارٹی کے منتخب کسی بھی عہدیدارکو بوجہ معذوری، آئین سازی کے ذریعے نااہل قرار نہیں دیا جائے گا. جو 1996میں لٹل پیرس جیسے خوبصورت شہر میں بروس روڈ کے عقب میں واقع ایک ادبی اکیڈمی کے دو انتہائی شفیق عہدیداروں کے ساتھ ہوا جن میں سے ایک ،1932 میں علیگڑھ یونیورسٹی کی اولمپک یونان میں نمائندگی کرچکا تھا. اور نہ ہی سنڈے پارٹی کا کوئی عہدیدار اپنے ضعیف العمر سرپرست اعلیٰ کو سنڈے پارٹی سے نکل جانے کا حکم دے گا ۔ اور یہ بھی امید ہے کہ اگر سرزمین کا کوئی صاحبِ ذوق فرزند 1992 میں رکنیت کی درخواست کردے تو اس کی درخواست پہ1992 میں ہی عملدرآمد ہوگا ۔
نہیں تو امام زین العابدین رحمتہ اللہ علیہ کو واقعہ کربلا سے زیادہ کوفہ والوں کی خاموشی کا دکھ ہوگااور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہونگے کہ “کوفہ ایک شہر کا نام نہیں ایک خاموش قوم کا نام ہے۔ جہاں بھی ظلم ہو لوگ خاموش رہیں تو وہ کوفی ہیں” ۔اور لٹ خانہ کے 90 سالہ ضعیف العمر مصنف کو پیرالعمری میں قبائلی رسم و رواج سے عاری اس ادبی سماج کو بھی لٹ خانہ ہی تصور کرنا پڑے گا.
کوئی بات نہیں اگر دیوتاؤں کی سر زمیں یونان میں سقراط نامی حکیم کو 399 قبل مسیح میں زہر کا پیالہ پینا پڑا ، کوئی بات نہیں اگر عظیم خدائی خدمت گار کو سرحدی گاندھی کا خطاب وصول کرنا پڑے اور احمد فراز کو “نواب بہادر ” کا خطاب وائسرائے ہند کو واپس کرنا پڑے۔
خیر…! اعتماد کا پرندہ لاکھ اڑ جائے ،might is rightکاکانوں لاکھ پروان چڑھتا ہو ، دلیل کے بجائے لاکھ دباؤ پہ فیصلے ہوں لیکن ساڑھے تین سو سال گزرنے کے بعد بیسویں صدی کے آخری عشرے میں ایک دن پاپائے روم پوپ جان پال کو احساس ضرور ہوگا اور یہ حقیقت 31 اکتوبر 1992 کو تحریری طور پر تسلیم کرنا ہوگا کہ ویٹیکن سے سزائے عمر قید پانے والے گیلیلیو نامی ریاضی داں 1633 سے 1642 تک انجیل کی تعلیمات کے برعکس کاپرنیکس کے جس نظریے کا حامی تھا کہ “زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے” بالکل درست تھا ۔واقعی زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔
آپ کا خیراندیش
بلفت جدگال۔ کوئٹہ
****************
جناب ایڈیٹر
* یمن میں حوثی باغیوں کی بغاوت سے حالات خراب ہو چکے ہیں ان خراب حالات میں یمن سے مختلف ممالک کے شہری دوبارہ اپنے وطن کی طرف مڑ چکے ہیں اور مختلف ممالک اپنے شہریوں کو یمن سے نکالنے میں مصروف عمل ہیں ۔ آخر یمن میں مسائل کی اصل نوعیت کیا ہیں اور کیوں خلیج ممالک اس حوالے سے متفقہ رائے رکھتے ہیں ۔ غیر جانبدار ذرائع ابلاغ اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی چالیس فیصد آبادی یمنیوں پر مشتمل ہے سعودی عرب اپنی تیل کی آمدنی سے ملک کو صحیح معنوں میں چلانے سے قاصر ہے اور اس کی نگاہیں یمن پر تیل کے ذخائر پر ٹکی ہیں ۔ لہٰذا اس ضمن میں سعودی عرب کو یمن سے تیل بڑی مقدار میں چاہیے۔ اس صورت میں اگر سعودی عرب یمن سے ایسے تعلقات کی بنیادیں پیدا کرے جس سے دونوں ممالک کے مابین ایک آئیڈیالوجی قائم ہو ۔ گرچہ یمن کے مسلئے کو حوثی تحریک چلنے سے ایک قدم پہلے کے نقطے سے دیکھا جائے تو موجودہ یمنی صدر نے حوثیوں کے شہری مطالبات تسلیم نہ کرنے پر انھوں نے احتجاجی مظاہرے کئے اور عدن میں یمنی صدر منصور ہادی سے استعفیٰ لیا ۔مگر صنعا پہنچنے پر یمنی صدر نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا ۔ جس سے اُن کے احتجاجی مظاہرے نے تحریک کی شکل اختیار کرلی ۔ سعودی عرب نے دس ممالک کا ایک اتحاد بنالیا ہے جس میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے ۔ کیا پاکستان کے ارباب اختیار سعودی عرب کی شکست میں اس تاریخی حقیقت کو جھٹلا کر فوج کو کاروائی کی اجازت دینگے ؟؟
* بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر وہاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے صرف 2 جنرل یونیورسٹیاں ہیں ان میں ایک بلوچستان یونیورسٹی اور دوسری تربت یونیورسٹی ہے جو نوعیت کے لحاظ سے اب تک یونیورسٹی کے پیرائے میں نہیں ڈھلا ہے ۔ جبکہ کوئٹہ میں واقع بلوچستان یونیورسٹی وہ واحد یونیورسٹی ہے جسے تعلیم کے حصول کے لیے اپنے تئیں ایک اہمیت حاصل ہے مگر اس کے مغرب اور جنوب میں تقریباً 800 کلو میٹر تک بلوچستان کی حدود ہے جس میں کافی شہر اور سینکڑوں آبادیاں آباد ہیں اب اگر 800 کلومیٹر دور سے کسی کے دل میں پڑھنے کی چاہ پیدا ہوجائے تو پہلے وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر ایک لمبا سفر طے کرے اور وہاں ہاسٹل وغیروں میں رہ کر ڈبل خرچے کی بنیاد پر تعلیم حاصل کرے جو ہر ایک کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے دوسرے مختلف شہروں کی یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے طالب علموں کے لئے چند سیٹیں کوٹے کے طور پر رکھ دی گئی ہیں جو بلوچستان کے طالب علموں کے کافی نہیں ہیں ۔بلوچستان کے عوام کے تشنہ علم کو بجھانے کی غرض سے نتائجی نکتہ کے تحت دو باتیں سامنے آتی ہیں :اول بلوچستان میں یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھائی جائے جو شاہد ایک قابلِ قدر اور متقضٰی عمل ہے جبکہ دوئم عمل ،بلوچستان کے طالب علموں کو دیگر جامعات میں اور زیادہ نشستیں دینی ہیں ۔

شہزاد ابراہیم۔جامعہ کراچی

Spread the love

Check Also

صنوبر الطاف

ایڈیٹر ڈاکٹر شاہ محمد مری!!۔ میں بطور شاعراور افسانہ نگار پچھلے پانچ چھ سال سے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *