Home » حال حوال » دو مارچ بلوچ کلچر ڈے ۔۔۔ جی ،آر، شاری

دو مارچ بلوچ کلچر ڈے ۔۔۔ جی ،آر، شاری

دو مارچ بلوچ کلچر ڈے کے حوالے سے ایک پُروقار تقریب ایف۔جے۔فیضی کے زیرِصدارت منعقد ہوا پہلے سیشن میں حاجی خواستی خان کے شعری مجموعہ ”بند اِت جمبراں بیگائی“ کی رسمِ رونمائی ، دوسرے سیشن میں کلچر ڈے کے حوالے سے مقرریں نے سیر حاصل گفتگو کی۔ جب کہ آخر میں مشاعرہ ہوا جس میں نظامت کے فرائض بلوچی زبان کے نامور شاعر توقیر زرم´بش نے سر انجام دی۔ بلوچ کلچر ڈے کے حوالے سے جن حضرات نے اظہارِخیال کیا ان میں صدرِ مجلس اور مہمانِ خاص کے علاوہ نامور شاعر احمد مہر، سینئر صحافی جلیل ریکی ، شمیم شاجی، امانت حسرت، کے علاوہ کئی دوسرے لوگ شامل تھے۔حاجی غلام حیدر مینگل نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہر حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔بلوچوں کی تاریخ بھی زینہ بہ زینہ شعراءکی کوششوں اور کاوشوں سے ہم تک پہنچی ہے۔ اور بلوچ کلچر کی اصل حقیقت اورروح کو زندہ رکھنے کے لیے شعراءو ادباءنے ہمیشہ اس طرح کے پروگراموں کے زریعے لوگوں میں شعور اُجاگر کیا ہے۔ ایف۔جے۔فیضی نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہاکہ بلوچ کلچر ہمیں پیار ، محبت اور یگانگت کا درس دیتی ہیں۔ اِس دن کو ہم محض پگڑی اور سواس تک محدود نہ رکھیں بلکہ عملی طور پر بلوچ رسم و رواج کو اپناتے ہوئے اپنی قوم کو مہر و محبت اور انسانیت دوستی کے جذبوںسرشار کرنا چائیے۔سینئر صحافی جلیل ریکی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ کلچر یا رسم و رواج کسی بھی قوم کے بنیادی لوازمات میں سے ہیں۔ ان ِ کے بغیر قوموں کی شناخت اور قومیت کی وجود کو برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ احمد مہر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ دو مارچ بلوچ قوم کے لیے اتحاد و یکجہتی کا دن ہے۔ بلوچ رسم و رواج کی تقدس اور تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہمیں آپس کے اختلافات کو بھُلا کراِس دن کو شاندار طریقے سے قومی یکجہتی کے ساتھ منانا چایئے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ قوم کی پسماندگی اور انتشار کی بنیادی وجہ اپنی کلچر کی اہمیت سے ناواقفیت ہے۔ جب تک بلوچ قوم اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ نہیں کرینگے، مستقبل کے چیلنجز کا سامنا کرنا ممکن نہیں۔شاہ جی فقیر شاہ نے کہا کہ کلچر کسی بھی قوم کے وجود اور بقاہ کے بنیادی عنصر ہے جس سے قوموں کی اُمنگوں اور جذبوں کو جانچنے اور پرکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اِس لیے زندہ قومیں اپنی کلچر کے لیے جدوجہد بھی کرتے ہیں۔ اور اس کی فروغ اور ترقی کے لیے ہر طرح کی قربانیاں بھی دیتی ہیں۔اور اس کی قدر و منزلت کی احساس کو تازہ رکھنے کے لیے اس طرح کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔داد شاہ داد نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیتِ قوم ہمیں دنیا میں اپنی صدیوں پُرانی تاریخ اورثقافت کو زندہ رکھنا ہے تو ہمیں نژادِنو کے ذہن و قلب میں اپنی ”دود و ربیدگ“ کی اصل روح کو اُجاگر کرنا انتہائی ناگزیر ہے۔جن قوموں نے اپنی تاریخ و ثقافت کو نظرانداز کیا ، آج اُن کا نام محض تاریخ کی کتابوں میں ایک زوال پذیر قوم کی حیثیت سے موجود ہے۔بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور زندہ قومیں ہمیشہ اپنی زبان و کلچر کی تحفّظ اور بقاہ کو زندہ رکھتے ہیں۔تقریب کے آخر میں ایک مشاہرہ ہوا جس میں محبوب شاہ محبوب، ممتاز ارمان۔ غنی حسرت، غیاث شاہ سمیر، داد شاہ داد، اسلم شاہ، جنید ناز، توقیر زرم´بش، قیوم سادگ، شاہ جی فقیر شاہ، احمد مہر، زبیر شاد، ایف۔جے۔فیضی ،اور محمود دشتی نے اپنا کلام پیش کیا۔ یہ تقریب شام گئے تک جاری رہنے کے بعد خوشگوار یادیں چھوڑ کر اختتام پذیر ہوا۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *