Home » شیرانی رلی (page 19)

شیرانی رلی

July, 2020

  • 6 July

    جوتے ۔۔۔ غزالہ محسن رضوی

    زندگی نام کی فاحشہ کے منہ کو خون لگا ہے یہ بھینٹ چاہتی ہے ایک کنواری کنہیا کی بھینٹ یہ ہی تو صدیوں کی رِیت ہے قحط پڑا ہے اناج کے دیوتا کی آنکھیں لال ہیں بارش کا دیوتا روٹھ گیا ہے باڑھ نے تباہی پھیلائی ہے دریا اُتر نہیں رہا ہے سورج دیوتا قہر ڈھا رہا ہے سارے دیوتا ...

  • 4 July

    دم گھٹتا ہے ۔۔۔  فاطمہ حسن

    ہتھکڑیوں اور طوق سے بڑھ کر بھاری بوجھ گھونٹ رہا ہے دم میرا ماں سانسیں میری روک رہا ہے دم گھٹتا ہے ماں آہ یہ گھٹنا کیوں نہیں ہٹتا صدیوں کے ہر ظلم سے بھاری اس کا گھٹنا میری سانسیں روک رہا ہے آہ مجھے یہ مار رہا ہے ماں میرا دم گھونٹ رہا ہے مرتے مرتے چیخ میری تم ...

  • 4 July

    راز ازل ۔۔۔ سیمیں درانی

    کوئی نہ جانے راز ازل کا کہ، دل جب ماتم کرتا ہے وہ  خوشی کا لبادہ اوڑھے ہنسی کی جھنکارکی چلمن پیچھے بال پھیلائے مانگ میں چاہ کی راکھ سجائے دن رات، آہ و زاری کرتا ہے اس کے بین سن سن گھائل روح کلبلاتی پھرتی ہے پھر  وہ گھائل روح خاموشی سے، آنکھوں کے دریا پہ اپنی پھونک  سے ...

  • 4 July

    بھولنے  تو نہیں دیں گے دنیا کو ہم ۔۔۔  رخسانہ صبا

    یاد ہے یا د ہے ایک اک مرحلہ یاد ہے بیس لوگوں کا وہ قافلہ ایک تاریک گھاٹی میں داخل ہوا اور پھر جیسے زنداں کا در کھُل گیا بھولنے تو نہیں دیں گے دنیا کو ہم ناتواں ہڈیاں کھاد بنتی رہیں اور کپاس کے کھیت میں دور تک بس غلامی کی فصلیں ہی اگتی رہیں بادباں کرب سے پھڑ ...

  • 4 July

    نظم ۔۔۔۔ سیپیوں کو نہیں چْنناہاں ۔۔۔۔ رمشا فرحان

    میں نے نہیں چاہا کے یہ ہاتھ مٹی کو چھونے سے ڈریں باہر جانے سے رکیں ہاتھ ملا نے سے رکیں گلے لگانے سے ڈریں میں نے نہیں چاہا کہ یہ ڈر کے جئیں یہ جان کے جئیں کہ باہر جانے سے ڈرنا ہے کہ باہر تو جان لیوا وائرس ہے یہ کہنا نہیں چاہا تھا کہ سیپیوں سے موتی ...

  • 4 July

    The Free Eve — Maryam Majeed Dar

    اس نے کہا یہ جام دیکھ مئے ارغوان سے بھرا ہوا یہ جام دیکھ یہ شام دیکھ! چمپئی کھلی کھلی موتیے کے ہار میں چاندنی گندھی ہوئی اور چاندنی بھی اس طرح گندھی ہوئی کہ بام پر ندی کوئی چڑھی ہوئی!۔ ندی بھی گویا حلب کی مٹھاس میں رچی ہوئی کہ جیسے تیرے ہونٹ کی کلی کلی عرق سے لدی ...

  • 4 July

    مگر ایک ساعت ۔۔۔۔  نسیم سید

    کوئی ایک جملہ کوئی ایک لمحہ کوئی ایک ساعت مٹا کے دوبارہ سے لکھ دے ہمیں کہاں ایسا ہوتا ہے۔۔ لیکن ہوا بہت کم سخن ایک ساعت مخاطب تھی ” تم ایسی دیوارِ گریہ ہو جو سارے دکھ سوک لے خود پہ بیتے ہوئے وقت کی سب تہوں ساری پرتوں کی گھمبیر خاموش شکنوں کو اذنِ سخن دوں تردد، تذبذب ...

  • 4 July

    بہار قرنطینہ میں ہے ۔۔۔ ماہ جبیں آصف

    زرد رتوں.بیمار فضاؤں سے کہدو, ابھی خوشبو کو گلاب رنگوں  کو خواب رگوں میں جمے سیال کو لہو  لکھنا,ہے. بے کیف و ساکت منظرکو خوش خصال لکھنا,ہے ان چڑیوں کو لوٹنے دو فضا کے  حبس میں جو محصور ہیں زرد رتوں کو سرخ گلال لکھنا ہے اس کرلاتی خاموشی سے بہتے سر نکلنے دو سناٹوں  کو شور تنہائی کو جشن ...

  • 4 July

    رخشندہ نوید

    شہر آباد  کیوں نہیں کرتے تم ہمیں یاد کیوں نہیں کرتے   درد محسوس کیوں نہیں ہوتا کوئی فریاد کیوں نہیں کرتے   ٹوٹ کر آسمان سے تارے پوری میعاد کیوں نہیں کرتے   عشق پھرسے زمین بوس ہوا گہری بنیاد کیوں نہیں کرتے   ڈھونڈنامت سکون دل بیکار پنچھی آزاد کیوں نہیں کرتے   ایسی ہوتی ہے انتقام کی ...

June, 2020

  • 13 June

    غزل ۔۔۔ ڈاکٹر منیر رئیسانی

    شہر نو اطوار تیری خامشی بھی ہاؤ ہو خواہشوں کا رقص جاری،لمحہ لمحہ چار سو   اک مسلسل جنگ ہے جو لڑ رہے ہیں خاکزاد لفظ لفظ اور گیت گیت اور، دور دور اور دوبدو   جو بھی سوچا اور چاہا اس کو کرتی ہے بیاں چشم ولب کی خامشی اور چشم ولب کی گفتگو   جسم کا ہر ایک ...