شاعری

غزل

بدن کے زنگ کو پوروں کا مَس ضروری تھا حنا کی پیاس تھی ہاتھوں کو، پس ضروری تھا اب آ کے سوچتا ہوں میں نحیف ہونے پر یہاں تک آنے کو تگڑا نفس ضروری تھا زمیں کو پینٹ کیا اْس نے سات رنگوں سے خدا کو کتنا بڑا کینوس ضروری ...

مزید پڑھیں »

ڈیہی

پھلانی کیاری باں گڑدیث پذا باری اَولی ہماں یاری باں لہڑاف وہغّا بی مرگانی دِہ ٹولی باں پیغامے دیئغا بی مرگے کہ توارے کاں چمّاں شہ گوارِش بی سیرآف ڈغارے کاں کوہانی نذارغ باں تئی یاد جُڑی بنداں گوں گوئشتنا گوارغ باں بورانی سواری باں ناں سمّل چَہٛوائی ناں مست ...

مزید پڑھیں »

سچ

سچ بڑا مجرم ہے زنجیروں میں جکڑا گیا ہے روزِ ازل سے پکڑا گیا ہے پکڑ جکڑ کر مارا گیا ہے جھونکا گیا ہے جلتے تیل کڑھائی میں چوٹی پر سے پھینکا گیا ہے کولھو میں مسلا گیا ہے ہاں پر پھر بھی اس کی ریِت رہی وہی ابھاگی جس ...

مزید پڑھیں »

بہار قرنطینہ میں ہے

زرد رتوں.بیمار فضاؤں سے کہدو, ابھی خوشبو کو گلاب رنگوں کو خواب رگوں میں جمے سیال کو لہو لکھنا,ہے. بے کیف و ساکت منظرکو خوش خصال لکھنا,ہے ان چڑیوں کو لوٹنے دو فضا کے حبس میں جو محصور ہیں زرد رتوں کو سرخ گلال لکھنا ہے اس کرلاتی خاموشی سے ...

مزید پڑھیں »

غزل

کاغذی گلابوں کی شاعرانہ محفل ہوں درد ہوں محبت کا عاشقانہ محفل ہوں تو فلک کا تارا اور میں ہوں ریت صحرا کی اس زمیں سے امبر تک غائبانہ محفل ہوں کوئی مجھ کو بھی دیکھے میں بھی ہوں انوکھی سی دھیمے دھیمے لہجے میں وحشیانہ محفل ہوں شور سن ...

مزید پڑھیں »

Eternity

کئی ہزار برس بعد کوئی خاک اگر کسی کی خاک سے آکر کسی نگر میں ملے سبھی حلاوتیں سب تلخیاں سبھی آزار محبتوں سے رچے دن عداوتوں کے شرار وہ چند ساعتیں قربت کی عمر بھر کا فراق جو زندگی میں سمیٹے تھے وہ سبھی اوراق کہ جن پہ پھر ...

مزید پڑھیں »

مگر ایک ساعت

کوئی ایک جملہ کوئی ایک لمحہ کوئی ایک ساعت مٹا کے دوبارہ سے لکھ دے ہمیں کہاں ایسا ہوتا ہے۔۔ لیکن ہوا بہت کم سخن ایک ساعت مخاطب تھی ” تم ایسی دیوارِ گریہ ہو جو سارے دکھ سوک لے خود پہ بیتے ہوئے وقت کی سب تہوں ساری پرتوں ...

مزید پڑھیں »

The Free Eve

اس نے کہا یہ جام دیکھ مئے ارغوان سے بھرا ہوا یہ جام دیکھ یہ شام دیکھ! چمپئی کھلی کھلی موتیے کے ہار میں چاندنی گندھی ہوئی اور چاندنی بھی اس طرح گندھی ہوئی کہ بام پر ندی کوئی چڑھی ہوئی!۔ ندی بھی گویا حلب کی مٹھاس میں رچی ہوئی ...

مزید پڑھیں »

ن سیپیوں کو نہیں چْنناہاں

میں نے نہیں چاہا کے یہ ہاتھ مٹی کو چھونے سے ڈریں باہر جانے سے رکیں ہاتھ ملا نے سے رکیں گلے لگانے سے ڈریں میں نے نہیں چاہا کہ یہ ڈر کے جئیں یہ جان کے جئیں کہ باہر جانے سے ڈرنا ہے کہ باہر تو جان لیوا وائرس ...

مزید پڑھیں »

بھولنے تو نہیں دیں گے دنیا کو ہم

یاد ہے یا د ہے ایک اک مرحلہ یاد ہے بیس لوگوں کا وہ قافلہ ایک تاریک گھاٹی میں داخل ہوا اور پھر جیسے زنداں کا در کھُل گیا بھولنے تو نہیں دیں گے دنیا کو ہم ناتواں ہڈیاں کھاد بنتی رہیں اور کپاس کے کھیت میں دور تک بس ...

مزید پڑھیں »