مصنف کی تحاریر : عطاء شاد

سرِ گنگ زارِ ہوس

  دل کہ پندارِ عرضِ طلب کے عوض، رہنِ آزار تھا ، تم نے پوچھا؟ جب سرِگنگ زارِ ہوس، حرفِ جاں بار تھا ، تم کہاں تھے؟ سنگ و آہن کے آشوب میں، ہم سپرزادگاں خودپنہ تھے تو تڑپانہ کوئی صدا آشنا اپنے احساس کے کوہ قلعوں میں عمر آزما ...

مزید پڑھیں »

شئیر

کو٘ہانی سرئے چِرکی٘ں راہ ڈی٘رانی گوئرئے لَہڑئے چَر شی٘فانی تہئے چُر و چانک زرخی٘زیں ڈغار گوئرٹی٘ڑھ ئے سیاہ آف وَہندائیں جو٘آنی ہینژاف دیر سری٘ں کھؤرانی آفبندی٘ں جُڑئے جُڑساھگ گرند و چیلک و شَنز و گوار ھؤراں شہ پھذی پُور و ہار پُرّی٘ں کِیلغ و سی٘ریں بند زررنگی٘ں کِشار گندیم ئے ...

مزید پڑھیں »

وے کیہڑا ایں

"وے کیہڑا ایں” — نسرین انجم بھٹی— وے کیہڑا ایں میرِیاں آندراں نال منحبی اُندا میرا دِل داون آلے پاسے رکھیں تے اکھاں سرہانے بنّے میں سرہانے تے پُھل کڑھنے نیں دھرتی دی دھون نیویں ہووے تے اوہدے تے اسمان نہیں چکا دَئیدا بابا کوئی کِیڑا کڈھ کُرونڈیا ہودے تاں ...

مزید پڑھیں »

مست تئوکلی

  تئوکلی مست !۔ سمو کی خواب آلود آنکھوں سے گری تھی جو تجلی تیرے سینے پر اگر وہ طور پر گرتی تو جل کر راکھ ہوجاتا وہ کیسا حسن آفاقی تھا جس تمثیل کی خاطر نجانے کیسے کیسے حسنِ فطرت کے فسوں انگیز نقشے کھینچتا تُو تری رمز آشنا ...

مزید پڑھیں »

سیل زماں کی ضرب

  احمدو ترکھان کی دوکان سے کچھ دور ٹیڑھے موڑ پر اک پرانے پیڑ کے کچھ ٹمٹماتے سائے میں پیرہ خیر احمد کے بُجھتے قہقہے اور قہقہوں کے درمیاں آنسوؤں کے زہر سے لکھی گئی اِک داستان اِک داستاں، در داستاں، در داستاں داستاں کی اصطلاح جو کہ شوگر کوٹ ...

مزید پڑھیں »

بیجل کے انتظار میں

    کوئی دن اور سب دیکھ لیں گے کیسے آبادیاں جاگتی ہیں نرتکی ، راج منڈپ ، پروھت سر پھری دیویاں جاگتی ہیں سوہنی ، ماروی ، نوری، سورٹھ سر کی شہزادیاں جاگتی ہیں تھر کی ریت اور منچھر کا پانی اجرکیں ، رلیاں جاگتی ہیں جرم ان کا ...

مزید پڑھیں »

جنم  دن کا بوجھا

    خلاوں تک پھیلے ہوئے خواب کا بوجھ ہے مٹی سے قبریں بنائی جائیں یا تختیاں لیپی جائیں نام تو تمہارا ہی گودا جائے گا خالی تکیوں پر پڑی خاموش سلوٹیں اور وقت کی جلد پر پڑی خراشیں میری شناخت کو دفن کرنے ٓا ئی  ہیں کمال تو یہ ...

مزید پڑھیں »

جنم  دن کا بوجھ

  خلاوں تک پھیلے ہوئے خواب کا بوجھ ہے مٹی سے قبریں بنائی جائیں یا تختیاں لیپی جائیں نام تو تمہارا ہی گودا جائے گا خالی تکیوں پر پڑی خاموش سلوٹیں اور وقت کی جلد پر پڑی خراشیں میری شناخت کو دفن کرنے ٓا ئی  ہیں کمال تو یہ ہے ...

مزید پڑھیں »

نظم

  تمنا کی وسعت کی کس کو خبر ہے محبت اور اس کی سبھی نرم شاخیں گزشتہ صدی سے بدن کی رگوں میں نمو پارہی ہیں تمنا کی ترشی زباں سے حلق تک گھلی جارہی ہے نظر اور حدِ نظر تک نظارے کہیں بہتے جھرنے، کہیں ابر پارے تیرے نام ...

مزید پڑھیں »

غزل

  لہو سے میں نے سینچی ہے جو سوچی بھی نہیں تو نے جو دنیا میں نے دیکھی ہے وہ دیکھی ہی نہیں تو نے دکھائی دینے لگتے ہیں وہ منظر جو نہیں منظر فلک کی نیلی چادر کیا کبھی کھینچی نہیں تو نے بہت اوپر سے مجھ کو دیکھتا ...

مزید پڑھیں »