ایک تھا
پریمو کولہی
جس کے ہاتھہ تھے
مٹی سے لٹے ہوئے
بھرے ہوئے ۔۔
دوسرا تھا ہجوم عاشقان
جن کے ہاتھہ خون میں لت پت تھے
پریمو کولھی
مقتول کی نعش کو لیئے
بھاگتا رہا
بپھرے ہجوم سے بچانے کے لیئے،
ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان تک
ایک گائوں سے دوسرے گائوں تک
پر وہ لاش بچا نہ سکا
اور وہ آخری پل
جب ہجوم کے خوف سے
مقتول کا کلمہ گو بھائی بھی
مقتول ک
عشاقان دین کے حوالے کر کے
جان بچا کر نکلاق۔۔۔
پریمو نے مقتول کو تھامے رکھا
پریمو کولہی کلمہ گو نہیں تھا
اس لیئے مالک کی لاش کو جلتے دیکھا
راکھہ ہوتے دیکھا
اور جب
عشاقان کے ایمان کی آگ ٹھنڈی ہوئی تو
پریمو کولہی جو کلمہ گو نہیں تھا
اس نے اپنے ہاتھوں سے قبر کھودی
اور مالک کی
آدھی جلی
آدھی راکھہ دفن کردی۔
اس لیئے اس اکیلے کے ہاتھہ
مٹی میں بھرے ہوئے تھے
باقی سارے خون میں لت پت تھے۔
(پریمو کولہی: ڈاکٹر شاھنواز کا ہندو ڈرائیور)