ایک طویل عمر پانے والے شخص کے بطور محمد امین کھوسہ کی شخصیت پہلودار رہی ہے۔ اور چونکہ وہ بہت متحرک اور پارہ صفت شخص تھا، اس لیے اس کی زندگی کا ہر پہلو بھر پور رہا ہے۔ وہ رج کے ملّا رہا۔ وہ ایک بے مثال سامراج دشمن تھا، اور کمال وطن پرست تھا۔ انگریز سے آزادی کے بعد وہ ایک وسیع حلقہِ احباب رکھنے کے سبب عوامی تحریک کے بیچ نفاق اور بے خیری کے خلاف ایک صلح جُو اور مصالحت کار کے بطور ہمہ وقت رواں اور متحرکانداز میں موجود رہا۔
مگر ہم یہاں ایک مفکر کے بطور اس کے خیالات پیش کرنا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ اُس شخص کے بنیادی نظریات سے متعلق معلومات دیے جائیں۔
اُس کا یہ مضمون ہفت روزہ ”البلوچ“ کراچی کے 16جولائی 1933کے شمارے میں چھپا ہے۔
میں ایک ایسے شخص کی حیثیت میں جو ”درون خانہ“ سے بالکل اچھی طرح آشنا ہے، اور پھر ”برون در“ سے نہیں۔”درون خانہ کے قلندر انہ سخن کہنے سے ایسے پہلو تہی نہیں کرتا کہ واقعات اور حقیقت چھپ نہیں سکتے، وہ کسی راز پوشیدہ کے انکشاف کرنے کے ارادے سے قلم نہیں اُٹھاتا، اسے یقین ہے کہ وہ سرہائے پنہاں جن سے محفل سازی ہوتی ہے مشتہر ہوہی جاتے ہیں یہ سخن ناگفتہ بہ سپر د قلم کر رہا ہوں۔ مجھے کافی احساس ہے کہ میری راست گفتاری یا تلخ گوئی سے ان حضرات کے جذبات کو سخت چوٹ لگے گی، جو تصویر کا ایک رخ دیکھنے کے عادی ہیں، لیکن میں اپنی صفائی میں حضرت اقبال کو آگے بڑھاتا ہوں۔
اگر سخن ہمہ شوریدہ گفتہ ام چہ عجب
کہ ہر کہ گفت زگیسوئے اوپریشان گفت
ان حضرات کی تشفی کیلئے جو میرے موضوع کے اور اس کے تڑپادینے والے عنوان کو دیکھ کر متوقع ہوں گے کہ میں کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑوں گا جس پر کہا جائے کہ میں نے دیا نتداری سے روشنی نہیں ڈالی،عرض کرتا ہوں۔
زبان اگر چہ دلیر ہست ومدعا شیریں
سخن زعشق چہ گویم جزایں کہ نتواں گفت
مجھے ایچ۔ جی ویلز کے اس قول سے کلی اتفاق ہے جس کو انہوں نے وضاحت کے ساتھ اپنی تصنیف ”تاریخ عالم کا خاکہ“ میں بیان کیا ہے کہ ”ان پڑھ جمہوریت“ ایک کھوکھلی سی چیز ہے، کیونکہ وہاں سوچ سمجھ اور تفکر کو کوئی دخل نہیں، جاہل ووٹر سر ہلانے ہاتھ اُٹھانے کے علاوہ امور سلطنت کی باریکیوں سے کہاں واقف ہوسکتا ہے۔ نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ یہی نظام جمہوریت بدل کر مطلق العنان کی صورت اختیار کرتا ہے، اسی طرح سے بلوچستان میں ہوا۔ اس امر سے کسی کو اختلاف نہیں کہ بلوچ قبائلی نظام کی بنا مطلق العنانی پر نہیں تھی، کہ بلوچستان میں اگر جمہوریت کا دور دورہ کبھی ہوا تو وہ محض ”جاہل جمہوریت“ تھی۔ سردار کا اقتدار ویسا ہی تھا جیسے عرب قبائل کے سرگروہوں کا رسول ﷺ کے بعثت سے پہلے۔ یہ نہیں تو ایک حسین عورت پر ہزاروں بلوچوں کی گردنیں کٹنا چہ معنی دارد؟۔۔
مگر ایک اور بات بھی قابل غور ہے کہ یہ سردار بلوچی قبائل کی وفاداری اس حد تک حاصل کر لیتا جس حد تک وہ اسے اپنے خیال کے مطابق سمجھتے یا اس کو سرداری سے تب تک نہ ہٹاتے جب تک اس میں اس کے چلانے کی اہلیت وصلاحیت رہتی!۔آہستہ آہستہ یہ جراثیم ِجمہوریت مفقود ہوتے گئے، حتی کہ نوبت بہ اینجارسید کہ کہیں کہیں وقتی ڈاکہ زنی، بغاوت،سر کشی اور سردار کے خلاف جوش میں آن کر ڈنڈے کو جنبش میں لانا ”باقیات صالحون“ سمجھے جانے لگے۔ اب یہ آخرین یادگارِ جمہوریت بھی شہریت کی نذر ہورہی ہے!۔
خیر یہ دور ایساتھا کہ سردار قوم کے حقیقی روح رواں کی حیثیت میں جلوہ افروز ہوا۔ پہلے قوم جو کچھ کرتی تھی اس کو دائرہ عمل میں لانا ہوتا، لیکن اب وہی تجاویز وغیرہ کا مصدر ہوا اور قوم ان ”احکام“کی تکمیل کیلئے آلہ کار بنی۔ سردار کے حکم کی خلاف ورزی نہایت مذموم سمجھی جانے لگی۔یہ اس لیے کہ سردار کی شخصیت ”میں کچھ تقدس“ کی آ میختگی بھی روا رکھی گئی۔یہاں سے ابتدا ہوتی ہے اُن خرابیوں کی جو موجودہ بلوچ سوسائٹی (یہ لفظ میں اس کے وسیع معنی میں استعمال کر رہاہوں کہ ہر وہ قوم جو بلوچستان میں بستی ہے بلوچ ہے) کی جڑوں کو کھارہی ہیں۔ سرداروں میں شاذونا در علم دوست ہوتے یا واقعی پڑھے لکھے ہوتے، اس لیے اس کی طرف توجہ مبذول کرنا بے سود سمجھا گیا۔کچھ تو مخصوص حالات اور کچھ ان سرداروں کی عدم توجہی نے جہالت کوجائز قرار دیا۔ جو چیز سرگروہ کی پسندیدگیِ خاطر پر گراں گزرے اس کو فروغ کس طرح دیا جاتا ہے۔
چو کفراز کعبہ برخیزدکجاماند مسلمانی؟
بلوچستان میں جہالت کی تاریکی کو قائم رکھنے اور علم کی روشنی کو روکنے میں ایک زبردست پردہ ان سرگروہوں کی جہالت یا ان کی علم سے غیر توجہی ہے!۔وہی سردار جس کو زمانہ نے کچھ سکھلایا ہے اور جو شان ”لولاک“ کے حقیقی وارث اپنے آپ کو نہیں سمجھتے، جو قوم سے حاصل کیے ہوئے پیسے کا جائز ترین مصرف مخصوص مہمان نوازی کا مظاہرہ(نقد نذرانہ پیش کرنے کی صورت میں) کو نہیں سمجھتے، قوم کے بچوں کی تعلیم کیلئے پیسہ صرف کرنے میں دلیری سے کام لینے پر آمادگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ تو ان بلوچستان کے آدمیوں کے متعلق تھا جو ہندوستان کے ریاستوں کی طرح اپنے حکمرانوں کے زیر نگرانی میں تھے۔ باقی بلوچستان کے ان اضلاع مثلاً سبی وغیرہ نے تعلیم حاصل کرنے میں کیوں کوتاہی کی اس کے اسباب اظہر من الشمس ہیں۔ اولین سبب تو یہ کہ سکول ایسے مقامات پر تھے وہاں تک گردونواح کے لوگوں کو اپنے بچوں کو بھیجنا ذرا مشکل نظر آیا۔ سب سے زبردست رکاوٹ تو وہی تھی جو سارے ہندوستان میں اپنا اثر یکساں رکھتی تھی، مسلمانانِ ہند نے سیاسی وجوہات کی بنا پر انگریزوں کے تمام مدارس کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا اور اپنے قطع تعلق کو فرض سمجھا۔
خیال کیجیے غدرد ہلی کا نزلہ سارے کا سارا مسلمانوں پر ہی پڑا۔ گویا انہی ہاتھوں سے ان کی ”عزت و عظمت کا چراغ گل ہوا اور ان کے ہی کھولے ہوئے مدارس میں مسلمان بچے تعلیم پائیں! ناممکن!!۔ آپ نے دیکھا جہاں جہاں انگریزی مدارس کھلے ان کی شدید مخالفت کی گئی۔ اولین جذبہ جوان سکولوں کے جانے سے مانع تھا، وہ مقدس جذبہ غیرت وخود داری تھا۔ غیور مسلمان علماء نے بے سروسامانی کی کچھ پرواہ نہیں کی، بلا خوف ترددان مدرسوں پر پڑھنے والوں کو روکنا شروع کردیا۔ اور پھر توبعض حالات کو دیکھتے کفر کی فتوائیں بھی دے دیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ان میں سب کے سب سچے تھے۔لیکن اکثریت ان کی تھی جو انگریزی پڑھنے کو سچے دل سے گناہ سمجھتے تھے۔ کیسی غلط اور گمراہ کن تشریح ہے یہ اس جذبہ خود داری کی کہ مسلمان پڑھے اس لیے نہیں کہ ان کا مذہب ان کو دوسری زبان سیکھنے سے روکتا ہے۔ یا یہ کہ علمائے دین نے زبان انگریزی کی مخالفت کی۔ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ جن لوگوں نے انگریزی تعلیم کی مخالفت شروع میں کی ان میں 95فیصد آزادی وحریت کے دلدادہ تھے۔ خود سرسید کی ذات ان چیزوں سے پاک نہ تھی جس سے اس وقت کے قطع تعلقاتی ملا مبر ا تھے۔ کم از کم سرسید کی سیاسی زندگی ان آلا ئشوں سے محفوظ نہیں کہی جاسکتی جس آواز کی گونج دوران تحریک عدم تعاون ہندوستان کے گوشہ گوشہ کو نہ کونہ تک پہنچی کہ کالجوں کو چھوڑ دو۔ گاندھی آشرم میں جاؤ۔ جامع ملیہ میں پڑھو وغیرہ۔ وہ اس صدا ئے احتجاج کی باز گشت تھی جو دل میں ایمان کی تڑپ رکھنے والے ملاؤں نے غدر 1857میں بلند کی تھی۔ کاش!
کم نظربے تابیِ جانم ندید
آشکارم دیدو پنہا نم ندید
کوئی یہ اعتراض کرے کہ جو چیز متعصب ملا نے مذہبی رنگ دے کر مکروہ قرار دی۔ میرے پاس کیا دلیل ہے کہ میں اسے سیاسی ہنگامہ خیزی سے تعبیر کرتا ہوں۔ اس اعتراض کا جواب خود اس وقت کے مسلمانوں کی حالت ہے۔ ہندوستان کے مسلمان نہیں بلکہ دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی پیشو ااور سیاسی رہبر یہی علمائے دین تھے۔ سیاست اور مذہب کو مسلمانوں نے کبھی علیحدہ (بجز تر کی کے) دکھانے کی کوشش نہیں کی۔ چنانچہ بیسویں صدی میں جو انقلاب ایک مسلم ملک میں ہوتا ہے اس بات پر شاہد ہے کہ مذہبی پیشواؤں کا اخراج مسلمانوں کے دلوں میں کہاں تک ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے یا بری۔ ایک ملک کی بہتری کیلئے سیاست کو اور مذہب کو علیحدہ کرنا چاہیے یا نہیں اس سے میری بحث نہیں۔ بہر صورت یہ حقیقت ہے کہ غدردہلی کے بعد مسلمانوں کے ایک جلیل القدر باخبر پڑھے لکھے گروہ نے ”نوکریوں“ کی کچھ پرواہ کی نہ انگریز کے سامنے جبیں سائی کرنے کا اس نے موقع ڈھونڈھا نہ وہ انگریزی تعلیم کی مخالفت سے رکے۔ یہاں پر اس بات کا اظہار بہت دلچسپ ہوگا کہ لارڈ میکالے نے آگے چل کر مشرقی علوم وفنون کا وہ مضحکہ اڑایا۔ جس کو کوئی غیورآدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ کاش کہ قطع تعلقاتی جذبات عملی صورت پکڑنہ سکے۔ کیونکہ ہندو حضرات جنہوں نے بنگال، میسور، وغیرہ وغیرہ فتح کرنے میں اپنے سفید آقاؤں کی امداد کی تھی۔ وہ انگریزی تعلیم پر ایسے جھکے کہ بچارے مسلمان کی غیرت وغیرہ دھری رہ گئی۔جب اس نے آنکھیں کھولیں تو انگریز کے بجا ئے ”مہاشہ جی“ اس پر حکومت کر رہا تھا۔ یہاں پر ہم سر سید کے مرہون منت ہیں کہ اس نے اپنے پڑو سیوں کی ذہنیت کا خوب اندازہ کیا ہوا تھا۔ سر سید نہ ہوتے تو معلوم نہیں مسلمان بیچارہ کی کیا حالت ہوجاتی۔ سرسید نے نہ صرف مسلمانوں پر احسان کیا۔ بلکہ سارے ملک پر!۔
خیر ہم بلوچستان کی تعلیمی حالت پر غور کر رہے تھے۔ جب ہندوستان میں یہ کچھ ہورہا تھا۔ تو بلوچستان میں کیا توقع ہوسکتی ہے۔ جاہل سردار آدھے لکھے پڑھے سردار کے ماننے والے جاہل ہی اچھے!
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
جیسے ہندوستان میں ”بابو لوگ“ گھڑ نے کی ضرورت سرکار کو پیش آئی وہ بلوچستان میں نہ تھا۔ پنجاب میں بھی شروع میں یہی ہوا کہ بنگالی بابو بھرتی ہوئے لیکن بہت جلد پنجابی صاحب تیار ہوگئے۔
بلوچستان میں شروع میں ہی لالہ جی صاحبان کچھ کم نہ تھے۔ لہذا سرکار کو دماغ سوزی کی ضرورت کیا تھی”ستڑے مہ سے، اور، داڑے برک“ کو پڑھانے تک ٹہیرجاتے۔ ایک لالہ جی دوسرے لالہ جی کو لایا۔ ایک سردار جی دوسرے سردار جی کا رہبر بنا۔ ایک بابو جی دوسرے کا پشت بنا۔ یہاں تک کہ بلوچستانیوں کے حق میں وہ مصرع ٹھیک اترتا ہے کہ۔
طاقت مہمان نداشت خانہِ مہماں گذاشت
باہر سے آنے والے حضرات کے خواب میں بھی یہ خیال نہیں گزرا ہوگا کہ کوئی دن ایسا آئے گا کہ جہالت اور ذلالت کو ”میں بلوچ ہوں“ کے لباس میں چھپانے والا بلوچستانی داڑھی مونچھ چٹ ہیٹ ونکٹا ئی پہن کر ”سرکاری ملازمتیں ہمارا حق ہے“ کا نعرا بلند کرے گا۔ ان بچاروں نے گھونسلوں یا قصر نما ”جھونپڑیوں“ کی بنا ڈال دی۔ اب کوئٹہ میں پوتوں نواسوں، اور کاٹیجوں cottageکو دیکھ دیکھ کر ہر بلوچستانی کے دل جیسے ہر محکمہ دست بابو جی کا محتاج تھا۔ ویسے ہی نظام تعلیم۔ آپ خود خیال کیجئے اس باہر سے آئے ہوئے آدمی کے کندھے پر کونسی ایسی مصیبت آن کر پڑی تھی۔ کہ وہ زیارت کے پہاڑوں میں بسنے والے افغانوں یا دنبے چرانے کے شغل میں رہنے والے مریوں کو تعلیم دلانے پر سارا قیمتی صرف کرتا!
”پڑھیں نہ پڑھیں جائیں کھڈے میں“ اس قسم کا کوئی خیال اس کے دماغ میں چکر لگاتا ہوگا۔ اس طرف بے توجہی کی یہ حالت اور اس جانب بے خودی کا یہ عالم کہ کسی چیز کی پرواہ نہیں۔لیکن آخر یہ زمانہ کب تک چلتا۔وہ وقت بھی آیا کہ بلوچستان کی سنگلاخ اور شوریدہ زمین سے دور ”پڑھے لکھے“ آدمی بھی اگنے لگے۔ لیکن کس ماحول میں کہ پانی ہوار وشنی پر باہر سے آئے بھائیوں کا مکمل قبضہ تھا۔ اب شروع ہوتا سلسلہ تنازع للبقا کا!
ایک بلوچستانی ”ملکی ملکی“ کے سرالاپتا ہے تو چند سال یہ ترنم ریزیاں اس کی قائم رہیں۔ ”غیر ملکی“ کو بھی آخر پیٹ پالنا ہے وہ اس چیخ وپکار کو سنتا کیوں ہے اور نوکریوں کو حتی الوسع اپنے بھوکے پیٹ کے کسی کونہ کو سپر کرنے کیلئے نوالہ کی صورت میں اگلتا جاتا ہے۔ اس لطف ومزا سے کہ بلوچستانی غصہ سے جل کر دانت پیس کر گلا پہاڑ پہاڑ کر چلاتا ہے ”اے بودی والے! اے تسی تسی، مینوں بولی بولنے والے۔ اے میاں سیاں بکنے والے ذرہ نکل بلوچستان سے کہ گھر کا مالک آیا“۔
ہم ان دونوں کو اس حالت میں چھوڑ کر بلوچستان کی تعلیم پراس مقابلہ کے اثرات کو واضح کرتے ہیں۔ یہ تو دہرانے کی بات نہیں کہ مروجہ طریق تعلیم ہندوستان میں لارڈمیکالے نے سوچاتھا تو اسے گاندھی، محمد علی اور جواہر لال نہرو پیداکرنا مقصود نہیں تھا۔اس نے تو کلرک سازمشین کی ایجاد کی تھی۔ اور ہوا بھی ایساہی۔ لوگ جوق درجوق کا لجوں سے نکلتے اور ڈپٹی کلکٹر وغیرہ کی تمنائیں لے کر نکلتے۔تعلیم تعلیم کے غرض تھی ہی نہیں تودی کیسے دی جاتی۔ کالجوں کی ڈگریاں غلامی یانوکریوں کے طوق زریں کے علاوہ اور کس کام کی۔ چنانچہ بلوچستانی جو تعلیم کی طرف پلٹے تو یہ سمجھ کر کہ میٹرک ہونے کے بعد ای۔ ایس۔ سی تو ضرورہی ہوں گے۔ اگر نہیں تو تحصیلدار۔ تحصیلدار نہیں تو نائب وہ نہیں تو پٹواری۔غرض یہ کہ کچھ نہ کچھ اس دردولت کے دربانوں میں ہوکے رہیں گے۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکلا۔ ان کی امیدیں خاک آلودہ ہو گئیں۔ اور ہونی چاہیے تھیں۔ بلوچستان سے باہر آنے والے بجائے خود ایک طبقہ Classہے۔ اسے حق حاصل ہے کہ جیسے آسودہ طبقہ کی خوشی کا انحصار غریب کے رنج والم پر ہے ویسے وہ بھی ملکیوں کو مبتلائے مصیبت رکھ کر پیٹ پالتے رہیں۔ جس طرح امر اطبقہ غرباپر ظلم وتشدد کا اضافہ کرتا رہتا ہے۔ویسے ہی ضروری ہے۔ یہ حضرات ”ملکی ملکی“ رٹ لگانے والوں کی طرف دست عنایت ونوازش دراز کریں۔
بات تو قابل غور یہ ہے کہ نوکریوں سے جہاں جواب ملا وہاں آخر یہ بیکاروبے روزگار ٹیکنائی میں سرشارسوٹ بار صاحب نماآدمی کیا کریگا۔
یہی حال نوکریوں کا یہی حال رہا تو چچا غالبؔ صاحب کے سوال کا جواب دینا پڑے گا۔
تمہیں کہو کہ گذارہ صنم پرستوں کا
بتوں کی ہوا گرایسی ہی خوتو کیونکر ہو
لامحالہ بے چینی ملک میں پھیلانے کے اسباب میں ایک اور کااضافہ ہوجائیگا۔کبھی سیاسیات مشغلہ ہوگا تو کبھی اخلاقیات وفلکیات پر طبع آزمائی ہوگی۔
”نوکریاں بلوچستانیوں کا حق ہیں“۔ یہ ان کے پرانے محسنوں کا اس کا فیصلہ حکام بلوچستان کریں۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ ملکی اور غیر ملکی میں سمجھوتہ ہوجائے ناممکن! بلوچستانی نوجوان کو پہلے کے مانند اندھیرے میں رکھنا کارے دارد۔ جو تحریک ہندوستان کے طول وعرض میں کامیاب یا کامیاب نتائج دکھا چکی اس کے اثرات کو ان چالبازیوں سے روکنا ذرا مشکل نظر آتا ہے۔اگر ہمیں طریق کار اور ہمیں بے روزگاری ہے تو جلد ایک قومی پارٹی کا ظہور ہونے والا ہے“۔
ماہنامہ سنگت کوئٹہ