کسی بھی کہانی کار کی تخلیقات میں اُس کے عصری شعور کو جانچنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی فکر کے پسِ پردہ عوامل اور محرکات کوان کے پس منظر میں پرکھا جائے۔ تخلیق کار مشاہدے اور تجربے کی عمومی صورتحال کو کس طرح سے اور کس کس امکانی حیثیت میں برتتا ہے؟
اس پہلو کو مدِنظر رکھتے ہوئے اگر صلاح الدین حیدر صاحب کی قلم کاری پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ ا نہوں نے اصولوں اور نظریئے کی بقا کے لیے لڑی جانے والی جنگ کے دوران جن کڑوے حقائق کا ڈٹ کر مقابلہ کیا’ اُن کی روشنی میں ایک عام آدمی کی شدید سماجی ناآسودگی سے لے کر اس کے عہد کی سیاسی’ مذہبی’ معاشرتی اور اخلاقی غلطیدگی کو اپنے مخصوص لفظیاتی نظام کے ذریعے ایک خوبصورت فکاہیہ لہجے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ زمانۂ قدیم میں راجوں’ مہاراجوں اور شہنشاہوں کی تفریحِ طبع کے لئے اس قسم کی کہانیوں کی روایت ہوا کرتی تھی جن میں مختلف کرداروں کو جانوروں کی شکل میں پیش کر کے مکالموں اور زبان و بیان کی ڈرامائیت کے ذریعے عنانِ حکومت کے کڑے اور غیر منصفانہ روئیوں کا شگفتہ انداز میں اس طرح سے ذکر کیا جاتا تھا کہ‘‘ حضورِ والا’’کی طبع نازک پر گراں بار بھی نہ گزرے اور اُن کے غیر متوازن اقدامات کی خفیف سے پُر لطف طعن و تشنیع کے ساتھ نشاندہی بھی ہو سکے۔اس طرح کی کہانیوں کو ‘‘ فیبلز’’ کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر جانسن کے مطابق فیبلز ایک ایسا بیانیہ ہے جس میں حیوان یا بے جان اشیاء اخلاقی تلقین کے لیے انسانوں کی طرح بولتے اور چلتے ہیں۔ مثال کے طور پر نثری گل بکاؤلی’ حکیم بید پائے کی انوارِسہیلی (جو سنسکرت سے عربی’ فارسی اور پھر اردو میں ترجمہ ہوئی)’ الف لیلہ’ سعدی اور رومی کی چند حکایات’ بائیبل کے عہد نامۂ جدید کے کچھ حصے وغیرہ۔ اس ضمن میں عربی کی کتابوں میں ابن مقفیٰ کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ اسی طرح فریدالدین عطّار کی منطق الطّے فارسی زبان میں تصوف کے حوالے سے فیبلز ہی کی صورت ہے۔
فیبلز کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہو گا کہ جانوروں کی ایسی کہانیاں مصر کی تہذیب سے رونما ہوئیں اور بعد میں ان کی روایت مغربی ایشیا اور بابل تک پہنچی۔ اس ضمن میں ایسیپؔ کی کہانیاں سب سے زیادہ مشہور ہوئیں۔ سقراطؔ نے بعد میں اُنہیں نظم بھی کیا۔ ایتھنز کے فلسفی فلپرسؔ نے پہلی بار ایسیپؔ کی سو کہانیوں کا مجموعہ مرتب کیا۔ چودھویں صدی کے نصف اول میں قسطنطنیہ کے پادری پلانڈیزؔ نے بھی ان پر خاصا کام کیا۔ یورپ میں سب سے زیادہ مشہور نام ایسیپؔ کے بعد لافون ٹینؔ کے مجموعے کا ہے’ جبکہ سترھویں صدی میں جوناتھن سوفٹؔ(Jonathan Swift) کا ناول ‘‘ گو لیورئس تریولز’’ اسکی بہت بڑی مثال ہے۔ادھر مہابھارت اور ہندو جاتک کہانیاں بھی ان سے بھر ی پڑی ہیں۔کلیلہ و دمنہ کی اصل یعنی پنج تنتر میں خاص طور سے حیوانی حکایات کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ اسی طرح رہت کتھا منجری’ کتھا سرت ساگر’ ہتو پدیش اور شک سپستی کی کہانیاں بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔گویا فیبلز کی روایت خاصی پُرانی ہے اور صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ ماڈرن عہد میں لاطینی امریکہ کے Oraval jorgrاور ارجنٹائن کےDevinac Macroکے ہاں یہ تکنیک بکثرت نظر آتی ہے۔ جدید اردو ادب میں کلی طور پر تو نہیں’ ہاں البتہ جزوی طور پر اُن کی جھلکیاں جابجا نظر آتی ہیں۔ لیکن پہلا باقاعدہ رویۂ اپنے فنی لوازمات کے ساتھ صلاح الدینؔحیدر کے ہاں حکایات یا فیبلز کی صورت میں سامنے آتا ہے۔بنیادی طور پر صلاح الدینؔحیدرکی کہانیوں کا فکری جواز اپنے عہد کے بورڈ آف گورنر کے مقصدی نقطۂ نظر کے تحت ذہنی اصلاح ہے۔کلچرل رویوں’ سیاسی و سماجی ویژن اور اخلاقی منطق کے بھرپور جواز کے تناظر میں علامتوں کے ذریعے پیغام پہنچانے کی سہولت ان کا کلیدی عنصر ہے۔
کہانی اپنی صنفی شناخت سے ہٹ کر موضوعاتی حوالے سے خواہ معاشرتی برائیوں’ سماجی بے راہروی ’ سیاسی بد چلنیوں یا مذہبی منافرت کے پس منظر میں ہو’ اپنے افادی پہلو اور معنوی تاثر کے ابلاغ کے بغیر ممکن نہیں۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کہانی کار نے موضوع کو عصری شعور کے پس منظر میں کس طرح سے برتا ہے؟ اُس کا اظہاریہ معاشرت کی مروّجہ قدروں اور روایتوں کی نفسیاتی گہرائی سے کس طرح سے عہدہ برآ ہوتا ہے؟ اُس کے کردار اپنی معروضی یا استعاراتی حیثیت میں قصّے پن کی مقصدیت کو کس حد تک اجاگر کرتے ہیں؟ ۔بظاہر صلاح الدینؔحیدر کی فیبلز کو عصری شعور کے تناظر میں دیکھنے کے لیے اُن کے عہد اور عہد کے پس منظر میں ان کے مخصوص ردعمل کی سائیکی تک پہنچنا ہو گا۔ یہ وہ عہد تھا جب سوسائٹی کی سطح پر فرد اور اجتماع دونوں کے نزدیک کلچر کا ارتقاء شارٹ کٹ فار پراگریس کے فلسفے پر منتج تھا۔ یہی وہ سوچ تھی جس نے سیاسی’ مذہبی ’معاشرتی اور سیاسی سطح پر کرائم کی ترویج کی اور ظاہر ہے یہ کسی ایک شخص کے انفرادی کرائم کی بات نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے معاشرے کی مجرمانہ ذہنیت کی عکاس تھی۔ آخرت’ جمہوریت’ سیاست’ اقتصادیات’ بہبود اور مذہب کے نام پر پورے معاشرے کی نفسیات گرِوی تھی۔ سب سے اہم بات آئیڈئیے اور نظرئیے کی کرپشن تھی جس نے عدم استحکام کی صورت میں ایک بہت بڑے سوشل پرابلم کو سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ یقینا ً یہ سب کچھ اُس دور کی اعلیٰ ترین منصب پر فائز مطلق العنانی کی بدولت تھا جس نے اپنے سکھ سنگھاسن کو دائم رکھنے کیلئے مذہب کی آڑ میں اس قسم کے سیاسی’ عدالتی اور سماجی نظام کی داغ بیل ڈالی اورجس سے صلاح الدینؔحیدر باغی بھی تھے اور یہی اُن کی فیبلز کا بنیادی حوالہ بھی ہے ۔
اگر صلاح الدینؔ حیدر کی فیبلزکے مرکزی موضوع کی حیثیت اور جواز کو فلسفیانہ پہلو کی رو سے کلچرل زاوئیے میں پرکھیں تو دو مختلف روپ واضح طور پر دو مختلف سطحوں پر نظر آئیں گے۔ ایک طرف تو سیاسی’ مذہبی اور معاشرتی معنویت کے یہ نمونے شدید سماجی ناآسودگی کی مفارقت میں حقیقت کے بھیانک روپ میں سامنے آتے ہیں تو دوسری طرف ایک بھرپور تہذیبی شعور کے ساتھ تخلیقی ارتقاء بین السطور نظرئیے کی ترسیل کا
عکا س بھی ہے۔ کہانیوں میں موجود معاشرہ ایک ایسے جنگل پر محیط ہے جس میں انسانوں کے روپ میں خوفناک درندے بستے ہیں۔ خود غرضی’ درندگی اور طاقت کے مظاہرے کی حیوانی جبلّت سے پھرپور۔اسی پس منظر میں صلاح الدین حیدر کے موضوعات پنپتے ہیں اور اسی ماحول کے قصہ پن میں کڑوے سچ اگلتے نظر آتے ہیں۔مثلاً بظاھر پارسا مگر درحقیقت غاصب سیاسی وڈیروں کے مخصوص نظام کی ریاستی مشینری کو موضوع بناتے ہوئے ان کی کہانیوں ‘‘ شکرا جی بھگت’’ ‘‘خونی کبوتر’’ ‘‘پرندوں کی کہا نی کا ایک باب’’ ‘‘البھیڈو کے کمالات’’ ‘‘درندگی کے عہد میں پاگل مور’’ ‘‘ملزم خرگوش کے بارے جنگل کی خصوصی برانچ کی خفیہ رپورٹ’’ اور‘‘ درندہ جی لگڑ بگڑ اور خرگوش مقابلہ’’ کی آڑ میں ہمیں عوام اور ذی شعور طبقے کی پامالی کی کتھا نظر آتی ہے۔‘‘ کبوتر لقا جی انکوائری رپورٹ ’’ اور‘‘ جسٹس لقا جی’’ میں خود ساختہ کٹھ پتلی عدالتی نظام کی دھونس اور دھاندلی کے حوالے سے نام نہاد کارکردگی کے اس پہلو پرپر روشنی ڈالی گئی ہے جس نے سسٹم سے وابستہ تمام معیاری اصولوں کی چتا جلا ڈالی تھی۔ ‘‘ میاں مٹھو تعلیمی کمیشن کی سفارشات’’ اور ‘‘ برائیلر نصابی قاعدہ’’ میں کارپردازانِ علم و حکمت کی سفاکیوں پر بحث ‘‘ البلونگڑا کے جی دار’’ میں داخلی انتشار پھیلانے والوں کی مخصوص گوریلا جنگوں میں استعماری قوتوں کے کردار اور ‘‘ دنبہ جی کابلی اور پُر اسرار ہاتھ’’ میں فرقہ واریت کا پردہ چاک کرنے کا ہنرجبکہ ‘‘ بدو کے خیمے میں دھڑن تختہ’’ ‘‘ روزنِ قبر سے’’ ‘‘چڑیا کی کہانی’’ ‘‘ مذبح خانے میں خونی انقلاب’’ او ر ‘‘ ایک پرانی کہانی کا باب’’ میں خالص سماجی روئیوں کے بدلتے تیوروں کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔ ‘‘ بزمِ ارکانِ جوہڑ کی روداد’’ اور ‘‘کل قبرستان بین القبور مشاعرہ کی روداد ’ ’ میں مجلسی ادب کے نرگسیت زدہ کردار اور موقع پرست روایت کے پہلو کو مدِ نظر رکھا گیا ہے۔ مگر ان تمام موضوعات کو معاشرت اور سماجیات کے بھرپور استحصالی روئیوں کے تناظر میں کس طرح سے پرکھا گیا ہے’ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ تمام موضوعاتی جہتیں سوسائٹی کے اُس خاص ٹائم فریم سی لی گئی ہیں جس میں اُنہوں نے خود بھی سیاسی مہاجنوں’ مذہبی پنڈتوں اور عملی تضادات سے بھرپور حاشیہ برداروں کی منظم اور کرپٹ سوچ کے خلاف جدوجہد سے پُر زندگی گزاری ہے۔۔۔ نفسیاتی رُخ سے دیکھیں تو ا ِن کہانیوں میں فنی لازمے کے ساتھ ساتھ سوچنے اور سمجھنے کی اوربہت سی باتیں ہیں جو ہمیں ایک پورے عہد کی بدلتی ہوئی سائیکی سے روشناس کراتی ہیں۔ مثلاً چند اقتباس ملاحظہ ہوں:
‘‘ قواعد کے مطابق جنگل کے امورِ زندگی میں مداخلت بے جااور درندگی کی بنیادوں کو نقصان پہنچانے کے الزام میں سیکرٹری امورِ ثقافت جناب بھیڑیا نے اپنے انڈر سیکرٹری کو تھرو پراپر چینل غرّا کر امور کی چارج شیٹ دینے کی ہدایت کی تو مقررہ وقت کے اندر جواب موصول نہ ہونے پرڈیفینس آف درندگی رولز کے تحت امور کو تفتیشی تکا بوٹی کی غرض سے بااختیار نیولوں کی ٹیموں کے سپردکر دیا گیا’’
(حوالہ: درندگی کے عہد میں پاگل مور’ صفحہ ۲۶)
‘‘ گھنے درختوں کی تاریکی میں راستہ بناتے اور کھلے منہ کے ساتھ ہانپتے ہوئے درندہ جی لگڑ بگڑ نے بے شمار شکاری ایلسیشن’ بلڈاگ رفقاء کے ہم رکاب اونچی شاخوں پر اطمینان سے بیٹھے ہوئے بندروں کی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران انکشاف کیا کہ کم وبیش ڈیڑھ دو سوسے زائد اغواء قتل’ دہشت گردی’ ڈاکہ زنی اور لوٹ مار کی وارداتوں میں ملوث ملزم خرگوش المعروف سیڑ درندگی نافذکرنے والے لگڑ بگڑ ٹیم کے ساتھ مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا جبکہ گینگ کے دیگر ارکان بھیڈو ٹکراں والا اور دنبہ چکی والاجو کہ بیشمار وارداتوں میں مطلوب تھے’ فرارہونے میں کامیاب ہو گئے’’
(حوالہ: درندہ جی لگڑ بگڑ اور خرگوش مقابلہ’ صفحہ ۳۷)
‘‘ گینڈوں نے کمزور جانوروں کی دفاعی مورچہ بندی پر مزید اصرار کیاجنہوں نے جنگل کی پارلیمانی کاروائیوں سے اپنے دوستوں کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ چیتے سے براہِ راست ٹکرانے میں ایک وسیع جنگ کا خطرہ موجود تھاچنانچہ محدود جنگ کی حکمتِ عملی کے تحت پسماندہ جانوروں کی امداد کو بدستور جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔جس کے نتیجے میں البلونگڑا کے جی داروں نے اپنے کمانڈر باگڑبلاجی کی قیادت میں چیتے کے نصف دھڑ کو ٹانگوں کی سمت سے فتح کرنے کے لیے حملے کا آغاز کر دیا۔ اس جرات مندانہ حملے کے نتیجے میں کمانڈر باگڑبلا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کی لاش کو گینڈوں کی اکیس ٹکروں کی سلامی کے بعد اُس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔’’
(حوالہ: البلونگڑا کے جی دار’ صفحہ ۴۱)
‘‘ سنا ہے کہ ایک دوسرے درخت پر پہنچ کر بعض کووّں نے نعرے بلند کئے۔ہمارا ہُدہُد واپس کرو۔ شہید ہُدہُد زندہ اباد۔ ہدہد ہمارا زندہ ہے۔جب ہُدہد کی لاش زمین پر آرہی تو کّوے اُس کے اردگرد جمع ہو گئے۔ کچھ دیرسوگ مناتے رہے اور پھر اُس کی لاش میں چونچیں مارنے لگے۔ قریب ہی کچھ فاصلے پر ایک مردہ بھینس پڑی تھی۔پھر سب کی توجہ اُدھر مرکوز ہو گئی۔’’
(حوالہ: پرندوں کی کہانی کا ایک باب’ صفحہ ۴۷)
‘‘ راجہ گدھ نے سفارش کی کہ اس قسم کا نصاب مرتب کرنے کے لئے طوطا جی میاں مٹھو معروف ماہرِ تعلیم کی خدمات حاصل کر لی جائیں۔چنانچہ طوطا جی میاں مٹھو کو طلب کر کے اور اُن کی خدمات کو سراہتے ہوئے کم گو پرندوں کی ایک ٹیم پر مشتمل کمیشن تشکیل کر دیا گیا۔’’
(حوالہ:طوطا جی میاں مٹھؤ تعلیمی کمیشن کی سفارشات’ صفحہ ۱۱)
‘‘ اس دوران اچانک صاحبزادہ بکرا صاحب آف پہاڑو شریف اپنی سیاہ کھال فضیلت سجائے باوقار اور پُر جلال انداز سے چلتے ہوئے تشریف لائے اور شیر ببر کو گلے لگا کر مصافحہ و معانقہ کے مراحل سے گزرتے ہوئے وی آئی پی نشست پر خرگوشوں کے امور کے سیکرٹری عزت مآب بلڈاگ کے پہلو میں تشریف فرما ہوگئے۔ شیرببر کے جذبات واحساسات میں جناب بکرا صاحب کے وقارتمکنت سے ایسی ہلچل تھی کہ اُس نے ان کے پاس جا کر مزاج دریافت کیا اورفروغِ درندگی میں شرافت نفس اور کردار کی پختگی کے ذیل میں مشورے طلب کئے۔’’
(حوالہ: درندگی کے عہد میں پاگل مور’ صفحہ ۲۵)
یہ چند مثالیں ایک پورے نظام کی تنزّلی کا نوحہ ہیں جن کا اظہار ایک مخصوص انداز میں کیا گیا ہے۔ یہ تمام تجربے اپنی اپنی جگہ سہل ضرور ہیں مگر معنوی سطح پر تہ داری کے پہلو کو ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔ بظاھر یہ سب کچھ بہت معمولی اور عام فہم سا لگتا ہے مگر درحقیقت اس تمام منظر نگاری کے اندر موجود رمز ہی اِس فن کی معراج تک پہنچنے کا واحدپُل صراط ہے جسے کہانی کار کو ڈگمگائے بغیر اپنی تمام تر جذئیات کے توازن کے ساتھ عبور کرنا تھا۔عصری تقاضوں بر منطبق اظہار کا یہ پیمانہ صلاح الدینؔحیدر کی لفظی حکمت عملی کا مرہونِ منت تو ہے ہی مگر بیک وقت متبادل جہتوں کو اپنے اندر سمونے کا ایک منفرد تجربہ بھی ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اینیمل امیجری کے تمام لوازمات کے ساتھ ان کی لفظیات کے نظام کی جمالیاتی ملاحت ان کے مخصوص اسلوب کا حصہ بن جاتی ہے۔صلاح الدین حیدر کا بڑا کام اردو اور انگریزی زبان میں تحقیق اور تنقید کے ساتھ ساتھ ناول نگاری اور سفرنامے پر بھی ہے اور وہ اسلوب ان کی فیبلز کے اسلوب سے قطعی مختلف ہے۔یہاں فیبلز کے اس جداگانہ اسلوب کی یہ شعوری کوشش ان کے موضوعات اور کرداروں کی جبلی خصوصیات سے لگّا کھاتی نظر آتی ہے۔
اس سلسلے میں ان کی لکھت کے دو پہلو اپنی برجستگی کے حوالے سے انتہائی قابلِ توجہ ہیں۔پہلا؛ قصے کے بیان میں دفتری اور محکمانہ اصطلاحات کی بر محل اختراعات۔ اور دوسرا ؛ کرداروں کی وجہ تسمیہ کو نبھانے کا سلیقہ۔ یہ دونوں پہلو کہانی کی روانی اوررچاؤمیں تاثیرکے زبردست ہتھیارکا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔ دفتری اور محکمانہ ا صطلاحات کے ضمن میں پنجۂ شاہین آرڈینینس’ ڈنگر کراس’ شکرا جی کبوتر کانفرنس’ ڈیموکریٹک ری پبلک آف دی برابئلر’ کبوتر لقا جی انکوائری رپورٹ’ طوطا جی میان مٹھو تعلیمی کانفرنس’ از دفتر جناب بھیڑیا یعنی بقلم خود بنام مسمی میمنا ولد بھیڈو سکنہ بھیڑیا نگر’ درجہ اوّل باگڑ بلاجی’ دولتی میزائل وغیرہ اور ان جیسی بیشمار مثالیں اپنے عہد کے حالات و واقعات کی توانا دلیلوں کی صورت میں سامنے آتی ہیں۔ دوسری طرف کرداروں کی وجہ تسمیہ کو نبھانے کا سلیقہ بھی اپنی جگہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ عام طور پر فیبلز میں جانوروں کو مرکزی خیال کی شکل میں برائی یا اچھائی کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً لومڑی چالاکی کے لیے ’ گیدڑ کے لئے بزدلی’ کبوتر معصومیت کے لئے یا بھیڑیا خونخواری کے لئے۔ صلاح الدینؔحیدر نے اس ضمن میں بنیادی نقطۂ نظر بے شک یہی رکھا ہے مگر طنز سے بھر پور اپنے مخصوص اسلوب کے رنگ میں۔ مثلاؔ شکرا جی بھگت اور راجہ گدھ اُن کی بیشتر کہانیوں کا بنیادی حوالہ بنتے ہیں۔ آمرانہ طرزِ حکومت کی عیاری اور سفاکی کو جتنے قریب سے اُنہوں نے ذہنی اور جسمانی اذیت کی صورت میں بھُگتا ہے اُس کی روشنی میں یہ علامتیں اسم بامسمیٰ ہیں۔ اسی طرح کرگسوں کا فُل بنچ’ پروٹوکول ڈیوٹی پر موجود بھیڑئے’ کمانڈر گیندا جی’ جسٹس لقا جی’ عزت مآب لومڑیاں’ الخرگوش’ حضرت بجّو جی مقبور’ کنکھجورا قبرستانوی اور مکوڑا ہذیانوی اپنے اپنے سیاق و سباق اور موقع محل کی مناسبت سے ایک خاص دور کی ہیجان انگیزی کے بھیانک روپ ہیں۔ سامراجیت سے لے کر غلامانہ ذہنیت تک اور چور راستے سے سیاسی اجارہ داری کے پیروکاروں کی چالبازیوں سے لے کر مِن حیثیت المجموعی ایک پورے سماج کی تبدیل ہوتی ہوئی سائیکی تک۔
تکنیکی طور پر فیبلز میں سیٹائر کی نسبت آئرنی زیادہ ہوتی ہے مگر صلاح الدینؔحیدر کے ہاں سیٹائر کا عنصر غالب نظر آتا ہے اور وہ بھی سماجی و سیاسی سیٹائر۔ اس کی خاص وجہ شاید یہ ہو کہ ا نہوں نے جو معاشرہ دیکھا ہے’ صدیوں سے اُس کی روایت مسخر ہوتی ہی چلی آرہی ہے۔ مغلوب و مظلوم بننے کا یہ رواج غاصبوں کی اُن عملی سفاکیوں کو پنپنے اور پروان چڑھانے کا پورا موقع دیتا ہے جن کے نتائج کسی بھی عہد کو پُر آشوب عہد کہنے کے لئے کافی ہیں اور صلاح الدینؔحیدر خود اس عہد کا ایک ایسا زندہ راوی ہے جس نے ملیامیٹ ہوتی ہوئی قدروں’ غاصبانہ رویوں اور غیر منصفانہ حقیقتوں کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا بھی بھگتی ہے۔
آئرنی اور سیٹائر کے حوالے سے اگر اُن کی کہانیوں کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ کرداروں کے نام اور علامتوں کے چناؤ کی حد تک تو اُن کے ہاں آئرنی بدرجہ اتم موجود ہے مگر مجموعی طور پر قصے پن کے بہاؤ پر نظر ڈالیں تو کہانی کے کلائمکس سے لیکر انجام تک سیٹائر کا عنصر نمایاں نظر آئے گا۔ یہ دونوں پہلو واقعاتی تسلسل کو نہ صرف آگے بڑھاتے ہیں بلکہ تاثر کو بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعے وہ کڑوی اور کسیلی حقیقتوں کا ذکر بھی اتنی خوش طبعی سے کرتے ہیں کہ زیرِلب تبسم کا پھیلنا ایک فطری عمل ہے۔ یقیناً یہ ایک مشکل میدان تھا مگر اُنہوں نے اپنے عہد کی لرزہ خیز بے اطمنانی کو کامیابی کے ساتھ تجسیم کیا۔
موضوعی زاوئیے سے یہ نثر پارے ایک المیہ کیفیت کا اظہار ہیں۔ حقیقی واقعات کے تناظر میں ان کے یہ تخیلاتی ڈرامے کرداروں کے عمل اور ردعمل کے ذریعے ایک بھرپور مقصدی معنویت کے امکانات سے پُر ہیں۔ بیانیہ طرز کی ان کثیرالجہت کہانیوں کے صحیح ابلاغ کا انحصار قاری کی ذہنی اُپچ پرہے۔ حسّیات سے بھرپور منطقی تنظیم کا یہ تخلیقی اظہار جو فکاہیہ لب و لہجے کے طلسم کدے میں متصادم فکری سطح کا عکاس ہے ’ نفسیاتی کتھارسس کی صورت میں ایک پختہ ردِعمل کی تحریک بن کر سامنے آیا ہے۔ یقیناً اپنے مکمل عصری شعور کے ساتھ۔

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے