بنگلہ دیش نام نہاد جمہوریت سے واپس پاکستان اور برما کی راہ پہ پلٹ پڑا۔ اب وہاں "خالی خولی” سیکولرازم کی بجائے ‘‘پکی پکی ’’ رائٹسٹ حکومت ہوگی۔ دونوں ملکوں کی جماعت اسلامیاں محو رقص ہوں گی۔ سربراہوں کے باہمی دورے ہوں گے۔ بین الاقوامی کپٹلزم کے تحت او آئی سی کی مزید مضبوطی کی زبانی کوششیں تیز ہوں گی۔ اسرائیل کے مزید مزے ہوں گے۔ سرمایہ داری مزید مضبوط رہے گی۔ عوامی آزادیاں جہنم واصل ہوں گی۔۔۔
بنگلہ دیش میں فوج ہی قابض ہے۔ تمام بڑی نوکریوں میں 30 فیصد کوٹہ انہی لوگوں کا ہے۔
ترقی کو غلط کاموں کو دبانے کے بہانے کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ بالآخر لوگوں پر ظلم کا معاملہ کھل کر سامنے آگیا۔ موجودہ تحریک کو سمجھنے کے لیے خطے میں گزشتہ عوامی بغاوتوں کو سمجھنا ہوگا۔ 1952 میں زبان کی تحریک کے بعد سے اب تک بنگلہ دیش میں پانچ بغاوتیں ہو چکی ہیں۔پہلی 1952ء میں، دوسری 1969ء میں، تیسری جنوری 1971ء میں، اور چوتھی (آرمی چیف) حیسن محمد ارشاد کے خلاف 1990ء کی دہائی میں۔ حالیہ دنوں میں بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے خلاف ایک اہم اور وسیع پیمانے پر عوامی بغاوت کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں۔ بنگلہ دیش برصغیر پاک و ہند کا واحد خطہ ہے جہاں کئی بار اس طرح کی عوامی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔
ان میں سے ہر بغاوت حکومت میں تبدیلی کا باعث تو بنی ، مگر نظام نہ بدلا ۔ 1952 کی تحریک کے بعد، 1954 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی حکومت ٹوٹ گئی، اور مسلم لیگ کو مشرقی بنگال میں شکست دی گئی۔ 1969کی بغاوت کے نتیجے میں ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، حالانکہ فوجی حکومت برقرار رہی۔ جنوری 1971میں شروع ہونے والی عوامی تحریک نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی جہاں حکومت معمول کے مطابق کام نہیں کر سکتی تھی اور اس کے نتیجے میں براہ راست فوجی حکمرانی شروع ہوئی۔ 25 مارچ کو جنگ شروع ہونے کے بعد نہ صرف حکومت بلکہ ریاست پاکستان کا شیرازہ بکھر گیا۔ آزاد بنگلہ دیش میں ارشاد کے خلاف ایک اہم تحریک بھی چلی۔ تاہم، یہ ملک گیر تحریک نہیں تھی۔ شہری سرمایہ دار طبقے کی یہ بغاوت ارشاد کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنی۔
موجودہ عوامی بغاوت نے ایسی صورت حال پیدا کر دی جہاں حکومت کا بچنا مشکل ہو گیا۔ یہ بغاوت پہلے کی کسی بھی بغاوت سے زیادہ وسیع تھی ۔ یہ نہ صرف ڈھاکہ اور دیگر شہری علاقوں میں بلکہ پورے دیہی علاقوں میں پھیل گئی ۔ کوٹہ تحریک کے دوران طلباء پر حکومتی حملے نے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے بجائے اس تحریک کو عام لوگوں میں پھیلا دیا۔ لوگ اپنے اپنے مقاصد کی حمایت میں تحریک میں شامل ہوگئے۔ یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ طلباء کی تحریک کو صرف کوٹے کی تحریک کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں (عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم) چھاترا لیگ کی طرف سے دہشت گردی اور جبر کے خلاف عام طلبہ کی طویل شکایات نے اس تحریک کو جنم دیا۔ یونیورسٹیوں کی صورتحال نے کوٹہ تحریک کو متاثر کیا ۔حکومت کے حملوں نے کوٹہ کی تحریک کو بغاوت جیسی صورت حال میں تبدیل کر دیا ، جو پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔
عام عوام نہ صرف طلبہ پر ظلم و ستم کی وجہ سے بغاوت میں شامل ہوگئے بلکہ اس لیے بھی کہ ان کی زندگیاں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں اور تیل، گیس، بجلی اور ہر چیز کی قیمتیں بے قابو ہوگئیں ۔ حکومت نے اظہار رائے کی آزادی میں مداخلت کی ۔ اخبارات میں حکومت بالخصوص سربراہ حکومت (حسینہ واجد) پر تنقید ممکن نہیں رہی تھی ۔ ایسی صورتحال پیدا ہو گئی کہ لوگوں کا حکومت پر اعتماد نہیں رہا۔ لوگ یہ ماننے لگے کہ جب تک یہ حکومت رہے گی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ، منی لانڈرنگ اور سرکاری منصوبوں سے پیسے کی چوری کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری رہے گا۔ اس لیے بغاوت ابل پڑی۔
حکومت عوامی بغاوت پر قابو پانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن یہ ظاہر ہے کہ وہ صورتحال کو مکمل طور پر قابو میں نہیں لا سکی ۔ معلومات کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی محدود یا منقطع تھی۔ حکومتی جبر کے خلاف نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں مظاہرے ہوتے رہے ۔
فہمیدہ ریاض نے تو مودی دور کے ہندوستان کے بارے میں ‘‘تم بالکل ہم جیسے نکلے’’ کہا تھا، مگر اب یہ مصرع بنگلہ دیش پہ فٹ آتا ہے اس لیے کہ بنگلہ دیش نام نہاد جمہوریت سے واپس پاکستان اور برما کی راہ پہ پلٹ پڑا۔ اب وہاں "خالی خولی” سیکولرازم کی بجائے ‘‘پکی پکی ’’رائٹسٹ حکومت ہوگی۔ دونوں ملکوں کی رائٹسٹ پارٹیاں محو رقص ہوں گی۔ فوجی سربراہوں کے باہمی دورے ہوں گے۔ بین الاقوامی کپٹلزم کے تحت چلنے والی او آئی سی کی مزید مضبوطی کی زبانی کوششیں تیز ہوں گی۔ اسرائیل کے مزید مزے ہوں گے۔ سرمایہ داری مزید مضبوط رہے گی۔ عوامی آزادیاں جہنم واصل ہوں گی۔۔۔
بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک جن مقاصد کے لیے شروع کی گئی اسے جزوی طور پر درست کہا جا سکتا ہے. کیونکہ بنگلہ دیش کو آزاد ہوئے آدھی صدی سے زیادہ وقت گزر گیا اور ان کے لیے ہر چیز میں اس طرح کا کوٹہ رکھنا جس میں میرٹ کی دھجیاں اْڑ جائیں بالکل غلط بات ہے. دنیا میں تقریباً ہر جگہ جنہوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا ان کو بہت ساری مراعات حاصل ہوتی ہیں لیکن اس کی بعد کی پشتوں کے لیے ایسی رعایتیں نہیں ہیں۔لیکن بنگلہ دیش میں یہ کوٹہ پشت در پشت چلتا ہے ۔تو اپنی جگہ اس میں بدعنوانی بے انتہا ہو رہی تھی. مختلف لوگ سر ٹیفکیٹ جاری کریں کہ اس کے خاندان نے جنگ آزادی میں یہ کردار ادا کیا اور انہیں اس میرٹ میں شامل کیا جائے جو جنگ آزادی کے لیے لوگوں کے لیے کوٹہ سسٹم مقرر تھا ۔
وہاں رجعت پسندوں کا بلاک ہے جس میں جماعت اسلامی بھی ہے ، خالدہ ضیا کی پارٹی بھی ہے ۔وہاں کے جو جہادی گروپ ہیں انہیں وہاں کی فوجی حکومت نے خاص طور پر جنرل ارشاد اور جنرل ضیاء نے اور پھر خالدہ ضیاء نے بہت تقویت دی۔
وہ ہمیشہ کوشش کرتے رہے کہ بنگلہ دیش کو ایک مذہبی ریاست بنایا جائے اور اس میں جماعت اسلامی جو کردار ادا کر رہی تھی اور جماعت اسلامی نے جس طرح بنگلہ دیش کی آزادی میں بنگالیوں کے قتل عام میں کردار ادا کیا اور قتل کرنے والی قوتوں کے ساتھ اپنی ملیشیا ، رضاکار دے کر انہوں نے ان کا ساتھ دیا تھا اس وجہ سے بنگلہ دیش میں جو جمہوری قوتیں ہیں وہ ان سے انتہائی نفرت کرتے ہیں ۔لیکن بہرحال ان کو جتنی بھی شیخ حسینہ نے سزائیں دیں اس کے باوجود سماج میں ان کی جڑیں موجود رہیں اور یہ جو ابھی تحریک چلی، اس میں جماعت اسلامی نے بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔
ڈھونڈیے تو کہیں نہ کہیں آپ کو اس میں چین کے سرمائے کا کردار بھی نظر آئے گا ، پس پردہ بنگلہ دیش کی فوجی بندوق کا رول نظر آئے گا، ملا کے لاؤڈسپیکر کا کمال نظر آئے گا ، غیر منظم مڈل کلاسی نوجوان کے کندھوں اور سینوں کے ماہرانہ استعمال کا کمال بھی نظر آئے گا۔۔۔۔ اور یہ سب کچھ کپیٹلزم کے عالمی مالک اور اس کے علاقائی سجادہ نشین خفیہ اداروں کی رضا سے ہوا۔
ناکام کیا ہوا؟۔ بورژوازی کی قیادت میں نیشنلزم ناکام ہوا۔شیخ مجیب اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں استاد کے بقول دو پتھر تھے۔ ایک وہ آزادی نہ دینے والے ملک یعنی پاکستان کو مارتے تھے اور دوسرا بنگلہ دیش کی انقلابی پارٹیوں، گروہوں اور افراد کودے مارتے تھے۔ لہذا وہاں مزدوروں کی کوئی فیصلہ کن ٹریڈ یونین نہیں ہے، وہاں کوئی انقلابی پارٹی پنپنے نہ دی گئی _۔۔۔۔ بغیر کسی مزاحمت کے سرمایہ داری جاری رہی۔
اس بورژوا نیشنلسٹ خاندان کی بدقسمتی تو دیکھیے۔ شیخ مجیب سمیت پورا خاندان گھر کے اندر تلوار کی موت مرا۔ پورا خاندان۔ بوڑھے سے لے کر بچے تک، مردسے لے کر عورت تک۔۔ بنگالی فوج نے اپنے بابائے قوم کو بھون کر رکھ دیا۔۔۔۔ حسینہ واجد اس لیے بچی تھی کہ وہ اس وقت ملک سے باہر تھی۔ انہی رائٹسٹ فورسز نے حسینہ کو بھی معاف نہ کیا۔ برسوں تک انتظار کیا اور پھر وار کردیا۔ اسے ملک بدر کرکے اس مسلمان، بوڑھی عورت کے استعمال کے زیرجامہ کی نمائش کی گئی، بڑے بڑے جلسوں میں وڈیو بنابناکر اس کے انڈر ویئروں اور برا کے وڈیو بنائے گئے۔ اور اپنے بابائے قوم کے مجسموں کے ماتھے کو نفرت کے زہر سے بجھی چھینیوں ہتھوڑوں اور کرینوں کے حوالے کردیا۔ کرین بازی سے بابائے قوم کے تذلیل بھرے مجسمہ گرانے کے یہ کرتوت روس میں، مشرقی جرمنی میں،رومانیہ ،عراق،مصر،لیبیا، سری لنکا میں کیے گئے ۔ایک ہی سٹائل سے، ایک ہی پس منظر اور گراؤنڈ بنا کر اور ایک ہی ڈیزائن کردہ۔۔۔ بنگلہ دیش میں ہوبہو اسی آرٹسٹ کی ترتیب دی گئی موسیقی پہ ابلیسی رقص رچایا گیا۔ کسی عوام کی بے شعوری کی انتہا دیکھنی ہو تو یو ٹیوب پہ بنگلہ دیش میں اپنے بابائے قوم( بنگلہ بندھو۔۔ یعنی مثالی بنگالی) کے مجسموں کی توہین کے وڈیوز دیکھیے۔
اس ابھار پر بنگالی پیٹی بورژوازی کا غلبہ ہے اور اس ابھار سے یہ توقع باندھنا کہ یہ محنت کش طبقے کی نجات کا پروگرام دے گی سوائے یوٹوپیا کے اور کچھ نہیں ہوگا –
آج کے بنگلہ دیش میں چاہے بی این پی ہو یا عوامی لیگ دونوں جماعتوں میں فیصلہ کن طاقت کارپوریٹ سرمایہ دار طبقے کی ہے اور دیہی بورژوازی و شہری و دیہی پیٹی بورژوازی اس طبقے کی جونیئر شراکت دار ہے اور یہ سب مل کر بنگلہ دیش کو نیولبرل معاشی نظریہ کے تحت ہی چلانے پر متفق ہیں –
یوں مسند کو نام نہاد سیکولر، کپیٹلزم سے چھین لیا گیا۔عوام الناس کے لیے تو ایک درندہ گئی دوسرے درندے کی امپورٹ ہو بھی چکی۔نوبل انعام والا محمد یونس نام ہے اس کا ۔
یہ یونس کون ہے ؟
کئی سال قبل محمد یونس اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ ملک سے غربت کے خاتمے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پورے ملک میں دیہاتی حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ ظاہر ہے ایسے نظریات فوجیوں کو اچھے لگتے ہیں ۔ چنانچہ جنرل ضیاء الرحمن نے بادشاہ بن کر ملک کے 40 ہزار 3 سو 92 دیہاتوں میں حکومتیں قائم کر دیں۔
پھر اسے خیال آیا کے چھوٹے چھوٹے قرضے دے کر غریب لوگوں کو مشکلات سے نکالا جا سکتا ہے۔ یکم اکتوبر، 1983ء کو یہ بنک بن گیا۔ اس کا نام ‘‘گرامین بنک’’ (دیہاتی بنک) رکھ دیا گیا۔
2006ء میں کپٹلزم کے اس خادم محمد یونس کو نوبل انعام دیا گیا۔
نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس کا تقرر یہ بتاتا ہے کہ پنگلہ دیش میں نیو لبرل اکانومی کا ڈھانچہ محفوظ ہے ڈاکٹر یونس نیو لبرل اکانومی کا ایک سچا نمائندہ سمجھا جاتاہے. جو عالمی ایجنسیوں اور اداروں سے موثر رابطہ رکھتا ہے ۔بنگلہ دیش کا نوبل انعام یافتہ نیولبرل این جی اوز نما محمد یونس کا انتخاب اس صدی کے نوجوانوں کے رحجان کا عمومی نمائندہ ہے؟ ۔یہ ٹیکنوکریٹ کی حکمرانی ہے جو عالمی مالیاتی اداروں کے ایجنڈے کو دوسرے طریقے سے بڑھاتے ہیں۔
ہم اپنے ملک کے بارے میں بہت کم شعور رکھتے ہیں، بنگلہ دیش تو ہزار میل دور ہے ۔ لہذا تجزیہ سے محروم ، ہجوم سے آسیب زدہ لوگوں نے جو نہی وہاں جلاؤ گھیراؤ والا ہجوم دیکھا تو فٹ سے انہیں وہاں انقلاب دروازے پہ دستک دیتا نظر آیا۔انھوں نے کہنا شروع کردیا ہے کہ یہ گویا عوامی انقلاب تھا۔وہ عوام کے دس آدمیوں کے اجتماع کو بھی ” عوامی تحریک” کا چوغہ پہنانے کے عادی لوگ ہیں۔ کنفیوژن پیدا کرنے والے یہ لوگ جان بوجھ کر فلاسفر کے اس کوٹیشن کو چھپاتے ہیں، جس میں کہا گیا کہ: "بے شعور عوام،دشمن کا ہتھیار ہوتے ہیں”۔
ہر عوامی ابھار انقلابی نہیں ہوتی ۔ ہر پاپولر پارٹی پروگریسو نہیں ہوتی ۔وہ تاریخ کو پیچھے بھی لے جاتی ہے ، تاریخ کے بڑھنے کا آگے جانے والا راستہ بھی روکتی ہے .
اور پھر کچھ دانشوروں کو بنگال کے لوگوں کے باشعور ہونے کا بڑا دعوی ہے۔ یہ لوگ گزشتہ 70 سال تک اس "عوامی شعور” کی جھلکیاں تک دیکھنے کی تکلیف نہیں کرتے۔ خود آج کے گٹر شعور کا تذکرہ نہیں کرتے جب بنگالی ” باشعور”عوام نے فوج کا کوٹہ ختم کرتے کرتے ملک ہی فوج کے حوالے کر دیا۔
پھر ایک اور گروہ ہے، جسے ” تحریک” اور خودرو ابھار کا فرق ہی سمجھ نہیں آتا۔ تحریک کے پیچھے انقلابی پارٹی ہوتی ہے ، اور خود رو ابھار کے آس پاس سی آئی اے ہوتا ہے۔انہیں مشرق وسطی میں عرب سپرنگ اور سنٹرل ایشیا میں پنک اور ییلو کی رنگینیاں یاد ہی نہیں رہتیں۔
یہ عجب لوگ ہیں۔ افغانستان میں طالبان پاپولر، عوامی ( ہتھیاراٹھانے اور گلی دونوں) طاقت تھی۔طالبان نے نجیب کو پاپولر عوامی ‘‘تحریک ’’کے ذریعے اقتدار سے نکالا اور عوامی مقبولیت ہی کی جھرمٹ میں کابل چوک پہ لاش لٹکا کر اس کی بے حرمتی کرتے رہے۔” عوامی تحریک” اور ” محنت کشوں کی بھر پور شمولیت ” سے ہی نجیب کو عبرت کا نشان بنایا گیا۔پتہ نہیں کیوں یہ لوگ اس "عوامی تحریک” کے حق میں بولنے کی جرات نہیں کرتے۔
ایران میں بھی خمینی نے ‘‘زبردست عوامی مقبولیت’’ کے ذریعے ایرانی انقلابی راہنما نورالدین کیانوری کو اذیتیں دے دے کر قتل کردیا۔اُسی نے فدائین خلق ، تودہ پارٹی اور دیگر روشن فکر پارٹیوں کو ‘‘بھرپور عوامی مقبولیت و تائید ’’کے زور پہ جڑوں سے اکھاڑ پھینکا۔ ایرانی ملّا نے ” محنت کشوں” ہی کی زبردست حمایت سے بلوچوں کی قومی تحریک کو جان بلب کرکے رکھ دیا۔ مگر یہاں بھی وہ دزدیدہ دزدیدہ خاموشی کا شکار ہوکر کبھی بھی ” عوامی تحریک” کی وہ توصیف نہیں کرتے جو وہ بنگلہ دیش کی” عوامی تحریک ” کی کررہے ہیں۔
مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک اسی عوامی تحریک کے ذریعے رد انقلاب کا شکار ہوئے۔
عرب سپرنگ کو ماڈل انقلاب سمجھنے والوں کو سمجھ ہی نہ آیا کہ ایک ڈکٹیٹر نے دوسرے ڈکٹیٹر کی جگہ لے لی۔ وار لارڈوں کو اگر اپنا ملک پارسل کرنا ہو تو اسی طرح کی تحریکیں شروع کی جاتی ہیں۔۔۔۔سچی بات ہے کہ بنگلہ دیش میں طلبا کے ہنگامے ، فوج اور یونس جمہوریت کے لیے اچھے شگون نہیں ہیں ۔
مجیب اور حسینہ بھی سرمایہ داری نظام کے راستے کے مسافر تھے۔انہیں کبھی سامراج دشمن نہیں سمجھنا چاہیے ۔ وہ عوام دوست نہیں ،عوام دشمن تھے ۔
ذرا تاریخ دیکھیں: وہاں مولانا بھاشانی نے دن رات ایک کر کے اور محنت کش عوام میں کام کر کے عوامی مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی۔ اسی کی تجویز پر بعد میں اس کا نام عوامی لیگ رکھا گیا۔ سہروردی اور شیخ مجیب الرحمن وغیرہ نے مولانا بھاشانی کو ملک کا غدار اور نہرو کا ایجنٹ قرار دے کر پارٹی سے نکالنے کی کوشش کی۔ مجیب الرحمن مولانا بھاشانی کے سوشلزم کا مخالف تھا لیکن بعد میں اس نے اقتدار پانے کے لیے خود سوشلزم نافذ کرنے کی جھوٹی قسمیں کھائیں۔ اگر تلہ سازش کیس میں جب شیخ مجیب الرحمن کو پھانسی ہونے والی تھی تب مولانا بھاشانی نے اس کی پھانسی کے خلاف عوامی تحریک چلائی۔ رہا ہونے کے بعد مجیب الرحمن نے اعلان کیا کہ مولانا بھاشانی بوڑھا ہو گیا۔ اسے الٹا یہ سیاست چھوڑ دینا چاہیے! ۔جنگ آزادی میں عوامی لیگ کی بزدل اور موقع پرست قیادت عوام کے شانہ بشانہ لڑنے اور ان کی قیادت کرنے کے بجائے جان بچا کر انڈیا بھاگ گئی اور مولانا بھاشانی سے قیادت کی درخواست کی جسے اس نے قبول کیا۔ آزادی کے بعد شیخ مجیب کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے پر مولانا بھاشانی کو اس کے گاؤں میں نظر بند کر دیا گیا۔ یوں کہہ لیں کہ شیخ مجیب الرحمن بنگالی اشرافیہ کا بابائے قوم تھا اور مولانا عبدالحمید بھاشانی بنگالی محنت کش عوام کا۔
چے گویرا ٹھیک کہتاتھا کہ آج کی دنیا میں حتی کہ قومی آزادی کی تحریکوں کی قیادت بھی بورژوازی کے ہاتھ میں دینے کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا۔ مجیب اور حسینہ دونوں کے ادوار میں وہاں شخصی آزایاں نہ تھیں۔محکوم طبقات کی تنظیم سازی کی راہ میں طرح طرح کے روڑے اٹکائے گئے۔ بنیادی انسانی حقوق پاپولزم کی سیاہ چادر میں لپیٹ دیے گئے تھے۔۔۔ مزدوروں کسانوں پہ بدترین استحصال جاری رہا۔ اور جمہوریت کے نام پہ بدترین شخصی آمریت لاگو تھی۔۔۔ دونوں باپ بیٹی سرمایہ داری نظام کو تقویت دیتے رہے ۔ حسینہ واجد نے تو بدترین فسطائی انداز حکومت قائم کر رکھی تھی۔
دو چار عجب باتیں ہوئیں۔ ہمارے منطقے میں آبادی میں نوجوانوں کی تعداد 60فیصد تک جا چکی ہے جسے youth bulgeکا نام دیا گیا ہے ۔ پھر دیہات سے شہروں کی طرف منتقلی بہت زیادہ ہوئی ہے ۔ اس اربنائزیشن نے معاشرے کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا ۔ اُس تعلیم یافتہ مڈل کلاس کی بے روزگاری نے معاشی سماجی اور سیاسی بحران سا پیدا کردیا ہے ۔ یہ مڈل کلاس غیر مساوی معاشی خوشحالی سے مطمئن نہیں ہے ۔اوپر سے سوشل میڈیا نے اُس کے دل و دماغ میں پیدا شدہ بے چینی بے اطمینانی کو ہیجان کی شکل دے دی ہے ۔ وہ شہریت میں انصاف کا مطالعہ کرتا ہے ۔ وہ ورلڈ کپٹلزم کے بے سمت و بے سرحد کرپشن کی ڈائریکٹ زد میں ہوتا ہے ۔
چونکہ وہاں مزدور تحریک کمزور ہوتی ہے اور شہری آزاد یاں سلب ہیں اس لیے اس میں غصہ مرکوز ہوتاجاتا ہے ۔ وہ مذہبی بن جاتا ہے ۔ اس میں فاشزم کے رجحان بھرتے جاتے ہیں۔ وہ متشدد ہوتا ہے اور اسباب و علل سے بے سُدھ توڑ پھوڑ، تخریب اور فساد ہی کو راستہ بھی سمجھتا ہے اور حل بھی ۔ یہی کچھ بنگلہ دیش میں ہوا اور یہی کچھ اس خطے کے دوسرے ممالک میں ہوا۔
سی آئی اے جمع اپنے پرانے اتحادی یعنی جماعت اسلامی اور ملٹری اور سوشل میڈیائی نوجوان۔۔ بنگلہ دیش ایک غیر یقینی، افراتفری ، انتقام ، خونریزی، معاشی پس پائی اور ملٹری حکمرانی کی ایک طویل سرنگ میں داخل ہوچکاہے۔
جب عظیم ٹام پینؔ کے پاک کردہ امریکہ پہ بائیڈن اور ٹرمپ قابض ہوسکتے ہیں تو عظیم نذؔرل کے بنگال پہ فوجی قابض ہونے پہ حیرت کیسی؟۔
بنگال میں اقتدار گدھے اور بیل کے بیچ منتقل ہوتے رہنے کو انقلاب جیسی شئے سے مشابہت تک دینا بھی یا بددیانتی ہے یا عقل وشعور کا خاتمہ ۔