اے مِرے شہرِ شب آلودہ نگار وحشت
تیرے کوچے تیری گلیوں پہ گہن سا کیوں ہے
تیرے چہرے کو کیا کس نے یوں بارود آور
پھر سے بندوق کی گولی کا تماشا کیوں ہے
تیری گلیاں جو شبِ غم کی طرح لرزاں ہیں
انہی گلیوں میں نئے رنگ اگا کرتے تھے
اب تیرے لوگ شکستِ غمِ وحشت والے
تھے ادارہ کہ جوتہذیب بنا کرتے تھے
اک طرف ہاتھ کہ مانگ اپنی اجاڑے جائیں
اک طرف لوگ کہ لوگ اپنے ہی مارے جائیں
اک طرف ہاتھ کہ مٹی کی تجارت میں مگن
اک طرف لوگ کہ دکھ خود پہ اتارے جائیں
اک طرف وہ کہ طلب سانس کا تاوان کریں
اک طرف یہ کہ جو دشمن سے شکستیں مانیں
اِک طرف وہ کہ ہیں پروردہءخوف و دہشت
اک طرف یہ ہیں کہ خود سانپوں کو گھر میں پالیں
اک طرف بوٹ کہ خود اپنے گھروندے روندیں
اک طرف لوگ کہ گولی کی زبانیں بولیں
اک طرف وردیاں پہنے ہوئے یہ ہرکارے
اک طرف لوگ کہ دہشت کے نشانے تولیں
اک طرف لشکری ہر روز نئے وار کے ساتھ
اک طرف عسکری چلتے ہوئے ہتھیار کے ساتھ
کوئی سورج یہاں نکلے بھی تو کیسے نکلے
وحشتیں جڑ گئیں ہر کوچہ و بازار کے ساتھ
اب کوئی راہ نکلتی ہے تو مقتل کی طرف
اب کوئی شام ابھرتی ہے تو وحشت والی
اب کے بازاروں میں بکتے ہیں سہولت سے کفن
اور آنکھوں میں تھکن ہے کوئی دہشت والی
میرے لوگو! اے مِرے درد گزارے لوگو!
سانحہ وار کسی خوف کے مارے لوگو!
اب نیا ورد یہی ہے کہ تمہیں اٹھنا ہے
آیتِ صبح فروزاں کے کنارے لوگو
ہو زباں رنگ و ثقافت یا کوئی مسلک و دیں
یہ دراڑیں ہمیں ٹکڑوں میں پلٹ ڈالیں گی
ہو سیاست کی یا مذہب کی تجارت لوگو
یہ خلیجیں کہ صفوں ہی میں ضرر پالیں گی
روشنی کے لیے درکار ہیں گلیوں کو دیے
اور دیے وہ جنہیں خوں سے بھی نکھارا جائے
خوف ہے خامشی اور خوف کا رد آوازیں
اب جو چپ ہیں انہیں قاتل ہی پکارا جائے