ٍجنگل کے بیچوں بیچ گزرتی ندی کے کنارے کسی پرندے کے پر بکھرے پڑے تھے۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا، مسلسل آٹھ دنوں سے اسی طرح کے واقعات رونما ہو رہے تھے۔ہر روز کسی نہ کسی جگہ پر جنگل میں کسی پرندے کے پر پڑے ہوتے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ واقعات دن کو نہیں ہوتے تھے۔ ہمیشہ یہ پر صبح کے وقت ہی دیکھے گئے جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ واردات رات کو ہی ہوتی ہے۔اب پرندوں میں یہ تشویش پیدا ہوئی کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ایک دن اس جنگل سے پرندوں کا صفایا ہو جائے گا۔آخر کب تک چپ رہیں؟
آخر چیل نے فیصلہ کیا کہ تمام پرندوں کا ایک اجلاس بلایا جائے اور اس اہم مسلے پر غور و خوض کر کے اس کا کوئی معقول حل نکالا جائے۔اجلاس کے سلسلے میں ایک اور اہم مسلہ درپیش تھا۔جنگل میں تو ان گنت پرندے تھے۔اجلاس میں سب کو خطاب کا موقع دینا ناممکن تھا۔چیل کی فطری ذہانت نے اس کا یہ حل نکالا کہ اگر ہر نوع کے پرندے اپنی اپنی نوع میں سے اپنا ایک ایک نمائندہ منتخب کر لیں تو یہ مسلہ بخوبی حل ہو سکتا ہے۔اس طرح بآسانی تمام نمائندگان کو دعوتِ خطاب دی جا سکتی ہے۔یہ اجلاس انتہائی اہم تھا کیونکہ اس میں پرندوں کی بقا کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی ترتیب دینے کی ٹھانی گئی تھی۔چیل نے جب دل ہی دل میں یہ فیصلہ کر لیا کہ پرندوں کو بلا کر سب کی رائے لی جائے تو اس نے جنگل کے اونچے سے درخت پر بیٹھ کر یہ اعلان کیا کہ "اے جنگل کے پرندو!میرے پیارو اور اپنے والدین کے راج دلارو! آپ سب کے علم میں ہے کہ ہر رات کو اس جنگل میں ایک پرندہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا جاتا ہے، اس قتل عام کے اسباب معلوم کرنے کے لئے اور اس کی مستقل روک تھام کے لئے کوئی موثر حکمت عملی وضع کرنے کے لئے ہم نے ایک اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔اگر اپنی زندگی بچانا چاہتے ہو تو آج شام سورج غروب ہونے سے نصف گھنٹہ پہلے ندی کے کنارے اس جگہ پر سارے جمع ہو جائو جہاں آج صبح ایک پرندے کے پر پائے گئے۔اس اہم اجتماع میں آپ سب کی شرکت بہت ضروری ہے، سبھی کے رائے مشورے سے ہی ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکیں گے۔” اس کے بعد نمائندوں کے انتخاب کا طریقہ بالتفصیل بتایا۔اعلان ختم ہوا،بات کسی تک پہنچی کسی تک نہ پہنچی، بہرحال چیل نے اپنے تئیں اپنا فرض ادا کیا۔دن گزرا اِدھر شام ہونے کو آئی ادھر پرندے غول در غول ندی کنارے اترنے لگے۔کوئی زمین پر بیٹھ رہا ہے تو کوئی کسی درخت سے لٹک رہا ہے غرضیکہ ہر سمت پرندوں پر ہی نظر جاتی تھی۔دو چار پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی غل غپاڑہ شروع ہو گیا تھا اور اب تو کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ہر کوئی اپنا راگ الاپ رہا تھا، اپنے اپنے مشوروں سے ایک دوسرے کو نوازا جا رہا تھا۔ چپ رہنا یا کوئی مشورہ نہ دینا تو گویا اپنی شان کے منافی سمجھا جا رہا تھا۔جس مقصد کے لئے یہ اجتماع کیا گیا تھا اس کا تو ابھی آغاز ہی نہیں ہوا تھا لیکن اس کے باوجود ہر کوئی خود کو مشیرِ اعلیٰ، منتظمِ اعلیٰ یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ بلکہ وزیراعظم تک ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہاں لمبی لمبی گھاس کی اوٹ میں بیٹھی تیتری اگر خود کو ملک برطانیہ کا جانشین ثابت کر رہی تھی تو ادھر دوسری جانب چھوٹی سی جھاڑی پر مسند سنبھالے ایک بٹیر اپنے آپ کو شاہِ انگلستان کا اکلوتا وارث سمجھ رہا تھا بلکہ سمجھا رہا تھا!
اس سارے غوغا میں دو پرندوں کی عدم موجودگی ہر کوئی محسوس کر رہا تھا۔بلبل اور کوئل دونوں غیر حاضر تھے۔ان کی غیر حاضری پر سب سے زیادہ فکری مند ایک ننھی سی چڑیا کوتھی۔چانچہ چڑیا فوراً ہی اڑی اور جنگل کے کونے کونے میں لگی جھانکنے۔ندی کے کنارے کنارے دور تک اڑتی ہوئی گئی اور ہر چٹان پر نظر دوڑائی۔چڑیا ہر درخت کے پاس بھی گئی۔ بالآخر چڑیا کی محنت رنگ لائی اور اس کی آنکھیں بلبل کی تلاش میں کامیاب ہو گئیں۔ بلبل نے گلاب کے پھول کی صرف ایک پتی سامنے رکھی ہوئی تھی اور نظروں سے برگِ گل کا طواف جاری تھا۔چڑیا قریب آئی پر بلبل کو اس کی آمد کی خبر تک نہ ہوئی۔ چڑیا کو شرارت سوجھی، اس نے بلبل کے سر پر ٹھونگ ماری۔ضربِ منقار سے بلبل جاگ اٹھی۔سر اٹھایا،چڑیا کو دیکھا اور آنے کا سبب دریافت کیا۔چڑیا بولی "اے عاشقِ لالہ وگل!چمن سے لائی ہوئی ان پتیوں کو چھوڑ اور اپنے مستقبل کی فکر کر!”
بلبل:کیا ہوا میرے مستقبل کو؟
چڑیا:جب سارے جنگل کے پرندوں کے سروں پر موت منڈلا رہی ہے تو تو کس کھیت کی مولی ہے کہ تجھے بخش دیا جائے گا؟
بلبل: موت سے مجھے مت ڈرا، سیدھی طرح آنے کا سبب بیان کر!
چڑیا:بے خبر کہیں کی!سن! میں تجھے جگانے آئی ہوں
بلبل: پھر وہی الٹی سیدھی باتیں؟
چڑیا: یا سیدھی ہوتی ہیں یا الٹی۔یہ الٹی سیدھی کیا بلا ہے بہن؟
بلبل:چل راہ لے اپنی! چھوڑ میری جان!
چڑیا: تیری جان میں نے کب پکڑی ہوئی ہے،وہ تو تیرے سامنے پڑی ہے۔تیری جان تو یہ پتی ہے۔
بلبل:(لاجواب ہو کر اکتاتے ہوئے) چرب زبان!جاتی ہے یا تیرا سر پھوڑ دوں؟
چڑیا: غور سے میری بات سن!
بلبل: اتنی دیر سے کس کی بک بک سنتی رہی ہوں؟ اچھا اچھا وہ تیرے اوپر مسلط شیطان کی آواز تھی!چل اب تو بھی بول لے!
چڑیا:کمبخت!چل ندی کے کنارے!
(بلبل پہلے ہی چڑیا کی اتنی لمبی بحث سے اکتا چکی تھی، تلخی سے بولی)
بلبل:کیوں؟کیا وہاں تیری ماں سے تیرا رشتہ پوچھنا ہے؟ پاگل میرا تو بچہ ہے ہی نہیں جس کے لئے رشتہ پوچھوں! اور ہوا بھی تو تجھ جیسی منہ پھٹ کو میں گھر میں نہیں لانے کی!
چڑیا: آج تو اس طرح زبان چلا رہی ہو جیسے محلے میں دو بوڑھیاں لڑتے وقت چلاتی ہیں
بلبل:ہاں ایک بوڑھی میں اور دوسری بوڑھی تو!
(چڑیا اس ساری بحث سے محظوظ ہو رہی تھی لیکن اب بحث کو مزید طول نہیں دینا چاہتی تھی اس لئے اصل مدعا کی طرف آئی)
چڑیا: اچھا اب تو تم نے خود ہی تسلیم کر لیا ہے کہ میں بڑھیا ہوں، بڑھیا!تم یہاں عشق لڑا رہی ہو اور جنگلی پرندوں کی زندگی شدید خطرے کی زد میں ہے۔تمہیں پتہ ہے کہ روزانہ رات کو جنگل کا ایک پرندہ مار دیا جاتا ہے؟
جب چڑیا نے بڑھیا کہہ کر مخاطب کیا اور عشق بازی کا طعنہ دیا تو بلبل طیش میں آئی لیکن جب اس نے پرندوں کے مرنے کی خبر سنی تو سب کچھ بھول گئی اور خون کی سرخی خیالوں کے لالہ زار میں بھر گئی۔پھر دکھ بھرے لہجے میں یوں گویا ہوئی
بلبل:میرا کیا ہے میں تو موت کو ہتھیلی پر لیے پھرتی ہوں،افسوس تو ان پرندوں کا ہے جو امنگوں سے بھرپور زندگی جی رہے ہیں۔اگر کسی نے ان کی دشمنی کی ٹھان لی ہے تو ہم نے جی کر کیا کرنا ہے۔ مجھے بتائو اگر میری جان کی قربانی باقی پرندوں کو بچا سکتی ہے تو میں حاضر ہوں۔
چڑیا:واہ! جان دینے کی بات تو کرتی ہو لیکن پرندوں کی جان بچانے کے لئے مناسب اقدامات سوچنے کی خاطر کئے گئے اجتماع میں شرکت سے کنی کتراتی ہو۔
بلبل:کونسا اجتماع؟ کیسا اجتماع؟اری کچھ منہ سے پھوٹ تو! کچھ بولو گی تو مجھے پتہ چلے گا نا کہ کیا اجتماع اجتماع گا رہی ہو
چڑیا: ہائے! کیا بتائوں تجھے
بلبل:وہی بتائو جو بتانے کے لئے اتنی لمبی تمہید باندھی ہے
چڑیا:تو سنو پھر!ہر رات کو ایک پرندہ مار دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ کئی راتوں سے جاری ہے۔مارنے والے کا ابھی تک پتہ نہیں چلا۔پرندوں کے اس قتل کی روک تھام کے لئے کوئی مستقل حل سوچنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔بس اسی مسئلے کا کوئی حل سوچنے کے لئے جنگل کے تمام پرندے ندی کے کنارے اس چٹان کے پاس جمع ہو رہے ہیں جس کا قد انسانی قد کا دو گنا ہے۔
بلبل: یہ بات تھی تو تم نے اتنی لمبی تمہید کیوں باندھی، آتے ہی مجھے اصل بات کیوں نہیں بتائی؟
چڑیا:بڑی بی اب تو بتا دیا ہے نا، اب گفتگو کو طوالت کون دے رہا ہے؟ تم یا میں؟
بلبل: زیادہ باتیں نہ بنا،چل اب مجھے تیاری بھی کرنے دے۔جانا ہے اجلاس میں بھی۔
چڑیا نے کوئی بات نہ کی اور پھر سے اڑ گئی
اب چڑیا سیدھی کوئل کے پاس پہنچی۔چڑیا نے جوں ہی "کوکوکوکو” کی ہلکی ہلکی آواز نکالی تو نغمہ طراز کوئل چونک سی پڑی۔اس کے شیریں نغمے میں چڑیا نے نمک کی ہلکی سی چٹکی پھینک دی تھی۔
کوئل:میری نقل اتارنے چلی ہے کمبخت!کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا
چڑیا:(ہنس کر)کوئل چلی نصیبو لال کی چال اور اپنی بھی بھول گئی
کوئل:جس مقصد سے آئی ہو وہ بیان کرو، چٹکی بھر تو تمہاری حیثیت نہیں اور موازنے کرتی ہو مطربانِ خوش الحان کے!
چڑیا:خوش الحانی کیسی جب نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!
کوئل:بانس کی بچی سیدھی طرح اپنے آنے کا مدعا بیان کرو ورنہ جائو
چڑیا:مینا کے خاتمے کے بعد قلقلِ مینا کا وجود کیسے قائم رہ سکتا ہے؟
کوئل…بانس سے اتری ہو تو مینا پر جا بیٹھی ہو!واہ رے چڑیا!اگر یونہی ایک چیز سے اتر کر دوسری چیز پر بیٹھ کر چہچہانا ہے تو جائو کہیں اور یہ کام کرو، مجھے میرا کام کرنے دو
چڑیا: میں تو چلی ہی جائوں گی پر کچھ دنوں کے بعد تم بھی چلی جائو گی عالمِ عدم کی طرف!
کوئل: وہاں تو سب نے جانا ہے
چڑیا:پر اس جنگل کے پرندے بہت جلدی جا رہے ہیں اور اگر اب بھی نہ جاگے اور تمہاری طرح مست و بے خود رہے تو بہت جلد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ابدی نیند کی وادیوں کی طرف دھکیل دیے جائیں گے
کوئل:تم کہنا کیا چاہتی ہو آخر؟
چڑیا: میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ تم یہاں بے خبر گا رہی ہو اور جنگل کے پرندوں کی زندگی خطرے میں گھری ہوئی ہے۔ہر رات کو ایک پرندہ ہلاک کر کے نگل لیا جاتا ہے لیکن قاتل کا سراغ ہنوز نہیں ملا۔یہاں بیٹھ کر اپنے گلے کا جادو جگانے کی بجائے اس اجلاس میں چلو جو آج شام ندی کنارے منعقد ہو رہا ہے اور جس میں اس بات پر غور کیا جائے گا کہ جنگل کے پرندوں کی زندگی بچانے کے لئے کیا کیا جائے۔
کوئل: اچھا یہ بات تھی! تم نے آتے ہی مجھے کیوں نہیں بتایا؟
چڑیا: کیونکہ تم راگ رنگ میں مشغول تھیں
کوئل:تم نہیں باز آنے کی
چڑیا: نہیں
کوئل: جائو، تم سے بحث فضول ہے۔
چڑیا:کیوں جائوں؟ تمہیں ساتھ لے کر جائوں گی
کوئل: کیوں؟ مجھے ڈر لگتا ہے؟
چڑیا: ڈر تو نہیں لگتا لیکن میرے جانے کے بعد تم یہیں بیٹھ کر پھر سے اپنا تماشا شروع کر دو گی
بلبل: جائوجائو، آ جائوں گی میں!
چڑیا بغیر کچھ کہے اجلاس والی جگہ کی طرف اڑی۔جب چڑیا وہاں پہنچی تو بلبل کو چونچ میں پھول لئے ایک درخت کی مغرب کی طرف جھولتی شاخ پر بیٹھے پایا۔پرندوں کے درمیان بحث مباحثہ جاری تھا۔اجلاس کا وقت ہو چکا تھا لیکن ابھی تک چیل نہیں آئی تھی۔پیغام دے کر واپس آنے کے چند ہی لمحوں بعد کوئل پہنچ گئی۔وہ چڑیا کے قریب ہی ایک نیم خشک ٹہنی پر بیٹھ گئی۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ چیل بھی پہنچ گئی۔
اجلاس کی کاروائی کا آغاز ہوا۔ ایک بٹیر چٹان کے پاس موجود ایک چھوٹے قد کی گھنی جھاڑی پر بیٹھا اور ہر نوع کے پرندوں کے نمائندگان کے نام باری باری پکارنے لگے۔ہر پرندہ اپنی باری پر سامنے موجود چٹان پر آ کر کھڑا ہو جاتا اور متعلقہ موضوع پر تجاویز پیش کرتا۔سٹیج نما اسی چٹان پر چیل بھی بیٹھی تھی۔وہ ہر ایک کی بات کو بغور سن رہی تھی۔اس نے اپنے سامنے تھوڑی سی مٹی بھی ہموار کر کے رکھی ہوئی تھی کیونکہ چٹان پر لکھنا تو چیل کے لئے ناممکن تھا لیکن کچی مٹی پر پنجوں کی مدد سے بہت آسانی سے لکھا جا سکتا تھا۔وہ اہم نکات لکھ رہی تھی۔ہر پرندے کی باتوں میں سے جو اہم سمجھتی لکھ لیتی۔مختلف آرا پیش کی گئیں لیکن اس بات پر سب متفق تھے کہ سب سے پہلے قاتل کا سراغ لگایا جائے۔ہر کوئی اس اہم نکتے پر زور دے رہا تھا کہ کسی طرح قاتل کو ڈھونڈا جائے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جب تک مجرم کا پتہ ہی نہ ہو تب تک محض مجرم کو پکڑنے کے منصوبے بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔بہر حال ہر ایک کو خطاب کے لئے اتنا وقت ملا جتنا اس نے چاہا۔ہر ایک کھل کر بولا۔بالآخر رات گیارہ بجے تک تمام پرندوں کے خطابات کا اختتام ہوا اور جنابِ زغن کو خطاب کی دعوت دی گئی۔پر سنبھالے چونچ اٹھائے جنابِ زغن نے چٹان پر کھڑے ہو کر یوں خطابِ لاجواب کا آغاز فرمایا”اے قاتلِ طائرانِ بیابان!تجھے خبر ہو کہ تیرے حساب کا وقت آن پہنچا۔۔۔”اور جوں ہی "پہنچا” پر آپ کی منقار مبارک پہنچی تو آپ لڑکھڑا کر ذرا سی پیچھے کو گریں،اپنے بھاری بھرکم جسم پر قابو نہ پا سکیں اور ندی میں جا گریں۔پانی کا بہائو کچھ تیز تھا، آپ کو بہا لے گیا۔پرندوں نے اڑ اڑ کر ندی پر سے چیل بی کا آخری درشن ضرور کیا لیکن ان کو نکالنے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر ندی میں اترنے کی کوشش کسی نے نہ کی۔بہر حال سوگوار ماحول میں اجلاس کا اختتام ہوا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرنے کے لئے اگلی صبح کا وقت مقرر کیا گیا۔اگلی صبح آئی لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ جنگل میں کہیں بھی کسی پرندے کے پر، ہڈیاں اور خون نظر نہیں آیا۔یعنی آج رات کوئی پرندہ ہلاک نہ ہوا تھاصبح کے وقت ندی کنارے پرندوں نے اکٹھا ہونا تھا سو ہو گئے۔آج ہر ہر پرندہ یہی کہہ رہا تھا کہ چیل نے پرندوں کی بقا کی خاطر اپنی جان دے دی۔یہ اجتماع ایک قسم کا تعزیتی ریفرنس بھی تھا۔بٹیر اپنی مقررہ جگہ پر پہنچا اور سب سے پہلے چڑیوں کی نمائندہ اسی چڑیا کو دعوتِ خطاب دی جو بلبل اور کوئل کو اجلاس میں شرکت کے لیے بلا کر لائی تھی۔چڑیا چٹان پر پہنچی اور یوں حاضرین سے مخاطب ہوئی”اے جنگل کے پرندو! گزشتہ شب دورانِ خطاب محترمہ چیل جان اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔ان کے اہل وعیال اور اعزہ و اقارب کے دکھ درد میں جنگل کے تمام پرندے برابر کے شریک ہیں۔آپ انسانی سیاسیات سے نہ صرف بخوبی واقف تھیں بلکہ انسانی سیاسیات کے تمام اصولوں پر عمل پیرا بھی تھیں۔انسانی سیاسیات انتہائی پیچیدہ موضوع ہے اور اس موضوع پر مہارتِ تامہ یقیناً چیل کی ذہانت و فطانت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔آپ نے عمر بھر انسانی سیاسیات کے اصولوں کو چراغِ راہ بنائے رکھا،آپ کی زندگی کے آخری ایام بلکہ آخری لمحات بھی اس کے گواہ ہیں۔انسان اشرف المخلوقات ہے،اس کی سیاسیات کو مجھ جیسا حقیر پرندہ کیا سمجھ سکتا ہے!پھر بھی میں نے انسانی آبادیوں میں گھوم پھر کر جتنا مشاہدہ کیا ہے آپ کے گوش گزار کرتی ہوں۔انسانوں میں سے جتنے بھی سیاستدان ہوتے ہیں وہ زندگی بھر جھپٹ جھپٹ کر مفلس اور نادار انسانوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کی نظروں میں ہمیشہ اچھے، شریف اور اعلیٰ حسب نسب کے حامل رہتے ہیں۔موت و حیات نہ انسان کے ہاتھ میں ہے نہ کسی اور مخلوق کے ہاتھ میں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہ انسانی سیاسیات کا سکھایا گیا کوئی گ±ر ہے یا عوام کی آنکھوں پر بندھی ہوئی کوئی پٹی کہ یہ سیاستدان جب اس جہانِ فانی کو بادل ناخواستہ الوداع کہہ جاتے ہیں تو عوام میں یہ بات مقبول ہو جاتی ہے کہ دیکھو کتنا بڑا لیڈر تھا، عوام کی خاطر جان دے دی۔یعنی بچے پر جھپٹا لیکن بچے کے باپ کی نظر میں مقدس ہی رہا اور جھپٹتے ہوئے کہیں گر کے راہیِ ملک عدم ہو گیا تو پہلے سے زیادہ محترم ہو گیا۔یہ ہے انسانی سیاسیات! لیکن ابھی تک ہم پرندوں کی دنیا بہت پیچھے ہے ترقی کی دوڑ میں۔ہم ابھی تک انسانی سیاسیات کو نہیں سمجھ سکتے۔انسان شعور کی ان منزلوں پر پہنچ چکا ہے جن کا ہم خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔انسان اپنے ہم نفسوں کو بھنبھوڑ ڈالتا ہے لیکن پھر بھی ان کی نظروں میں عظیم ہی رہتا ہے…یہ سلیقہ ابھی تک پرندوں کو نہیں آیا۔البتہ گزشتہ شب اس دنیا سے گزر جانے والی چیل جان صاحبہ عالمِ سیاسیاتِ بشر تھیں۔ محترمہ چیل جان کو انسانی سیاسیات کے تمام اسباق ازبر تھے۔بہرحال اس سیاست کو سیکھنے کے لئے پرندوں کو ہنوز ایک طویل عرصہ درکار ہے۔”

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے