کرب تحریر نہیں ہوتے، ان کی تصویر کشی ممکن نہیں ، دکھ بوجھ نہیں کہ بانٹ لئے جائیں ،سانسیں لکڑی نہیں کہ کاٹ دی جائیں۔ آنسو دریا کا پانی تو نہیں کہ ان کے آگے بند باندھ دیا جائے۔ میں حیرانی کی اس منزل پر کھڑا ہوں، جہاں سائے بدن چھوڑ جاتے ہیں۔ مرے سامنے اک کتاب ہے جس کی ہر نظم وجود رکھتی ہے باتیں کرتی ہے، آہیں بھرتی ہے سسکیاں لیتی ہے۔
اک نظم سے نظر چرا کر گزرنا چاہا، تو اس نے مرا دامن اشکوں سے چھید دیا، مسکراتے ہوئے گیلی آنکھوں سے بولی بستر کی شکنوں میں چھپے خواب ڈھونڈتے ہو۔ مجھے دیکھو میں کرب کی اس کگار پر بے خوف کھڑی ہوں جہاں پنچھی بھی بیٹھتے ہوئے کتراتے ہیں. میں عذاب کے اس برزخ سے لوٹی ہوں جہاں خودکشی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔ میں نظم سے دامن چھڑا کر بھاگا تو کتاب میں قید دروازہ پیٹتے بھسم ہوتے ہوئے لوگوں سے جا ٹکرایا، نظم اجاڑ بنجر رتوں کا سارا کرب لئے پھر مرے سامنے کھڑی تھی۔
” ہماری زمین درد کے بیج اگانے کے لئے بہت زرخیز ہے ”
مجھے درد کا پتا پتوں میں ملا اور سارا کرب پھولوں کے قرب سے۔۔۔ ابھی میں راہِ فرار کی تاک میں تھا کہ وہ بولی۔۔۔:
” ہمارے ہاں اطمینان کے موسم سازگار نہیں
ہمیں کرلانے کی عادت بچپن میں ڈال دی جاتی ہے
نومولود کے کان میں یہ بات بچپن سے ڈالی جاتی ہے
تمہیں مرنے تک صرف رونا ہے۔”
میں نے ڈرتے ڈرتے اس فنا زادی سے پوچھا۔۔۔
تم کون ہو ؟؟؟؟
ان نیم مردہ وجودوں کے درمیان تم کیسے بدن اوڑھ کر کھڑی ہو۔ درندوں کے اس جنگل میں ہوس بھری نگاہوں اور رال ٹپکاتے بو الہوس لوگوں سے تمہیں خوف نہیں آتا۔
کہنے لگی۔۔۔۔۔مرے جسم میں ان گنت صلیبیں گھڑی ہیں، یہ مرد کہلانے والے نامرد گھر کی چاردیواری میں قید حوا زادیوں کے لئے مرد ہیں۔
میں نے اجنبیت کی دیوار سے جھانک کر اسے دیکھا تو مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔۔میں نظم ہوں۔ اور مرا، سب کچھ نظم ہے۔۔۔۔۔
” نظم ، میرے خواب ہیں
جو جہیز کے سامان میں سنبھال رکھے ہیں
نظم، ایک دن ہے
جو میں نے کھڑکی سے جھانکتے ہوئے گزارا ”

صفیہ حیات کی شخصیت کا ادراک وہی کر سکتا ہے، جو خدائی وصف رکھتا ہو۔ کپل وستو کے راج کمار سدھارتھ کو جب نروان ملا تو بولا۔۔۔تمام دکھ ہے۔۔۔۔۔ میں ” ہوا سے مکالمہ ” کرتی اس کرلاتی کونج سے متعارف ہوا تو میں نے جانا۔۔۔تمام دکھ ہے۔۔۔۔۔ ہم دکھ آنگن میں پلے اس درخت کی شاخیں ہیں جو ساری دھوپ جھیل کر سایہ دار ہوا۔۔۔۔۔ مجھے صفیہ سے بات کر کے اندازہ ہوا کہ کچی عمر کے خواب ٹوٹنے کا درد کیا ہے اور ہتھیلیوں پر لگی حنا کا رنگ زرد کیسے ہوتا ہے۔ اب اس کے اشک نہیں گرتے ،وہ ان موتیوں کو سنبھال کر رکھتی ہے اور انہیں نارسائی کے دھاگے میں پرو کر نظم کرتی ہے۔ اگر وہ نظم نہ لکھتی تو یہ آگ اسے اندر سے جلا کر راکھ کر دیتی۔ اس نے دکھوں کی پرورش کی اور ان کے گیان سے نروان پایا۔ جب وہ یادوں کی کھڑکی کھول کر ہوا سے مکالمہ کرتی ہے تو ہوا اس کی خوشبو پروں میں سمیٹ کر اجنبی دیسوں میں برگد تلے سمادھی لگائے گوتموں کو نروان کا گیان دیتی ہے۔ ہوا کب بھید رکھتی ہے !!! ہوا سب بھید رکھتی ہے۔ ہوا کو بھید ہے سارا ہوا سے کچھ نہیں کہنا ۔
میں نظم کو بہترین اظہاریہ سمجھتا ہوں۔۔صفیہ نے اپنے پورے وجود کو نظم کیا تب نظم ہوئی اب صوفیہ سراپا نظم ہے۔ وہ ہوا کی سکھی ہے اور اپنی باتیں اس سے سانجھی کرتی ہے۔ اب ” نیم پلیٹ سے نام کھرچتی لڑکی ” پورے قد سے کھڑی ہے۔ اسے آلام کی دھوپ جلانے سے قاصر ہے کہ کندن اب کٹھالی سے نکل چکا ہے۔ اب حوصلے کی چاندنی اس کے چہرے پر رقصاں ہے۔ ہوا کے ساتھ اس کی سرگوشیاں اب صدا کا روپ دھار چکی ہیں۔اب وہ ببانگ دہل کہتی ہے :—

” میں ہر بار
ممنوعہ پھل کھاو¿ں گی
مجھے وہاں نہیں رہنا
جہاں ریشمی اطلس پہنے عورتیں
مرے محبوب کو جنسی دعوت دیں
اور میں
نگینے جڑے تخت پر بیٹھی انتظار کروں ”
اب وہ تہیہ کر چکی ہے کہ الزامات کی پوٹلی اٹھائے ہوئے کبڑے لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا ہے۔
مری دعا ہے کہ "صفیہ حیات ” کی آنکھوں میں جلتا الاو¿ مشعل کا روپ دھار کر ٹھنڈی اور محبت بھری روشنی تقسیم کرے۔ آمین۔
صفیہ حیات کو کتاب کی اشاعت پر دلی مبارکباد
دروازہ پیٹتے بھسم ھوتے لوگ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری زمین
درد کے بیج اگانے کے لئے
بہت زرخیز ہے۔
یہ پل بھر میں اگتے اور تناور ہو کر
درد کے پتوں ،
کرب کے پھولوں سے بھر جاتے ہیں۔
ھمارے ہاں طمانیت کےلئے
موسم سازگار نہیں۔
ہمیں کرلانے کی عادت
بچپن سے ڈال دی جاتی ہے۔
یہ کہہ کر کہ مخلوق کی گریہ زاری
ہنسی سے بہتر بھاو¿ بکتی ہے۔
نومولود کے کان میں
یہ بات ڈال دی جاتی ہے۔
تمھیں مرنے تک صرف رونا ہے۔
اور وہ چھوٹے قدموں سے
بھاگنے تک
مسکراتے چہروں کو نوچتا
تیزاب جیسا کھارا پانی
انکے چہروں پہ انڈیلتا
مسخ سازی سیکھتا ھے۔
اور
دوسری زمینوں سے آئے لوگ
انکے پیلاہٹ زدہ ہڈیوں کے ڈھانچے دیکھ کر
واپسی کی راہ لیتے ہیں۔
وہ بھانپ لیتے ہیں
کہ۔۔۔۔
اس خطے میں
پھولوں اور خوشبوو¿ں کی ایکسپورٹ پہ پابندی ہے۔
یہاں صرف سفید ٹوپیاں
مناجات کے دھاگے اور منکے بنتے ہیں۔
لوگ وحشت زدہ
لاو¿ڈ سپیکر کے پکارنے پر بھاگتے ہیں۔
انکی روحیں
کسی پاکیزہ جزیرہ کی تلاش میں
سرگرداں پھرتی مرجاتی ہیں۔
آسماں سے اب نہ پتھر گرتے ھیں۔
نہ پرندے آتے ہیں۔
لوگ من کے سراغ چھوڑ کر
مذہب کا دروازہ پیٹتے بھسم ہو رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفیہ حیات
زندگی کس گناہ کی فرد جرم ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کی چار دیواری سے
فٹ پاتھ کے کنارے تک
آنکھیں میرے جسم میں سوراخ کرتی رہتی ہیں۔
میں ان گنت خوابوں کے سہارے
چلتی ہوں
جانے کس طرف
کہ پاﺅں سوج کر غبارے جتنے بڑے ہو چکے ہیں۔
امید کے پھول گر جاتے ہیں
شدید خوف کی لہر قہقہہ لگاتی ہے
میں بیٹھ جاتی ہوں
کلائی گھڑی پر نظریں جمائے رکھتی ہوں
وقت رینگتا ہے
آخر
ایک دن تھک کر مر جائے گا
اور میں بھی
بس بوسیدہ نظموں میں ذکر ہوگا
کتنی بہادر لڑکی تھی
بچوں کو آخری دکھ نہ دینے کے لئے زندہ رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صفیہ حیات

چڑیا کا پہلا خواب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چڑیا
عمر کے پہلے حصے میں
پہلی اڑان کے دوران
جنگل جانے کی خواہش لئے جارہی ہے
اس دن
پہاڑوں سے بادل اترے
اور زندگی کے پہلے تجربے میں
چڑیا نے ایک رات
آبائی گھونسلے سے دور
بہت دور۔۔۔۔۔
ایک بوڑھے کوے کے گھونسلے میں گزاری
اس دن کے بعد
جیتی جاگتی چڑیا کی آواز
اجتماعی سوگ میں روح زخمی کرتی ہے
لیکن
بقیہ زندگی
بہت کم اناج کے سہارے بسر کی
مگر
سفر کا خواب نہیں دیکھا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے