ایک ہی سانس میں دم توڑ گئی رات کی چیخ
زندگی بول اٹھی صبح کی للکار کے ساتھ !
موجِ پیہم کی طرح سنگِ سماعت سے گزر
خامشی ! ٹوٹ نہ جا شیشہِ اظہار کے ساتھ
حرَکَت صوت کی کھینچے ہے خموشی کو بھی
فاصلہ چپ کا کِھنچا آتا ہے گفتار کے ساتھ
کیا بتاو¿ں کششِ شوقِ سفر کے اسرار
منزلیں اور پرے ہوگئیں رفتار کے ساتھ
طائرِ خاک نے ہریالی سے جوڑا ہے مجھے
مَیں کہ شاداب ہوا جاتا ہوں اشجار کے ساتھ
مَیں کہانی سے اسے روز مٹاتا ہوں ضیا
رنج لوٹ آتا ہے ہر دن نئے کردار کے ساتھ