میرے اجداد کا مدفن میرے آباء کی زمیں
تُو بلوچوں کی ہے پارینہ اخوت کی امیں
ہیں تِری خشک چٹانیں مِری نظروں میں حسیں
میرے اسلاف کا خوں اب بھی رواں ہے تجھ میں
خادمِ قوم ہی تھے قوم کے سردار سبھی
سب زر و مال لُٹا دیتے تھے زردار سبھی،
شجرِقوم میں یکساں تھے گُل وخار کبھی
اُن سے باقی کوئ مٹتا سا نشاں ہے اب بھی
رہبرِقوم ہیں اب قوم کے غدار ہیں جو
خون پیتے ہیں غریبوں کا وہ زردار ہیں جو
ہر جگہ بیچتے ہیں قوم کو سردار ہیں جو
ستم و جور و جفا گرم یہاں ہے اب بھی
تیرا ماضی تو درخشاں تھا مگر حال ہے یہ
عسر و افلاس و تباہی کا سیاہ سال ہے یہ
اور سرمایہ پرستوں کی بڑی چال ہے یہ
دانہ پردام نہ ہونے کا گماں ہے اب بھی
پر مجھے غم نہیں سنگین چٹانوں میں تِرے
کر و کوہ میں آوارہ شبانوں میں تِرے
اور نادر کئی خوابیدہ جوانوں میں تِرے
کوئی نورا کوئی مہراب نہاں ہے اب بھی