قصہ طویل تر ہے مگر کیجئے بھی کیا
اب وقت مختصر ہے مگر کیجئے بھی کیا

منزل سمجھ کے ، ہم کو قدم روکنے پڑے
گرچہ یہ رہ گزر ہے مگر کیجئے بھی کیا

ہم نے سمجھ کے گھر یہ خرابہ بسا لیا
دیوار ہے نہ در ہے مگر کیجئے بھی کیا

عمر رواں میں دوستو ! مہلت نہیں رہی
کتنا حسیں سفر ہے مگر کیجئے بھی کیا

کیا جانیے کوئی ہمیں کب چھوڑ دے کہاں
ہر گام ہی یہ ڈر ہے مگر کیجئے بھی کیا

سیماب ہیں ضرورتیں الفت کہیں جنہیں
دل ہے کہ بے خبر ہے مگر کیجئے بھی کیا

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے