بہت ان ہونیاں سی ہو رہی ہیں
ہمارے ساتھ غزلیں رو رہی ہیں
کبھی جاگیں گی تو پھر حشر ہو گا
ابھی منہ میں زبانیں سو رہی ہیں
برس جائیں گے حملہ آوروں پر
ابابیلیں جو کنکر ڈھو رہی ہیں
ثمر دیکھے گا کوئی اور آ کر
زمیں میں اشک آنکھیں بو رہی ہیں
مجھے ہے خوف راتیں کاٹنے کا
تمھیں غم ہے کہ شامیں کھو رہی ہیں
تمھاری قربتوں کے قہر میں بھی
دعائیں عشق کی مجھکو رہی ہیں
تقاضا کر رہی ہیں رخصتی کا
ہمیشہ ساتھ سانسیں جو رہی ہیں
سنا دے گا کوئی موسم سہانا
جو باتیں خاک میں خسرو رہی ہیں