یوں تو سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا قیام 1997ءمیں ہوا مگر اس کی تاریخی و نظریاتی بنیادیں1920ءکی ینگ بلوچ تحریک میں پیوست ہیں۔جسے میر عبدالعزیز کرد نے شروع کیا اور یوسف عزیز مگسی نے آگے بڑھایا۔یہی وہ تحریک ہے،جو ہماری طبقاتی جنگ،قومی جمہوری تحریک ِآزادی اور صنفی جدوجہد کا نقطہِ آغاز ہے۔نقطہِ آغاز اس مفہوم میں کہ یہیں سے ہماری تنظیم سازی شروع ہوئی،جس میں شامل ڈسپلن،نظریہ،ٹیکٹس، طریقِ کار،جلسہ،جلوس، تحریرو تقریر، پمفلٹ، منشوروآئین اور قرارداد وغیرہ ایسی چیزیں تھیں،جو ماضی کی تحریک میں مفقود تھیں۔
ورنہ تو طبقاتی،قومی اور صنفی جبروستم اور ظلم واستحصال کے خلاف بلوچستان میں ہمیشہ مورچہ بندی اور معرکہ آرائی جاری وساری رہی ہے۔بلوچوں نے ہربیرونی حملہ آور کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔تاریخِ معلومہ میں ہمیں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں،جب بلوچوں نے بیرونی دشمنوں کا بڑی جواں مردی اور دلیری سے مقابلہ کیا اور انہیں منہ توڑ جواب دیا۔مثال کے طور پرسولہویں صدی میں یہاں بلوچستان کے ساحل پر حمل جیئند اور اس کے لشکر کی پرتگالی سامراج کے خلاف جنگ کا منظر دکھائی دیتا ہے،جس میں انہوں نے جامِ ِشہادت نوش فرمایا۔حمل کی باغیانہ بلوچی شاعری حمل اور اس کے ساتھیوں کی جانثاری کی داستان سناتی ہے۔
اسی بلوچی شعری روایت نے بعدازاں رحم علی مری،گدو ڈومب،حسن رئیسانڑیں اور ملامزار بدوزئی کی باغیانہ شاعری کے لیے راستہ ہم وار کیا،جو برطانوی سامراج کے خلاف وجود میں آئی۔یہ شاعری نہ صرف برطانوی سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے۔ بل کہ اس کی سامراجی پالیسیوں کو چیلنج بھی کرتی ہے۔یہی شاعری بعد میں بہت سیQualitative اور ±Quantitative تبدیلیوں سے گزر کر مزید شان دار ہوگئی۔
ملا مزاربدوزئی ،رحم علی مری،ملا فاضل اورجواں سال بگٹی نے بلوچی شاعری میں قومی موضوعات کے ساتھ ساتھ طبقاتی عنصر کا بھی ضافہ کردیا۔ملا مزاربدوزی نے چار زبانوں ( بلوچی ، اردو، سندھی اور براہوئی) میں اپنی مشہور نظم ” لاٹہ بگھی“ لکھ کر برطانوی سامراج اور اس کے افسر کی بگھی کھینچنے والے سرداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔اس کا نقطہِ نظر طبقاتی ہے۔
دریں اثنا1920 ءمیں ابھرنے والی ینگ بلوچ تحریک ان ہی بنیادوں پر استوار ہوئی۔ اس نے ان سب قومی ،طبقاتی ،جمہوری اور سوشلسٹ روایات کو نہ صرف اپنے اندر جذب کیا بل کہ انہیں ترقی بھی دی۔یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت، آزادی اور سوشلزم ایسے آئیڈیل اسی تحریک کی دَین ہیں۔ یہ تحریک بیک وقت دو محاذوں پر برسرِ پیکاررہی ۔ایک طرف اس نے برطانوی سامراج سے قومی جنگ لڑی اور دوسری طرف خانِ قلات کی فیوڈل ریاست کے خلاف طبقاتی جدوجہد کی۔
خانِ قلات کسان رعیت کی مشقت کا مرہونِ منت تھااور اس کے درباری سردار بھی اپنے اپنے بزگروں کے خون پسینے پر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے تھے۔اس بڑی تحریک نے کسانوں کی نمائندگی کی اور خان اور سرداروں کے خلاف طبقاتی جدوجہد شروع کی۔اس تحریک نے قومی ،طبقاتی اور صنفی مسائل کی بنیاد پر اپنی جدوجہد کی بنیاد رکھی۔یہ تحریک1935 کے بعد تک بلوچستان کے سیاسی تناظر پر غالب حیثیت سے چھائی رہی۔1940ءتک اس تحریک کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں موجود رہے۔اسی تحریک کے زیرِ اثر 1950ءکے عشرے میں لٹ خانہ کے نام سے تحریک ظہور پذیر ہوئی اور اس نے ایک ادبی تنظیم بلوچی زبان و ادبہ دیوان کو جنم دیا۔
اسی دوران میں 1951-52ءمیں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بلوچستان شاخ قائم ہوئی ۔اس میں بلوچستان کی ہر زبان کے ادیبوں اور شاعروں نے حصہ لیا۔1954ءمیں جب انجمن ترقی پسند مصنفین پر حکومت نے پابندی عائد کردی تو اُس کی جگہ پر 1967ءمیں پاکستان بھر کے ترقی پسند دانش وروں نے عوامی ادبی انجمن کی بنیاد رکھی ۔1980ءکی دہائی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بلوچستان شاخ دوبارہ بحال ہوئی اور وہ کافی سالوں تک افتاں وخیزاں کام کرتی رہی لیکن کوئی اثرات مرتب نہیں کرسکی۔کیوں کہ وہ بلوچستان میں موجود قومی سوال کو طبقاتی مسئلہ کے ساتھ مربوط کرنے میں ناکام رہی۔اس لیے ایک ہمہ گیر ادبی تنظیم کی ضرورت درپیش آئی،جو صحیح معنوں میں بلوچستان کی نمائندہ ہو۔
چناں چہ کچھ دوستوں کی کوششوں سے سنگت کے پیش رو تنظیم کے بطور لوز چیذغ کے نام سے ایک تنظیم منظرِ عام پر آئی۔ یہ تنظیم 1997ءتک قائم رہی،تب ماہنامہ سنگت کی نسبت سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز کی بنیاد رکھی گئی۔یہ تنظیم دراصل مذکورہ بالا تمام ترقی پسند تاریخی، سیاسی،جمہوری، قومی اور سوشلسٹ روایات کا تاریخی و جدلیاتی انجذاب synthesis ہے۔یہ تنظیم وقت کی اہم ضرورت تھی۔کیوں کہ حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہی حیات آفریں ہوتا ہے۔اس کا ظہور ایک ایسے دور میں ہوا،جسے دورِ رجعت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔جب عالمی محنت کش تحریک بہت بڑی تاریخی پسپائی کے بعد خود کو سنبھالنے اور سمیٹنے میں مصروف تھی۔ترقی پسند قوتوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی اور دنیا یونی پولر کیپٹلزم کے سخت شکنجے میں جکڑی جارہی تھی۔ہر طرف رجعت،دہشت اور بنیاد پرستی کا بد مست شیطان رقصاں و فرحاں تھا۔
ان کڑے حالات کی تیز آندھی کے سامنے بڑے بڑے سورماﺅں کے چراغ گل ہوگئے اور انہوں نے جابروں، غاصبوں اور سامراجوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔سنگت اکیڈمی آف سائنسز ایسے ماحول میں ترقی پسند قوتوں، مزدوروں،مظلوم قوموں اور بے بس عورتوں کے لیے امید کا ستارہ بن کر ابھری۔سنگت نے ابتدا میں بہت ہی مختصر سی ترقی پسند قوتوں کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کیا ،بعدازاںلوگ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔یوں سنگت اکیڈمی سنگین حالات میں ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے کی حکمت ِعملی کے تحت اپنے تاریخی ارتقا کی منزلیں طے کرتی رہی۔علاوہ ازیں اس نے بہت سے نشیب و فراز بھی دیکھے ہیں۔لیکن اپنا سفر مسلسل جاری رکھاہے اور وہ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔
اس میں نظریے کی زیادہ سے زیادہ سرایت نے اس کی انقلابی جہت کو متعین کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔نوجوانوں کی بڑی تعداد سنگت میں شامل ہوتی گئی۔اس طرح سنگت اکیڈمی تطہیری عمل سے گزرتی رہی اور اس میں وہ تمام عناصر فلٹر ہوتے گئے،جو اس کے تاریخی و نظریاتی ارتقا میں مزاحم تھے ۔ان کی جگہ نئے عناصر لیتے رہے،جو اس کے لیے کارآمد اور مفید تھے۔سنگت میں تنقید و خود تنقیدی کا عمل ہمیشہ جاری رہا،جو اس کی Democratic Centralism پر دلالت کرتا ہے۔
چناں چہ اپنے تاریخی ارتقا کے دوران میں سنگت کا تنظیمی ڈھانچہ کئی ایک تبدیلیوں سے گزرا ہے۔بالآخر اس نے اپنا ایک بے مثال تنظیمی ڈھانچہ، ڈسپلن، منشور و آئین اور طریقِ کار وضع کرلیا ہے۔ سنگت کی رکنیت اس وقت 45 تک پہنچ چکی ہے۔سنگت کا تنظیمی ڈھانچہ، اسی ڈیموکریٹک سنٹرل کی بنیاد پر قائم ہے ۔
سنگت ہر ماہ کے پہلے اور آخری اتوار دو مختلف نشستوں کا اہتمام کرتی ہے۔ہر ماہ کے آخری اتوار کو پوہ زانت کے نام سے سنگت کے سیکرٹری جنرل کی زیرِصدارت ایک نشست ہوتی ہے۔پوہ زانت کی اس نشست میںمیں سائنسز،سوشل سائنسز، فن وادب،کلچر، سیاست،فلسفہ، مارکسزم، تاریخ،اینتھراپولوجی اور آرکیالوجی کے موضوعات پر لیکچر، مضمون و مباحث،سنگت ایڈیٹوریل، افسانے ،کتابوں پر تبصرے،کثیراللسانی شاعری اور قراردایں پیش کی جاتی ہیں۔یہ اجلاس صدرِ مجلس کے خطاب کے بعد اختتام پذیر ہوتا ہے۔اس میں شاعر، ادیب، دانشور، مزدور رہنما، کسان رہنما،طلبا و طالبات کی اچھی خاصی تعداد شریک ہوتی ہے۔پوہ زانت جہاںفکری،نظریاتی اور ادبی تعلیم کا بہت بڑا ذریعہ ہے وہاں یہ طبقاتی شعور کی فراہمی کا بھی بہت بڑا پلیٹ فارم ہے۔
سنگت اکیڈمی آف سائنسز کا دوسرا ماہانہ اجلاس،جو ہر ماہ کے پہلے اتوارکو منعقد ہوتا ہے،وہ بلوچستان سنڈے پارٹی ہے۔ بلوچستان سنڈے پارٹی ایک بہت بڑا ماس فرنٹ ہے،جس میں شاعر، ادیب، دانش ور، سیاست دان ،ٹریڈ یونین ورکرز، کسان رہنما ،طلبا او رطالبات شامل ہوتے ہیں۔یہ اکٹھ پہلے جمعہ پارٹی، پھر سنڈے پارٹی اور اب بلوچستان سنڈے پارٹی کہلاتا ہے۔اس ضمن میں شاہ محمد لکھتا ہے:
”ہم نے کوئٹہ میں ایک نیم سماجی ، نیم ادبی ، نیم ثقافتی اور نیم سیا سی پارٹی قائم کرلی، جس کا نام پہلے BJPتھا ،”بلوچستان جمعہ پارٹی“ لیکن بعد میں جب نواز شریف نے جمعہ ختم کرکے چھٹی اتوار کو کرلی تو ہم نے بھی اپنی پارٹی کا نام تبدیل کرکے )BSP بلوچستان سنڈے پارٹی رکھ دیا ۔“(1)
بلوچستان سنڈے پارٹی کا اجلاس ہر ماہ کے پہلے اتوار کو پروفیشنل اکیڈمی شیر محمد روڈ کوئٹہ میں باقاعدگی کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔(2)
بلوچستان سنڈے پارٹی کے اجلاس میں حالاتِ حاضرہ اور قومی و عالمی صورتِ حال پر غیر رسمی، بے تکلف اور عموماً غیر تحریری مگر کبھی کبھی تحریری بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔علاوہ ازیں اس میں انسان،سماج، تاریخ اور کائنات الغرض ایٹم کے معمولی ذرے سے لے کر کہکشاں تک محیط موضوعات زیرِ بحث آتے ہیں۔اس میں کبھی کبھار لیکچر بھی دیے جاتے ہیں اور قراردادیں بھی پیش کی جاتی ہیں۔یہ قومی،طبقاتی اور صنفی شعور فراہم کرنے کا بہت بڑا پلیٹ فارم ہے۔
سنگت نے دورانِ جدوجہد بلوچستان کے کلچر میں پہلے سے موجود قومی جمہوری اور سوشلسٹ روایات کی ترویج واشاعت کی ہے اور اسے عالمی جمہوری اور سوشلسٹ کلچر سے ہم آہنگ کیا ہے ۔بہ الفاظِ دیگر سنگت نے بلوچستان کو مارکسزم سے مربوط کیا ہے۔اس سلسلے میں سنگت نے’ پیپلز ہسٹری آف بلوچستا ن‘ سیریز کی تکمیل کی ہے۔’عشاق کے قافلے‘ سیریز ،جو بلوچستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے چیدہ چیدہ انقلابی جانثاروں کی بائیوگرافیکل سیریز ہے،کومکمل کیا ہے۔سنگت نے بلوچی زبان و ادب کی تاریخ کو جدلیاتی و تاریخی مادیت کی روشنی میں تحریر کرکے ایک سیریز کی شکل میںشائع کر کے عام قاری تک پہنچایاہے۔علاوہ ازیں سنگت نے پیپلز آلٹرنیٹو ایجوکیشن پالیسی اور پیپلز آلٹرنیٹو کلچر پالیسی بھی مرتب کی ہے۔اور وہ دیگر شعبوں میں بھی ایسی پالیسیاں مرتب کررہی ہے۔
سنگت نے اردو کے علاوہ قومی مادری زبانوں میں عالمی ادب اور روشن فکر تحریروں کے تراجم شائع کیے ہیں۔ یہ بلوچستان کی قومی و طبقاتی سوچ کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
سنگت اکیڈمی بلوچستان کی تمام زبانوں کو قومی زبانیں تصور کرتی ہے۔ وہ تمام زبانوں کو برابری کا درجہ دیتی ہے۔وہ کسی زبان کی امتیازی حیثیت کے خلاف ہے۔ یعنی وہ کسی ایک زبان کی دوسری زبانوں پرحاکمیت وبرتری کو ناجائز سمجھتی ہے۔اس لیے اس نے بلوچی رسم الخط اوراظہار و تحریر کی زبان کو فیوڈل خطابات و القابات، تکلفات اور طبقاتی بندھنوں سے آزاد کیا ہے۔ اس طرح سنگت نے اپنی تین دہائیوں سے زائد کی مدت تک محیط سرگرمیوں کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔
اس لحاظ سے سنگت اکیڈمی آف سائنسز بلوچستان کی واحد ادبی تحریک ہے، جو پیٹی بورژوا اور بورژوا تنظیموں، اکیڈمیوں، سوسائٹیوں اور اداروں سے یک سر مختلف ہے،جو سرکار، دربار اور سردار کی بیساکھیاں لے کر چل رہے ہیں۔ یہ سب تنظیمیں اور ادارے ریاستی امداد، کمک، گرانٹ اور انعامات و اکرامات کے رہینِ منت ہیں۔ یہ سب کے سب سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے ہر انقلابی تحریک کی راہ میں مزاحم ہیں۔ اس لیے یہ سب پیٹی بورژوا اور بورژوا تنظیمیں اور ادارے سرکاری نظریہ کے حاشیہ بردار ہیں۔
یہ پیٹی بورژوا اور بورژواتنظیمیں اور ادارے فن برائے فن کے نظریے کے قائل ہیں اور اسی عوام دشمن نظریے کا پرچار کرتے رہتے ہیں۔ یہ سرکاری کلچر کی نمائش میں سرکار کو خام اور پختہ مال فراہم کرتے ہیں۔ یہ سرکار کے لٹریری فیسٹیولز ، کانفرنسوں اور ادبی و ثقافتی اجلاس کے منتظم بنتے ہیں۔ یہ سرکار کی جانب سے ٹی وی، ریڈیو ، پریس کلب اور آفیسرز کلب میں مزین ہر جلسے، مشاعرے اور مذاکرے میں مہمانِ خصوصی یا صدارت کی مسندوں پر براجمان دیکھے جاتے ہیں۔ یہ اپنے فن وادب کے ذریعے فرد، طبقہ اور اقوام کا رول متعین کرتے ہیں کہ وہ کس طرح کیپٹلزم کی خدمت سرانجام دیں۔
جب کہ ان بورژوا اور پیٹی بورژوا تنظیموں کے مقابلے میں سنگت اکیڈمی آف سائنسز ڈرائنگ روم دانشوری کے کلچر سے کوسوں دور ہے اور اس کا اصل میدان عوام کی زندگی اور ان کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔ اس لیے یہ فن برائے فن کے نظریے میں نہیں بل کہ فن برائے انقلاب کے نظریے میں یقین رکھتی ہے۔ کیوں کہ ادب کا کام صرف تفریح فراہم کرنا نہیں ہے بل کہ اس کا کام دنیا کو تبدیل بھی کرنا ہے۔ سنگت مزدوروں، کسانوں، چرواہوں، ماہی گیروں، ملاحوں، کان کنوں، مظلوم قوموں
اورستم دیدہ عورتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ ترقی پسند انقلابی دانش وروں، طلبا اور طالبات کی بھی ترجمان ہے۔
سنگت پرولتاریہ اور کسانوں کے جمہوری انقلابی اتحاد میں یقین رکھتی ہے اور اس اتحاد کا رہنما پرولتاریہ کو سمجھتی ہے۔کیوں کہ پرولتاریہ ہی سوشلسٹ انقلاب کا ہراول دستہ ہوتاہے۔سنگت سٹیٹس کو کے خلاف انقلاب میں یقین رکھتی ہے۔کیوں کہ وہ ایک ایسے سماج کے قیام کی خواہاں ہے، جس میں پرولتاری ڈکٹیٹرشپ کے تحت طبقاتی برابری، قوموں کا حقِ خود ارادیت بشمول علیحدگی اور مردوزن کے درمیان صنفی مساوات کی ضمانت حاصل ہو۔
عالمی کیپٹلزم کے خلاف سنگت کی لڑائی اب تک جاری ہے اور کیپٹلزم کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ سنگت کی یہ لڑائی دنیا بھر کے ان ہزاروں، لاکھوں اور کروڑوں انقلابی دانش وروں کی لڑائی ہے،جو طبقاتی استحصال، قومی جبر اور صنفی نابرابری کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔

ریفرنسز
1۔شاہ محمد مری ۔ ملک محمد پناہ ۔ عشاق کے قافلے ۔کوئٹہ: سنگت اکیڈمی، 2022ئ۔جلد 27۔ص 128
2۔جاویداختر۔ دیدہ ورانِ بلوچستان۔خیر دین:حیردین ادبی سنگت،2023ئ۔ص

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے