تم !
صندل کے جنگل کی
بھینی سی
خوشبو
صندل کی
خوشبووالے
اس ساتھ کا
آج اک جام بنا ئیں
گھونٹ گھونٹ
خود کو پی جائیں
ایسے خواب سے
کیوں جاگیں ہم
اس تعبیر میں
مرنا جائیں ؟
تیزی سے جو
پھیل گئی ہو
ا یسی آگ ہو
اس اگنی کا دیا بنائیں
دیے کی لو میں
اتر نہ جا ئیں ؟
پورپورسے جل نا جا ئیں ؟
سب گلیاں
جس موڑپہ جاکے
رک جاتی ہیں
ایسا موڑہو
گلیوں گلیوں
اپنے آپ کو
کب تک کھوجیں
اس رستہ کے
اسی موڑپہ
اپنی ایک اک
کھوج کو
کھو دیں
اسی موڑ پہ
گم نا جائیں ؟