سمو کا حسن

زِ عشقِ آں رخِ خوبِ تو اے اصولِ مراد
ہر آں کہ توبہ کند توبہ اش قبول مباد

حُسن کیا ہے؟ ۔ میں نے اس سوال کا جواب کہاں کہاں نہیںکھو جا؟۔ کتابوں، لغاتوں، انسا ئیکلو پیڈیاﺅں اور ویب سائٹوں میں۔مگر اس کی کوئی تشفی بھری تعریف مجھے کہیں سے نہیں مل سکی۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تصور، اپنا اپنا بیان۔ میں نے جس بھی محب و عاشق کو سنا پڑھا وہ حسن کی اپنی تعریف و وضاحت لےے نظر آیا ۔ ہر qualitative مظہر کی طرح حسن کے بارے میں بھی کوئی مشترک و متفق فقرہ سامنے نہ آیا۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ حسن کو بیان ہی نہیں کیا جاسکتا ۔
حسن کیا ہے،یہ صرف میرا سوال نہیں ہے ۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ نے بھی اکثر یہ سوال خود سے ، یا کسی اور سے کیا ہوگا۔ مگر یہ شاید کوئی اکیڈمک معاملہ ہو ہی نہیں !۔مجھے تو اب یہ یقین بھی ہو چلا ہے کہ یہ لازمی نہیں ہے کہ عاشق حسن کے پنے تلے اور عام طور پر تسلیم کیے جانے والے مجموعے کو ہی دیکھ کر عاشق ہوجاتا ہو۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریخ میں حسن کے بارے میں تصور کبھی بھی یکساں نہ رہا۔
یہ تصور تہذیبی اقدار کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے۔ شاید ایک آدھ چیزیں جو مشترک رہی ہیں اُن میں جوانی ، بے جھریوں والی جلد، متناسب و سڈول جسم شامل ہیں۔نہیں نہیں ، ایسا بھی نہیں ہے۔یہ بھی کوئی قانون نہیں ہے ۔ ہم نے نیلسن منڈیلا کو بڑھاپے میں ایک معمر خاتون کے حسن سے متاثر دیکھا۔ بے شمار مثالیں دُھرانے سے بچنے کے لیے لفظ ”وغیرہ وغیرہ“ ایجاد کیا گیا۔
یہ بھی ضروری نہیں کہ ” جسمانی دلکشی“ہی کو حسن کے مترادف لفظ کے بطور مانا جاتا ہو۔ کہیںجسمانی دلکشی یا اچھی شخصیت کو حسن کہا جاتا ہے جس میں عقلمندی،وقار، کرشمہ، سا لمیت،متناسبیت اور لطافت اور خارجی حسن آتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عمومی طور پر عام اوسط انسانوں ہی میں سے کوئی حسین یا حسینہ ہوتی ہے۔۔۔۔ ہر انسان دلکش ہوتاہے۔
ہمیں اِس عنوان سے نمٹنے کے لیے زور زبردستی کر کے محبت اور حسن کو الگ الگ کرنا پڑے گا ۔ یہ دونوں مظاہر دنیا میں سب سے پیچیدہ اور مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ زیادہ تر تویوں ہوتا ہے کہ محبت پہلے ہوجاتی ہے ،تشریحیںبعد کی ہوتی ہیں، حسن اور بے حُسنی کی کھوج بعد کی ہے، اُسے الفاظ وفن کی پوشاک پہنا نا بعد کی بات ہے ۔
مثلاً سمو مائی کے بارے میں روایت ہے کہ شاید وہ بہت زیادہ گوری نہیں تھی بلکہ سوزارنگ اور سانولی تھی ۔اس کے باوجود سمو کے چہرے اور قد و قامت میںایک ایسی کشش و جاذبیت تھی کہ اس نے پاکوں کے بھی پاک روح کو اپنی گرفت میں لے لیا اور جسے دیکھتے ہی مست جیسے” حسن جا نچکار“ کی روح و جسم کلٹی ہوگئے ۔ یہاں پر ہم محمد سراج مسوری بگٹی کا تحریرکردہ ایک قصہ نقل کرتے ہیں جو اس نے اپنے قبیلے کے بزرگوں سے سنا ہوا ہے۔
ہوا یوں کہ ایک دفعہ وڈیرہ علی ہان مری اپنے قبائلیوںکے ایک گھڑ سوار دستے کے ساتھ مری کے علاقے سے گزر رہا تھا ۔ مسوری بگٹیوں کا ایک وڈیرہ ہیبتان خان بگٹی بھی اُس کے ساتھ تھا ۔ وہ ایک بڑے تالاب کے قریب سے گزرے ۔ تو انہوں نے مریوں کی کئی خواتین کو پانی بھرنے کے لیے تالاب کی طرف جاتے ہوئے دیکھا ۔ علی ہان مری نے ہیبتان بگٹی سے کہا کہ مقدم! ان خواتین میں مست کی محبوبہ سمو بھی موجود ہے ۔ ہیبتان نے سمو کو ایک نظر دیکھنے کی خواہش ظاہر کی ۔علی ہان نے کہا ہاں میں اس کو بلاتا ہوں ،وہ آئے گی ۔ چنانچہ علی ہان نے ذرا آگے جا کر خواتین سے کہا ©©،” بہنو ! مائی سمو کو کہو کہ وہ ذرا آئے ، بزرگ شخص ہیبتان مسوری اس کو دیکھنا چاہتا ہے“ ۔ چنانچہ سمو عورتوں کے گروہ سے نکل کر علی ہان اور ہیبتان کی جانب آ گئی ۔ اس نے ادا (بھائی) کہہ کر مقدمین کو خوش آمدید کہا اور دُراہی (مصافحہ) کر لیا ۔ پھر ان کی اور ان کے بال بچوں کی خیر خیریت پوچھ لی ۔ ہیبتان نے جواباً سمو کی خیر خیریت پوچھ لی ۔ اس کے بعد ہیبتان نے کہا ،”گُہار (بہن ) میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے اور تکلیف دی کہ مست آپ کے حسن کی بہت تعریفیں کرتا رہتاہے ۔ مجھے وڈیرہ نے بتایا کہ آپ ان خواتین میں موجود ہیں تو میں نے سوچا کہ آپ کو ایک نظر دیکھ لوں “۔ سمو نے کہا ،”ادا ! مست زوراخے مناں اِکھریں صورت تہ نیستیں، مں ہمشاں کہ تئی چمانی دیمایاں ۔ (بھائی ! مست زورآ ور ہے ، میں اس قدر خوبصورت تو نہیں ، میں تو یہی ہوں جو آپ کے سامنے ہوں)۔
مجھے لگتا ہے کہ سمو کا یہی فقرہ حُسن کی یک فقرہ ای ڈیفی نیشن ہے :”مست زوراخے“ ۔ عاشق کو دلیل کہاں قائل کر سکتا ہے ۔ کبھی کبھی اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ آبجیکٹ و منظر یعنی یار کا چہرہ، اوزار یعنی عاشق کے دیکھنے والے کی آنکھ اور سبجیکٹ یعنی دیکھنے والے کا دماغ، اِن تینوں میں فیصلہ کن کو ن سا ہے ؟۔ شاید تینوں۔
” بقول ہیبتان مسوری ،سمو ایک درمیانے قد کی دلکش سوزا رنگ خاتون تھی “۔
مجھے ایک اور سوال نے بھی گھیر رکھا ہے ۔ایسا کیوں ہے کہ مست کی سمو، اور مجنوں کی لیلی گوری نہ تھیں۔ وہ سوزارنگ کیوں تھیں؟۔ ہماری شاعری میں بھی محبوبائیں سوزارنگ ہوتی ہیں۔ سَوزو، سوزاں پری ۔۔۔کیا ہم سوزارنگ پسند کرتے ہیں؟۔
یہ تو شاید ہم نہ بتا سکیں کہ حسن کیا ہے،ہم تو بس یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کیا کیا کر سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مظہر ہے جو فوراً ہی جذبے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ حسن کی نشانی یہ ہے کہ اکثر یہ تلاش کرنے سے نہیں، بلکہ بس اچانک مل جاتا ہے ۔اور دیر سویر دھوبی کے کپڑے کے تھڑے پہ دھوئے جانے کی طرح یہ اپنے متاثرہ شخص کو پٹختا چلا جاتا ہے ۔ خوب grindکر کے ، ڈی کلاس کر کے ،پھراُس کا راہنما بن جاتا ہے ۔ایک ایسانور جو ہمیں ظلمتوں میں بھٹکنے نہیں دیتا۔ اور ظلمتیں تو ہمیشہ باطل کی ملکیت ہوتی ہیں۔ایک نہ چُبھنے والی روشنی۔ ملائم، اور سکون بخش روشنی جس میں کیف ہے خمار ہے۔ مُسکان میں سلگتا ہوا دل ہے ، ایک گم گشتہ انداز میں تڑپتی ہوئی روح ہے ۔۔۔۔ حسن نظر آتا ہے آنکھوں کے بغیر بھی ، سنائی دیتا ہے کانوں کے بغیر بھی ۔۔۔۔ یہ ابدی کھلا گلستان ہے ۔ گاتے ،کلیلیں کرتے دائمی پروازکرتے ”ہیروں“ کا ڈار ہے ۔ حسن کی اپنی ایک نورانیت ہے۔ حسینہ کے چہرے پہ نقاب ہو نہ ہو ، حسن کے چہرے پہ کوئی نقاب ہو نہ ہو مگر عاشق کو ہمہ وقت اس پہ حجاب نقاب دبیز ہی لگتا ہے ۔حسن ہدایت ہے ، ہدایت نامہ ہے، ہدایت کار ہے۔ حسن کو بقا ہے دوام ہے، اسے کبھی موت نہیں آتی۔ حسن ابدی ، ابدمان اور ابدیت۔
حسن کا بیانیہ بہت سی جہتیں، بہت سی صورتیں رکھتا آیاہے ۔ اب تو خیر ہم کپٹلزم میں جی رہے ہیں۔ جہاں بورژوازی کے مسلط کلچر کے تحت لگتا ہے سب چیزیں بدل کر رہ گئی ہیں۔ کپٹلزم میں حسن اب ایک کوالی ٹیٹو مظہر نہیں رہا بلکہ اِس کو کوانٹی ٹیٹو بنایا جارہا ہے۔ پتہ نہیں حسن ناپنے کے لیے کیا کیا او زان و پیمائش وضع کیے گئے ہیں ۔کہتے ہیں کہ نام نہاد ماہرین، ٹخنوں کو تولتے ہیں ، پنڈلیوں کی نظریاتی سرحدیں ناپتے ہیں ، رانوں کا الٹرا ساﺅنڈ کرتے ہیں ، کولہوں کے بھنور دیکھتے ہیں ، بانہوں کا درجہ حرارت ناپتے ہیں ، ہونٹوں کی پٹوار گری کرتے ہیں ، رخساروں کو اعشاری نظام میں دیکھتے ہیں ۔۔۔ اور اس طرح کسی کو ملکہِ حسن قرار دیتے ہیں ۔ارے گز تو کپڑا ناپنے کے لیے ہوتا ہے ، لیٹر پیٹرول ناپنے کے لیے ۔ مگر،حسن کو ناپنا؟۔۔۔لعنت ہے ناپ تول پہ ۔ لعنت ہے سرمایہ داری نظام پہ ۔لعنت ہے اِن پہ۔ حسن کی بے حرمتی ہے یہ ۔ حسن ہی اُن سے نمٹ لے گا ۔
حسن تو ایک ضرورت ہے ، ایک مظہر ہے ،ایک وصف ہے ، ایک کیف ہے ۔ہمارا خیال یہ ہے کہ حسن وہی جسے محبوب چن لے ۔اب کیا کیا جائے ۔ آپ کتابوں پہ کتابیں لکھ ماریے مگر ایک شخص یہ کہہ کر گویا آپ کی ساری علمیت کا نچوڑ نکال دے گا:
سمّلئے دستانی نغن وہشاں
تونڑیں کہ بنّیں تافغاں پشّاں

سمو کے ہاتھوں کی پکی روٹیاں لذیذ ہوتی ہیں
خواہ پتھر کے توے پہ پکی ہوں
دوسرے لفظوں میں مست ایک اور بات کر رہاہے ،کہ آپ ساری دنیا کے ڈگری یافتہ حسن دانوںکو ان کی عریاں مشینوں میٹروں کے ساتھ بٹھا لیں ، مہینوں ان کے بے دماغ سر جوڑلیں ، ہزار بے معنی تشریحات اورلاکھ بے بنیاد وضاحتیں سن لیں ، مقالے پڑھ لیں مگر حسن سمو ہے، بس !۔ حسن حسینہ سے ہوتے ہوئے عاشق کے دل میں پیوست ہوجاتاہے ۔عاشق کی حسینہ کچھ بھی کہے اچھا لگتا ہے، وہ کچھ بھی پہن لے اُس پرجچتا ہے وگرنہ بلوچی فوک کے مطابق ، ململ اور جگمگ کرتا لباس تو ہر ایرے غیرے نے پہن رکھا ہوتا ہے۔
توپھر، حسن کا سب سے بڑا ”جانچن ہار“ کون ہے ۔ جنس زدہ ماہر؟ ،اُس کے بے مروت پلاسٹک کے آلات ؟، زرخرید میڈیا ؟، یا،بے شعور دانشور؟ ……..نہیں نہیں۔ حسن کا بیرو میٹر محض مخصوص آنکھ ہوتی ہے ۔ وہ آنکھ جو بہہ بہہ کر حسن کے حسین ہونے کی گواہی دے ۔وہ آنکھ جو راتوں کو دیر تک لگنے سے انکاری ہو ۔ اُسی کی بات معتبر ، اُسی کا معیار بلند اور اُسی کا فیصلہ حتمی ۔یاد ہے ساری دنیا نے کہا تھا سمو حسین نہیں ہے، ساری دنیا نے کہا تھا لیلیٰ حسین نہیں ہے۔ …….. مگر ہم آج تک سمو اور لیلی کے گیت گاتے ہیں ۔دنیا نے اس سلسلے میں سارے عرضی نویسوں فلاسفروں، ایٹم فروش سائنس دانوں اور میرینز کمانڈروں کی صدارت میں مشاعرہ پڑھنے والے شاعروں کو مسترد کردیا، اور صرف مست اور مجنوں کا فیصلہ مانا ہے ۔
مگر ہاں، یہ ضروری ہے کہ جانچنے والا عاشق ہو،سوداگرنہ ہو ۔کیونکہ اگر جانچنے والا سڑے ہوئے بدبوبھرے دل والا ہو، اُس کی اپنی روح اور رویہ گلا ہوا ہو تو پھر حسن تو ٹکے کی چیز بھی نہ ہوگی۔
حسن محبت ، حسن کشش، حسن جاذبیت،حسن وابستگی، حسن نزاکت، حسن تکریم، حسن بقائے باہم کا مبلغ ……..۔
اور پھر مست تﺅکلی سے بڑا حسن شناس بھلا اور کون ہو سکتا ہے کہ حُسن ہی تو مست جیسے حکیموں ، داناﺅں اور دانشوروں کا مندر ہے ۔ مست ہی حسن کی الوہیت پہ یقین کر سکتا ہے ۔ آئیے ، اس کی شاعری میں سے (سمو کے) حسن کی توصیف میں کہے گئے الفاظ چُن لیں:
”سمو قوسِ قزح ہے جو پانی بھرے بادلوں میں آن کھڑی ہوتی ہے ۔بارش کے بعد کے منظر کی ہم شکل ہے اور بادِ سحر کی طرح خوش کن مہ لقا ہے ، سرحدوں کی مالکن، گھنی سنگین و ناگن جیسی زلفوں کی مالکن ہے۔ خوش قد ہے ،آہو گردن ہے ۔۔۔۔ چہرہ روشن چراغوں جیسا ، زلفیں بل کھاتے سانپوں کی طرح ، جنگلی آہوﺅں کی طر ح نہ سدھائی ہوئی۔۔۔۔ تیز جیسے تیغِ برّاں۔۔۔۔ اس کے کاغذ جیسے باریک لب لُو کی طرح جلا ڈالتے ہیں ۔۔۔۔ اس کے سیپی جیسے دانت شورہ کی طرح پکا دیتے ہیں ۔۔۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں پہاڑوں پہ ٹھوکریں کھلواتی ہیں ۔۔۔۔۔ چودھویں کا چاند ہے جو پہاڑ کی چوٹی پر سے فروزاں ہوکر، اور آسمان پہ بلند ہو کر ہر سو چاندنی پھیلاتا ہے ۔۔۔ بارشوں کے بعد منظر اتنا حسین ہو جاتا ہے کہ اس سے سمو کی صورت یاد آجاتی ہے ۔۔۔۔ خوبصورت بدن پہ ریشمی لباس ہے ۔۔۔۔ اس کی صورت دور دراز سے آنے والے بادلوں بارشوں کی سی ہے ۔۔۔ گہری زلفوں کے جاد (پراندے) ہیں پتلی کمر تک، سمو صحت بخش پہاڑی درختوں کا میوہ ہے ۔۔۔۔
” سمو شراب بھرا جام ہے ، سموگرم ترین کوہِ زین نامی پہاڑ کی چوٹی پر اگے ہوئے سایہ دارپیپل کے درختوں میں سے ایک ہے ۔۔۔۔ سمو انار کا احمریںپھول ہے ، سمو پہاڑی ہرن ہے ، سمو اندھیروں میں چراغ ہے ، گِھر گِھر کر آنے والے بادلوں کی ایک بدلی ہے ۔۔۔۔ اس کی آنکھیں لال ، جیسے مہندی دی ہوئی ہوں اور جیسے رات کو ہلکے بادلوں میں بجلی چمکتی ہو ۔۔۔ پر خمار آنکھوں سے ایسی سرخی چھلکتی ہے کہ عاشق بھسم ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔ تمہاری چال میٹھی ، ہنسی نقرئی ، تمہاری آواز جیسے صبح سویرے بجتاستار ۔۔۔۔ سینے پہ تاویت جیسے بادل میں بجلیاںتالیاں بجاتی ہو ں۔۔۔ کونج جیسی گردن پہ خمیدہ طوق ، میری دوست کے سینے کی اترائیوں پہ تین تہوں والے تاویت لٹکتے ہیں ۔۔۔ ۔،اس کی ہنسی کتنی شیریں ہے ، آنکھ ایسی دلکش جیسے ہزار نوع کے سرمے لگا رکھے ہوں ۔۔۔ وہ نکلتی ہے اپنی شادی والے خیمے سے اور لال تاخ کی خوشبوئیں اس کا پیچھا کرتی آتی ہیں ۔۔۔۔وہ اتنی خوبصورت ہے جیسے لیموں کے میوے ہوں۔۔۔ ۔ اس کے دانت اس قدر خوبصورت ہیں گویا قطار میں برسنے والے سفید بادل ہوں ۔۔۔۔ میٹھے ہیں لب جیسے بھیڑ کا لذیز دودھ ۔۔۔، سینے کے دونوں پھول کاٹ ڈالتے ہیں ۔۔۔۔ سرخ خماری آنکھوں والی سمو حسین ترین سہیلیوں میں بھی لعل ہے ۔۔۔ ۔،سونے جیسے چہرے پہ کیا سجی ہوئی آنکھیں ہیں!!۔۔۔۔، ذرا سمو کی سی صورت کی کوئی دوسری عورت تو تلاش کر کے دکھاﺅ ، ۔۔۔۔۔ وہ پیسوں میں چاندی ہے ، اشرفیوں میں سونا ہے ۔۔۔ اس کی چال کبوتروں کی ہے ، اس کی زلفوں سے لونگ اور عطر کی خوشبو آتی ہے ، وہ بال پیچھے باندھتی ہے ۔۔۔ سمو ،جیسے بارشوں کے موسم کی ہلکی ہوا میں پتے لرزتے ہوں ۔ اس کی شاخیں(زلفیں) زامر کے درخت کی لمبی لمبی شاخوں کی طرح زمین کی طرف لہراتی ہیں ۔۔۔۔، میری محبوبہ تازہ ہے، تازہ ترینوں میںسے تازہ ترین سے بھی زیادہ تازہ ۔۔۔۔
”وہ میدانی ہرن ہے ۔۔۔ میں نے اسے علاقوں میں جھومتے دیکھا ہے ۔۔۔۔ تمہارے گھنے پراندے کے اوپر لگے ہوئے (زیور) سونے کے ہیں ۔۔۔۔ سمو تو ایک لعل ہے ، اس کی ساخت میں کہیں کوئی عیب کوئی بے ترتیبی نہیں ، سارا ٹیڑھا پن جیسے ماہر تیشہ گر نے نکال دیا ہو ، جیسے سارے بل (ماہر صناع نے ) نکال دیے ہوں ۔۔۔۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ آنکھوں کے کنارے سرخ ہیں ، ناک ستواں ہے ، ابرو باہم ملے ہوئے ہیں ۔۔۔۔ قربان جاﺅں تمہاری نرم رفتاری پہ، شیریں قہقہوں پہ ، تمہاری خوشبوﺅں پہ ، ۔۔۔۔ دونوں ہاتھوں کی مُندریاں آگ کی طرح فروزاں رہتی ہیں۔۔۔ کشیدہ کی ہوئی قمیص کو جڑواں پستانوں نے اوپر تھام رکھا ہے ۔۔۔ وہ بلند و کٹھن چٹانوں پہ اُگا لونگ کا نازک پوداہے ۔ ایسی خوشبوئیں جیسے ھُمب کا پودا خوشبو دیتا ہو ۔ انہی خوشبوﺅں نے تو میرے سینے کی قاتل چبھن کو ٹھنڈا کردیا اور میری آنکھوں کی تہوں سے پردے ہٹا دیے ۔۔۔۔ وہ تو شہنشاہی باغوں میں لیموں کا درخت ہے جس کی شاخیں اچھی ہیں اور رنگ و صورت مصری کی طرح میٹھی ہے ۔۔۔ سینے کے پھول (پستان) روح چھیننے والے ہیں ۔۔۔۔ اس کی پرخمار آنکھوں سے بجلیاں کوندتی ہیں ۔۔۔۔ وہ بہشت کے لیموﺅں کی طرح لذیذ ہے ، وہ مکران کے آم اور انگوروں کی سی شیریں ہے ۔۔۔ وہ پری ہے یا عرشی فرشتہ ۔۔۔۔ تمہاری چال سلامت رہے ، حدیث جیسی گفتار سلامت رہے ، قہقہے سلامت رہیں۔ میں تمہاری چال کی خاطر کوہلو اور کاہان بخش دوںگا۔ میں تمہاری چال کی خاطر اپنی آنکھیں قربان کر دوںگا ۔۔۔
”وہ جنگلی ہرن کی طرح دور بھاگتی ہے ، نو خیز مہریوں کی طرح تیز ہے ، مدھر دھن والی شہنائی جیسی آواز ، چندھیا دینے والی مہندی لگاتی ہے ۔۔۔ قریب المرگ مریضوں کو تندرست کرتی ہے ، اڑتے ہوئے پرندوں کو ہاتھ سے پکڑتی ہے ، پاگلوں مجنونوں کو صحت مند بناتی ہے ، اور ہوشمند کو پاگل بناتی ہے ۔ وحشی ہرنوں کو نرم رفتار بنا دیتی ہے ۔۔۔۔ “۔
***
مست عظیم ہے کہ اُسے اس بات کا ادراک ہے کہ حسن تعریف کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے ۔بلا شبہ حسن مقدار نہیں ، معیار ہوتا ہے ۔ حسن وہ دوشیزہ دیوی ہے جس کی پرستش ہمارے آباﺅ اجداد کرتے آئے ہیں ۔
عشاق اپنی دوست کے حسن کی توصیف اپنے اپنے انداز میں کرتے چلے آئے ہیں ۔ ان میں کئی لوگ یہ کام بہت ہی فطری انداز میں بلا تصنع اور بے ساختہ کرتے ہیں ۔ مست انہی عشاق و شعرا میں سے ایک ہے ۔ اُس کے ہاں بلا کی بے ساختگی ہے ۔ حسن کا اُس کا بیانیہ بہت ہی ڈائریکٹ ، واضح اور حتمی ہوتا ہے۔نقطہ ِنظر بہت سادہ۔ اُس کے تصورات فطری طور پر اس کے ارد گرد سے مطابقت رکھتے ہیں ۔مست تو خانہ بدوش زمانے کا عاشق و شاعر ہے۔ فطرت اور فطری حسن ،اور ساد گی ہی اس کی روح کے سکون کو قتل کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں ۔
مست اپنے محبوب کے حسن کو مکمل پاتا ہے ۔۔۔ حسن تو مکمل ہی ہوتا ہے ۔
اورمحبوب کے حسن کو صرف محب ہی تلاش کر سکتا ہے ۔ صرف وہی اُس کی داد دے سکتا ہے ، وہی اُس کی بلائیں لے سکتا ہے اور وہی اُس پہ جان دے سکتا ہے ۔ دوسری ساری خلقت عامی بن جاتی ہے ، اُمی بن جاتی ہے ۔ دوسروں کی آنکھیں وہ Wavesپکڑ ہی نہیں سکتیں ، رسیونگ سٹیشن جام ہو جاتا ہے سب کا ۔ ایک ہی وجود ،اور اس کا ایک ہی ثناخواں۔ دوسروں کو بے شک وہ کالی ، بھینگی نظر آئے ، توتلی ، قبیح نظر آئے ۔ مگر محبت کرنے والا اُسے کامل ہی دیکھتا ہے ۔ مست کی سمو تو ویسے ہی تقدیس بھری تھی ۔ وہ تو خلیاتی سطح تک کامل تھی۔۔۔ حتمی مکمل ، مکمل مکمل ۔ کہیں کوئی ٹیڑھ ، کوئی جھول ، کوئی نقص نہ تھا ۔
دوازدہیں بنداں نیستنی عیوماں انگھاں
(اس کے کسی بھی عضو میں کوئی عیب نہیں )
مست اپنی سمو کو لاثانی قرار دیتا ہے ۔سمو کی کوئی اور مثال نہیں ، کوئی اور نظیر نہیں ۔
سملئے لوڈاں تی جنے کاہانا نہ خاں
(سمو کی مدھر چال والی کوئی دوسری عورت کاہان میں کبھی نہ ہو گی )
اور
پولغا سمو ئے بدل پیداشہ نواں
(ڈھونڈو بھی تو سمو کاثانی نہیں ملے گا )
مست حُسن کے لیے بلوچی کے جمیل ترین الفاظ استعمال کرتا ہے ۔ اس کے امثال ، ضرب الامثال ، استعارے ، تشبیہات ، سب بلوچی زبان اور بلوچی سماج کے وسیع خزینے کے موتی ہیں ۔۔۔حسن اور بلوچی ہم معنی، حُسن اور بلوچی ہم جولی اور ، حُسن اور بلوچی ہم سفر۔ بلوچی سادہ ، بلوچی فطرت کے قریب ، بلوچی سچی ، بلوچی بھاری ، بلوچی معزز، بلوچی شیریں ، بلوچی میوزک، بلوچی شہد وشیر ، بلوچی عمیق ۔۔۔ بلوچی بہت بڑی زبان ہے ۔اس بڑی زبان کے لیے شایانِ شان تھا مست ،اور مست کے شایان شان تھی دوستِ مست۔اور اِن سب کا شایان ِ شان تھا حسنِ دوست ِ مست !!

0Shares
[sharethis-inline-buttons]

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*