اک کشاکش میں گویا ہے فکر جہاں
جدلیاتی ہے پیکار برپا یہاں
ہر قدم آگہی ، کارواں ہے سفر
ہر گھڑی کھوج میں اک نیا کارواں
تم نظر سے بھلے دور ہوتے گئے
ہونہ پائے کبھی دل سے ہم بدگماں
شیخ جی آپ تو غور کرتے نہیں
چھو رہا ہے بشر گوشئہ آسماں
ہم ہنسی میں اڑاتے رہے رنج و غم
سوز الفت سے جلتا تھا درد نہاں
کوکتی کوک کوئل ، سنی ہے ابھی
لو اٹھا حسرتوں کا وہ پھر سے دھواں
علم کی جستجو ہی میں فردا ترا
پاﺅ گے اپنے قدموں تلے کہکشاں
فرصتیں ، قربتیں ڈھونڈتی تھیں مگر
شوق ہائے تمنا ، بجھے سے نشاں
سوچنے ، بولنے پر ہے قدغن کڑی
بھول جاتی ہوں منہ میں کبھی تھی زباں
رت بدلنے لگی ، گل کترنے لگی
پھر ہوئے سوچ کے بحر و بر بیکراں
دل نشیں ،مہ جبیں ، عقل کے ہمنشیں
کھو گئے ہیں کہاں ہم نفس پرفشاں
ناتوانی میں کچھ یاد باقی نہیں
تھے ہمارے کبھی بال و پر بھی جواں
نارسائی کے پیکان چبھتے رہے
وقت مرہم نہ ہو صبر آئے کہاں
وقت کے دوش پر پھر اڑے پل سبھی
اک فنا زد میں سارا زمان و مکان
سوچتے تھے جہاں میں کوئی دکھ نہیں
تیری فرقت میں جانے لگی اپنی جاں
گفتگو کا قرینہ عجب لالہ رخ
بات کرتے ہیں جیسے کڑی ہو کماں