سنہرے …. ڈوبتے سورج نے
قرطاس فلک پر
اک عجب تصویر کھینچی ہے !
مگر تصویر میں جو رنگ برتے ہیں شعاعوں نے
وہ کچے ہیں !
انہیں الفاظ میں محفوظ کر کے
آنے والے منظروں کی نذر کرنا
انتہائے فن پرستی بھی ہے
خلاقی بھی
اور فن کی دیانت بھی
عبادت بھی
جو بادل دور ہیں
لاکھوں کروڑوں کوس پر ہیں
اور جو نزدیک ہیں
ان کو اگر چُھولو
تو پوریں رنگ جائیں سات رنگوں میں !
قریب و دور میں جو فاصلہ ہے
اس میں گہرا اور نیلا اور چمکیلا فلک یوں پرسکوں ہے
جیسے تاحدِ نظر پھیلے سمندر پر سے جب کشتی گزر جائے
تو وہ آسودگی کی سانس لیتا ہے!
جو بادل دور ہیں
اب تک طلائی تھے مگر اب زرد ہیں
اور جو نزدیک ہیں
اب تک گلابی تھے مگر اب شعلہ وش ہیں
اور نیلا آسماں اب سبز ہے…..
اب سرمئی ہے……
اب فقط لا انتہائی کے خلا کا ایک صحرا ہے
جو بادل زرد تھے
اب کھلتے جاتے ہیں
جو با دل شعلہ وش تھے
بُجھتے جاتے ہیں
ادھر مشرق سے جو سیلابِ شب اُمڈاہے
سناٹے کی لہروں کی زبانوں سے
گئے خورشید کی اقلیم فن کو چاٹ لیتا ہے
مگر طغیانِ تاریکی کے اس آشوب میں
پہلا ستارہ آسماں پر جب چمکتا ہے
تو وہ اپنی ہنسی پر ضبط کرتا ……
نرم سر گوشی میں کہتا ہے
کہ سورج ڈوبتا کب ہے !