بلوچ سامراج دشمنی کو انگیخت و انگیز کرنے میں سب سے اہم عنصریہ تھا کہ یہاں نیم فیوڈل، ماقبل فیوڈل پیداواری رشتے تھے۔ ایک طرف مصیبت زدہ مظلوم عوام الناس تھے اور دوسری طرف استحصال کے فیوڈل صورتوں کے ساتھ ساتھ اُن کے اتحادی کے مسلط کردہ کالونیل کپٹلسٹ رشتے تھے۔۔

یہ تو کمال بات تھی کہ کپٹلزم نے فیوڈلزم سے یاری کرلی تھی۔ (بعد میں تو امریکہ اور سعودی‘ امریکہ اور شاہِ ایران شاہی اردن شاہ افغانستان۔۔ ہر جگہ یہ اتحاد نظر آیا)۔اس طرح اب اگر آپ فیوڈل دشمن تھے تو آٹومیٹک طور پر آپ کو سامراج دشمن ہونا تھا۔ اور اگر آپ سامراج دشمن تھے تو پھر خود بخود فیوڈل و سردار دشمن ہونا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا تضاد تھا جس نے بلوچ سامراج دشمنی کو مہمیز دی۔

بلوچ اور انگریز کے بیچ ایک اور تضادبھی تھا۔ سابقہ سیاسی روایتی اداروں اور انگلینڈ کے جدید کالونیل انتظامی سٹیٹ سیاسی اداروں کے بیچ تضاد۔

ہماری سامراج دشمنی میں تیزی کی تیسری بڑی وجہ یہ تھی کہ انگریز کی طرف سے بھاری ٹیکس لگائے گئے تھے۔ یہ ٹیکس خان، جام اور سردارکے بھاری ٹیکسوں کے علاوہ تھے۔ اور پھر عام لوگوں سے جبری مشقت لی جاتی تھی۔

ان سب پر بھاری یہ بات کہ پہلی عالمی جنگ میں انگریز نے دور دراز محاذوں پر لڑنے کے لیے بلوچ میں سے سپاہیوں کی جبری بھرتی شروع کردی تھی۔

اس کے علاوہ بلوچ کے ہاں یہ بات بھی موجود تھی کہ اس کے پاس روایتی جنگجوئی کی شاندار نفسیات تھی۔ اور ماضی میں غیر ملکی حملہ آوروں کے خلاف فوری مسلح مزاہمتوں کی داستانیں موجود تھیں۔ (1)۔

انگریز سامراج کے خلاف بلوچ جدوجہد آزادی اُن عالمی حالات سے بھی سخت متاثر ہوئی جو1905کے روسی انقلاب سے وجود میں آئے۔ ان میں ایران، ترکی، انڈیا اور افغانستان میں انقلابی تبدیلیاں شامل تھیں۔ اور پھر عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب تو اتنے بڑے اثرات لایا کہ اُس پہ ایک الگ چیپٹر لکھنے کی ضرورت ہے۔

بہرحال، 1918کے زبردست عوامی ابھار اور خونریز اور ہیروئک جنگوں کے باوجود ہم ناکام ہوئے تھے۔اُس کی بڑی وجوہات یہ تھیں:۔

۔1۔ بلوچستان معاشی سماجی، سیاسی اور ٹکنالوجیکلی بہت پسماندہ تھا۔ اس کے مقابلے میں جو قوت تھی وہ کالونیل کپٹلزم کے ساتھ جڑے ہوئے مقامی فیوڈل اور نیم فیوڈل رشتوں کی مضبوط گرفت لیے ہوئی تھی۔

۔2۔ بلوچ مسلح مزاہمتی تحریک بہت خود روتھی، ملی ٹنٹ قبائلی روایتی جذبات پہ مبنی تھی۔ ایسے حالات ہی نہ تھے کہ انفرادی قبائلی کے بجائے یہ ایک وسیع پیمانے کی قومی تحریک بن پاتی۔ اور پھر انگریز نے بہت عقلمندی کے ساتھ قومی ساخت کے قدرتی ارتقا میں مداخلت کی۔

۔3۔ برطانیہ نے آکر ترقی کی ایک غیر مساوی تقسیم مسلط کردی۔ اُسی وجہ سے برطانیہ دشمن قومی مزاہمت غیرمساوی ہوگئی۔ یوں قبائلیت اور سردار یت مضبوط بھی ہوئیں، اور برطانیہ دوست اشرافیہ (elite) بھی وجود میں آگئے۔ یعنی اگر کپٹلزم تھوڑی بہت آبھی گئی تو بھی شمال اور شمال مشرقی بلوچستان میں آئی جبکہ دوسرے علاقوں میں انگریز جان بوجھ کر فیوڈل رشتوں اور ازکار رفتہ برادری نظام کو مضبوط کرتا رہا۔

۔4۔بلوچوں کے اندر کوئی سیاسی پارٹی نہ تھی جو عوام الناس کو سامراج کے خلاف ایک ہی پرچم تلے متحد اور متحرک رکھ سکتی۔

۔5۔ خودقبیلے میں جنگی نظام ایک سٹینڈنگ آرمی جیسا نہ تھا۔ بلکہ یہ خودرو، ہنگامی نیم منظم اور عدم مرکزیت والا تھا۔

***

مصری خان،کھیترانڑ سردار کا بھائی تھا اور رکھڑیں پوسٹ پر لیوی تھانیدار تھا۔ انگریز کے بقول وہ ”بہت کیریکٹر اور اثر والا شخص تھا“۔ یہ بھی انگریز ہی کی اطلاع ہے کہ وہ بہت سال پہلے بھی کابل میں پناہ گزیں رہا تھا اور 1905میں وہاں سے واپس آگیاتھا۔

اب اس نے 27فروری 1918کو لیویز کا بڑا عہدہ چھوڑ دیا اور یکم مارچ کو مری بہادروں سے جاملا(2)۔وہ فورٹ منرو اور ماوند کی لڑائیوں میں شامل رہاتھا۔ اس کے بھائی سوبدار خان نے بھی ان جنگوں میں حصہ لیا۔

آخری ماوند جنگ جب شکست پہ منتج ہوگئی تو مصری خان بگٹی علاقہ چلا گیا۔ اور پھر اپنے بھائی کے ہمراہ کندہار چلا گیا۔ اور وہاں سے کابل سردار عبدالقدوس خان کے ساتھ۔(3)۔

کابل میں سوویت سفیر کا نام”سُورِتس“ تھا۔اُس نے ایک رپورٹ میں اپنے احکامِ اعلیٰ کوبتایا کہ”ہندوستان بھر سے باغیوں کے گروہ افغانستان پہنچ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ انگریز سے اپنے وطن کی آزادی چاہتے ہیں۔ یہ لوگ اکتوبر انقلاب کو اپنی آزادی کی تحریک کے لیے اچھا نظریہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ خود سوویت یونین کو تفصیل سے سمجھنا بھی چاہتے ہیں اور سوویت یونین دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ظلم و جبر کے خلاف اس ملک کی کامیاب جدوجہد کے تجربات سے سیکھیں اوراپنی آزادی کے حصول میں اُس کی امداد سے فائدہ اٹھا سکیں۔ (4) ۔

یوں مصری خان اپنے بھائی اور رفیق سوبدار خان کے ساتھ سوویت یونین چلا گیا۔ ہمیں یہ اندازہ نہیں کہ مصری خان 1917کے سوشلسٹ انقلاب سے نظریاتی طور پر متاثر تھا، یاوہ محض سامراج دشمنی کی جنگ میں ایک زبردست حمایتی کے بطور اُس ملک کو اچھا سمجھتا تھا۔یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دوسرے کئی باغیوں کی طرح محض انگریز کے ظلم و جور سے بچنے کی خاطر افغانستان فرار ہوا ہو۔ اور اسے سوشلسٹ انقلاب کی کشش نے کھینچاہو اور وہ وہاں سے سوویت یونین گیاہو، اور وہاں کمیونسٹ بناہو۔

لینن نے کہا تھا کہ غلام ہندوستان کے لوگ ”ایک ستارے کی طرف دیکھتے ہیں۔ سوویت رپبلک کے ستارے کی جانب۔ اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ اُس نے امپیریلسٹوں کے خلاف لڑنے کے لیے زبردست قربانیاں دی ہیں، اور یہ کہ اِس نے سخت ترین آزمائشوں میں ثابت قدمی دکھائی“ (5)۔

واضح رہے کہ بلوچ تاریخ میں پہلی عالمی جنگ کے ہم پلہ اہم واقعہ یہ ہوا تھا کہ روس میں سوشلسٹ انقلاب آگیا۔ جب برطانیہ کا یہ اتحادی نہ صرف اتحاد سے نکل گیا بلکہ یہ بڑا ملک الٹا سامراجیت ہی کا مخالف ہوگیا۔ یوں بلوچ آزادی کی تحریک کو ایک نیا اور فیصلہ کن اتحادی مل گیا۔

سوویت یونین میں مصری خان کی سرگرمیوں کے متعلق بہت عرصے تک ہمیں زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا۔ بس صرف عنایت اللہ بلوچ (1987) کی ایک سطر موجود تھی کہ مصری خان نے1920میں ”اقوامِ مشرق کی باکو کانفرنس“ میں شرکت کی تھی۔ باکو کانفرنس ایک اہم سنگ میل تھا جس نے بلوچ کی 20ویں صدی کی شہری تحریک کو منظم کیا اور اسے دنیا کی دیگر قومی آزادی کی تحریکوں سے جوڑا۔

لیکن اب تو کھیترانڑ صاحب کی سوویت سرگرمیوں کے بارے میں ہمیں بہت کچھ معلوم ہوگیا۔ اس بارے میں انگریز افسروں کے آپسی خط وکتابت کی پوری فائل کوئٹہ آرکائیوز سے دستیاب ہوگئی ہے۔البتہ وہ بھی سوویت یونین میں اس کے قیام کی زیادہ اور سیر حاصل تفصیل نہیں دیتے۔

اِن آرکائیوز میں درج ہے کہ مصری خان اور اس کا بھائی افغانستان سے سوویت یونین چلے گئے۔ وہاں کچھ سال گزارنے کے بعد وہ واپس یہاں سرحدی قبائلی علاقہ تیرہ میں رہے۔ جہاں سے انگریز کے ساتھ طویل مذاکرات ہوئے۔ یہ سارے مذاکرات اور اُن کی پیش رفت پشاور اور کوئٹہ کے انگریز افسروں نے ایک دوسرے کو ٹیلیگرام اور خطوط میں لکھے۔

کوئٹہ سے انگریز افسر مسٹر ڈیو نے 15جنوری 1922 کوپشاور میں انگریز ملٹری انٹیلی جنس چیف کو لکھا:

”مائی ڈیئر سنڈی

میں خان بہادر سربلند خان کو آپ کے پاس بھیج رہا ہوں تاکہ وہ مصری خان اور اس کے بھائی سوبدار خان کھیترانڑ کو واپس لاسکے جو ڈینیز کہتا ہے کہ آپ کے رابطے میں ہیں۔ میرے دل میں اُن کے خلاف بالکل کچھ نہیں ہے۔ مصری خان میرا ایک خاص دوست ہوا کرتا تھا۔ اور وہ ایک بہادر سپاہی ہے، مگر جلد باز شخص ہے۔ مگر میں اُس کا ذمہ لیتا ہوں اور قبیلہ بھی۔ اُس کے خلاف بالکل کچھ بھی نہیں ہے۔ میں ان دونوں احمقوں کو دوبارہ واپس لینے کا امکان دیکھ کر بہت خوش ہوں۔ اور میرا خیال ہے کہ وہ وہاں کے حکام کے لیے طاقت کا منبع بنیں گے۔ یہ سب کچھ اب ختم ہوچکا اور تصفیہ ہوچکا۔ کوئی بھی اس کے خلاف کوئی عداوت نہیں رکھتا۔

ہمیشہ آپ کا

اے۔بی۔ ڈیو“

انگریزوں کے بیچ اسی مراسلہ نگاری میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ عبدالرب نامی ایک انڈین کے ساتھ تاشکند چلے گئے(6)۔ پشاور کے افسرنے سوبدار خان کا بیان کوئٹہ اے جی جی کو بھجوایا:”میں عبدالرب کے ساتھ تاشکند چلا گیا“(عبدالرب، دراصل، انڈین ریولیو شنریز کی کمیونسٹ مخالف پارٹی کا سربراہ تھا۔

انہی برطانوی ذرائع کے مطابق مصری خان کمیونسٹ تھا، اور نظریات میں اپنے بھائی سے زیادہ گہرا کمیونسٹ تھا۔مگرذرا دیکھیے کہ انگریز بدمعاش نے اس فقرے کو کس طرح بیان کیا تھا:”اس نے بلاشبہ بہت بالشویک پیسہ کھایا ہے“۔(7)۔

تا شکند جانے والی بیس رکنی پارٹی میں بلوچستان کے صرف یہی دو بھائی تھے۔ باقی لوگ پشاور، راولپنڈی،لاہور اورکوہاٹ کے تھے۔عبدالرب کے ساتھ تا شکند جانے والی پارٹی مندرجہ ذیل ہے۔

۔1 سوبدارخان،2سید امین،3کوہاٹ کا مقدم شاہ،4بلوچستان کا مصری خان،5کوہاٹ کا محمد ابراہیم۔6پشاور کا فضل ِ قادر،7اشور،8پشاور کا عمر بخش، 9پشاور کا میاں محمد،10پشاور کا مردان شاہ،11پشاور کا محمد خان،12پشاور کا فتح حسین،13پشاور کا محمد حسین،14لاہور کینٹ کا نظام الدین، 15راولپنڈی کا افسار، 16پشاور کا غلام جیلانی پنجابی، 17زرداد خٹک،18علی شاہ راولپنڈی،19عبدالرب،20اچاریہ(8)۔

اِس تحریری مستند ثبوت کے بعد اب بہت ساری کتابوں میں دیے گئے سارے قیاسی اور فرمائشی نام ختم ہونے چاہییں۔ تاشقند میں صرف دو بلوچ تھے:سوبدار خان اور مصری خان کھیتران۔

کمیونسٹ انٹرنیشنل کی جانب سے سوویت آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو میں ”مشرق کی اقوام کا نگریس“ستمبر 1920میں منعقد ہوئی۔ اس کانگریس میں ایشیا اور یورپ کے 1900ڈیلیگیٹس نے شرکت کی۔کمیونسٹ انٹرنیشنل (کمنٹرن) کی اس کانگریس نے کالونیل ”مشرق“ میں انقلابی نیشنلسٹ تحریکوں کی مدد کا وعدہ کیا۔ کانگریس نے ”اقوام مشرق کا ایک مینی فیسٹو ”منظور کیا۔ انٹرنیشنل کے ترانے سے یہ کانگریس یکم ستمبر1920کو شروع ہوئی۔ اور سات ستمبر تک چلی اور اس کے سات سیشن ہوئے۔اس کانگریس میں امریکہ کمیونسٹوں کی نمائندگی مشہور مصنف اور صحافی جان ریڈ نے کی۔

”انڈین انقلابیوں میں سے ایک 42سالہ سوبدار خان وہاں روسی انقلاب کا مطالعہ اور اس سے حاصل سبق سے اپنے ہاں انقلاب کے طریقے سیکھنا چاہتا تھا۔ باکو میں“۔(9)۔

ریولیوشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیانامی کتاب نے ذکر کیا کہ ان مفروروں میں بلوچ قبائل سے دو بھائی تھے۔ (اس کتاب نے مصری خان کی بجائے نصیر خان لکھا)۔کتاب میں یہ بھی ذکر ہے کہ 1917-18میں ”انہوں نے دس ہزار پر مشتمل قبائلی باغی فوج کی قیادت کی تھی۔۔۔ انگریز،قبائل کی اس بہادرانہ مزاہمت کو دبانے میں کامیاب ہوا“۔(10)۔

وہاں انہیں شارٹ کورس کرائے جاتے تھے۔ لیکچروں کے عنوانات ”زمین اور انسان کی ابتدا“، کلاس سٹرگل کا جوہر، جغرافیائی اطلاعات وغیرہ(11)۔

انڈین ریولیوشنری ایسوسی ایشن کا پروگرام سوشلزم کا قیام بھی تھا۔ اس کے منشور کے اندر مثال بھی بلوچستان کی دی گئی جہاں“زمین شخصی ملکیت میں نہیں ہے، بلکہ یہ پورے قبیلے کی مشترکہ ملکیت ہے جسے ہر سات یا دس سال بعد دوبارہ تقسیم کیا جاتا ہے۔ وہاں کوئی ٹیکس نہیں، کوئی خراج نہیں ہیں۔۔۔ اس نظام اور کمیونزم میں صرف ایک قدم کا فاصلہ ہے“ ۔ کرنا صرف یہ ہے کہ ”فصل کو بھی ٹرائبل کونسل کے حوالے کیا جائے۔ اور اسے مساوی طور پر قبیلے کے افراد میں تقسیم کیا جائے“۔ (12)۔

لینن کے تھیسز کے ایک اہم نکتے میں کمیونسٹوں سے کہا گیا تھاکہ وہ مشرقی ملکوں میں بورژوا ڈیموکریٹک لبریشن موومنٹ کی حمایت کریں۔ اُس کا خیال تھا کہ ایشیا کی کالونیوں اور منحصر ممالک میں فیوڈل یا پدرسری والے رشتے حاوی ہیں۔(13)۔

انگریز نے لکھا کہ”مصری خان بالشویزم میں سوبدار خان سے بھی زیادہ گہرا شامل رہا ہے، اور ایک سال گزرا (یعنی 1921کی شروعات میں)کہ وہ چھ کی پارٹی میں سے ایک تھا، جس نے تاشقند چھوڑا تاکہ سرحد پر برطانیہ مخالف پروپیگنڈا منظم کرے۔ ان کا مشن افغان مخالف بھی تھا۔مگر انہیں کابل میں جیل ڈال دیا گیا تھا اور ابھی حال میں رہا کیا گیا“۔ (14)۔

سوبدار اپنے بیان میں انگریز افسر کو بتاتا ہے:۔

”مجھے اور دوسروں کو سرحد کو لے جانے کے لیے بالشویک پروپیگنڈہ لٹریچر اور پیسہ دیا گیا۔چونکہ ہم واپس انڈیا جانا چاہتے تھے اس لیے ہم نے یہ سندیسا وصول کیا۔ ہم پہلے براستہ آندی جان اور پامیر بھیجے گئے، مگر وہاں سے واپس ہونا پڑا اس لیے کہ اسی طرح کا ایک پچھلا مشن برف میں گم ہوچکا تھا۔ ہمیں پھر پلِ خاتون کے راستے بھیجا گیا اور ہم تھانہ ذوالفقار کے قریب ایک چھ نفری چھوٹے پوسٹ پہ داخل ہوئے۔ ہمیں کراباغ کے حاکم عثمان خان کے سامنے پیش کیا گیا۔ ہمیں ہرات بھیجا گیا اور وہاں نگرانی میں تین ماہ تک رکھا گیا اور پھر کابل بھیجا گیا۔ امیر الاساس سے جس قدر ہوسکا ہمیں عبدالرب کے اکسانے پر تکلیف پہنچائی۔ ہمیں کابل میں 7یا آٹھ ماہ نگرانی میں رکھا گیا۔ پھر امیر نے ہمیں رہا کردیا۔مگر شجاع الدولہ نے ہمیں اس وعدے پر جانے دیا کہ ہم تیرہ میں برطانیہ مخالف پروپیگنڈہ کریں گے۔ ہم یکم دسمبر 1921کو کابل سے روانہ ہوئے“۔(15)

پشاور کے افسر نے کوئٹہ کے افسر کو تار دیا کہ ”سوبدار خان پشاور میں ہے“ اور یہ بھی کہ محفوظ سلوک پر اسے 25جنوری (1922) کو بلوچستان انگریز کے بھیجے ہوئے آدمی کے حوالے کرے گا“(16)۔

سوبدار خان، بلوچستان میں انگریز کو مارچ سے پہلے وصول ہوچکا تھا۔ جبکہ مصری خان ابھی تک تیرہ میں تھا اور اس سے مذاکرات جاری تھے۔ ”مصری خان واپس آنے میں جوش کی حد تک تیار نظر آیا“ ۔ وہ صرف اس بات پر پریشان ہے کہ وہ اپنے گھر یا گھر کے قریب رہنے کے شرط کے بطور حرکت کی کسی بھی پابندی پر توعمل کرے گا۔ مگر وہ خود کوکسی ایسی جگہ پر نظر بند کروانا نہیں چاہتا جہاں ماحول اور گردو پیش عجیب اور ناموافق ہوں“۔

لگتا ہے کہ تیرہ میں وہ لوگ پناہ گزیں نہ تھے بلکہ پورے گروپ کے ساتھ کیمپ لگائے ہوئے تھے۔یہ قیاس پشاوری انگریز افسر جان میفی کے 17مارچ کو کوئٹہ اے جی جی کو بھیجے گئے ٹیلیگرام میں موجود ایک فقرے سے لگایا جاسکتا ہے:”یہ ذکر کردوں کہ میں نے مصری خان اور سوبدار خان کے ساتھیوں میں سے ایک کو ضمانت دینے پر اپنے گھر واپسی کی اجازت دی ہے جو پشاور ضلع کے ایک گاؤں کا ہے“۔

اس کے بعد مصری خان واپس بلوچستان آیا اور ایک بہت ہی غیر معروف زندگی گزاری۔

ریفرنسز

۔1۔حبیب جالب۔بلوچ سٹیٹ بُڈ اینڈنیشنلزم۔ 2006۔ پرکانی ہاؤس سریاب روڈ کوئٹہ۔ صفحہ170۔۔

۔2۔ حوالہ ٹیلیگرام19جنوری1922از طرف: بیوروپشاوربہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ

۔Telegram From Bureu peshawar is AGG Bureu Quetta, 19 January 1922۔3۔

۔4۔انڈینریولیوشنریز۔ صفحہ73

Lenin.col works: Vol 30.1977.P.155۔5۔

۔ 6۔ ٹیلیگرام19جنوری1922از طرف: بیوروپشاوربہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ

۔7۔ کوئٹہ سے انگریز افسر مسٹر ڈیو نے 15جنوری 1922 کوپشاور میں انگریز ملٹری انٹیلی جنس چیف کو لکھا

۔8۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ

۔9۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔ صفحہ 88

۔10۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 57

۔11۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 91

۔12۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 60

۔13۔پرسٹس۔ ایم اے۔ ریوولیشنریز آف انڈیا اِن سوویت رشیا۔ 1973۔ پراگریس پبلشرز ماسکو۔صفحہ 127

۔14۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ

۔15۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ

۔16۔ٹیلیگرام 19جنوری1922 از طرف: بیوروپشاور بہ طرف: اے جی جی بیوروکوئٹہ

0Shares

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے