مست اپنے وطن ماوند میں عام بلوچوں کی طرح مال مویشی چراتا تھا۔وہاں اُس کی بہار خان کے ساتھ زبردست دوستی تھی۔اٹھنا بیٹھنا، آنا جانا…….. وہ دونوں ہمیشہ ساتھ رہتے تھے۔
ایک خوش نصیب دوپہر وہ دونوں قریب میں ” رسترانی “کے علاقے میں سفر پہ گئے۔ یہ مناظر بھرا سر سبز کوہستانی علاقہ ہے ۔ مجھے اپنی جستجو کے دوران اُن محققوں ،مورخوں اورممولفوں کے اِس بیان میں کوئی سچائی نظر نہ آئی جن کے مطابق وہ کسی جنگی مہم پر جارہے تھے۔اُن دونوں کی کبھی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہ رہی ۔ وہ تو عام ،سَچے، ستھرے اور سُچے سیلانی نوجوان تھے…….. شکار، سیر و تفریح، مویشی بانی۔
حسن و قدرتی مناظر سے مزین علاقہ رسترانی ،ماوند سے پیدل ایک پہر کے فاصلے پر ہے۔ یہ گرمیو ں کا موسم تھا۔ مون سو ن کی ساتھی گرمیاں ۔ بلوچستان کا مون سون جس قدر چاہا جاتا ہے اُسی قدر کوسنے اور بددعائیں بھی کھاتا ہے ۔ یہ ایک طرف اپنے روٹھے روکھے پن میں خود ساختہ جلا وطن رہنے کے لےے بدنام ہے ، تودوسری طرف یہ ، وطن واپسی پر اپنی تباہ کاری اور وحشت میں یکتا بھی ہے ۔آوارہ اور بے فکر ساون کئی کئی سال تک بلوچستان سے باہر رولُو جانوروں کی طرح آوارہ اور بے کیف زندگی گزارتا ہے ، مگر جب برسنے کا پروگرام ہو تو ہمارا یہی آوارہ بشام ( ساون)بہت شارٹ نوٹس پر ہنگامی سیلابی حالت مسلط کرتا ہے۔ پہاڑی ندی نالے اچانک والی اپنی تیزی تندی میں دوسری ہر حرکت پر سبقت لے جاتے ہیں۔یک دم زندگی کچھ گھنٹوں کے لیے جامد ہوجاتی ہے۔ بس پانی، بس جل تھل، بس ہنگامی بچاﺅ کی صورت حال!۔
راہرو مست اور بہار خان کو ساون کے انہی بادلوں نے گھیر لیا۔ ڈھلتی شام کا وقت تھا۔شمال مشرق سے بادل کا ایک پنبہ نما ٹکڑا نمودار ہوا، آن کی آن میں مشرق مغرب اور شمال جنوب میں وسعت پا گیا۔ کوئی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ گرج چمک شروع ہوئی۔ موٹے موٹے قطروں کی آمد تیز و کثیر بارش کا آثار بن گئی ۔
انہی آثار نے ان دونوں دوستوں کو اوٹ اور پناہ گاہ کی تلاش پہ مجبور کیا۔ یہ کوئی شہر نہیں تھا کہ رکشہ ٹیکسی لے کر کسی ہوٹل میں کمرہ بک کیا جاتا۔ یہ تو سنسان ، بے آبادی والا پہاڑی علاقہ تھا جو چند منٹوں کے اندر اندر درجنوں سیلابی ندی نالوں سے بپھرنے والا تھا۔ لہٰذا کوئی خیمہ ،کوئی ”کڑی“، کوئی گھر ملے جہا ں ناقابلِ عبور دریاﺅں کی مسلط کردہ مجبوری میں اُس وقت تک کے لےے پناہ لیا جاسکے جب تک اِن ندی نالوں کا پاگل پن شانت ہوجائے۔ اُس وقت تک بس ایک وقت کا کھانا مل سکے اور چٹائی والی شب بسری مہیا ہو۔تاکہ سیلاب اتر آنے پہ گھر واپسی کا راستہ بنے۔
انہیں ایک ہلک(خیمہ والا گھر) نظر آیا۔ دونوں مہمان( پناہ گزین)بننے وہیں جاپہنچے۔نا آشنا انسانوں کی یہ مہمانی ومیزبانی بھیڑ پال بلوچ ویلیو سسٹم کا لازمی حصہ ہوتی ہیں۔ایک طرح کا استحقاق۔نہ مسافر کو خجالت ہوگی اور نہ میزبان کی کوئی احسان مندی۔ ایک سماجی حق اور اُس کی رواجی تکمیل ۔
وہاں گھر میں اُس وقت کوئی مرد موجود نہ تھا۔دن کو گھر کون بیٹھے گا؟ ۔چرواہی معیشت میں روٹی روزگار اور محنت مشقت میں کوئی شارٹ لیو،کوئی سنڈے یا کوئی گزیٹڈہالی ڈے نہیں ہوتے ۔ یہاں کے مرد بھی آس پاس کی چراگاہوں سے اپنے مویشیوں کو بارش و سیلاب کے ممکنہ خطرہ سے بچا کر گھر لانے کی جنگی کیفیت میں تھے۔
خاتونِ خانہ نے انھیں بلوچی رسم کے مطابق خیمے سے آٹھ دس گز دور تڈا (مہمان نوازی کی چٹائی) لا کردیا ۔گویا مسافروں کو ٹھکانہ مہیا کردیا۔اور خود گھر کے کاموں میں جُت گئی۔
غصیلے بادل غرّارہے تھے، اُن کی قہر ناک آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔تیز ہوا کے جھکڑ دیوتا کی آمد کی نشانیاں تھے۔ خیمہ کے لکڑی والے ستون اکھڑ اکھڑ جاتے تھے اور خیمہ باربار ڈگمگانے لگتا۔ چلتے جھکڑوں اور بارش کے شدید امکانات میں ایک خیمہ بدوش عورت کیا کرے گی؟۔ وہ اپنی ساری ہمت اور طاقت اور عقل مجتمع کرکے بارش سے بچائو کے لےے جنگی دفاعی کارروائی میں جت جائے گی۔ سمو نامی اِس خاتونِ خانہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔
بارش آلود ہوا میں گھر کی مالکن اپنے خیمے کو گرنے سے بچا نے کی جدوجہد بھی کر رہی تھی اور آٹا، نمک اور بستر وغیرہ کے بھیگنے سے بچائو کی تگ و دو بھی۔ہلکی بارش ،ہوائوں کے تھپیڑوں اور تیز تیز کام کرنے سے دلہن کا چہرہ گلنار ہورہا تھا اور اُس کے کپڑے بھیگ بھیگ رہے تھے۔
شام کا دھندلکا تھا۔آس پاس سیلابی پہاڑی نالے انقلاب دشمنوں کی طرح غرّا رہے تھے ، گرتے قطروں کی ملہار تھی ، بجلیاں وقفے وقفے سے کائنات کو خوفناک مگر پرکشش بنا رہی تھیں۔معطر جڑی بوٹیوں کی بھیگی خوشبوئیں تھیں،پُرکیف ہوا کے باغی جھونکے تھے۔ پھوار پڑرہی تھی…….. اچانک تیز ہوائیں سر سے پاک دوپٹہ اڑالے گئیں اور حسن و جوانی کی ملکہ کی گہری سیاہ زلفیں ہوا میں لہرانے لگیں( اُسی دن اُس نے بال کھول رکھے تھے اسی دن اس نے گیسو دھوئے تھے ۔)۔لہراتے سیاہ بالوں پہ بارش کے ننھے قطرے تھے اور اوپر سے بجلی چمکی تھی۔ قطرے قوس قزح بن گئے تھے……..اور تئوکلی پہ انجماد طاری ہوگیا ۔آنکھیں ،جھپکنے کا اپنا ازلی ابدی کام بھول گئیں۔منہ نے بند ہونے سے انکار کردیا، دل نے برق کی رفتار سے ایسے دھڑکنا شروع کردیا کہ ڈیجاکسین کے دس ٹیبلٹ بھی بے اثر……..تئوکلی ہپناٹائز ہوچکا تھا۔ محبت کا بگ بینگ تئوکلی کے دل کے کانوںپہ بج چکا تھا۔
سوچتا ہوں کہ تئوکلی کو زندگی بھر کا روگی بنانے میں سمو کا حسن تنہاتو ذمہ دار نہ تھا۔ہاں ہاں، ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ حسن کا پورا لاﺅ لشکر ،ایک ساتھ واردہوتا ہے ۔اُس گھڑی پرندوں کی چہکار ،شاخوں کی سرسراہٹ، بارش کی جھنکار،اور سیلابی پانی کی چٹانی ڈھلوانوں سے گزرنے کی آبشاری آوازوں نے مل کر مست کے کانوں میں جلترنگ بھر دےے تھے۔ پوری کائنات ایک حسین پینٹنگ بن چکی تھی۔صرف آنکھ اور کان کائناتی منظر نامے کا شکار نہ تھے، بارش کی اپنی بھینی خوشبو ، جڑی بوٹیوں کی بھیگی خوشبوﺅں سے مل کر سونگھنے کے نظام کے لیے حشر سامانیاں کررہی تھی۔ الغرض،حُسن آج رسترانی کے ٹیلوں کے درمیان،” ساتیں والی“ کی کھیتوں کے درمیان، اور خانہ بدوشوں کے خیموں کے بیچ سعادت کا سرچشمہ بن چکا تھا۔ جمال سے محبت کرنے والا جمیل آج سراپا حسن بن چکا تھا ۔ اور پورے علاقے میںحسن کے لےے سب سے موزوں روح کو کٹھ پتلی بناچکا تھا ……..جمال اور جمیلہ کا نام آج سمو تھا۔ جمیلہ ، جو بے خبری اور بے ارادہ ، مگر بے رحمی سے اپنے شکار پہ جھپٹ پڑی تھی۔ اور آن کی آن میں مست کو مفتوح و مغلوب و مجبور و معذور بنا چکی تھی۔بجلی کی وہ ایک چمک جو ”آسمان پہ افق تا افق دکھائی دی“تئوکلی نامی فرد کے لیے کہیر نامی لکڑی کا حدت بھرا شعلہ بن گئی، شعلہ رسترانی کے پہاڑ پہ الائو بنا،الائو جہنم بن گیا اور اس کی پُرکیف گہرائیوں میں مست بھسم ہوگیا۔ اور یہ حدت یہ سوزش سلوریلیزنگ تھی ۔اُسے اب زندگی بھرسلگنا تھا۔ بہت آہستہ بہت مدہم ‘مگر بہت دیر تک۔ شاید قیامت تک!!۔ انسانیت کی نجات کے لیے انسانوں کے ایک قافلے کی تشکیل ہونی تھی۔۔۔۔۔ ”عشق کی آگ میں جلنے والوں کا قافلہ“،”عشاق کا قافلہ“،ہمارا قافلہ ،تمہارا قافلہ۔ہم سب کا قافلہ۔
چنانچہ، دیکھنے والا پگھل چکا تھا۔کپوپڈ کا ”تیر کمان “بے کار ہو چلا تھا اوربجائے یہ کہ وہ اپنے تیر کسی پہ برسائے وہ خود نہتی سائیکی کی حسین ترین نگاہوں کا تیر اپنے دل میں گہرا پیوست کرابیٹھاتھا۔ تئوکلی کو سرپہ ڈانگ لگ چکی تھی۔محبت کا دیوتا مہربان ہوگیا تھا۔ آنند کے تاربج چکے تھے ،مست پہ آیاتِ حسن نازل ہوگئی تھیں۔بلوچستان نے بلوچستان کو بلوچستان بنا ڈالا تھا۔
اس معصوم انسان کی دنیابدل گئی۔ اُس سادہ سے پہاڑی نوجوان کے دل میں محبت نامی پیچیدہ ترین فلسفہ کی پی ایچ ڈی کی ڈگری انڈیل دی گئی تھی۔ اب اُس کی ترجیحات اور مقصدِ حیات،سب کچھ بدل گیا۔ سادہ سے پیچیدہ میں، نیچے سے اوپر کی طرف ، اور ادنی سے اعلیٰ کی جانب ۔
محبت آدمی کو آدمی بنا دیتی ہے…….. اور سمو نے تﺅ کلی کومحض آدمی نہیں، ” مست تئوکلی“ بنا ڈالا۔ اور وہ بھی ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں۔وقت بہت قیمتی ہوتا ہے مگر بے شمار دیگر مظاہر کو Synchronize کرکے ہی قیمتی ہوتا ہے۔اس لےے کہ ٹائم سپیس کے بغیر تو کچھ نہیں۔……..اور آج وقت، دنیا بھر کی ترقی یافتہ ماڈرن سائنسی لیبارٹریوں کے بجائے بے آباد پہاڑوں پہ ساری سائنسز لاد چکا تھا۔ اب نہ سمو عام عورت تھی، نہ تئوکلی عام چرواہا رہا۔لمحہ قبل یہ دونوں گم نام شخصیتیں تھیں ، مگر ایک ہی پل میں یہ دونوں آسمانوں تک کی برگزیدگی کے مالک بن بیٹھے، دو پاک روحیں بلوچ افق پہ عقیدت و محبت کی ولی ہوگئیں۔ بلوچستان میں محبت کا عالم گیر چاند آناً فاناً چودھویں کاہوگیا۔
ہاں ہاں، مردانہ معاشرے میں ایک خاتون نے تﺅکلی کو زمزمی انجن پہ بٹھا کے فرش سے عرش پہ پہنچایا۔ تو گویا عورت معمولی نہیں ہوتی ۔سمو ایک عام عورت نہ تھی۔ توپھر،کیا تئوکلی ایک عام تئوکلی تھا؟ ۔نہیں ناں!۔ وہ بھی تو کچھ تھا۔ تئوکلی بھی توکچھ تھا۔
محبت گو کہ بہت قوت رکھتی ہے اور صلاحیتوں کو پروان بھی چڑھاتی ہے،مگر یہ بنیادی صلاحیتوں کی جگہ تو نہیں لے سکتی۔”محبت کی چمک اور حرارت اُسی شخص کے اندر داخل کی جا سکتی ہے جس کو فطرت نے یہ صلاحیت عطا کررکھی ہو“ (1)۔سو،اِس شعبے میں انسان سازی اور انسان ساز صلاحیتوں کا قالب پہلے ہی سے موجود تھے۔ بس، معروض کی مطابقت چاہیے تھی۔وہ بھی آج عطا ہوگئی۔
شام کو جب گھرکے نرینہ افراد لوٹ آئے تو مسافروں کے لیے کھانا لائے ۔مگر گم گشتہ روح اس قدر سیر شکم ہوچکی تھی کہ طبعی شکم کی بھوک مٹ گئی ۔سارے جذبے جبلتیں یک سُو ہوکر محبت کے جذبے میں condenseہوچکی تھیں۔ مست نے کچھ نہ کھایا۔
بہار خان نے پوچھا،” تمہیں کیا ہوگیا؟“۔ کہا،” کچھ نہیں“۔ ”اچھا ،تئوکلی تم مجھے پوڑ(چلم) بنا کر پلادو“۔ تئوکلی نے گارے کا چلم بنا کر اس میں تمباکو ڈالا مگر اس میں دھواں کھینچنے کے لیے سوراخ یا نالی نہیں بنائی۔ پوچھا”تم نے ایسا کیوں کیا؟“۔ کہا” مجھے کوئی ہوش نہیں ،کوئی سدھ نہیں ہے“(2)۔
میزبان سونے کے لیے بستر اور سرہانے لائے تھے مگر مست تو لیٹا ہی نہیں، بیٹھا رہا( محبت جان چکی تھی کہ نیند ہی نے تو سسی کی دنیا اجاڑ دی تھی !۔اب اور سسی نہیں!!، نو مور……..)۔
چنانچہ مست سویا نہیں، لیٹا نہیں بلکہ ساری رات بیٹھا رہا، آنکھیں وہیں ساری کائنات کے ویٹیکن پہ ٹکی رہیں۔ صبح اُس کے یوحنا، بہار خان نے پوچھا” کیا تمہیں کسی سانپ وغیرہ نے ڈس لیا؟،یا کوئی اور بیماری ہے؟“۔ اس نے کہا ”زالا دھلینتہ،مں نِیں ژہ کارا شتغاں“ (عورت نے ناک آﺅٹ کر دیا مجھے ۔ میں اب کسی کام کا نہیں رہا)(3)۔ کیا اِس سے بڑھ کر نورانی الفاظ ممکن ہیں؟۔ایسا فی البدیہہ اور پر معنی فقرہ جس میں کوئی توقعات، کوئی تشریح وتوضیح اور کوئی دنیاوی عزائم نہ تھے۔ بس اپنی کیفیت اگل دی، اپنی عاقبت متعین کردی …….. میں نے پھر کہیں ایسا فقرہ انہی معنوں میں کبھی نہیں سنا ، کبھی نہیں پڑھا۔
جب ساری توجہ کا ارتکاز ایک نکتے پر ہوجائے ، جب ساری قوتیں ساری توانائیاں ایک جگہ فوکس ہوجائیں، جب سارے دوسرے مظاہر اُس ایک مرکزی نکتے کی مددگار ی کے سوا بے جواز ہوجائیں، تو اُس گھڑی آپ کیا بن جاتے ہیں؟۔ مست وہی کچھ بن چکا تھا۔اُسے عشق کا ناگ ڈس چکاتھا۔
مگر،اس پوری انرجی کو سنبھالنے اور اس کی انتظام کاری کے لےے میں اورآپ موزوں نہیں ہیں۔ اُس کے لےے تو مست جیسا دل دماغ چاہےے، ہر عام و خاص سے یہ برداشت و کنٹرول نہیں ہوسکتی۔
مست پر آفاقی محبت کی بجلی گرنے کا یہ واقعہ تقریباً1858 میں ہوا۔
مست کی زندگی میں سب سے اہم اور بڑا واقعہ یہی تھا ۔ اس عشق نے مست کی زندگی کو یکسر بدل دیا۔
ازاں بعد ہر لمحہ سمو کا حسین اور دل آویزنام مست تﺅکلی کا وردِ زباں رہا ۔
قبائلی نظام میں اور بالخصوص مری قبائل کی زندگی اور سماجی حالات میں اس طرح برملا کسی خاتون اور وہ بھی شادی شدہ خاتون کا نام لینا قبائلی غیرت کو چیلنج کرنے کا ہم معنی تھا۔ گویا مست اپنے نظام اور اپنے سماجی حالات میں وہی کچھ کر رہا تھا جو منصور حلاج نے کیا تھا۔سمو کا نام لینا ان الحق کہنے سے کچھ کم سنگین و کفر نہ تھا۔
ایک بات اورہے۔ اور وہ ہے بھی نہایت ضروری بات۔ حسن یعنی بھرپور توازن کسی پہ جلوہ افروز ہو جاتا ہے،تووہ اُس کو مطیعِ محض بنا کر Cretin(بونا)بنا لیتا ہے جوپھر یسوع کی طرح نہ گنا ہ سوچ سکتا ہے ، نہ گناہ کرسکتا ہے۔( گناہ خود ایک اضافی تصور ہے ۔ اس کے معانی ہر جگہ اور ہر دور میں ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ یہ ہمہ وقت اپنا وجود ، اپنے معانی، اپنی تجسیم ،اور اپنا جون بدلتا جاتا ہے)۔ حسن کے توازن کی بشارت اپنے ساتھ ساری فطرت کو متوازن کر جاتی ہے۔ ہر پہاڑ نغمہ بن جاتا ہے،کائنات کی ہر حرکتRhythmicبن جاتی ہے۔ ہر مظہرلطیف بن جاتا ہے، ہچکولے کھاتا ہوا، رقصاں ۔۔۔خراماں۔ہارمنی۔ سِنکر ونائزیشن!!
ہمیں معلوم ہے کہ مست کو ‘ گھائل کر ڈالنے والی پہلی نظر کے بعد ،پھر اُسے بہت کم بار سمو کی عاشق کُش آنکھوں کا دیکھنا نصیب ہوا ۔ پھر شاید ہی اُسے اُس کے چہرے پر وہ مخصوص نرم روشنی دیکھنا نصیب ہوئی ہوگی جو اُس کے بدن کی رنگت فطرت کی ہمہ تن مہربانی سے مل کر قہر بن جاتی ۔ حسن کی کرشمہ کاری ہمیشہ تو نظر نہیں آتی۔موت آگیں سکوت اور برباد کر ڈالنے والے سکتے کا لمحہ ایک بار طاری کرکے حسن اپنی تمام فریکوئنسیوں کو بہت مدت بعد ہی دوبارہ یک جا کر پاتا ہے۔ بہت عرصہ بعد جاکر وہ معجزہ دوبارہ رونما ہوتا ہے جب عاشق مکمل طور پر تحلیل ہوکر ریت میں ڈھل جاتا ہے ،ہوا ،پانی ،اوردرخت میں ڈھل جاتا ہے۔ اور یہی لمحہ سچائی ہوتا ہے،اور یہی لمحہ وابستگی،پاکیزگی اور لامکانی عمیق محبت بھی ہوجاتا ہے ۔عمر کے بقیہ ماہ و سال تو اِسی ایک لمحے کے چاکر بن جاتے ہیں۔
مگر اس ایک لمحے کے نزول کے لیے اپنی اپنی سمو کا چہرہ ہی چاہیے ہوتا ہے۔ہر گوشت کا لوتھڑا یہ تجلی خارج نہیں کرسکتا۔ اور پھر اس تجلی کی ویولنگتھ ماپنے ،اور جذب کرنے کے لےے ہرآنکھ نہیں،مخصوص بصارت چاہےے ہوتی ہے۔ہر سمو کی تجلی کے لےے اُسی absorbance والا مست ہی ضروری ہوتا ہے۔۔۔۔ ہر آنکھ مست تئوکلی کی آنکھ نہیں ہوسکتی۔ ۔۔۔۔ اور ہر مست کو یہ تجلی پوری زندگی میں بس دو ایک بار ہی پینا نصیب ہوتی ہے۔ بعض تو پہلی جھلک ہی کو ذخیرہ بنا کر اپنی پوری زندگی انا الحق انا الحق جپتے جاتے ہیں۔
یہ جو زندگی بھر مست اپنی سمو کی تعریفیں گاتا رہا ہے ، وہ اسی رسترانی والے بعث بعد الموت کے اولین واقعہ کی ثنا خوانی تھی ۔ بعد میں تو وہ ”مین ٹے ننس ڈوز “کے حصول کی خاطر اس روح القدس سے باریابی کا شرف لیتا رہا۔
***
مست تئوکلی کی محبت میں بندھ کر سمو کے گھریلو مقام و منصب میں ، محنت مشقت میں تو کوئی فرق نہ آیا۔ البتہ روحانی دنیا میں اب اس کا مقام ایک عام عورت کا نہ رہا۔ تئوکلی بھی اب عام تﺅکلی نہ رہا، ”سمو بیلی“ بن گیا۔ لڑکپن کے جوانی میں ڈھلنے کے ابتدائی دس بارہ برسوں کے بعد اُن دونوں کی آئندہ زندگیاں، انفرادی زندگی ہونے کے باوجود اُن کی مشترک داستان بن گئیں۔ اس لےے اس مرحلے کے بعد انس وجن ،شجر و حجر اور کر و بیاں اِس باہم ضم شدہ ” واحد“ زندگی کو بیان کرتے رہےں گے۔
مست اور سمو کے حوالے سے ایک بنیادی بات بہت پختگی کے ساتھ ذہن نشین کرنی چاہیے۔ وہ یہ کہ مست ،سمو کو ہر وقت فزیکل وجود کے بطور نہیں لیتا تھا۔ مطلب یہ کہ، مست کی ساری شاعری کا مرکز سمو تھی ۔ مگر سمو محض جسمانی فرد نہ تھی۔ مست ہر اچھی چیز، عادت، منظر اور اخلاقی بات کو سمو قرار دیتا تھا ۔ سماجی اچھائی سمو تھی، اور اس بات کا ادراک ہی اصل مست شناسی ہے ۔ اسی سماجی اچھائی کی شیر خوار بچے سے بھی زیادہ وار فتگی اور والہانہ پن سے دیکھ بھال کرنا ۔۔ یہ ہے فلسفہِ مست۔
چنانچہ مست کو ایک شادی شدہ، شان ووقار ،اور اولاد والی خاتون سے محبت ہوگئی تھی۔ گو کہ معاشروں میں عورت مرد کے مابین شادی سے باہرجسمانی تعلق کا ہونا اچھنبے کی بات نہیں ہے ۔مگر وہ تعلق قبائلی معاشروں میں انتہا کی حد تک خفیہ تعلق ہوتا ہے ۔ شک بھی پڑے تو دونوں کا قتل لازمی ہوجاتا ہے ۔۔۔۔البتہ کبھی کبھی نادر واقعات بھی تو ہوتے ہیں؛ اَنہو نے ، ناممکن اور مبالغہ لگتے واقعات ۔استثنا والے واقعات ۔
مست اور سمو کی محبت میں۔۔۔ جسمانی تعلق کا نہ ہونا استثنائی اور اَنہونے واقعات میں سے ایک ہے ۔پھرسماج کی طرف سے اُس فرد کو،ہر اچھائی کا منبع قرار دینا بھی ایک اَنہونی بات تھی، تب بھی اور اب بھی۔ اس لیے میں سمّو کے لیے مست کی محبوبہ کا لفظ استعمال نہیں کروں گا بلکہ مست کا اپنا پسندیدہ لفظ ”دوست“ استعمال کروں گا ۔ مست نے سمو سے تعلق کے لیے یہی لفظ استعمال کیا تھا۔
مست شاعر تھا ، اور شاعر بھی بلند درجے کا ۔ایک معاملہ مست کے ساتھ ایسا ہے جو عام آدمی کی سمجھ میں دیر سے آتا ہے ۔وہ یہ کہ مست کے پاس ایک آدرش تھا۔ مدھم ومبہم ہی سہی مگر وہ بہر حال سماج کے بارے میں ایک تصور رکھتا تھا۔ وہ سماج کی اُس وقت کی حالت سے مطمئن نہ تھا۔ اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ سماجی تبدیلی کی خواہش رکھتا تھا ۔ اور مبہم اور مدھم تصورات کے اِس سیٹ (set) کو اُس نے سمو کا نام دے رکھا تھا۔ یعنی سمو جو پہلے پہل ایک زندہ وجود تھی۔ مگر رفتہ رفتہ وہ محض ایک حیاتیاتی یونٹ نہ رہی۔ وہ ایک انسان یا عورت نہ رہی ۔ مست نے اُسے لولاک کی اچھائیوں کے حصول کی خواہش کی علامت بنا دیا۔ اور سب جانتے ہیں کہ عشق اور ”دوستی “ انسان کو بے خوف بناتا ہے ۔ ایماندارنہ کمٹ منٹ انسان کو بہت بولڈ بناتی ہے ۔ سو اُس نے اپنے عشق اپنی دوستی پہ شاعری کی ، اس نے اپنی دوست کی توصیف میں اعلیٰ درجے کی شاعر کی ۔
اِن سب نے مل کر سمو مائی کو ”چار چودہار “مشہور کردیا۔آج صورت یہ ہے کہ سمو کا یہ نام بلوچ قوم کے کونے کونے میں ایک مقبولِ عام نام ہے ۔
ریفرنسز
1 ۔گوئٹےریاض الحسن نوجوان ورتھر کی داستانِ غم۔ جولائی2000۔ الحمرا پبلشنگ۔
-2 مست پوڑ (پائپ) پیتا تھا اور یہ پائپ کوئی دو چار ہزار روپے والا نہیں ہوتا تھا۔بلکہ اُسی وقت ڈسپوزیبل پائپ بنایا جاتا تھا اور ایک ہی دفعہ پی کر وہیں پھینک دیا جاتا تھا۔ آج بھی بلوچ یہی کرتے ہیں ۔
پائپ گارے یعنی گیلی مٹی سے بنایا جاتا ہے۔ مُٹھی بھر مٹی لیں،اس پہ چلو جتنا پانی ڈالیں،پھر اسے دو تین تھپڑ ماریں تاکہ اس کی شکل گاجر کی سی بن جائے۔اُس کے پتلے سرے پہ کوئی تنکا ڈالیں آخر تک، اور وہاںاوپر کی طرف تمباکو بھرنے جتنا سوراخ ڈالیں۔ دونوں سوراخوں کو ملانے والا چینل جب بن جائے تو دو تین کنکر ڈال دیں تاکہ تمباکو کش کے ذریعے منہ میں نہ جائے۔ پھر تمباکو بھر کر آژگیژ(چقماق) اور پتھر کو دو تین بار رگڑیں،نتیجے میں نکلنے والی چنگاریوں سے شورہ لگے پیش کے فائبر کو جلالیں اور تمباکو پررکھ دیں۔ پی لیں اور مزے لیں۔
واضح رہے کہ ہمہ وقت سفر میں رہنے والا مست جب بھی تھک جاتا،تو کہتا” بیائیں، پوڑے چکّوں“۔ (آئو ذرا چلم پی لیں)۔
3۔بختیار خان ،وڈیرہ ،انٹرویو