ارد و ادوب کے ہر سنجیدہ اور باذوق قاری نے جدید اردو شاعری کے تین جانے مانے ستون، فیض، میرا جی اور ن م راشد کو بغور پڑھا ہے۔ ان تینوں نے ہماری شاعری میں صرف اصناف کی ہی نہیں نئی فکر کی بنیادیں بھی رکھی تھیں۔ آج بھی انھیں اگر کوئی خاتون قاری پڑھے تو وہ فیض کے کلام میں ‘حبیب عنبر دست” کے لئے شاعر کے باوقار جذبات کو محسوس کر سکتی ہے۔ وہ دیکھ سکتی ہے کہ فیض کے کلام میں عورت وہ محبوبہ ہے جس کے عشق نے انھیں ایک نئے ڈھنگ سے زندگی کرنا سکھایا۔ جس تعلق میں شاعر نے:
عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے، دکھ درد کے معنی سیکھے
میراجی کی شاعری میں عورت کا جو تصور ہے اس پر میں اپنا ایک نقطہ نظر پیش کر چکی ہوں لیکن تینوں میں ن م راشد ایسے شاعر ہیں جن کے کلام میں تصویر زن پر صرف افسوس ہو سکتا ہے۔
ن م راشد نے اردو ادب کے عہد ساز شاعر ہیں۔ ایک نہایت مضبوط ، روشن دماغ کے مالک ، جنہوں نے جرات مندی اور اعتماد سے اس وقت تک مروجہ اور کافی فرسودہ فکر و اسلوب کی دیواریں توڑ کر شاعری کے لیے ایک بالکل نیا راستہ نکالا تھا۔ اس لحاظ سے وہ ایک پختہ انقلابی تھے ( خواہ سیاسی وجوہات کی بنا پر وہ اپنے لیے یہ لقب پسند نہ کرتے )۔ لیکن جہاں تک عورت کا تصور ہے، تو وہ ان کے کلام میں، نہ صرف آغاز میں بلکہ بعد کے ادوار میں بھی ایک گوشت کی گٹھری سے آگے نہ بڑھا۔ اردو شاعری کے جدید دور کے اس تیسرے بانی یعنی راشد صاحب نے عورت کو کس طرح پیش کیا اس کا جائزہ لینے سے قبل مناسب ہو گا کہ ہم پہلے ان کی شخصیت سے متعارف ہو جائیں۔ ن م راشد ( نذرمحمد راشد )1910 میں گجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے گجرانوالہ میں ہی حاصل کی جو اس وقت ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ غالبا یہی ماحول تھا جس میں راشد صاحب نے اس وقت کی نیم سیاسی اور نیم مذہبی تنظیم ” خاکسار تحریک “میں شمولیت اختیار کی۔ وہ اس کے پر جوش رکن تھے اور تنظیمی درجہ بندی میں ”سالار” کے عہدے تک جاپہنچے تھے۔ لیکن ثانوی تعلیم کے لئے لاہور میں گورنمنٹ کالج تک پہنچتے پہنچتے جواں سال راشد کے ذہن و قلب میں ایک انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ لاہور میں قیام کے دوران ( جہاں انھوں نے 1932 میں اقتصادیات میں ایم اے کیا ) ان کی شاعری منظر عام پر آچکی تھی اور وہ پورے جوش و خروش کے ساتھ اردو ادب کے طیش میں آئے نوجوان” (angry young man) کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے۔ اس وقت کے ادبی جریدوں میں شائع ہونے والی ان کی ہر نظم حیرت ، مسرت اور سنسنی کی ایک بڑی لہر پیدا کر رہی تھی (جیسا کہ ہمیں اس دور کے رسائل اور ادبی تحریروں سے پتا چلتا ہے )۔ ان کا پہلا مجوعہ کام ماورا 1942 میں شائع ہوا تو اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا۔
لیکن اس ساری انقلابیت کے باوجود، ان کی نظم انتقام پڑھ کر قاری حیران و پریشان ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب وہ کہتے ہیں:
اک بر ہنہ جسم اب تک یاد ہے
میرے ہونٹوں نے لیا تھا رات بھر
جس سے ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام
تو ہمیں ایک ایسے ذہن کا عکس نظر آتا ہے جو پوری دلجمعی کے ساتھ عورت کے جسم کو (خواہ دشن یا مخالف قوم کی ہی کیوں نہ ہو) انتقام کا ذریعہ بنانا روا سمجھتا ہے۔ دشمن قوم سے ارباب وطن کی بے بسی کا انتقام لینے کے لئے آخر وہ اس قوم کے کسی مرد کا انتخاب کیوں نہیں کرتا ؟۔ انگریزوں کی غلامی کے دور میں اصل مسئلہ یوں بھی آزادی حاصل کرنا، اور ارباب وطن کی بے بسی کو ختم کرنا تھا، نہ کہ انتقام لینا۔ ان کے ہی ہم عصر، سعادت حسن منٹو کی کہانی نیا قانون کا کوچوان ہیرو جب ٹھوکر مارنے والے گورے پر چابک برسا دیتا ہے تو وہ بھی ہندوستانیوں کی بے بسی کا غصہ اتار رہا ہے لیکن یہ فرق بھی قابل غور ہے کہ وہ انتقام نہیں لے رہا۔ بلکہ سزا دے رہا ہے،اور انتقام اور سزا میں بہت بڑا اخلاقی فاصلہ ہوتا ہے۔
فرائڈ کے بعد آنے والے معروف ماہرین نفسیات ، خصوصاً ایرک فرام نے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے کہ کسی فرد کی ذہنی twist کس طرح جنس مخالف سے محبت یا جسمانی تعلقات کو ایک سکون بخش، خوشگوار عمل کے بجائے نفرت اور غصے کے اظہار کا ذریعہ بنا سکتی ہے (۱)۔ اس کے پیچھے اس فرد کی ناطاقتی کا یقین ہوتا ہے۔ سیکس اور جنس مخالف، یعنی عورت کی طرف رویہ اس پیچیدہ عمل کے ذریعے ہی متعین ہوتا ہے۔ یہ احساس ناطاقتی ن م راشد کے کلام کی زیریں رو ہے اور اس نے ان کی شاعری کی عورت تخلیق کی ہے۔
شاعر کا یہ رویہ صرف انگریز حاکم قوم کی عورت تک محدود نہ تھا۔ "‘ماورا ‘ہی کی ایک دوسری نظم "بیکراں رات کے سنانے میں’ مذکورہ بالا twist یا نفسیاتی گرہ کی ایک اور مثال مل سکتی ہے۔ اس کے اختتام پر وہ لکھتے ہیں:
ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے
تو مری جان نہیں
بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے
اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں میں
بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر
اپنے رستے سے کئی روز سے مفرور ہوں میں
یہ نکتہ قابل غور ہے کہ وہ صرف سپاہی نہیں "دشمن ملک کا سپاہی” بننا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ تصور زیادہ واضح ہو کر سامنے آتا ہے کہ نظم کا واحد متکلم عورت کے ساتھ جسمانی تعلق صرف rapeکے ذریعے ہی قائم کر سکتا ہے۔
یہ پوری نظم جس کا آغاز "تیرے بستر پہ مری جان کبھی "جیسی صاف گو سطر سے ہوتا ہے جو ہمیں شاعر، یا نظم کے واحد متکلم ہیرو کے ذہن و دل کی کسی خوشگوار کیفیت سے آشنا نہیں کرتی۔ وہ یہ تو ضرور لکھتے ہیں کہ "جذبہ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مد ہوش” ، لیکن ساتھ ہی یہ بھی اضافہ کرتے ہیں کہ ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسے موقع پر شاعر کا ذہن ایسے بوجھل پن اور بے کیفی کا شکار کیوں ہو جاتا ہے؟ اس موقعے پر ان کا دماغ کہیں اور ہے۔
عورت ان کے لئے ایک ہستی نہیں، ایسی شے ہے جو ان کی توجہ کی مستحق تک نہیں۔ن م راشد جو نہایت جدید شعری حسیات کے مالک تھے، جنہوں نے اردو ادب کو بہت حسین و جمیل فکر انگیز اور لازوال نظمیں عطا کی ہیں، عورت کی حد تک ایسے قصباتی ذہن، بلکہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ آدم نو کا جشن منانے والے اس بہت اچھے شاعر کا کلام ، عورت کو اولاد آدم تک نہیں گردانتا۔ وہ فوری ضرورت پوری کرنے کا ایک ذریعہ تو بن سکتی ہے لیکن وہ پسند نہیں کرتے کہ عورت بات چیت بھی کرے۔ اسے وہ وقت کا زیاں سمجھتے ہیں:
رہنے دے، اب کھو نہیں باتوں میں وقت
اب رہنے دے
وقت کے اس مختصر لمحے کو دیکھ
تو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا
( طلسم جاوداں)
1933میں راشد صاحب نے آل انڈیا ریڈیو کی ملازمت اختیار کرلی۔ وہ کچھ عرصے دہلی میں رہے اور انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائریکٹوریٹ میں کیپٹن کے عہدے پر فائز ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی۔ ملازمت کے سلسلے میں انھوں نے مشرق وسطی کے چند ممالک کا سفر کیا اور کچھ عرصے تک ایران میں رہے۔ تقسیم ملک کے بعد انھوں نے پاکستان کا انتخاب کیا اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے۔ اس مختصر دور میں بسلسلہ ملازمت ان کا لاہور، پشاور اور کراچی میں قیام رہا۔ لیکن جلد ہی ( 1951میں ) انھیں اقوام متحدہ میں ملازمت مل گئی اور بیرون ملک چلے گئے۔
ان کا دوسرا مجموعہ کلام ” ایران میں اجنبی 1955میں شائع ہوا۔ راشد صاحب کا شگفتہ مزاج اور ثمر بار جدت طرازی اس مجموعے میں جا بجا چھلکتی ہے۔ وہ غالبا اردو کے پہلے شاعر تھے جنہوں نے بے تکلفانہ اپنے کلام میں چھوٹی چھوٹی دلچسپ حکایتوں کو منظوم کیا۔ عورت ان نظموں میں بہر حال اہمیت نہیں رکھتی۔ کچھ نسوانی کردار، پارٹیوں اور عیش کوشی کی داستان سناتی ایک آدھ نظم میں کہیں دور، فاصلے پر کمرے میں داخل ہوتی یا باہر جاتی نظر تو آتی ہیں لیکن یہاں بھی وہ کچھ مکار دکھائی دیتی ہیں۔
وہ کو لہے ہلاتی تھی ، ہنستی تھی
اک سوچی سمجھی حسابی لگاوٹ سے
(ہمہ اوست)
یا اپنی ہیپوکریسی اور حیوانی برانگیختگی سے حیران کر سکتی ہیں۔ جب ان کی نظم کے ایک کردار "حسن کے رخ و دست و باز / خراشوں سے یوں نیلگوں ہو رہے تھے تب ان کا سبب پوچھنے پر وہ کہتا ہے:
۔۔ بس مجھے کیا خبر ہو؟
اگر پوچھتا ہے تو زہرہ سے پوچھو مری رات بھر کی بہن سے
(خلوت میں جلوت)
بات تو ہمیں آج بہت پست ذوقی کی معلوم ہوتی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ ہمارے اس اچھے شاعر نے اس وقت کے ایران کے ایک طبقے میں اس قسم کی منافقت کے مظاہرے دیکھے ہوں۔ لیکن کسی دوسری قسم کی عورت پر ان کی نظر ایران میں بھی نہ پڑی۔
اس کے بعد راشد کے دو آنے والے مجموعے "لا = انسان (اشاعت 1969) اور "گماں کا ممکن” ہیں جو ان کے انتقال کے بعد 1977 میں شائع ہوا۔ (۲) ان دونوں مجموعوں میں راشد کا کمال فن اپنے عروج پر ہے۔ نہ صرف شاعری کی زبان نہایت تروتازہ ہے بلکہ وہ اوزان کا اس قدر خلاقانہ استعمال کرتے ہیں کہ ان کی نظمیں عالم وجد میں رقص کرتی ہوئی، گنگناتی ہوئی قاری سے ملاقات کرتی ہیں۔ یہ دور تھا جب انھوں نے اردو ادب کو ایسی مکمل، بے نقص نظمیں دیں جو یادگار ہیں جن میں’ دل مرے صحرانورد پیردل،’ مرگ اسرائیل پر آنسو بہاو¿’ اے عشق ازل گیر و ابد تاب/ میرے بھی ہیں کچھ خواب : اجل ان سے مل،’ زندگی سے ڈرتے ہوں” اے غزال شب،’ وہی کشف ذات کی آرزو’، ‘چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے’ ‘رات خیالوں میں گم’ ، ‘اندھا کباڑی” ابھرا تھا جو آواز کے نابود سے” اک زمزے کا ہاتھ’ اور’ حسن کوزہ گر’ جیسی نظمیں شامل ہیں۔ ان دونوں مجموعوں میں جو شاعری ہے وہ ایک ایسے آزاد ذہن کی تخلیق ہے جو گرد و پیش، زمان و مکاں کی زنجیریں توڑ کر زندگی کوئی نکوری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ ان نظموں کا قاری گویا بسیط فضاو¿ں میں پرواز کر سکتا ہے اور شاعر کو فطرت کے عناصر ، آگ، سمندر، ریگ کی مدح میں کسی ایسے قدیم انسان کی طرح جشن مناتے اور رقص کرتے ہوئے دیکھ سکتا ہے، جس نے کرہ ارض پر پہلی بار قدم رکھا ہوا اور اس کا جلال و جمال دیکھ کر خود رفتہ ہو گیا ہو۔ لیکن اس حقیقت کا کیا علاج کہ جہاں تک عورت کا تعلق ہے، تو اس پورے طویل دور میں وہ تقر یبا ویسا ہی رہا جو ماورا میں نظر آیا تھا۔ اگر کچھ فرق ہے تو اتنا کہ’ ماورا’ میں عورت ان کی ذہنی الجھنوں میں جکڑی ہوئی تھی ، جب کہ اب وہ جہاں کہیں کسی نظم میں نظر آتی ہے تو نہایت رسائی میں ہے۔ (علامہ مشرقی تو کہیں بہت پیچھے چھوٹ گئے۔ بلکہ اگر کسی نے کبھی بھولے بھٹکے انکار کیا، شاعر نے برا منایا، اسے شخصیت کی خرابی سمجھا اور نصیحت کی:
جسم ہے روح کی عظمت کے لئے زینہ نور
جسم اور روح کے آہنگ سے محروم ہے تو
ورنہ شب ہائے زمستاں ابھی
بے کار نہیں
مسکرادے کہ ہے تابندہ ابھی
تیراا شباب
(حسن انساں: افلاطونی عشق پر ایک طنز)
ان کی نظم مسز سالا مانکا کو لیجئے۔ اس نظم کا آغاز ایک اچھے خاصے شیخی خوارانہ انداز میں اس سطر سے ہوتا ہے کہ
"خدا حشر میں ہو مددگار میرا۔”
(گویا کہتے ہوں کہ واہ میری قسمت ! اے قاری اور اے میرے دوستو، تم تو تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اب میں تمہیں کیا سنانے والا ہوں ) پوری نظم میں مسزسالا مانکا، گوشت کے اعضا کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ نہ اس کی کوئی شخصیت ہے، نہ کوئی احساس، حد تو یہ ہے کہ شاعر ( یا واحد متکلم) خود بھی ہر جذبے سے عاری ہے۔ گو یہ نظم بالکل مختصر نہیں (۳۳ سطریں) لیکن نہایت گھن گرج والے مصرعوں ،” جنوبی سمندر کے لہروں کے طوفاں / شمالی درختوں کے باغوں کے پھولوں
کی خوشبو، وغیرہ کے باوجود جب وہ کہتے ہیں:
کہ دیکھا ہے میں نے
مسزسالامانکا کو بستر میں شب بھر برہنہ
وہ گردن وہ بانہیں، وہ رانیں ، وہ پستان
تو یہ کسی ہوٹل کا مینو معلوم ہوتا ہے جہاں سے یہ اعضا تلے ہوئے یا بھنے ہوئے طلب عورت ان کیے جاسکتے ہیں، اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ اسے دستر خوان پر بیٹھ کر نوش کریں یا چھری کانٹے کے ساتھ کھائیں۔
راشد کے مجموعی کلام پر نظر ڈالیں تو ایک اور دلچسپ حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ یہ دستور صدیوں سے چلا آ رہا ہے کہ ” عورت کو مختلف کیفیتوں یا آدرشوں کا سمبل بنایا جاتا ہے (نہ جانے کیوں ؟) امریکہ میں آزادی کا مجسمہ ایک عورت کا ہی ہے جو سمندر میں مسافروں کو مشعل دکھا رہی ہے۔ انصاف کی بھی ‘دیوی’ ہی ہوتی ہے جو ہاتھ میں تراز و لیے کھڑی ہے۔ ادب میں بھی مختلف کیفیات کو علامتی طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، حالانکہ اب یہ طریقہ کافی عرصے سے فرسودہ اور ایک حد تک متروک ہو گیا ہے۔ لیکن راشد اسے بہت موثر طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن انھوں نے عورت کو جن رمزی مفاہیم کی علامت بنایا ہے وہ ہمیشہ ناخوشگوار ہی ہیں۔ ‘ابولہب کی شادی’ میں وہ ابولہب کی دلہن ہے، جو سر پر ایندھن، گلے میں سانپوں کے ہار لا رہی ہے۔ زندگی ایک ایسی
"پیرہ زن” ہے جو گلی کوچوں میں پرانی دھجیاں جمع کرتی ہے:
تیز غم انگیز ، دیوانہ ہنسی سے خندہ زن
بال بکھرے، دانت میلے۔۔۔
ان کی نظم "سومنات” تو شروع ہیں ان سطروں سے ہوتی ہے:
نئے سرے سے غضب کی سج کر عجوزہ سومنات نکلی
راشد کی جدید شعری حسیت انھیں اس قدیم تصور سے نجات نہیں دیتی کہ عمر رسیدہ عورت ایسی مکروہ بلا ہے جس سے گھن کھائی جائے اور خوفزدہ ہو جایا جائے۔ جب کہ عمر رسیدہ مرد کے لیے ان کے جذبات اس کے برعکس ہیں۔ راشد نے اپنے دل کو بھی صحرانورد پیر” کہا ہے۔ لیکن دیکھئے کہ وہ تو پوری زندہ دلی اور وقار کے ساتھ کس طرح ان کی نظم میں” نغمہ در جاں ، خندہ بر لب تمناو¿ں کے بے پایاں الاو¿ کے قریب رقص کر رہا ہے۔ (کوئی بڑھیا اس الاو¿ کے قریب ان کی شاعری میں نہیں آسکتی، کہاں تمناو¿ں کا بے پایاں الاو¿ اور کہاں ایک بوڑھی عورت بھلا کوئی مناسبت ہے؟)
راشد نے ایک دو نظموں میں کچھ ایسے سمبل استعمال کیے ہیں جن کے معنی ہر قاری اپنی استعداد اور رجحان کے مطابق نکال سکتا ہے۔ ان میں” ابولہب کی شادی” اور "حسن کوزہ گر” ممتاز ہیں۔ اس طرح کی اچھی نظموں کی سب سے بڑی خوبی بھی یہی ہے کہ وہ وضاحت سے کچھ بتائے بغیر ایسا تاثر قائم کرتی ہیں جو ذہن میں ان گنت معنی جگا سکتا ہے۔ پھر بھی انھیں واقعیde-codeکرنے کے لئے محفوظ ترین راستہ یہی ہے کہ شاعر کے مجموعی کلام کی روشنی میں ان علامتوں کے معنی سمجھے جائیں۔ اس طرح "حسن کوزہ گر ”شاعر کا اپنا وجود بھی ہوسکتا ہے اور اسلامی دنیا کا مہذب تخلیق کار بھی جبکہ جہاں زاد muse ہو سکتی ہے، یا خود اسلامی ممالک کا معاشرہ جس کے سامنے حسن کوزہ گر اشکبار ہے، ان کوزوں کے لئے جو برباد ہو گئے:
صراحی و مینا و جام و سبواور فانوس و گلدان
مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے شکستہ پڑے تھے
اس نظم میں جہاں زاد ایک بے زبان’ دیوی’ کی طرح تو ضرور ہے، لیکن صورت حال یہاں بھی چنداں خوش گوار نہیں۔ ایک آہ وزاری کا موقعہ ہے۔ حسن کوزہ گر (۲) اور (۳) میں حسن، جہاں زاد کو کافی برا بھلا بھی کہتا ہے۔ یہ muse اسے اس کے ڈایلیما سے نجات دلانے سے معذور ہے بلکہ اپنا حسن کسی اور پر نچھاور کر رہی ہے۔ (رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر !)۔
لیکن میں بھولی ، راشد نے عورت کو ایک مثبت کیفیت کی علامت بھی بنایا ہے۔ ایک نظم میں (جی ہاں، صرف ایک ) وہ آرزو ” جیسی جانفزا کیفیت کو پیش کرتی ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک شمع ہے۔ وہ:
۔۔۔ رات کو معبد سے نکل آتی ہے
جھلملاتی ہوئی اک شمع لیے
دل میں کہتی ہے کہ اس شمع کی لو ہی شاید
دور معبد سے بہت دور چمکتے ہوئے انوار کی تمثیل بنے
آنے والی سحرنو یہی قندیل بنے
کتنی خوبصورت تمثیل ہے، آرزو کے ہاتھ میں یہ شمع اور یہ خیال کہ آنے والی صبح کا اجالا اس سے پھوٹے گا لیکن اس نظم کا عنوان ہے ‘آرزو راہبہ ہے’۔ غور کرنے کی بات ہے کہ راشد کی نظم میں اس رتبے تک پہنچنے کے لئے عورت کو راہبہ بننا پڑا۔ کوئی کنواری ، بیوہ، مطلقہ کسی مثبت علامت کے درجے پر ان کی شاعری میں نہیں پہنچ سکی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے اور کس رجحان کی نشاندہی کرتی ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ
بہ ایں ہمہ ماڈرنزم، اور بظاہر سیکس پسندی، ان کے اندر کوئی ایسا انسان بھی پوشیدہ تھا جو عورت ذات میں صرف راہبہ ہی کے لئے عزت محسوس کر سکتا تھا؟ کیا کہیں ان کے لاشعور کی گہرائیوں میں زن و مرد کا تعلق ایک نا پسندیدہ عمل تھا ؟ حالانکہ شعوری طور پر وہ بعد کے مجموعوں میں ماورا کی حسرت "گناہ ایک بھی اب تک نہ کیا کیوں میں نے ” کا پر زور مداوا کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن گناہ تو ہر حال میں گناہ ہے۔ کسی عمل کو گناہ سمجھ کر انجام دینا شاعر کو فطرت کی حسین ہم آہنگی سے نزدیک تر تو نہیں لا سکتا۔ تو کیا ہمارے اس بےمثال شاعر کے لاشعور کا کوئی گوشہ ایسا بھی تھا ( کیا ہم کہیں کہ تاریک گوشہ ) جس میں وجود زن گناہ یا ناپسندیدہ جذبات و عمل کے ساتھ چسپاں ہو کر رہ گیا تھا۔ وہ خود بھی اکتا کر کہتے ہیں کہ:
شب گنہ کی لذتوں کا اتناذکرکر چکا
وہ خود گناہ بن گئیں
(حسن کوزہ گر (۳)
اب سوال یہ ہے کہ کیا راشد صاحب نے عورت کو بعد کی شاعری میں ذریعہ گناہ” کے علاوہ بھی کچھ سمجھنے کی کبھی کوشش کی؟ ۔ایسا کوئی خاص سراغ ان کی شاعری میں ہمیں نہیں ملتا۔ صرف ایک نظم، حسن کوزہ گر (۳) میں، جو ان کے مجموعے ” گماں کا ممکن” میں شامل ہے۔حسن کی زبانی ہم اتنا سنتے ہیں کہ :
کہ تیری جیسی عورتیں،
جہاں زاد
ایسی الجھنیں ہیں
جن کو آج تک کوئی نہیں سلجھ سکا
جو میں کہوں کہ میں سلجھ سکا تو سر بسر
فریب اپنے آپ سے !
کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر
جواب جس کا ہم نہیں
اب سوال یہ بھی ہے کہ عورت کی جانب راشد صاحب کے اس ذہنی رویے اور ان کے شعری ” پرسونا ، ان کی مجموعی شاعری کے چہرے مہرے کے درمیان کوئی رابطے کی کڑی ہے؟۔ جب ہم ان کی مجموعی شاعری پر نظر ڈالتے ہیں تو سب سے زیادہ اہم اور دلچسپ انکشاف تو یہ ہوتا ہے کہ ان کی شاعری کے بارے میں عام خیال کے بالکل برعکس، راشد صاحب کی شاعری صرف داخلیت اور درونِ ذات کے نظارے، یافن برائے فن پر ہرگز مشتمل نہ تھی۔ جیسا کہ ان کے زیادہ تر شائقین کا دعوی ہے، جسے وہ سیاسی شاعری ” اور ” وقتی شاعری کے خلاف پیش کرتے رہتے ہیں، وہ اول تا آخر ایک گہرا سیاسی احساس رکھتے تھے اور اپنی شاعری میں انھوں نے اس کا اظہار مسلسل کیا ہے۔ ” ایران میں اجنبی” کی بیشتر نظمیں ایران کے سیاسی حالات پر واشگاف طنز ہیں جو علامتی انداز میں نہیں لکھی گئیں بلکہ اس کے لئے وہی اسلوب اختیار کیا گیا ہے جسے ترقی پسند ادب کے مخالفین صحافتی ، اکہرا اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔
"لا = انسان اور گماں کا ممکن” میں بیشتر نظمیں سیاسی نوعیت کی ہیں جو ایک گہرے دکھ اور کرب کا اظہار کرتی ہیں۔ ان کی بنت بعض نظموں میں نہاں اور بعض میں بالکل عیاں ہے، جب وہ کہتے ہیں "ہمیں معری کے خواب دے دو (وہ حرف تنہا، لا = انسان ) یا اندھیرے میں یوں چمکیں آنکھیں کالے غم کی/ "جیسے وہ آیا ہو بھیس بدل کر آمر کا "تو کوئی پیچیدہ علامت استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ نظر ذہنی اور فکری آزادی کا تو ضرور تھا، وہ اپنی نظموں میں بار بار آمریت کی مذمت کرتے ہیں اور اسے یہ دیو کا سایہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا سماجی آدرش (غالبا) مغربی طرز کا جمہوری نظام تھا جہاں نمرود کی خدائی نہ ہو۔ (لیکن وہاں تک بھی آخر کیسے پہنچا جائے؟) سوشلسٹ نظام ، خصوصاً جو روس میں مروج تھا، کے لیے ان کی نفرت بھی صاف نظر آتی ہے۔ جس کی وجہ وہ یہی بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ وہاں آزادی نہیں تھی اور ایک گھٹن چھائی ہوئی تھی۔ لیکن اس سازینے میں جوسر ایک زیریں روکی مانند رواں ہے وہ مایوسی کا ہے جسے ان کا کٹیلا طنز اور حس ظرافت کچھ دھیما بناتے ہیں۔ اور ہم ‘اجل ان سے مل’ جیسی عمدہ نظمیں پڑھتے ہیں:
بڑھو تم بھی آگے بڑھو
بڑھو، نو تونگر گداو¿
اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساو¿
اس مایوسی کو ان کی بعض نظموں کی آخری بے جان رجائی سطور مسترد نہیں کرتیں۔ مضمون کے آغاز میں جو احساس ناطاقتی کا ذکر کیا گیا تھا اسے کلیشے نہ سمجھئے۔ اس کا تعلق مردو زن کے رشتے سے ہے بھی نہیں۔ وہ تو ان کی بعد کی نظموں میں گویا چٹکی بجاتے میسر آنے والی شے ہے۔ راشد کی نظموں کا احساس ناطاقتی قومی اور نسلی کم رتبگی اور کمتری میں پیوست ہے۔ گو یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ قوم کسے سمجھتے تھے۔ غالبا مسلمانوں کو۔۔۔ راشد کا کلام پڑھتے ہوئے یہ خیال آتا ہے کہ اپنی بے پناہ قادر الکلامی کے باوصف وہ علامہ اقبال کے اگر جانشین نہیں تو پیروکار توبن ہی سکتے تھے۔ اس طرح ہم پاکستانیوں کو حفیظ جالندھری سے بہت بہتر قومی شاعر نصیب ہو جاتا۔ لیکن یہاں مشکل یہ پڑتی تھی کہ راشد مذہبی ، قطعی نہ تھے۔ نہ روایتی طور پر اور نہ ہی کسی اور طریقے ہے۔ وہ بیسویں صدی کے ایسے حقیقت پسند تعلیم یافتہ انسان کی نمائندگی کرتے ہیں جو فرشتوں کے کاندھوں پر خدا کا جنازہ نکلتے دیکھ چکا ہے (ماورا) اور
"نور کے ناشتے "میں دلچسپی نہیں رکھتا جس کا اظہار ان کے بعد کے زمانے کی نہایت لطیف، خوبصورت اور شرارت سے متبسم نظم "سفر نامہ” میں ملتا ہے:
وہ تمام ناشتہ
اپنے آپ کی گفتگو میں لگا رہا ”
ہے مجھے زمیں کے لیے خلیفہ کی جستجو
کوئی نیک خو
جو مرا ہی عکس ہو، ہو بہو
تو تمام ناشتہ چپ رہے
وہ جو گفتگو کا دھنی تھا
آپ ہی گفتگو کا دھنی تھا
آپ ہی گفتگو میں لگا رہا
بڑی بھاگ دوڑ میں ہم جہاز پکڑ سکے
اسی انتشار میں کتنی چیزیں ہماری عرش پر رہ گئیں
وہ تمام عشق وہ
حوصلے
وہ مسرتیں وہ تمام خواب
جو سوٹ کیسوں میں بند تھے
(سفرنامہ)
بیسویں صدی کے نصف آخر حصے میں اس مابعد جدید انسان کا المیہ صرف یہ نہ تھا کہ خدا اپنی خدائی سے رخصت ہو گیا تھا۔ ان میں سے دانشوروں کا ایک قابل ذکر حصہ انسانیت کے آدرشوں کو بھی یوٹوپیائی ہی سمجھنے لگا تھا (جب کہ متوازی خطوط پر ایک حصہ ژاں پال سارتر کی طرح دنیا کے افتادگان خاک کی پر جوش حمایت کے لئے متحرک بھی ہو گیا تھا ) راشد مزاجاً سارتر کی یہ نسبت کامیو سے نزدیک تر تھے۔ وہی دیوار سسیفس ان کے کلام میں آسمان تک بلند ہوتی نظر آتی ہے۔ لیکن راشد مغربی انسان نہ تھے۔ وہ ایک رنگدار، پوسٹ کولونیل، زبوں حال مسلمان معاشرے کے فرزند تھے اور آرزوو¿ں اور آدرشوں سے دستبردار نہ ہونے پر مجبور تھے۔ لیکن انھوں نے اپنے معاشرے کو گردو پیش سے جوڑ کرنہ دیکھنے کا انتخاب کیا تھا ( ان کے کلام میں کہیں بھی اس طویل دور میں مشرق بعید، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں اٹھنے والی طاقت ور آزادی کی تحریکوں کا کوئی مبہم سا پر تو بھی نہیں ملتا، گویا یہ سب کسی دوسرے کرے پر ہورہا تھا)۔ یہ خود میں مرکوز جانبداری ان کی ابتدائی نظموں میں بھی نظر آتی ہے۔ اس مضمون میں اوپر جس نظم ‘سومنات’ کا ذکر ہے وہ ہندوستان کی تحریک آزادی کا بیان ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس دور میں ہندوستان میں آبادی کی ہندو اکثریت اور مہا سبھا جیسی فرقہ پرست تحریکوں کی اشتعال انگیزی کے باعث بر صغیر کے مسلمانوں کو یہ تحریک صرف ہندوو¿ں کی نظر آتی ہو۔ لیکن اس میں عام ہندوستانیوں کے ایک قابل ذکر حصے کی شمولیت سے انکار مشکل ہے۔ دیکھئے کہ راشد اس کا بیان کسی طرح کرتے ہیں:
عجوزہ سومنات کے اس جلوس میں ہیں
عقیم صدیوں کا علم لادے ہوئے برہمن
جو اک نئے سامراج کا خواب دیکھتے ہیں
اور اپنی توندوں کے بل پر چلتے ہوئے مہاجن
آج کوئی قاری یہ سوچ سکتا ہے کہ مہاجن تو خیر "خون کی رالیں” گرا سکتے ہیں لیکن کیا برہمنوں کا علم رکھنا( اتنا زیادہ علم کہ راشد انھیں علم سے لدا ہوا کہہ رہے ہیں ) بھی کوئی منفی صفت ہے؟ اگر وہ قدیم صدیاں علم سے مملو تھیں تو پھر بانجھ ( عقیم) کیونکر تھیں؟ ( یہ کھوج لگانا چاہیے کہ مسلمان کون سی صدی سے علم کو ایک نہایت بیکار شے سمجھنے لگے )۔ جس کے بعد وہ اپنے پسندیدہ ہدف ، اپنے طنز کے کاری تیروں کے مستقل نشانے کی طرف آتے ہیں:
اور ان کے پیچھے لڑھکتے لنگڑاتے آرہے ہیں
کچھ اشتراکی
کچھ ان کے احساں شناس ملا
بجھا چکے ہیں جو اپنے سینے کی شمع ایقاں
مسلمانان ہند کے مخالف اس مفروضہ دستے کا بیان پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ راشد صاحب کے جذباتی اور فکری مذاق کا قوام کسی حد تک 80 کے عشرے تک کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے یکسانیت رکھتا تھا۔ یہ وہی کیکٹس ہیں جو ہماری اسٹیبلشمنٹ کے” قدیم بنجر "میں ہمیشہ اگتے رہے ہیں اور جنہوں نے وطن عزیز میں بائیں بازو کی سوچ رکھنے والے دانشوروں ، شاعروں ،سیاست دانوں پر زندگی ہمیشہ دوبھر رکھی ہے۔ اس کے بعد راشد لکھتے ہیں:
مگرسر راہ تک رہے ہیں
غریب وافسردہ دل مسلمان
لیکن یہاں مسلمان ان کے لئے سالم اکائی ہیں۔ ان میں بھی استحصالی طبقات ہو سکتے تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے تھے جو ہندوستان میں دوبارہ مسلمان بادشاہت کے قیام کا خواب دیکھتے ہوں لیکن ایسا سب کچھ ان کے دائرہ خیال میں شامل نہیں ہوتا۔
راشد صاحب جس مدرسہ فکر سے تعلق رکھتے تھے وہ آزادی کے بعد وطن کی صورتحال بدلنے کے لئے "جدوجہد” جیسے عمل کو اگر ناشائستہ نہیں تو از کار رفتہ ضرور سمجھتا تھا۔ وہ اپنی ذات کو مصیبت میں ڈالے بغیر اچھے نتائج حاصل کرنے کے خواہاں تھے اور یہ ایک باضابطہ اقتصادی نقطہ نظر ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حامی یقین رکھتے ہیں کہ کسی ریاست میں اگر ہر شخص اپنے ذاتی مفاد کے لئے کام کرے تو ان کا مجموعی مفاد ہی پوری قوم کا مفاد بن جاتا ہے۔ اس طرح اگر سب لوگ امیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو انجام کار پوری قوم امیر ہو جاتی ہے۔ سماجی بہتری اور اپاہجوں وغیرہ کی فلاح کے لئے یہ نظریہ لوگوں کے نیک جذبات پر بھروسہ کرتا ہے۔ یہاں ہمارا مقصد اس نظریے کی بعض کمزوریوں پر روشنی ڈالنا نہیں اور نہ یہ جتانا ہے کہ مغربی ممالک میں سے بیشتر” فلاحی ریاستیں” غالبا ان کے غلام ممالک کی تقریبا مفت خام مال اور آبادکاریوں کی بیگار جیسی مشقت پر مبنی تھیں جنہوں نے مغربی فلاحی ریاست کا بل چکایا ہے۔ یا یہ کہ خود ان ممالک کے محنت کش طبقات کی ٹریڈ یونینوں کی جدو جہد ( پھر وہی فرسودہ لفظ !) نے ان فلاحی اداروں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ہم اس نظریہ کی روشنی میں محترم ن م راشد کی فکر کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی ایک نہایت دلچسپ نظم "انقلابی” ہمیں خصوصاً مطالعے کی دعوت دیتی ہے۔”انقلابی” جو ان کے دوسرے مجموعے” ایران میں اجنبی” میں شامل ہے 1941ء سے لے کر، جب کہ ان کا پہلا مجموعہ "ماورا” شائع ہوا، 1955 تک کے کسی موقعے پر لکھی گئی ہے جو "ایران میں اجنبی” کا سال اشاعت ہے۔ اس دوران میں ایران اور پاکستان میں سیاسی نوعیت کے دو اہم واقعات ہوئے تھے۔ ایران میں مصدق کی منتخب حکومت کو تیل کو قومی ملکیت میں لینے کی پاداش میں (اب یہ ثابت ہو چکا ہے ) سی آئی اے کی کوشش سے معزول کر دیا گیا تھا اور پاکستان میں سیفٹی ایکٹ کے تحت راولپنڈی سازش کیس کے تحت بائیں بازو کی متعدد شخصیات کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں میجر اسحاق اور دیگر کے ساتھ فیض احمد فیض بھی شامل تھے۔ مصدق حکومت کے گرنے کے بعد ایرانی جیلیں بھی بائیں بازو کے قیدیوں سے پٹی پڑی تھیں۔ یہی وہ دور تھا جب فیض نے پولیس کے ہاتھوں ایرانی طلبا کی شہادت پر وہ نظم لکھی تھی جو ان مصرعوں سے شروع ہوتی ہے:
یہ کون سخی ہیں جن کے لہو کی اشرفیاں
چھن چھن، چھن چھن
دھرتی کے پیہم پیاسے
کشکول میں ڈھلتی جاتی ہیں کشکول کو بھرتی جاتی ہیں
تو یہ دور تھا جس میں راشد انقلابی سے مخاطب ہوئے اور کہا: یہ تاریخ کے ساتھ چشمک کا ہنگام تھا ؟” (تنبیہ)
پھر اتنی رعایت دیتے ہیں:
یہ مانا تجھے یہ گوارا نہیں تھا
اندھیروں کی روح رواں کو اجالا کہیں”
(خیر حاکم تھے تو خبیث۔ پھر بھی)
مگر پھر بھی تاریخ کے ساتھ چشمک کا یہ کون ہنگام تھا ؟
وہ انقلابی کو مشورہ دیتے ہیں:
جو آنکھوں میں اس وقت آنسو نہ ہوتے
وفا کے سنہرے جزیروں کی شہزاد ہوتی
ترے ساتھ منزل بہ منزل رواں
یعنی مخالفت کرنے کی جگہ (تاریخ سے چشمک !) اگر انقلابی ، حکمرانوں سے مل جاتے تو کاروبار سلطنت اچھی طرح چلاتے (اور خودان کے حالات میں بھی بہتری آتی )۔ پھر ڈانٹتے ہیں.
مگر تو نے دیکھا بھی تھا
دیوتا تار کا حجرہ تار
جس کی طرف تو اسے کر رہا تھا اشارے؟
جہاں بام و دیوار میں کوئی روزن نہیں ہے”
وہی بد بخت روس اور اس کا اشترا کی نظام)
لیکن ہمارے سنجیدہ اور مدبر شاعر نے انقلابی کو جو مشورہ دیا، خود اسی پر کبھی عمل نہیںکر سکے اور بیرون ملک پہلی ملازمت کے بعد جو ملک سے رخصت ہوئے تو :
لگائی مہمیز ، ابولہب کی خبر نہ آئی
یہ ابولہب کی دلہن، غالبا وہی صبح آزادی ہے جسے داغ داغ بتانے پر فیض صاحب نے تاعمر دائیں بازو کے طعن و تشنیع برداشت کیے جس تک واپس آجانے کی راشد صاحب نے بار باٹھانی لیکن ہر بار:
دل تو چاہا ، پر شکست دل نے مہلت ہی نہ دی
وہ ایسے دیش میں واپس نہ آسکے جہاں "بوم کا سایہ” تھا جہاں غلام احمد کی برفانی نگاہوں کی/ یہ دلسوزی سے محروی/ یہ بے نوری یہ سنگینی / بس اب دیکھی نہیں جاتی تھی۔ پاکستان میں وقتا فوقتا نافذ ہونے والے طویل مارشل لا اور سیاست کا جاگیردارانہ مزاج اور روز افزوں دقیانوسیت ان کے آزاد منش اور مساوات جمہور سے آشنا دل و دماغ کے لئے قابل قبول نہ تھے۔
راشد ملک سے باہر ہی رہے اور ان کا فن ترقی کے مدارج طے کرتا رہا۔ آزاد اور روشن خیالی سے مملو شعر وادب کے مسکنوں میں ان کی فکر نے جو گہرائی اور گیرائی حاصل کی ، تصور زن اس کا حصہ کبھی نہ بنا۔ یوں بھی یہ دنیا کی ایک روندی ہوئی مخلوق تھی۔ اس پر مستزاد راشد صاحب کے ذہن کا وہ پہلو ہے جس سے ایک مخصوص گروہ کے سوابقیہ انسانیت حیرت انگیز طور پر معدوم ہو سکتی تھی۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے راشد صاحب کی شاعری کے لئے لکھا ہے کہ وہ جب بھی راشدکی نظم” کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں "ہم پڑھتے ہیں تو انھیں محسوس ہوتا ہے کہ یہاں راشد نے اپنے شعری مزاج کا راز کہہ دیا ہے۔ راقم الحروف کی ناچیز رائے میں راشد کی ایک دوسری نظم اے غزال شب جوان کے مجموعہ
"لا = انسان میں شامل ہے، ان کی شعری اور فکری شخصیت کی کلید ہے،جب وہ لکھتے ہیں:
اے غزال شب
تری پیاس کیسے بجھاو¿ں میں
کہ دکھاو¿ں میں وہ سراب جو مری جاں میں ہے
تو خاص سیاق و سباق میں اپنے وجود کی ایک اہم حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ:
وہ سراب زادہ سراب گر کہ ہزار صورت نو
میں قدم قدم پر ستادہ ہے
مرے دل میں جیسے یقین بن کے سما گیا
مرے ہست و بود پہ چھا گیا
یہ سراب ہی تھا جس میں ایک زندہ انسان عورت کا گزر نہیں ہو سکتا تھا، جو ایک ملول احساس نا طاقتی کو جنم دے سکتا تھا اور جس نے راشد کے تصویر زن کی تشکیل کی۔ یہ ن م راشد کے قلب و ذہن میں بکھرے جگمگاتے تخلیقی خزانوں کا کرشمہ ہے کہ اس سراب کے تانے بانے میں انھوں نے اردو ادب کی چند حسین ترین نظمیں تخلیق کیں جن کو پڑھنا ہمارے لئے مسرت ، نشاط اور سرور کے در باز کر دیتا ہے اور جن سے ناواقفیت اردو ادب کے کسی بھی قاری کے لیے محرومی ہوگی۔
حوالہ جات
عالم الحروف نے ادھورا آدمی” کے عنوان سے شائع ہونے والی کتاب میں ان نظریات کی روشنی میں معاشرے کا تجزیہ کیا تھا۔ راشد صاحب کا انتقال 1975 میں لندن میں ہو گیا تھا۔ ان کی عمر صرف ۶۵ سال تھی۔ انتقال دل کا دورہ پڑنے پر ہوا اور ہمارا ادب اس جینکس سے محروم ہو گیا جو اگر زندہ رہتے تو ہماری شاعری کو اور بھی مالا مال کر سکتے تھے۔ افسوس!